پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر اس وقت ہلچل مچی ہوئی ہے۔ سیاست میں مداخلت کے حوالے سے ایک مرتبہ پھر بحث جاری ہے۔ مسلم لیگ (ق) کے رہنما چودھری مونس الٰہی نے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں تحریک انصاف کا ساتھ دینے کے لیے باجوہ صاحب نے کہا تھا۔ مسلم لیگ (ق) کے اس دعوے کے بعد اب تک کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔میں سمجھتا ہوں کہ ایک مناسب رد عمل وقت کی اہم ضرورت ہے تا کہ عوام کو یہ رائے بنانے میں آسانی ہو کہ کون درست ہے اور کون غلط۔ وفاقی وزیرِداخلہ نے بھی اس بیان کو اہم قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق پنجاب میں (ن) لیگ کی حکومت قائم نہ ہونے کے پیچھے شاید کوئی ہاتھ کارفرما تھا۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا حقائق کھل کر سامنے آئیں گے یا پھر مونس الٰہی اپنا بیان تبدیل کر لیں گے۔ ایک طرف تحریک انصاف کے اتحادی مبہم بیان بازی کر رہے ہیں اور دوسری طرف تحریک انصاف کے چیئرمین اداروں سے تعلق بحال کرنے کے لیے کوشاں دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے تحریک انصاف کی قیادت سمیت ورکرز اور سپورٹرز کو اداروں اور نئی تعیناتیوں کے حوالے سے بیان بازی سے منع کیا ہے۔ شاید بیک ڈور کچھ ایسے معاملات چل رہے ہیں جن کے سبب تحریک انصاف کے رویے میں تبدیلی دیکھی جا رہی ہے۔ تحریک انصاف کے ترجمان کی امریکی سفیر سے ملاقات کی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔ یہ سب بلاوجہ نہیں ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ عالمی طاقتیں شاید پاکستان میں سیاسی صورتحال کی نزاکت کو سمجھنے لگی ہیں اور تحریک انصاف کے موقف کو اہمیت دی جا رہی ہے۔ اگر اس موقع پر خیبر پختونخوا اور پنجاب کی صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر دی جاتی ہیں تو میرے نزدیک یہ بہتر فیصلہ نہیں ہو گا اور اس کا نقصان تحریک انصاف کو ہو گا۔اگر بالفرض دونوں صوبوں میں دوبارہ الیکشن ہو جاتے ہیں اور تحریک انصاف الیکشن جیت کر دوبارہ حکومت بنا لیتی ہے تو ان دونوں صوبوں میں تو پہلے بھی اس کی ہی حکومت قائم ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس ایکٹوٹی سے محض سرکار کا پیسہ ضائع ہو گا اور کچھ نہیں۔ آنے والے دنوں میں سیاسی حالات کس کروٹ بیٹھتے ہیں‘ اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن معاشی صورتحال روز بروز عدم استحکام کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔
پاکستان اس وقت شدید کرنسی بحران کا شکار ہے۔ جدید دور میں کرنسی بحران کو تمام مالی مسائل کی جڑ کہا جاتا ہے۔ اس کامطلب یہ ہوتا ہے کہ ملک کے پاس بیرونی ادائیگیاں کرنے کے لیے انٹرنیشنل کرنسی‘ بالخصوص ڈالرز موجود نہیں ہیں۔پاکستان پچھلے کئی سالوں سے بیلنس آف پیمنٹ کے خسارے کا شکار ہے جسے پورا کرنے کے لیے پاکستان اب تک 135 ارب ڈالرز قرض لے چکا ہے۔ اسی خسارے کو پورا کرنے کے لیے 1950ء سے اب تک‘ 23 مرتبہ آئی ایم ایف پروگرامز لیے جا چکے ہیں اور آج بھی آئی ایم ایف کے سہارے کھڑا ہونے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ معاشی اصلاحات نہ کرنے کی وجہ سے امریکہ سمیت کئی مالیاتی اداروں نے نوے کی دہائی میں پاکستان کو قرض دینا بالکل بند کر دیا تھا جس کی وجہ سے تاریخی معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ آج بھی ویسی ہی صورتحال ہے۔جاپان کے ایک مالیاتی ادارے نومارا کی جانب سے پاکستان کو دنیا کے ان سات ملکوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے جو اس وقت کرنسی کے شدید بحران سے دوچار ہیں۔ اس کے مطابق پاکستانی کرنسی اگلے بارہ مہینوں میں کریش کر سکتی ہے۔نومارا کا کہنا ہے کہ سو سے زیادہ پوائنٹس کا مطلب یہ ہے کہ ملک کو 64 فیصد تک کرنسی بحران کا سامنا ہو سکتا ہے اور پاکستان کے پوائنٹس 120 ہیں جو خطرناک حد تک زیادہ ہیں۔ عالمی مالیاتی ادارے ملک کے بجٹ خسارے اور تجارتی خسارے کو پورا کرنے کے لیے ڈالرز دینے کو تیار نہیں جبکہ ماضی میں ایسی نوبت ہی نہیں آئی تھی۔ اکنامک سپورٹ فنڈ کی مد میں کئی ملین ڈالرز آتے رہے اور بے شمار رعایات بھی دی گئیں۔ انٹرنیشنل نارکوٹکس کنٹرول اینڈ لا انفورسمنٹ کی مد میں خاصے ڈالرز ملے‘ صحت کی مد میں خطیر رقم ملنا بھی معمول کی بات تھی۔ اگر پاکستان آئی ایم ایف کو ادائیگی نہیں کر پاتا تھا تو کسی قدر چھوٹ مل جاتی تھی لیکن اب یہ ساری سہولتیں ختم ہوتی دکھائی دیتی ہیں جو کرنسی بحران پیدا ہونے کی بڑی وجہ ہے۔کرنسی بحران سے مہنگائی خطرناک حد تک بڑھ سکتی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات سمیت اشیائے ضروریہ کی قلت پیدا ہو سکتی ہے؛ البتہ کرنسی کے بحران کو ڈیفالٹ کے خطرے سے جوڑنا مناسب نہیں ہے۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے عدم ادائیگی پر کبھی ملکوں کو ڈیفالٹ ڈکلیئر نہیں کیا بلکہ فنڈز نہ ہونے کی صورت میں قرض کی مدت بڑھا دی جاتی ہے۔ ا نہیں علم ہوتا ہے کہ ملک کے پاس پہلے ہی فنڈز نہیں ہیں لہٰذا اسے دیوالیہ ڈکلیئر کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ کمرشل بینکوں اور بانڈز کی ادائیگی نہ کرنے سے ملک ڈیفالٹ ہو سکتاہے جیسے سری لنکا میں ہوا تھا۔ حالیہ دنوں میں تقریباً ایک ارب ڈالر کے بانڈز کی ادائیگی کی جا چکی ہے۔ اب اپریل 2024ء میں بانڈز کی ادائیگی ہونی ہے لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ اب اگلے سولہ مہینے تک پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کے امکانات نہیں ہیںلیکن کرنسی کا بحران ختم کرنا ضروری ہے جس کے لیے سرکاری اداروں کی نجکاری بہترین حل ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 190 سرکاری ادارے ایسے ہیں جن کی نجکاری کر کے ملکی قرضوں کا تیس فیصد بوجھ کم کیا جا سکتا ہے۔ ویتنام نے تقریباً پانچ ہزار سرکاری اداروں کی نجکاری کر کے ان سے جان چھڑائی تھی جس کے بعد معاشی حالات بہتر ہونا شروع ہو گئے تھے۔
میں یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ ہر ماہ کم از کم دو سے ڈھائی ارب ڈالرز چاہئیں۔ آئی ایم ایف سے مارچ 2022ء سے پہلے قرض ملنے کی امید کم ہے۔ ابھی حکومت سیلابی نقصانات سے متعلق مطلوبہ رپورٹ ہی تیار نہیں کر پائی ہے۔ آگے کرسمس کی چھٹیاں آ رہی ہیں‘ جنوری کے دوسرے ہفتے سے اگر مذاکرات شروع ہوں تو ان کا نتیجہ مارچ 2022ء سے قبل آنے کی امید کم ہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان تین مہینوں کے لیے ڈالرز کہاں سے آئیں گے۔ بانڈز ادائیگی کے بعد زرمبادلہ کے ذخائر تقریباً سات ارب ڈالر ہیں۔ان میں سے تین ارب ڈالرز سعودی عرب کے ہیں جنہیں استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان سالانہ تقریباً 65 ارب ڈالرز کی درآمدات کرتا ہے اور تقریباً 35 ارب ڈالرز قرض ادائیگی میں جاتے ہیں۔ اس طرح تقریباً 100 ارب ڈالرز ہر سال ملک سے باہر جاتے ہیں۔ تقریباً 30 ارب ڈالرز کی ترسیلاتِ زر ملک میں آتی ہیں جبکہ 31 ارب ڈالر برآمدات سے آتے ہیں۔ یعنی قریب 39 ارب ڈالرز کا خسارہ ہے جو کرنسی بحران کی بڑی وجہ ہے۔ موجودہ کرنسی بحران کے شدید ہونے کی ایک بڑی وجہ سیاسی عدم استحکام کو بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ فوری عام انتخابات کرا کے اس بحران کو کم کیا جا سکتا ہے۔ عوامی سطح پر یہ رائے تقویت اختیار کر چکی ہے کہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں اور سرمایہ کاروں کو موجودہ وفاقی حکومت پر اعتماد نہیں۔ملک میں اس وقت ڈالر کی قلت ہے اور گرے مارکیٹ میں ڈالر انٹربینک ریٹ سے تیس روپے اوپر پہ مل رہا ہے۔ حکومت کی جانب سے ایکسچینج کمپنیوں پر غیر ضروری دبائو ہے جس کی وجہ سے لوگ ڈالر کو گرے مارکیٹ میں بیچ رہے ہیں۔ حالات کے پیش نظر یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ کرنسی کا مکمل بحران آنے میں شاید زیادہ وقت نہیں لگے گا۔
عوام یہ جاننا چاہتے ہیں کہ برآمدات میں اضافہ کیسے کیا جائے گا، دسمبر میں ممکنہ ڈیزل بحران پر کس طرح قابو پایا جائے گا،تقریباً بائیس ارب ڈالرز کے قرض کس طرح ادا کیے جائیں گے، آئی ایم ایف کے منی بجٹ کے مطالبے سے متعلق حکمت عملی کیا ہو گی اور کرنسی بحران پر کس طرح قابو پایا جائے گا مگر ان سوالات کا جواب یا کوئی بہتر معاشی پالیسی دینے کے بجائے حکومت نے اتحادیوں کو ترقیاتی فنڈز دینے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ بیرونِ ملک دوروں کے لیے بھی اضافی فندز جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔