وفاقی زیر داخلہ رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ (ن) لیگ نے میاں نواز شریف کی واپسی کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ سیاست سے جڑے لوگوں کے لیے یہ شاید انہونی خبر نہیں ہے۔ اسحاق ڈار صاحب کی وطن واپسی پر یہ تاثر عام تھا کہ اب میاں نواز شریف بھی جلد وطن واپس آئیں گے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا میاں صاحب کی واپسی سے (ن) لیگ کا کھویا ہوا ووٹ بینک واپس آ سکے گا؟ (ن) لیگ نے معیشت کو درست سمت میں لانے اور عوام کو ریلیف دینے کے وعدے کیے تھے۔ اسحاق ڈار صاحب نے ڈالر کو دو سو روپے سے نیچے لانے کا دعویٰ کیا تھا۔ برآمدات بڑھانے‘ درآمدات اور مہنگائی کم کرنے اور شرح سود نیچے لانے کا بھی یقین دلایا گیا تھا لیکن زمینی حقائق توقعات سے مختلف ہیں۔ ان حالات میں میاں نواز شریف کی واپسی شاید مطلوبہ نتائج نہ دے سکے۔ دوسری طرف (ن) لیگ کے سیاسی مخالفین کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف اس وقت تک پچ پر قدم نہیں رکھتے جب تک وہ خود کو چاروں طرف سے محفوظ نہیں بنا لیتے۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ اگلے عام انتخابات میں میاں نواز شریف صاحب ہی وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار ہوں گے۔ بلاول بھٹو زرداری یا مریم نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ دینے کے لیے ابھی تک راستہ ہموار نہیں ہوا۔ چیئرمین تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف سازش میاں نواز شریف کو واپس لانے کے لیے کی گئی ہے۔ بعض حلقوں کا یہ دعویٰ ہے کہ (ن) لیگ کی پچھلی حکومت میں کیے گئے کچھ متنازع فیصلوں کے حوالے سے عوام میں غم و غصہ پایا جاتا ہے‘ اس لیے وطن واپسی پر نواز شریف کو اس عوامی غم وغصے کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے۔ (ن) لیگ کی قیادت کے مطابق اگر تحریک انصاف پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اسمبلیاں توڑ دیتی ہے تو ایسی صورتحال میں تحریک انصاف کو انتخابات میں ٹکر دینے کے لیے میاں نواز شریف کا پاکستان میں ہونا ضروری ہے۔ لیکن تحریک انصاف کی مقبولیت کے سامنے شاید ایک سزا یافتہ سابق وزیراعظم کو زیادہ پذیرائی نہ مل سکے۔ آنے والے دنوں میں سیاسی حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں‘ اس بارے کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن ملک کے معاشی حالات بالکل تسلی بخش نہیں ہیں۔
سٹیٹ بینک نے بتایا ہے کہ اس کے پاس موجود زرِمبادلہ کے ذخائر تقریباً6 ارب 72 کروڑ ڈالر کی سطح پر آ گئے ہیں۔ پرائیویٹ بینکوں کے ذخائر لگ بھگ 5ارب 87کروڑ ڈالر ہیں۔ یوں مجموعی طور پر ملک کے کل زرِمبادلہ کے ذخائر 12ارب 58کروڑ ڈالر ہیں جو گزشتہ چار سال میں سب سے کم ہیں۔ زرِ مبادلہ کے ذخائر نچلی ترین سطح پر آنے کے باوجود حکومت دعویٰ کر رہی ہے کہ قرضوں کی بروقت ادائیگی کی جائے گی لیکن میرے مطابق یہ اتنا آسان نہیں ہے۔ قرضوں کی ادائیگی کے لیے سرکار کو ناکوں چنے چبانا پڑ سکتے ہیں۔ اس وقت کمرشل بینک ملک کو قرض نہیں دے رہے کیونکہ ان کے مطابق ملک دیوالیہ ہونے کے دہانے پر ہے۔ ایسی صورتحال میں آئی ایم ایف وہ واحد کشتی ہے جو ملک کو ڈوبنے سے بچا سکتی ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان کو قرض کیوں نہیں دے رہا؟
آئی ایم ایف سے قرض نہ ملنے کی بڑی وجہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات سے متعلق آئی ایم ایف کو تسلی بخش جواب نہ دینا ہے۔ نویں جائزہ کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط پر مکمل عملدرآمد کرنے کا اسحاق ڈار صاحب کا دعویٰ درست نہیں ہے۔ اگر شرائط مکمل ہو گئی ہیں تو پاکستان نے آئی ایم ایف آئی میں ووٹنگ پاور رکھنے والے ممالک سے رابطہ کیوں شروع کر دیا ہے؟ آئی ایم ایف سے جو معاہدہ 2019ء میں کیا گیا تھا وہ اسی پر قائم ہے لیکن پاکستان معاہدے پر عملدرآمد نہیں کر پا رہا۔ تقریباً 855 ارب روپے کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ہے جو یا تو منی بجٹ سے پورا ہو سکتا ہے یا پٹرولیم لیوی میں اضافہ کرکے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ سیلاب کی وجہ سے یہ ہدف حاصل نہیں ہو پایا ہے جس پر آئی ایم ایف نے حکومت سے سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد بحالی کے کاموں پر ہونے والے اخراجات کی تفصیلات مانگی ہیں۔ آئی ایم ایف کے مطابق سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا مستقبل کے اہداف پر تو فرق پڑ سکتا ہے لیکن پچھلے اہداف کا سیلاب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ آئی ایم ایف کی ریزیڈنٹ ڈائریکٹر کے مطابق پاکستان ستمبر 2022ء کے اہداف حاصل نہیں کر سکا ہے۔ حالات جیسے بھی ہوں‘ ادارے کو مطلوبہ نتائج درکار ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ حکومت پہلے سیلاب سے دس ارب‘ پھر بیس ارب‘ پھر تیس ارب اور اب پینتالیس ارب ڈالرز کے نقصان کی بات کر رہی ہے‘ جس کی وجہ سے ابہام پیدا ہو رہا ہے۔ پاکستان میں ورلڈ بینک کی نمائندہ نے مجھے بتایا کہ ورلڈ بینک نے یو این ڈی پی اور اے ڈی بی کی مدد سے Disaster Needs Assessment رپورٹ اکتوبر میں مکمل کر لی گئی تھی لیکن Recovery and Reconstruction کی رپورٹ پر کام ابھی جاری ہے۔ اس حوالے سے ورلڈ بینک اور دیگر اداروں کے نمائندے پاکستان میں موجود ہیں اور امید ہے کہ یہ رپورٹ بھی جلد تیار ہو جائے گی۔ میرے مطابق اس رپورٹ کے مکمل ہونے سے پہلے آئی ایم ایف قرض کی قسط ملنے کی امید کم ہے۔ ایک طرف سیلاب سے ہونے والے نقصانات پر واویلا کیا جا رہا ہے اور دوسری طرف حکومتی خرچوں میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے۔ لگژری گاڑیاں اور ڈویلپمنٹ فنڈز پر دل کھول کر خرچ کیا جا رہا ہے۔ ایکسپورٹ سیکٹر اور کھادوں پر سبسڈی دی جا رہی ہے۔ ایسی صورت حال میں آئی ایم ایف کیسے یقین کرے کہ قرض کی رقم شفاف طریقے سے خرچ ہو گی۔ پاکستان کو اس وقت تک قرض ملنا مشکل ہے‘ جب تک تقریباً 855ارب روپے کی آمدن بجٹ میں شامل نہیں کی جاتی اور سیلاب سے ہونے والے نقصانات کو بجٹ کا حصہ نہیں بنایا جاتا۔ اس کے علاوہ ڈالر ریٹ کو بھی کنٹرول کیا جا رہا ہے جو کہ آئی ایم ایف معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ رضا باقر کے دور میں بینک کا ریٹ ہنڈی حوالے سے زیادہ ہوتا تھا۔ اب ہنڈی کا ریٹ تقریباً 30روپے زیادہ ہو چکا ہے۔ آئی ایم ایف کو اس پر اعتراض ہے۔ حکومت کو انتظامی معاملات سخت کرنے کے بجائے پالیسی بدلنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت ڈالر کی انٹر بینک میں قیمت تقریباً 245روپے ہونی چاہیے۔ ویسے بھی مارکیٹ میں ڈالر اس سے کم ریٹ پر نہیں مل رہا۔ حکومت کو حقیقت پسندانہ فیصلے کرنے چاہئیں۔
وزارتِ خزانہ کے مطابق گرے مارکیٹ میں ڈالر ریٹ بڑھنے کی وجہ ڈالرز کی سمگلنگ بھی ہے۔ اس حوالے سے وزارتِ خزانہ نے ایف آئی اے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے نمائندوں کا اجلاس بلا کر اقدامات مزید سخت کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اجلاس میں یہ انکشاف کیا گیا کہ کینو کی پیٹیوں میں ڈالر افغانستان سمگل کیے جا رہے ہیں لیکن ابھی تک یہ طے نہیں کیا جا سکا کہ بارڈر سے سمگلنگ کو کس طرح روکا جائے‘ جو کہ متعلقہ حکام کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ اس اجلاس کے بعد یہ توقع کی جا رہی ہے کہ بڑے کرنسی تبدیل کرنے والوں کے خلاف ایک مرتبہ پھر کریک ڈاؤن کیا جا سکتا ہے لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو بڑے بینک ملک میں ڈالر ریٹ بڑھانے کے ذمہ دار تھے‘ ان کے خلاف حکومت نے کیا اقدامات کیے۔ ابھی تک کسی بینک کو سزا نہیں دی گئی ہے۔ احتساب میں سست روی دیگر اداروں اور مافیاز کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہے۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف نے شرط عائد کی تھی کہ دسمبر 2022ء تک تمام سرکاری اداروں کے فنڈز کمرشل بینکوں سے نکال کر سٹیٹ بینک میں منتقل کیے جائیں جس پر ابھی تک عملدرآمد نہیں ہوا ہے۔ آئی ایم ایف کی ٹیکنیکل ٹیم متعلقہ اداروں کے سربراہوں اور ٹیکنیکل ٹیم سے ملاقات کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کے اختتام تک بھی ان شرائط پر عمل درآمد مشکل دکھائی دیتا ہے۔