سیاست، سیلاب زدگان کی امداد اور معیشت

تحریک انصاف نے پاکستان میں تبدیلی کا نعرہ لگایا تھا اور اسی نعرے کی بنیاد پر نوجوان طبقہ اس جماعت سے متاثر ہوا اور اس کی حکومت بنی۔ ملک کے دو صوبوں اور آزاد کشمیر و گلگت بلتستان میں آج بھی پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔ یہ بات درست ہے کہ عمران خان نے ایسے پڑھے لکھے نوجوان طبقے کی سیاست میں دلچسپی پیدا کی جو اس سے قبل ووٹ ڈالنے اور سیاست میں حصہ لینے کو وقت کا ضیاع قرار دیتا تھا لیکن جس نظریے کی بنیاد پر خان صاحب نے سیاست میں قدم رکھا تھا آج ان کی جماعت اس سے کوسوں دور معلوم ہوتی ہے۔ آج وفاق میں پی ٹی آئی کی حکومت نہیں ہے لیکن اپنے دورِ حکومت میں بھی وہ سیاسی نظام میں کوئی بڑی تبدیلی لانے سے قاصر رہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستانی عوام ایک اور این آر او دیکھ رہے ہیں۔ گو کہ عمران خان اس مبینہ این آر او کے خلاف مسلسل آواز اٹھا رہے ہیں لیکن ان کے اپنے دورِ حکومت میں وزرا، مشیروں اور اتحادی جماعتوں کے خلاف چلنے والے کیسز کو جس طرح سرد خانے کی نذر کیا گیا‘ اس نے موجودہ صورتحال کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ اگر پچھلے دور میں بے لاگ احتساب ہوتا تو شاید آج صورتحال مختلف ہوتی۔پچھلے دور میں مخصوص کیسز کو کس طرح سست روی کا شکار بنایا گیا‘ سابق چیئرمین نیب کے اس حوالے سے بیانات سب کے سامنے ہیں۔ موجودہ صورتحال کی ذمہ دار تمام سیاسی پارٹیاں ہیں لیکن تحریک انصاف پر زیادہ انگلیاں اس لیے اٹھتی ہیں کہ اس جماعت کو اسی بنیاد پر ووٹ دیے گئے تھے کہ پچھلی جماعتوں سے عوام کا اعتماد اٹھ چکا تھا۔ اب سب برابر ہیں۔ آج کل پی ڈی ایم کو ملنے والے ریلیف کو ''این آر او ٹو‘‘ کہا جا رہا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے قیام سے لے کر آج تک مقتدر قوتیں نظریۂ ضرورت کے تحت ہر دور میں این آر او دیتی آئی ہیں۔ اب تک کتنے این آر اوز دیے جا چکے ہیں‘ شاید اس کی گنتی بھی ممکن نہیں۔ 2018ء میں اقتدار حاصل کر کے خان صاحب اور حکومت میں شامل دیگر لوگوں نے سب سے پہلے اپنے کیسز ختم کرائے۔ سیاسی کامیابی کا جو فارمولہ پچھتر سالوں سے طے شدہ ہے وہی آج بھی کارآمد ہے۔پاکستان کی سیاسی صورتحال میں کوئی مثبت تبدیلی آتی ہے یا نہیں‘ اس بارے میں کچھ بھی مکمل یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا؛ تاہم اس وقت ملک بیک وقت شدید سیاسی اور معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ یہ بحران عارضی ہے اور اسے جان بوجھ کر پیدا کیا گیا ہے۔ آنے والے دنوں میں اچھی خبریں ملیں گی‘ سعودی عرب اور چین سے ملنے والے ریلیف کو دانستہ طور پر التوا میں ڈالا جا رہا ہے۔ جلد یہ ممالک اپنے پیکیجز کا اعلان کر سکتے ہیں جس سے زرِمبادلہ کے ذخائر بڑھ جائیں گے اور گرے مارکیٹ میں ڈالر کی قدر کم ہو گی۔
ذہن نشین رہے کہ اسحاق ڈار صاحب کے پاکستان آنے سے پہلے ڈالر کی قیمت ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی تھی لیکن ان کے آنے کے بعد ڈالر کا ریٹ بتدریج کم ہوا۔ ابتدائی طور پر ڈار صاحب کی کافی پذیرائی ہوئی لیکن بعدازاں یہ خبر سامنے آئی کہ مبینہ طور پر ڈالر کا ریٹ کم کرنے کے لیے تقریباً تین سو ملین ڈالرز مارکیٹ میں پھینکے گئے تھے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سٹیٹ بینک سے جب تین سو ملین ڈالرز کی کمی کا سوال کیا گیا تو صرف اتنا بتایا گیا کہ قرض کی ادائیگی کی گئی ہے۔ کس قرض کی ادائیگی ہوئی اور کس ملک یا ادارے کو کی گئی‘ اس بارے آج تک کوئی تفصیل سامنے نہیں آ سکی۔ جب ڈالرز ذخائر میں کمی ہوئی تو اس وقت ادائیگیوں کے شیڈول کے مطابق کوئی قسط واجب الادا نہیں تھی۔ سبھی سیاسی جماعتیں معاشی فیصلوں کو سیاست کی نذر کرتی آئی ہیں لیکن (ن) لیگ کے دورِ حکومت میں اس کی جھلک زیادہ دکھائی دیتی ہے۔ میں ہر گز یہ نہیں کہنا چاہتا کہ ملک میں ڈالرز کی کمی نہیں لیکن جتنی کمی بتائی اور دکھائی جا رہی ہے‘ اسے مینج کیا جا سکتا ہے۔ کم از کم اشیائے خورونوش کی درآمدات میں حائل رکاوٹوں کو ختم کر کے افواہوں کا راستہ روکا جا سکتا ہے۔
عوام ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر پارہے کہ انہوں نے مفتاح اسماعیل صاحب کی بات پر یقین کرنا ہے یا ڈار صاحب کو سنجیدہ لینا ہے۔ مفتاح صاحب ہر دوسرے دن کسی انٹرویو یا محفل میں یہ بیان دے رہے ہیں کہ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے جبکہ ڈار صاحب فرما رہے ہیں کہ ایسا نہیں ہو گا۔ مسلم لیگی قیادت سے گزارش ہے کہ وہ عوام کومطلع کرے کہ انہوں نے کس کے دعووں کو سنجیدہ لینا ہے۔ مفتاح صاحب کے مطابق وہ قرضوں کی ادائیگی کا پورا انتظام کرکے گئے تھے۔ متحدہ عرب امارات نے 2 ارب ڈالر، قطر نے 3 ارب ڈالر اور سعودی عرب نے ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا تھا اور یہ باتیں آئی ایم ایف کے بھی علم میں تھیں۔ آخری دن تک عالمی بینک سے بات ہورہی تھی‘ وہ بھی ایک ارب 70 کروڑ ڈالر جاری کرنے پر راضی تھا۔ اس کے علاوہ ایشیائی ترقیاتی بینک سے بھی پیسوں کا انتظام ہو گیا تھا۔ بقول ان کے‘ اگر وہ رخصت نہ کیے جاتے تو ملک معاشی طور پر بہتر حالت میں ہوتا۔ ڈار صاحب کو بھی اس معاملے پر اپنا موقف دینا چاہیے تا کہ تصویر کے دونوں رخ عوام کے سامنے آ سکیں۔ اس کے علاوہ عوام کو اس بارے بھی مطلع کیا جائے کہ ان مسائل سے نکلنے کا حل کیا ہے۔ اگر محض یہ بتانا مقصود ہے کہ ملک دیوالیہ ہونے والا ہے تو شاید عوام کو اس میں زیادہ دلچسپی نہیں۔ اکثریت کا یہی کہنا ہے کہ جب سے ہوش سنبھالا ہے‘ یہی سن رہے ہیں کہ ملک نازک مرحلے سے گزر رہا ہے‘ خزانہ خالی ہے اور معاشی حالت ابتر ہے۔
ان حالات میں اچھی خبر یہ ہے کہ ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے پاکستان کو سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے 554 ملین ڈالرز دینے کی منظوری دی ہے جس میں 475 ملین ڈالرز قرض کی مد میں ہیں۔ چار سو ملین ڈالرز 85 کلومیٹر این فائیو ہائی وے اور تین سو پلوں کی تعمیر کے لیے ہیں۔ جاپان سے ملنے والے پانچ ملین ڈالرز نئے اور جدید بیجوں اور زمین کو دوبارہ قابلِ کاشت بنانے کیلئے دیے گئے ہیں۔اس کے علاوہ ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے ٹیوٹا کیلئے 100 ملین ڈالرز امداد کا قرض دینے کا بھی کہا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ رقم مطلوبہ اہداف حاصل کرنے کیلئے استعمال ہو سکے گی یا نہیں۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک کئی مرتبہ یہ کہہ چکا ہے کہ سیلاب متاثرین کی امداد کیلئے حکومت کو کیش دینے کے بجائے متاثرین کی براہِ راست مدد کی جائے گی۔ واضح رہے کہ 2005ء کے زلزلے اور 2010ء کے سیلاب کے کئی متاثرین ابھی تک امداد کے منتظر ہیں۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) نے 2013ء سے تمام سیاستدانوں، اداروں کے سربراہان اور بیوروکریٹس کو ملنے والے تحائف کی تفصیلات طلب کرلی ہیں۔ چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نور عالم خان نے اس سے پہلے بھی کئی اہم ایشوز پر تفصیلات طلب کر رکھی ہیں لیکن ابھی تک کسی معاملے میں کوئی بہتری نظر نہیں آ رہی۔ گاڑیوں کی قیمتیں بڑھنے کا معاملہ ہو، مرغی کی قیمتوں میں اضافے کا مدعا ہو یا آڈیٹر جنرل کی رپورٹ پر اجلاس ہو‘ اب تک کی کارکردگی سے عوام کا کوئی بھلا نہیں ہو سکا۔ اہم شخصیات کو ملنے والے تحائف اور ان کی خریدو فروخت کا معاملہ عوام کے سامنے آنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی تک بھی درست معلومات نہیں پہنچائی جائیں گی تو غلط نہ ہو گا۔
آئی ایم ایف کے حوالے سے خبر آئی ہے کہ عالمی مالیاتی ادارہ نواں اور دسواں جائزہ ایک ساتھ کر سکتا ہے جس کا مطلب ہے کہ پاکستان کے سامنے مزید سخت شرائط رکھی جا سکتی ہیں۔ ابھی تک نویں جائزے کی شرائط پوری نہیں ہوئی ہیں۔ اس حوالے سے صورتحال کرسمس کی چھٹیوں کے بعد واضح ہو سکے گی۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ آنے والے دن زیادہ اچھے نہیں ہیں۔ وزیر خزانہ صاحب سعودی عرب اور چین سے مستقبل میں ملنے والے قرض پر تکیہ کیے بیٹھے ہیں۔ میں اس بات کا ذکر بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ سعودی عرب اور چین سے ملنے والے قرض زیادہ دیر تک نہیں چل سکیں گے۔ہمیں ملکی آمدن بڑھانے کے ذرائع پر توجہ دینا ہو گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں