وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے اقوام متحدہ میں نریندر مودی کے حوالے سے دیے گئے بیان پر بھارت میں کافی شور مچا ہوا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کے اس بیان کے بعد بی جے پی کے شدت پسندوں نے نئی دہلی میں واقع پاکستان ہائی کمیشن کے دفتر کے سامنے احتجاج کیا ہے۔ بعض حلقے بلاول بھٹو کے اس بیان کو غیر ضروری قرار دے رہے ہیں لیکن میرے مطابق یہ بیان وقت کی اہم ضرورت تھا۔بلاول بھٹو زرداری نے اقوامِ متحدہ میں صحیح معنوں میں پاکستان کی ترجمانی کی ہے اور شاید اس انداز میں اس سے قبل کسی بین الاقوامی فورم پر پاکستان کی جانب سے نریندر مودی کو مخاطب نہیں کیا گیا تھا۔
بلاول بھٹو کی طرف سے بھارتی دہشت گردی والا معاملہ تو بہتر طریقے سے ہینڈل کیا گیا ہے لیکن روس سے تیل خریدنے کے حوالے سے اُن کا بیان مناسب نہیں تھا۔ جمعرات کو نیویارک میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان نے روس سے تیل نہیں خریدا اور نہ ہی خرید رہا ہے کیونکہ ملک میں ایسا نظام موجود ہی نہیں جو روسی تیل کو صاف کر سکے تاہم ہم روس سے کچھ گندم ضرور خرید رہے ہیں۔ اس کے برعکس وزیرِ مملکت برائے توانائی مصدق ملک کے مطابق پاکستان کی تین آئل ریفائنریز ایسی ہیں جو روسی خام تیل کو قابلِ استعمال بنا سکتی ہیں اور دورۂ ماسکو سے قبل ان ریفائنریز سے ان کی استعداد اور ضروریات بھی معلوم کر لی گئی تھیں۔ امید ہے کہ بلاول بھٹو کے حالیہ بیان سے روس سے تیل کی خریداری پر فرق نہیں پڑے گالیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس کے بیان پر اعتماد کیا جائے۔ ایسا کیسے ممکن ہے کہ وزیر توانائی‘ وزیر خزانہ اور وزیراعظم روس سے تیل خریدنے کی تصدیق کر رہے ہوں اور وزیر خارجہ اس معاملے سے لاعلم ہوں۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ وزیر خارجہ اور پی ڈی ایم ایک پیج پر نہیں ہیں۔ اسی لیے دنیا ہمارے سیاستدانوں کو سنجیدہ نہیں لیتی اور بیرونی طاقتیں کسی بھی بڑی ڈیل کے لیے ملک کے طاقتور حلقوں سے بات کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔
دوسری جانب ملکی سیاست آج کل آڈیو لیکس کے گرد گھوم رہی ہے۔ ہر چند روز بعد ایک نئی آڈیو منظر عام پر آ جاتی ہے لیکن ان آڈیوز سے متعلق کچھ بھی یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ اصلی ہیں یا نقلی۔ نہ ہی ان آڈیوز کا فرانزک کروایا جاتا ہے اور نہ ہی عدالت سے رجوع کرنے کی روایت قائم ہو سکی ہے۔ صرف الزام لگائے جاتے ہیں‘ چند دن شور مچتا ہے اور اس کے بعد کوئی نیا مدعا سامنے آ جاتا ہے اور لوگ پچھلے مدعے کو بھول جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں سامنے آنے والی آڈیو لیک پر کافی شور مچا لیکن اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے کی تاریخ کے اعلان کے بعد یہ آڈیو لیک بھی ماضی کا قصہ بن گئی۔ فی الحال پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل کا معاملہ زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ مستقبل میں یہ معاملہ کیا رخ اختیار کرتا ہے اس بارے کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن اگر عمران خان دباؤ ڈال کر حکومت سے قبل از وقت الیکشن کی تاریخ لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ تحریک انصاف کے لیے بڑی کامیابی ہو گی مگر شاید یہ پاکستانی معیشت کے لیے کوئی اچھی خبر نہ ہو۔ ممکنہ طور پر نگران حکومت سخت فیصلے کر سکتی ہے‘ جس کا بوجھ نہ ہی پی ڈی ایم کے کاندھوں پر ہوگا اور نہ ہی تحریک انصاف اس کی ذمہ داری لے گی۔ ان کے فیصلوں کا بوجھ عوام کو اٹھانا پڑے گا۔ سیاسی قیادت کی توجہ صرف وقتی فوائد حاصل کرنے کی جانب ہے۔ تحریک انصاف کی کوشش ہے کہ کسی طرح پی ڈی ایم کو شکست دی جائے اور حکومت عوام میں کھوئے ہوئے سیاسی کیپٹل کو بچانے کے لیے اقدامات کرنے میں مصروف ہے۔ حکمرانوں کو پہلے ملک‘ پھر عوام اور پھر سیاسی پارٹی کے بارے میں سوچنا چاہیے لیکن یہاں معاملہ اُلٹ ہے۔ سیاسی جماعتیں پہلے اپنا فائدہ دیکھتی ہیں‘ پھر عوام اور پھر ملک کا فائدہ سوچا جاتا ہے۔ عمران خان نے بھی اپنی حکومت جاتے دیکھ کر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کر دی تھیں‘جس کا پارٹی کو فائدہ ہوا لیکن ملک کو شدید نقصان ہوا۔ موجودہ صورتحال بھی مختلف نہیں ہے۔ وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس اعلان کے مطابق اب پٹرول‘ ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمت 10روپے فی لیٹر تک کم ہو گئی ہے۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں بھی کمی واقع ہوئی ہے اور برینٹ کروڈ آئل فی بیرل 81 اعشاریہ دو ڈالر تک آن پہنچا ہے جو رواں سال کے اوائل تک 100ڈالر فی بیرل سے تجاوز کر گیا تھا۔ اسحاق ڈار کے آنے کے بعد سے یہ تیسرا موقع ہے جب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی گئی ہے۔ اس سے پہلے انہوں نے عہدہ سنبھالتے ہی 30ستمبر کو پٹرول اور ڈیزل کی فی لیٹر قیمت تقریباً 12 روپے تک کم کی تھی جبکہ 30نومبر کو لائٹ ڈیزل کی قیمت ساڑھے سات روپے جبکہ مٹی کے تیل کی قیمت میں 10روپے کمی کی گئی تھی لیکن 30ستمبر کو کم کی گئی قیمت کو وہ برقرار نہیں رکھ پائے تھے۔ وہ فیصلہ آئی ایم ایف کی شرائط کے برعکس تھا‘ جسے واپس لینا پڑا۔ موجودہ فیصلہ بھی ملکی مفاد میں دکھائی نہیں دے رہا۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ حکومت نے آئی ایم ایف کے مطالبے کے مطابق پٹرولیم لیوی اور سیلز ٹیکس بڑھایا ہے یا نہیں۔ میری اطلاع کے مطابق پٹرول پرلیوی تو مطالبے کے مطابق بڑھ چکی ہے لیکن ڈیزل پر تقریباً 25روپے فی لیٹر لیوی ابھی بڑھانا باقی ہے۔ اس کے علاوہ ڈیزل اور پٹرول پر سیلز ٹیکس بھی لگانا ہے۔
میرا نہیں خیال کہ آئی ایم ایف کو اس حوالے سے اعتماد میں لیا گیا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ 31دسمبر کو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مزید کم کر دی جائیں لیکن آئی ایم ایف اس فیصلے سے کسی صورت خوش نہیں ہوگا۔ اسحاق ڈار نے پہلے بھی جب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کی تھیں‘ اس پر آئی ایم ایف کو اعتراض تھا۔ موجودہ معاشی حالات کے پیش نظر آئی ایم ایف کو ناراض نہیں کیا جا سکتا۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ حکومت ابھی تک فیصلہ ہی نہیں کر پائی کہ معیشت چلانے کے لیے ان کی حکمتِ عملی کیا ہے۔ اگر لانگ ٹرم منصوبہ بندی کی ہوتی تو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم نہ کی جاتیں۔ یہ وقتی طور پر سیاسی ریلیف دینے والے فیصلے ہیں۔ اس وقت یہ بہتر ہوتا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کرنے کے بجائے ملکی آمدن بڑھائی جاتی۔ اس سے آئی ایم ایف پر بھی اچھا تاثر جاتا۔ عوام جانتے ہیں کہ ملک معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ اس وقت اصل مسئلہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں نہیں بلکہ دیوالیہ پن کا خدشہ ہے۔ اگر ملک دیوالیہ ہو گیا تو اس ریلیف کا کیا فائدہ ہوگا۔ یہ سری لنکا والی صورتحال ہے۔ وہاں بھی ملک چلانے کے لیے ڈالرز نہیں تھے اور حکومت پٹرول سستا کرکے بیچ رہی تھی۔ پاکستان بزنس کونسل کے مطابق یہ موقع آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کو واپس اپنی جگہ پر لانے کا تھا‘ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کرنے کا نہیں۔ یہاں یہ ذہن نشین رہے کہ آئی ایم ایف نے نواں اور دسواں جائزہ اکٹھا کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اس وقت ملک کے معاشی حالات بھی ایسے دکھائی نہیں دیتے کہ آئی ایم ایف سے جلد جان چھوٹ جائے۔ پاکستان کو اگلے کئی برسوں تک آئی ایم ایف کے پینل پر رہنا پڑ سکتا ہے۔ اصل کامیابی یہ ہوگی کہ ملکی آمدن کو تیزی سے اس سطح پر لایا جائے کہ آئی ایم ایف سے جان چھوٹ جائے۔ اس کے لیے سیاسی استحکام بھی ضروری ہے۔