پاکستان میں اس وقت روایتی سیاست عروج پر ہے۔ دنیا بھر میں سیاست کو عوامی خدمت کے ساتھ جوڑا جاتا ہے لیکن ہمارے یہاں عوامی خدمت کا رجحان کم دکھائی دیتا ہے اور سیاست کو انتقام کے لیے استعمال کرنا معمول بن چکا ہے۔ پی ڈی ایم اتحاد جب سے حکومت میں آیا ہے‘ تحریک انصاف کے کئی رہنماؤں کو گرفتار کیا جا چکا ہے اور انہیں مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ قانون کے مطابق گرفتاری پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے لیکن تشدد کا معاملہ حساس ہے۔ شہباز گل اور اعظم سواتی کے بعد اب فواد چودھری کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اعظم سواتی اور شہباز گل کے بارے میں چیئرمین تحریک انصاف کئی مرتبہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ انہیں زیرِ حراست تشدد کا نشانہ بنایا گیا‘ جو یقینا قابلِ مذمت ہے۔ اب فواد چودھری کے ساتھ کیسا سلوک کیا جاتا ہے‘ یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اعظم سواتی اور شہباز گل کے واقعے کے بعد فواد چودھری بہت محتاط ہو گئے تھے اور کوئی نو بال نہیں کرا رہے تھے لیکن کپتان کے کھلاڑی جذبات میں کچھ ایسا کہہ گئے جو شاید مناسب نہیں تھا۔ حکومت ہر وقت موقع کی تلاش میں رہتی ہے اور اس مرتبہ اسے موقع پلیٹ میں رکھ کر پیش کیا گیا ہے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ شاید یہ معاملہ زیادہ دیر تک نہ چل سکے اور جلد ہی فواد چودھری کی ضمانت ہو جائے، کیونکہ حکومت کا اصل ہدف چیئرمین تحریک انصاف ہیں۔ ماضی میں عمران خان کو گرفتار کرنے کے لیے کئی کوششیں ہو چکی ہیں لیکن مبینہ طور پر عوامی ردِعمل کی وجہ سے مطلوبہ مقصد حاصل نہیں ہو سکا۔ اس وقت پنجاب اور خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومتیں ختم ہو چکی ہیں۔ خیبرپختونخوا میں نگران وزیراعلیٰ کی تعیناتی حکومت و اپوزیشن کی باہمی رضامندی سے ہوئی جبکہ پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ کو الیکشن کمیشن نے تعینات کیا ہے جس پر پی ٹی آئی احتجاج کر رہی ہے۔
اس وقت عمران خان کی گرفتاری کی کوششیں ملکی سیاست میں زیرِ بحث ہیں۔ یہ وہی صورتحال ہے جس کا ذکر سابق وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے بھی کئی مرتبہ کیا تھا۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں توڑنے کا فیصلہ غلط تھا یا درست‘ اس سے متعلق صحیح علم انتخابات کے بعد ہی ہو سکے گا۔ البتہ انتخابات کب ہوں گے‘ یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اگر الیکشن وقت پر نہیں ہوتے اور تحریک انصاف وفاقی حکومت پر دبائو ڈالنے کے لیے لانگ مارچ کرنے یا ریلیاں نکالنے کا منصوبہ بناتی ہے تو اس کی کامیابی کے امکانات کم ہیں کیونکہ اس وقت پنجاب اور خیبرپختونخوامیں تحریک انصاف کی حکومتیں نہیں ہیں۔ لانگ مارچ یا احتجاجی تحریک شروع ہونے سے پہلے ہی تحریک انصاف کے رہنماؤں کی گرفتاریوں میں بظاہر کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی۔ اگر لانگ مارچ ہوا بھی تو شاید وہ لاہور سے باہر نہ جا سکے۔ دوسری طرف قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے استعفے منظور کرنے کا سلسلہ جاری ہے تا کہ آئندہ عام انتخابات کی صورت میں نگران حکومت کا قیام پی ڈی ایم اور ''نام نہاد اپوزیشن‘‘ مل کر کر سکے۔ میرا خیال ہے کہ اب چیئرمین تحریک انصاف کو قومی اسمبلیوں سے استعفے دینے کی غلطی کا احساس ہو گیا ہو گا۔ انہوں نے حال ہی میں فرمایا تھا کہ وہ اسمبلی میں واپس جانے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے لگے ہیں لیکن اس وقت تک گیند ان کے ہاتھ سے نکل چکی تھی اور پی ڈی ایم کی حکومت نے فل ٹاس بال پر چھکا مارنے کو ترجیح دی۔ صدرِ مملکت سمیت کئی سینئر پارٹی رہنماؤں نے اسمبلیوں سے استعفے دینے کی مخالفت کی تھی۔ صدر علوی نے اس کا اظہار اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں بھی کیا ہے۔ تحریک انصاف کا یہ فیصلہ درست تھا یا غلط‘ اس کا فیصلہ عوام کو کرنا ہے لیکن اس وقت جو معاملہ سب سے زیادہ حساس ہے‘ وہ ملکی معیشت کی صورتحال ہے اور بدقسمتی سے ہمارے حکمران اور اپوزیشن‘ دونوں ہی اس معاملے پر سنجیدہ دکھائی نہیں دے رہے۔
سری لنکا جب ڈیفالٹ کے دہانے پر تھا تو وہاں بھی سیاسی بے چینی عروج پر تھی۔ پاکستانی حکمرانوں کوسری لنکا کے حالات سے عبرت حاصل کرنی چاہیے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ چینی بینک کو پانچ سو ملین ڈالر قرض ادا کرنے کا وقت آ گیا ہے جس کے بعد زرِمبادلہ کے ذخائر چار بلین ڈالر سے بھی کم ہو جائیں گے۔ چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات شاید اب ہمالیہ سے بلند اور سمندروں سے گہرے نہیں رہے کیونکہ پچھلے ہفتے بھی چینی بینکوں کو تقریباً سواتین سو ملین ڈالرز کی ادائیگی کی گئی۔ ان حالات میں چین اگر مزید قرض نہیں دے سکتا تو پچھلے قرضوں کی مدت میں توسیع کر کے پاکستان کی مدد کر سکتا ہے لیکن چین کا موقف ہے کہ قانون کے مطابق بینکوں سے لیے گئے قرضوں کی مدت میں توسیع نہیں کی جا سکتی؛ البتہ پچھلا قرض ادا کر کے دوبارہ قرض لیا جا سکتا ہے، لیکن اس عمل میں دو سے تین ماہ کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ چین پاکستان کے لیے نہ تو اپنے بینکوں کی پالیسی تبدیل کرے گا اور نہ ہی آئی ایم ایف کی مرضی کے بغیر ریلیف دینے کی ہامی بھرے گا۔ البتہ کچھ پچھلے قرض‘ جو پاکستان نے چینی بینکوں کو ادا کیے تھے‘ وہ چند دنوں میں دوبارہ مل سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں موجودہ مالی سال میں تقریباً نو ارب ڈالرز کے قرض ادا کیے جا چکے ہیں جبکہ چھ ارب ڈالرز کے قرضوں کی مدت میں توسیع ہو چکی ہے۔ کُل ملا کر پندرہ ارب ڈالرز کا بوجھ وقتی طور پر اتر چکا ہے لیکن اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے پر ڈالر ذخائر تقریباً سوا دس ارب کے قریب تھے جو اب تقریباً چار ارب رہ گئے ہیں۔ چھ ارب ڈالر قرضوں کی ادائیگی میں گئے ہیں۔ اس دوران آئی ایم ایف، سعودی عرب اور چین سے جو قرض ملا تھا‘ اس سے ملکی معاملات چلانے کی کوشش کی گئی لیکن اس طرح سے ملک چلانا مسئلے کا حل نہیں ہے۔ جون 2023ء تک مزید آٹھ ارب ڈالرز کی ادائیگیاں کرنی ہیں جن میں سے تین ارب ڈالرز کے قرضوں پر دوست ممالک سے توسیع حاصل کیے جانے کی امید ہے۔ تقریباً دو ارب ڈالرز کا قرض ادا کر کے دوبارہ واپس لیے جانے کا منصوبہ ہے۔ اس حساب سے لگ بھگ تین ارب ڈالرز ہی ادا کرنا ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ یہ ڈالرز کہاں سے آئیں گے؟ کمرشل بینک پاکستان کو قرض دینے کے لیے دس سے پندرہ فیصد شرحِ سودکا مطالبہ کر رہے ہیں۔ کیا اس شرحِ سود پر قرض لیا جائے گا؟ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ حکومت کے پاس کوئی واضح حکمت عملی نہیں ہے‘ جس طرح کے سیاسی حالات ہوتے ہیں‘ اسی حساب سے روزانہ کی بنیاد پر پالیسی بنا لی جاتی ہے۔
ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر اس وقت چار بلین ڈالرز رہ گئے ہیں جن میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کے دو ارب ڈالرز بھی شامل ہیں جو کمپنیوں کے منافع کے طور پر بیرونِ ملک منتقل ہونے ہیں۔ اگر منافع کی یہ رقم ادا کر دی جائے تو پاکستان کے پاس بمشکل دو ارب ڈالرز کے ذخائر رہ جائیں گے جو محض آٹھ دنوں کی درآمدات کے برابر ہیں۔ ملک میں صنعتیں بند ہو رہی ہیں‘ اربوں، کھربوں روپوں کی مالک بزنس کمیونٹی پریس کلبوں اور سٹیٹ بینک کے سامنے احتجاج کرنے پر مجبور ہو گئی ہے۔ ہسپتالوں میں ادویات کی قلت ہے،بعض ضروری آپریشن تک ملک میں ممکن نہیں رہے کیونکہ مطلوبہ ادویات درآمد نہیں ہو پا رہیں۔ اگلے ماہ سے پٹرولیم مصنوعات کی قلت پیدا ہونے کے خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ گو کہ اوگرا نے اس کی تردید کی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ جب ڈالرز نہیں ہوں گے تو پٹرولیم مصنوعات کی خریداری کیسے ممکن ہو گی؟ سری لنکا نے اُسی وقت ملک کو ڈیفالٹ ڈکلیئر کیا تھا جب پٹرولیم مصنوعات کا بحری جہاز بندرگاہ پر کھڑا تھا لیکن ادائیگی کیلئے ڈالرز نہیں تھے۔ یہ وقت درست فیصلے کرنے کا ہے۔ سیاسی ساکھ کو بچانے سے زیادہ ملک کو بچانا ضروری ہے۔ ڈالر کی قیمت کو مصنوعی طریقے سے کنٹرول کرنے کے بھیانک نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔ اس حوالے سے کرنسی ایکسچینج کمپنیز نے اوپن مارکیٹ میں ڈالر پر سے کیپ ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے‘ جو خوش آئند ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ لوگ اوپن مارکیٹ سے ڈالر خرید کر گرے مارکیٹ میں بیچ رہے ہیں جس سے ملکی معیشت کو نقصان ہو رہا ہے۔ اس وقت ملک میں ڈالر کا کوئی مخصوص ریٹ نہیں ہے‘ جس کے پاس ڈالرز ہیں وہ اپنا ریٹ دے رہا ہے۔ ایسی صورتحال پاکستان میں پہلے کبھی نہیں تھی۔ سٹیٹ بینک کو جلد ہی کوئی فیصلہ لینا ہو گا‘اس حوالے سے پہلے ہی بہت تاخیر ہو چکی ہے۔