پاکستانی سیاست میں وہ کردار زیادہ کامیاب رہے ہیں جو مزاحمت کی سیاست کرتے ہیں۔ عوام ہمیشہ ایسے سیاسی رہنما کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں جس کے بارے میں انہیں یقین ہو جائے کہ یہ بے گناہ ہے اور ظلم و جبر کے خلاف کھڑا ہے۔اس وقت عمران خان کی عوامی مقبولیت کی وجہ بھی یہی دکھائی دیتی ہے۔ جب سے تحریک انصاف کی وفاق میں حکومت ختم ہوئی ہے‘ چیئرمین تحریک انصاف ایک بیانیہ لے کر چل رہے ہیں کہ ان کے ساتھ ظلم ہوا ہے اور وہ جہاد کر رہے ہیں۔ اس وقت تک ان پر 80 سے زیادہ کیسز بنائے جا چکے ہیں۔ پولیس نے کئی مرتبہ انہیں گرفتار کرنے کی کوشش کی لیکن ہر بار عوامی ردعمل پولیس کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کرتا رہا۔ عمران خان پر عوام کا اعتماد اس لیے بھی بڑھ گیا ہے کہ اسّی سے زائد کیسز ہونے کے باوجود بھی وہ ملک سے باہر نہیں گئے بلکہ حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالا جائے۔ جب عوام کو یہ یقین ہو جائے کہ ان کا لیڈر مشکل حالات میں بھی ملک چھوڑ کر نہیں جائے گا تو ان کا اعتماد بڑھتا ہے اور وہ لیڈر کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس کے برعکس میاں نواز شریف بیماری کو سبب بنا کر جیل سے نکلے اور پھر چار ہفتوں کے لیے علاج کرانے لندن چلے گئے اور چار سال بعد بھی واپس نہیں آ رہے۔ عوام یہ سوال کرتے ہیں کہ میاں صاحب یورپ کے دورے کر رہے ہیں، مہنگے سٹورز سے شاپنگ کر رہے ہیں ، ہوٹلوں میں کھانے کھا رہے ہیں اور ادھر پاکستانی عوام معاشی بحران کا شکار ہیں‘ ان حالات میں ایک عوامی لیڈر کو عوام کے ساتھ پاکستان میں ہونا چاہیے لیکن ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ شاید میاں صاحب کو عوامی جذبات کی پروا نہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے اندر سے بھی نواز شریف کے وطن واپس نہ آنے سے متعلق آوازیں اٹھ رہی ہیں‘ اس کے باوجود بھی وہ ملک میں آنے کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتے۔ ان حالات میں عمران خان کی عوامی مقبولیت میں اضافہ فطری ہے۔ نواز شریف صاحب سے لندن میں ایک صحافی نے پوچھا کہ کیا عمران خان کو وقار سے گرفتاری دے دینی چاہیے تو میاں صاحب نے فرمایا کہ عمران خان کو تو وقار کا مطلب ہی نہیں پتا۔ اس طرح کے بیانات دینے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔ اگر خود میاں صاحب وقار کے ساتھ ملک واپس آ کر اپنے کیسز کا سامنا کرتے تو پھر عمران خان پر یہ اعتراض کیا جا سکتا تھا۔ علاوہ ازیں جب میاں صاحب کی گرفتاری ہونا تھی تو چند سو لوگ بھی احتجاجاً سڑکوں پر نہیں نکلے تھے جبکہ عمران خان کی ممکنہ گرفتاری کے خلاف پورے ملک میں جو عوامی ردعمل سامنے آیا ہے‘ وہ حیران کن ہے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب پولیس عمران خان رہائش گاہ میں داخل ہو گئی تھی لیکن پھر عوامی مزاحمت اور ردعمل نے پولیس کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ آنسو گیس اور ڈنڈوں سے لیس پولیس عوام کا دبائو برداشت نہیں کر سکی اور مجبوراً اسے پیچھے ہٹنا پڑا۔ کسی سیاسی رہنما کی گرفتاری کے وقت پورے ملک میں ایسے مناظر کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ سیاست قانون کی بالادستی کے بجائے طاقت کا کھیل بنتی جا رہی ہے۔ عوام کی اکثریت اُسی بات کو درست مانتی ہے جو ان کا لیڈر کہتا ہے۔ تحریک انصاف کے کارکنان کے لیے اس وقت عمران خان کا فرمان کسی قانون سے کم نہیں ہے۔
آئندہ دنوں میں ملک کے سیاسی حالات کیا ہوں گے‘ اس بارے کچھ بھی مکمل یقین اور دعوے سے نہیں کہا جا سکتا لیکن ایک بات طے ہے کہ اب روایتی طریقے کی سیاست نہیں چلے گی۔ عوام اسے ہی لیڈر مانیں گے جو ان کے درمیان ہو گا اور ان کے ساتھ مل کر ملکی حالات کا سامنا کرے گا۔ مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز جلسوں اور ورکرز کنونشنز کے ذریعے عوام میں کھوئی ہوئی مقبولیت کو دوبارہ پانے کی کوشش کر رہی ہیں لیکن موجودہ حالات میں عوام کو تقریروں کے ذریعے نہیں بہلایا جا سکتا۔ایسا لگتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی سینئر قیادت بھی مریم نواز کے بیانیے کو سپورٹ نہیں کرتی۔ ان کے بیانیے کے حق میں پارٹی کے اندر سے کوئی بھی آواز اٹھتی دکھائی نہیں دے رہی۔ انٹرنیشنل میڈیا میں بھی ان کی زیادہ پذیرائی نظر نہیں آ رہی۔ اس کے برعکس عمران خان میں یہ خوبی ہے کہ وہ انٹرنیشنل کمیونٹی کو اپنے ساتھ لے کر چلتے ہیں اور اپنے موقف سے کسی حد تک قائل بھی کر لیتے ہیں۔ پولیس نے عمران خان کو گرفتار کرنے کے لیے آنسو گیس کے جو شیل ان کے گھر کے اندر پھینکے‘ وہ انہوں نے اپنے سامنے میز پر رکھ کر انٹرنیشنل میڈیا کو انٹرویوز دیے‘ اس اقدام نے پوری دنیا کے میڈیا کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ اطلاعات ہیں کہ اب مختلف ممالک کی جانب سے عمران خان کی ممکنہ گرفتاری روکنے کے لیے دبائو ڈالا جا رہا ہے۔ افغانستان میں امریکہ کے سابق نمائندے ز لمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ ''عمران خان کو گرفتار کرنے سے پاکستان میں جاری بحران مزید سنگین ہو گا، یہ سنجیدہ، جرأت مندانہ اور حکمتِ عملی کا وقت ہے‘‘۔ اگرچہ دفترِ خارجہ نے سخت ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے کسی لیکچر کی ضرورت نہیں، لیکن اگر اسی طرح کے بیانات کچھ دیگر ممالک اور انٹرنیشنل فورمز سے بھی آتے ہیں تو اس کا سارا نقصان حکومت کے حصے میں آئے گا۔ یہ معاملات کب سلجھیں گے‘ اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن ایک بات مکمل یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ حکومت کی توجہ معیشت ٹھیک کرنے کے بجائے انتقامی سیاست پر زیادہ دکھائی دے رہی ہے۔
آئی ایم ایف سے معاہدہ ابھی تک نہیں ہو سکا جس کی وجہ سے روپیہ مزید کمزور ہو رہا ہے۔ انٹربینک میں ڈالر کا جو ریٹ بتایا جا رہا ہے‘ ٹرانزیکشنز اس سے زیادہ قیمت پر ہو رہی ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ بینک ایک مرتبہ پھر ایکٹو ہو رہے ہیں اور مبینہ طور پر ڈالر کی خریدو فروخت میں منافع کمایا جا رہا ہے۔ ڈار صاحب کے مطابق آئی ایم ایف معاہدہ پچھلے ہفتے ہونا تھا لیکن وہ ہفتہ گزر گیا اور معاہدہ نہیں ہوا۔ اب اگلا ہفتہ بھی نصف گزر چکا ہے اور ابھی تک معاہدہ ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔ ان حالات میں ایک مرتبہ پھر ملک کے دیوالیہ ہونے کی خبریں زور پکڑ رہی ہیں۔ بینک آف امریکہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ان حالات میں چین پاکستان کو بچا سکتا ہے کیونکہ زیادہ تر قرض چین کو ہی واپس کرنا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ چین ایک حد تک ہی پاکستان کی مدد کر سکے گا۔ چین کے سری لنکا کے ساتھ بہترین تعلقات تھے اور اس نے سری لنکا میں بھرپورسرمایہ کاری بھی کر رکھی تھی لیکن سری لنکا کو ڈیفالٹ ہونے سے وہ نہیں بچا سکا۔ اس وقت ہمارے ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ چینی قرضوں کے رُول اوور سے ہی ہوا ہے لیکن اکیلا چین پاکستان کو بحران سے نہیں نکال سکتا۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین معاملہ دوست ممالک کی جانب سے حاصل ہونے والی ضمانتوں میں تاخیر کی وجہ سے التوا کا شکار ہے۔ ان حالات میں حکومت عوام کو پٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی دینے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے جس پر آئی ایم ایف کو سخت اعتراض ہے۔ حکومت کو موجودہ حالات میں ہوش مندی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ابھی تک نواں جائزہ مکمل نہیں ہو سکا‘ اس کے بعد دسواں، گیارہواں اور بارہواں جائزہ بھی ہونا ہے۔ یہ پروگرام ختم ہونے کے بعد ایک مرتبہ پھر آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا یعنی آئی ایم ایف کی ضرورت ابھی مسلسل رہے گی۔ ان حالات میں آئی ایم ایف کی ناراضی مول لینا مستقبل کے حوالے سے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ اسحاق ڈار صاحب آئی ایم ایف کے ساتھ عدم اعتماد کو تاخیر کی وجہ قرار دیتے ہیں جو ایک طرح کا اعترافِ جرم ہے۔ دریں اثنا تقریباً دو سو ملٹی نیشنل کمپنیوں نے وزیراعظم کو خط لکھا ہے کہ وہ پچھلے دس ماہ سے منافع بیرونِ ملک شیئر ہولڈرز کو نہیں بھیج پارہیں‘ یہ منافع ایک ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ اس وقت ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر بمشکل ایک ماہ کی درآمدات کے برابر ہیں۔ ایک کمپنی کے ڈائریکٹر نے مجھے بتایا کہ کمپنیاں گرے مارکیٹ سے ڈالر خرید کر منافع بیرونِ ملک بھیجنے پر سنجیدگی سے غور کرنے لگی ہیں کیونکہ پاکستان میں ڈالر بحران تقریباً ایک سال تک مزید جاری رہ سکتا ہے۔ان حالات میں ڈالر ریٹ مزید اوپر جاسکتا ہے اور خدشہ ہے کہ ماضی کی طرح ایک بار پھر چوبیس گھنٹوں میں ڈالر ریٹ بڑھنے کے پچھلے تمام ریکارڈز ٹوٹ جائیں گے۔