سیاسی حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں‘ ان حالات کو تاریخ دو حصوں میں تقسیم کر سکتی ہے۔ 9 مئی سے پہلے کا پاکستان اور 9 مئی کے بعد کا پاکستان۔ آرمی چیف نے پچھلے دنوں ایک تقریب میں کہا تھا کہ نئے اور پرانے پاکستان کی بحث چھوڑ کر ''ہمارے پاکستان‘‘ کی بات کرنی چاہیے۔ ان کا یہ بیان قابلِ ستائش ہے۔ لیکن اُس وقت کسی کو نہیں اندازہ تھا کہ 9 مئی کا سانحہ ہو گا۔ قومی سلامتی کے اجلاس میں 9 مئی کو یومِ سیاہ کے طور پر منانے کا اعلان کیا جا چکا ہے۔ یقینا یہ تحریک انصاف کو سیاسی طور پر بہت مہنگا پڑے گا۔ 9 مئی کے بعد پاکستان تحریک انصاف کو پُرامن سیاسی جماعت کے طور پر یاد رکھے جانے کے امکانات کم ہیں۔ بعض اوقات سیاسی جماعتوں کی زندگی میں ایسے مواقع آتے ہیں جو ان کی ساخت اور ہیئت بدل دیتے ہیں۔ پاکستان میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ حالیہ تاریخ میں ایم کیو ایم اس کی واضح مثال ہے۔ 2016ء سے پہلے عوامی سطح پر یہ رائے تقویت اختیار کر چکی تھی کہ قائدِ متحدہ کے بغیر کراچی کی سیاست ممکن نہیں ہے اور ایم کیو ایم سے موصوف کو علیحدہ نہیں کیا جا سکتا لیکن پھر ایک تقریر نے انہیں ایم کیو ایم سے مائنس کر دیا اور آج وہ ماضی کا حصہ اور پاکستانی سیاست میں غیر متعلقہ بن چکے ہیں۔ اس وقت سوال یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ آنیوالے دنوں میں تحریک انصاف عمران خان کے بغیر چلائی جائے گی یا نہیں؟ اس حوالے سے کوئی بڑا دعویٰ کرنا ممکن نہیں لیکن ایک بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اگر چیئرمین تحریک انصاف معاملات کو سلجھانے کے بجائے ان پر تیل ڈالتے رہے تو نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔
فواد چودھری کی ضمانت اور اس کے بعد دوبارہ گرفتاری کے ڈر سے بھاگ کر ہائیکورٹ میں پناہ لینے پر عوام کی رائے منقسم نظر آ رہی ہے۔ کچھ اسے وقت کی ضرورت قرار دے رہے ہیں اور کچھ مکافاتِ عمل کہہ رہے ہیں۔ فواد چودھری کے بارے میں عمومی طور پر یہ رائے پائی جاتی ہے کہ وہ بہت جلد پارٹی اور بیان بدل لیتے ہیں۔ کچھ دن قبل وہ حقیقی آزادی کے نعرے لگا رہے تھے بلکہ جس دن وہ گرفتار ہوئے‘ انہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر عمران خان گرفتار رہے تو ملک میں یہ حالات تو پیدا ہوں گے لیکن گزشتہ شب جب وہ کئی گھنٹوں تک ہائیکورٹ میں پناہ لینے کے بعد میڈیا کے سامنے آئے تو اپنا تعارف شہیدوں اور غازیوں کے شہر کے حوالے سے کروایا۔ پہلے وہ کہہ رہے تھے کہ نو مئی کے واقعات میں تحریک انصاف کے لوگ ملوث نہیں تھے‘ اب ان کا کہنا ہے کہ جو بھی اس میں ملوث ہے، اس کے خلاف کارروائی کی جائے، چاہے اس کا تعلق تحریک انصاف سے ہی کیوں نہ ہو۔ اس کے برعکس چیئرمین تحریک انصاف کا ماننا ہے کہ تحریک انصاف کے لوگ اس میں شامل ہی نہیں تھے بلکہ وہ حکومت کو اس کا ذمہ دار قرار دے کر اس کے خلاف مقدمہ درج کرانے کے خواہاں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ تحریک انصاف کے گرد شکنجہ کسنے کے لیے کیا گیا۔ آنے والے دنوں میں کیا سیاسی تبدیلیاں آئیں گی‘ اس کا اندازہ کراچی سے پی ٹی آئی کے ایم این اے محمود مولوی اور پی ٹی آئی کے دیرینہ رکن عامر محمود کیانی کے استعفوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ خبریں آ رہی ہیں کہ مزید استعفے بھی آئیں گے۔ ملک کے ان سیاسی حالات میں سب سے زیادہ نقصان معیشت کا ہو رہا ہے۔
دوسری جانب ادارۂ شماریات کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق بڑی صنعتوں کی پیداوار رواں مالی سال میں مسلسل ساتویں مہینے بھی تنزلی کا شکار ہے، خاص طور پر برآمدی ٹیکسٹائل صنعت میں پیداواری عمل سست ہے۔ برآمدات میں کمی سے ظاہر ہوتا ہے کہ مجموعی معاشی شرحِ نمو آنیوالے مہینوں میں گرے گی۔ خیال کیا جارہا ہے کہ بڑی صنعتوں کی پیداواری سرگرمیوں میں کمی سے بڑی تعداد میں لوگ بیروزگار ہو جائیں گے۔یہ تخمینہ لگایا گیا ہے کہ مالی سال 23-2022ء کی چوتھی سہ ماہی زیادہ متاثر ہوگی جس کی وجہ صنعتوں کے لیے توانائی کی سبسڈی ختم کرنا اور روپے کی قدر میں کمی کے سبب خام مال کی قیمتیں بلند اور توانائی کی زیادہ لاگت ہے۔ آئی ایم ایف نے حال ہی میں پاکستان کی معاشی نمو مالی سال 2023ء کے لیے کم کر کے 0.5 فیصد تک رہنے کی پیش گوئی کی ہے۔ عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک نے بھی شرحِ نمو بالترتیب 0.4 فیصد اور 0.6 فیصد رہنے کی توقع ظاہر کی ہے۔ فروری میں بڑی صنعتوں کی پیداوار میں سالانہ بنیادوں پر 11.6 فیصد کمی ہوئی۔ جنوری میں 7.9 فیصد اوردسمبر 2022ء میں 3.51 فیصد کمی ہوئی۔ اسی طرح نومبر 2022ء میں منفی شرح نمو 5.49 فیصد، اکتوبر میں 7.7 فیصداور ستمبر میں 2.27 فیصد رہی جبکہ اگست میں 0.30 فیصد کا معمولی اضافہ ریکارڈ کیا گیا تھا لیکن رواں مالی سال کے پہلے مہینے جولائی 2022ء میں بڑی صنعتوں کی پیداوار میں 1.67 فیصد تنزلی ہوئی تھی۔ٹیکسٹائل سیکٹر کی پیداوار پچھلے سال کے مقابلے میں 30.74 فیصد سکڑ گئی ہے۔مارچ میں پٹرولیم مصنوعات کی 16.06 فیصد منفی نمو ریکارڈ کی گئی، اس کی بنیادی وجہ پٹرول اور ہائی ڈیزل کی پیداوار میں کمی ہے جبکہ تمام پٹرولیم مصنوعات کی پیداوار میں (ماسوائے جیٹ فیول، مٹی کا تیل، جیوٹ اور بلیچنگ تیل) سست روی دیکھی گئی۔ مارچ میں آٹو سیکٹر میں 24.68 فیصد کی تنزلی دیکھی گئی، ڈیزل انجن کے علاوہ تقریباً تمام قسم کی گاڑیوں کی پیداوار گر گئی۔لوہے اور سٹیل کی پیداوار بھی مارچ میں 5.07 فیصد گھٹ گئی۔ اس وقت معیشت کے تقریباً تمام اشاریے منفی ہو چکے ہیں لیکن سرکار نہ تو اس کی وجوہات بتانے میں دلچسپی رکھتی ہے اور نہ ہی ان کا حل تجویز کرتی دکھائی دیتی ہے۔ یہ صورتِ حال تشویش ناک ہے۔
پاکستان کی معیشت میں ترسیلاتِ زر یعنی بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی گئی رقوم کو آکسیجن کا درجہ حاصل ہے اور یہ ملک کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے اور جاری کھاتوں کے خسارے کو کم کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔اس بات کا اندازہ ایسے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ مالی سال 22 کروڑ سے زائدآبادی والے ملک نے مجموعی طور پر 30 ارب ڈالر کی برآمدات کیں جبکہ بیرونِ ملک مقیم 90 لاکھ پاکستانیوں نے اس عرصے میں لگ بھگ 30 ارب ڈالر کی رقوم پاکستان بھجوائیں۔اس رقم سے پاکستان کے جاری کھاتوں کے خسارے کو کم کرنے میں مدد ملی جس کے باعث گزشتہ مالی سال کے اختتام پر خسارہ 17.4 ارب ڈالر رہا۔البتہ رواں مالی سال میں اب تک کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ بیرونِ ملک پاکستانیوں کی جانب سے رقم بھجوانے کے سلسلے میں کمی آئی ہے۔اس کی وجہ ایک مرتبہ پھر گرے مارکیٹ کا پیدا ہونا ہے۔ اس وقت انٹربینک اور گرے مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت میں تقریباً 25 روپے کا فرق ہے جس کی وجہ سے بیرونِ ملک پاکستانی بینکنگ چینلز کے بجائے حوالہ ہنڈی سے پیسہ بھیج رہے ہیں اوربدقسمتی سے حکومت اس معاملے پر بھی خاموش ہے بلکہ امپورٹرز کو ہنڈی سے پیسہ منگوانے کی اجازت دے کر اس کو پروموٹ کر رہی ہے۔ پاکستان کو جون سے پہلے 3 ارب 70 کروڑ ڈالرز ادا کرنے ہیں اگر ترسیلاتِ زر میں مسلسل کمی آتی رہی تو قرض کی ادائیگی مزید مشکل ہو سکتی ہے۔
جہاں تک معاملہ بجٹ کا ہے تو اس حوالے سے متعدد سٹیک ہولڈرز نے گلہ کیا ہے کہ حکومت 9 جون کو بجٹ پیش کرنے جا رہی ہے لیکن ماضی کے برعکس اس مرتبہ ان سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی جس سے یہ خدشہ بڑھ گیا ہے کہ یہ بجٹ آئی ایم ایف کی ہی ایک دستاویز ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط پوری ہونے کے بعد بھی اب تک معاہدہ نہیں ہوا‘ کیا بجٹ آئی ایم ایف کی منشا کے مطابق پیش کرنے سے معاہدہ ہو جائے گا؟ ایک طرف حکومت آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنے کی خواہاں ہے اور دوسری طرف پٹرولیم مصنوعات پر ریلیف دیا جا رہا ہے۔ وزیر خزانہ آئی ایم ایف حکام سے میٹنگز کر رہے ہیں اور وزیر توانائی کہہ رہے ہیں کہ اگر آئی ایم ایف سے معاہدہ نہ ہوا تو پاکستان کا چین پر انحصار بڑھ جائے گا۔ لیکن وہ شاید یہ نہیں جانتے کہ پاکستان نے نہیں‘ یہ فیصلہ چین نے کرنا ہے۔