پاکستان اس وقت شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔ اس کی بڑی وجہ سیاسی غیریقینی کی صورتحال ہے۔ عوامی سطح پر یہ سوال ہر خاص و عام کی زبان پر ہے کہ کیا ملک میں عام انتخابات وقت پر ہوں گے یا نہیں؟ اس سوال کا مقصد یہ جاننا ہے کہ آنے والے دنوں میں ملک کی معاشی صورتحال کیسی ہو گی؟ قارئین آج کل کثرت سے یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا ملک کی معاشی حالت بہتر ہو گی یا نہیں؟ میں چونکہ جوتشی نہیں ہوں اس لیے مکمل یقین سے کوئی دعویٰ کرنے میں محتاط رویہ اختیار کرنا ہی مناسب سمجھتا ہوں‘ اس لیے اگر اور مگر کے ساتھ اپنی رائے پیش کر رہا ہوں۔ اگر حکومت اگست میں گھر جانے اور نگران سیٹ اَپ لانے کے لیے تیار ہو چکی ہے تو اگلے مہینے سے عوام کو بھاری ریلیف ملنا شروع ہو سکتا ہے۔ 30جون کے بعد انٹر بینک میں ڈالر ریٹ کم کیے جانے کی اطلاعات بھی ہیں۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ریکارڈ کمی کی جا سکتی ہے۔ آٹا‘دال‘ چینی اور دیگر اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں کمی ہو سکتی ہے‘ جو کہ مہنگائی کی شرح میں کمی لانے کا سبب بنے گی۔ جب مہنگائی کم ہوتی ہے تو شرحِ سود بھی کم ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ شرحِ سود کم ہونے سے عوام بینکوں سے پیسہ نکال کر کاروبار یا رئیل سٹیٹ میں لگانے کو ترجیح دے سکتے ہیں۔ شرح نمو بہتر ہو سکتی ہے اور مایوسی کے بادل جھٹ سکتے ہیں لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو کیا یہ سب حقیقی اعدادوشمار ہوں گے؟ میرے نزدیک اگر ایسا ہوا تو یہ اکانومی کو مصنوعی طور پر بہتر بنانے کی ایک کوشش ہو گی تا کہ سیاسی تقریروں میں بہتر اعدادوشمار پیش کیے جا سکیں اور کامیاب الیکشن مہم چلائی جا سکے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت فی الحال 30جون گزرنے کا انتظار کر رہی ہے کیونکہ آئی ایم ایف پروگرام 30جون کو ختم ہو رہا ہے جس کے بعد پاکستان وقتی طور پر آئی ایم ایف سے آزاد ہو جائے گا۔ اس کے بعد حکومت معاشی فیصلے لینے میں زیادہ آزاد ہو گی۔ خدشہ ہے کہ جس طرح تحریک انصاف نے اپنی حکومت کے خاتمے سے چند ماہ پہلے معاشی اعدادوشمار بہتر کرنے کے لیے مبینہ طور پر بارودی سرنگیں بچھائی تھیں‘ پی ڈی ایم بھی ایسا کر سکتی ہے جو کہ ملک کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ نگران سیٹ اَپ کو غیر مقبول فیصلے کرنا پڑ سکتے ہیں اور آئی ایم ایف کی مرضی کے مطابق منی بجٹ دسمبر 2023ء میں پیش ہو سکتا ہے۔ دوسری صورتحال یہ ہو سکتی ہے کہ حکومت اپنی مدت بڑھا دے اور نگران سیٹ اَپ کے بجائے موجودہ وفاقی حکومت ہی مزید کچھ ماہ چلائی جائے۔ اگر ایسا ہوا تو عوام کو فوراً بڑے ریلیف ملنے کے امکانات کم ہو سکتے ہیں۔
سرکار اس وقت سیاسی فوائد کی طرف دیکھ رہی ہے اور عوام اس سے معاشی فوائد کی توقع لگائے بیٹھے ہیں جبکہ ملک معاشی اعتبار سے آئی سی یو میں پڑا دکھائی دے رہا ہے۔ مالی سال 2024ء کو پاکستان کے لیے مشکل ترین مالی سال قرار دیا جارہا ہے۔ کسی ملک کے دیوالیہ ہونے کی جو نشانیاں ہوتی ہیں‘ وہ تقریباً تمام ہمارے ملک میں ظاہر ہو چکی ہیں۔ پاکستان کے پاس بمشکل ایک مہینے کی درآمدات کے برابر ڈالر ذخائر موجود ہیں۔ اگلے مالی سال میں پاکستان کو تقریباً آٹھ ارب 70کروڑ ڈالرز کے ایسے بیرونی قرض ادا کرنے ہیں جو کہ رول اوور نہیں ہو سکتے۔ اس کے علاوہ تقریباً پانچ ارب ڈالرز کے نجی قرضے بھی ادا کرنے ہیں یعنی اگلے مالی سال میں مجموعی طور پر 13ارب 70کروڑ ڈالرز ہر صورت ادا کرنے ہیں۔ اگر نیا آئی ایم ایف پروگرام اگلے مالی سال کی دوسری سہ ماہی میں نہیں لایا جاتا تو دسمبر تک ملک کے زرِمبادلہ کے ذخائر منفی ہو سکتے ہیں۔ جون میں تقریباً تین ارب 60کروڑ ڈالرز کی ادائیگی کرنا تھی جن میں سے 400ملین ڈالرز پہلے ہی ادا کر دیے گئے تھے۔ دو ارب 30کروڑ ڈالرز رول اوور ہونے کے لیے حکومت پُرامید تھی جن میں سے ایک ارب ڈالر واپس آ چکے ہیں اور بقیہ 900ملین ڈالرز کی ادائیگی حکومت 30جون سے قبل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ لیکن ایک ارب 30کروڑ ڈالرز کو رول اوور کرنے کے لیے پہلے انہیں ادا کرنا ضروری ہے۔ اگر اس سال مزید ایک ارب 30کروڑ ڈالرز کامیابی سے رول اوور ہو جاتے ہیں تو اگلے سال جون 2024ء تک تین ارب 80کروڑ ڈالرز سیف ڈپازٹس کی مد میں چینی حکومت کو واپس کرنا ہوں گے۔ فی الحال ایک ارب ڈالرز چین سے مل گئے ہیں۔ رواں ہفتے حکومت نے چین کو ایک ارب ڈالرز قرض واپس کیا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق حکومت کا خیال ہے کہ وہ اگلے مالی سال کے تقریباً 25ارب ڈالرز کے قرض میں سے تقریباً 12ارب ڈالرز ایک مرتبہ پھر رول اوور کروانے میں کامیاب ہو جائے گی لیکن بین الاقوامی ادارے ان مفروضوں پر یقین نہیں رکھتے۔ چین کے علاوہ بقیہ قرضوں کے رول اوور ہونے کے امکانات کم ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگلے مالی سال میں حکومت تقریباً ساڑھے 13ارب ڈالرز کے رول اوور نہ ہونے والے قرض کیسے ادا کرے گی۔ کیا چین پاکستان کو مزید 13ارب ڈالرز قرض دے گا۔ کیا پاکستان ایک مرتبہ پھر سعودی عرب اور یو اے ای کے سامنے مزید قرض کی درخواست کرے گا۔ یا پھر چین کو چھوڑکر امریکہ اور آئی ایم ایف کی بیلٹ میں شامل ہو جائے گا۔ موجودہ حالات میں چین پاکستان کا مکمل ساتھ دے رہا ہے۔ میں نے اپنے پچھلے کالم میں ذکر کیا تھا کہ پاکستان نے وقت سے پہلے ایک ارب ڈالرز کا چینی قرض ادا کیا ہے۔ عمومی طور پر وقت سے پہلے قرض ادا کرنے میں چینی بینکس جرمانہ وصول کرتے ہیں لیکن چینی حکومت کی مہربانی سے اس مرتبہ پاکستان کو جرمانہ نہیں کیا گیا ہے۔ شیڈیول کے مطابق یہ ادائیگی 28جون کو ہونا تھی۔ پاکستان کی جانب سے تقریباً 18روز قبل ادائیگی کی گئی تاکہ 30جون سے پہلے قرض رول اوور ہو سکے۔ میرے مطابق چین کے ساتھ پاکستان کا آج تک کا یہ تیز تین رول اوور ہے۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ اسحاق ڈار صاحب کے آئی ایم ایف مخالف بیانات کام دکھا رہے ہیں۔ ڈار صاحب کا آئی ایم ایف سے موجودہ رویہ قرض لینے والوں جیسا نہیں بلکہ قرض دینے والوں جیسا ہے۔ اس کے پیچھے یقینا چین کی اشیرباد ہو سکتی ہے لیکن وزیر خزانہ کا عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ یہ رویہ پاکستان کے لیے مستقبل میں پریشانیاں پیدا کر سکتا ہے۔ ادارے وزیر خزانہ کے رویے کو ملک کا رویہ سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کے دور میں توڑے گئے وعدوں کی وجہ سے آئی ایم ایف موجودہ حکومت پر بھی عدم اعتماد کا اظہار کر رہا ہے۔ یہ وقت جذبات سے کام لینے کے بجائے سمجھداری دکھانے کا ہے کیونکہ وزرا کے جذبات کی قیمت ملک اور عوام کو ادا کرنا پڑتی ہے۔ ایک وقت تھا کہ اسحاق ڈار صاحب اور آئی ایم ایف کے بہترین تعلقات کے چرچے ہر طرف تھے جس کا کریڈٹ ڈار صاحب اب بھی لیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کا ایک ہی پروگرام مکمل کیا ہے اور وہ بھی میرے دور میں مکمل ہوا تھالیکن وہ عوام کو یہ حقیت نہیں بتاتے کہ اس وقت آئی ایم ایف نے پاکستان کو تقریباً 16شرائط پر استثنا دیا تھا کیونکہ پاکستان اس وقت امریکہ کے گروپ میں تھا اور افغانستان میں امریکہ کی جنگ لڑ رہا تھا۔ جنگ ختم ہونے کے بعد اب امریکہ کو پاکستان کی ضرورت نہیں رہی ہے اس لیے آئی ایم ایف شرائط پر استثنا بھی نہیں مل رہا ہے۔
وزیر خزانہ صاحب بہترین معاشی اشاریوں کا دعویٰ کر رہے ہیں جبکہ حقائق قدرے مختلف ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ملک میں بے روزگاری کی شرح میں 11فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ خطِ غربت سے نیچے عوام کی تعداد تقریباً 10کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ اشیائے خورونوش کی مہنگائی 53فیصد سے بڑھ چکی ہے اور صرف ایک مہینے کی امپورٹ کے برابر ڈالرز کی وجہ سے ڈالر کی حقیقی قدر تقریباً 320 روپے کے قریب ہے۔ وزیر خزانہ کے مطابق ڈالر کا رئیل ایفیکٹو ایکسچینج ریٹ تقریباً 244روپے ہے جو کہ غلط اندازہ ہے۔ ڈالر ریٹ کو 244کے قریب لانے کے لیے پاکستان کے زرِمبادلہ کے ذخائر تقریباً تین ماہ کی امپورٹ کے برابر ہونے چاہئیں۔ آئی ایم ایف کا بھی یہی مطالبہ ہے جبکہ وزیر خزانہ صاحب ڈالر ریٹ کو آزاد چھوڑنے کے بجائے کنٹرول کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ آئی ایم ایف گرے مارکیٹ ریٹ کو حقیقی ریٹ سمجھتا ہے۔ ڈار صاحب نے گرے مارکیٹ کو نیچے لانے کے لیے کافی اقدامات کیے ہیں لیکن مطلوبہ کامیابی نہیں مل رہی۔ ایک دو دن کے وقفے سے ڈالر کی قدر میں آٹھ دس روپے کا فرق معمول کی بات بن گیا ہے۔ وزیر خزانہ صاحب سے گزارش ہے کہ معیشت کو انہی اصولوں پر چلائیں جو جدید دنیا میں رائج ہیں۔ معیشت کو اپنی خواہشات کے مطابق چلانے کے ملک کو ناقابلِ تلافی نقصانات برداشت کرنا پڑ سکتے ہیں۔