پاکستان کے معاشی مسائل کا حل پیش کرنا اور اس پر صحیح معنوں میں عمل درآمد کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ معاشی صورتحال تشویشناک ہے۔ چاروں اطراف سے مسائل میں گھری ملکی معیشت روز بروز دلدل میں دھنستی دکھائی دے رہی ہے۔ اگر اسے دلدل سے نکالنے کیلئے بروقت انتظامات نہ کیے گئے تو شاید خوشحالی اور ترقی ایک خواب ہی بن کر رہ جائے۔ میں نے پچھلے کالموں میں ذکر کیا تھا کہ حکومت کے پاس معیشت کا پلان بی موجود ہے۔ اطلاعات کے مطابق حکومت یہ پلان بجٹ سے پہلے پیش کرنا چاہتی تھی لیکن آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کا نام 29 جون کی میٹنگ میں شامل ہونے یا نہ ہونے کے فیصلے کا انتظار کیا جا رہا تھا۔ گو کہ وزیراعظم صاحب بائیس تا تئیس جون کو پیرس میں گلوبل فنانشل پیکٹ میں آئی ایم ایف حکام سے ملاقات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، لیکن اس ملاقات سے زیادہ امیدیں وابستہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ پلان بی میں حکومت نے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں 'معاشی بحالی‘ کی جامع حکمت عملی جاری کی ہے جس کا مقصد اہم شعبوں میں غیر استعمال شدہ وسائل کو بروئے کار لاکر اور دوست ممالک کی سرمایہ کاری سے فائدہ اٹھا کر ملکی معیشت کو بحال کرنا ہے۔ اس حکمت عملی کو 'اکنامک ریوائیول پلان‘ کا نام دیا گیا ہے۔ جس کا مقصد ملک کو درپیش معاشی مسائل اور بحرانوں سے نجات دلانا اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی راہ ہموار کرنا ہے۔ غیرملکی سرمایہ کاری کے راستے میں رکاوٹیں دور کرنے کیلئے قائم کردہ 'سپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل‘ (ایس آئی ایف سی) کے پہلے اجلاس میں آرمی چیف نے خصوصی خطاب کیا اور یقین دلایا کہ معاشی بحالی کے حکومتی پلان پر عملدرآمد کی کوششوں کی پاک آرمی بھرپور حمایت کرتی ہے اور اسے پاکستان کی سماجی و معاشی خوشحالی اور اقوام عالم میں اپنا جائز مقام واپس حاصل کرنے کی بنیاد سمجھتی ہے۔
آرمی چیف کا معاشی بحالی کے مقصد کی تکمیل کیلئے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرانا یقینا ایک حوصلہ افزا عمل ہے۔ پاک فوج نے ماضی میں بھی ملک کو معاشی بحرانوں سے نکالنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ نئے منصوبے کے مطابق زراعت، لائیو سٹاک، معدنیات، کان کنی، آئی ٹی، توانائی اور زرعی پیداوار جیسے شعبوں میں پاکستان کی اصل استعداد سے استفادہ حاصل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ان شعبوں کے ذریعے مقامی پیداواری صلاحیت اور دوست ممالک سے سرمایہ کاری بڑھائے جانے کا منصوبہ ہے۔ آئندہ پانچ سے سات سال کیلئے 112 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا پلان ہے۔ ایک اجتماعی حکومت کے تصور کو فروغ دیا جا سکتا ہے تاکہ سرمایہ کاری اور کاروباری سرگرمیوں میں حائل تمام رکاوٹیں دور کی جا سکیں۔ سپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) سرمایہ کاروں اور سرمایہ کاری میں سہولت کیلئے 'سنگل ونڈو‘ کی سہولت کا کردار ادا کر سکتی ہے۔ وَن ونڈو کی سہولت ایک انقلابی قدم ثابت ہو سکتا ہے۔ ہمسایہ ملک بھارت نے 90ء کی دہائی میں منموہن سنگھ کی سربراہی میں جب معاشی اصلاحات کی تھیں تو سرمایہ کاروں کیلئے سنگل ونڈو سہولت فراہم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ سرمایہ کاروں اور سرکار کے درمیان سرکاری بابوؤں کی رکاوٹیں ہٹائی گئیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اگر کسی فیکٹری کو رجسٹرڈ کرانے میں تین سے چار ماہ کا وقت لگتا تھا وہ صرف ایک دن میں رجسٹر ہونے لگی۔ بھارتی معیشت کو بیرونی سرمایہ کاروں کیلئے کھول دیا گیا‘ ان کیلئے خصوصی شکایت سیل بنایا گیا جہاں سرمایہ کاروں کی شکایات پر چوبیس گھنٹوں کے اندر ایکشن لیا جاتا تھا۔ ان اقدامات سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوا اور 1992ء میں دیوالیہ ہونے کے قریب بھارتی معیشت آج ساڑھے پانچ سو ارب ڈالرز سے زیادہ کے زرِمبادلہ ذخائر رکھتی ہے۔ برطانیہ کو پیچھے چھوڑ کر یہ دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن گئی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ بھارت کی ترقی میں صرف سرمایہ کاروں کو سہولت ہی واحد وجہ ہے۔ بہت سے عوامل نے مل کر اسے یہاں تک پہنچایا ہے لیکن سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال رکھنا انتہائی اہم اور بنیادی وجہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہاں بھارت ہی کی مثال کیوں دی جا رہی ہے۔ کئی دوسرے ممالک نے بھی اسی فارمولے پر ترقی کی ہے‘ ان کا نام بھی لیا جا سکتا تھا۔ لیکن میرا ماننا ہے آپ کا حریف ہی آپ کا بہترین استاد ہوتا ہے۔ ہمیں سیکھنا چاہیے کہ ہم اکٹھے آزاد ہوئے تھے۔بھارت نے ایسا کیا کیا کہ آج وہ آئی ایم ایف کو قرض دیتا ہے اور پاکستان آئی ایم ایف سے قرض لینے کے لیے ناک سے لکیریں نکالنے پر مجبور ہے۔
نئی حکمت عملی بہتر دکھائی دے رہی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ چین اور دوست عرب ممالک زراعت اور لائیو سٹاک میں سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ خصوصی طور پر چین کارپوریٹ اور کمرشل بنیادوں پر جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے زرعی شعبے میں کام کرنے کیلئے تیار ہے۔ یہ منصوبہ چند دن پہلے کی بات نہیں بلکہ اطلاعات ہیں کہ پچھلے پانچ ماہ سے اس کی تیاری کی جا رہی تھی۔ آرمی چیف نے تین ماہ قبل بزنس کمیونٹی کے نمائندوں سے ملاقات میں بھی اس منصوبے کا ذکر کیا تھا۔ روس اور ایران سے نئے تجارتی معاہدے، چینی کرنسی میں تیل کی ادائیگی، سولہ پاکستانی کمپنیوں کو روس کو چاول برآمد کرنے کی اجازت اور پاکستانی گوشت کی روسی مارکیٹو ں تک رسائی اس بڑے معاشی منصوبے کی طرف پہلے ہی اشارہ کر رہے تھے لیکن ہمارا مسئلہ یہ بھی رہا ہے کہ یہاں اعلانات ہو جاتے ہیں‘ منصوبے شروع ہو جاتے ہیں لیکن پھر حکومت تبدیل ہوتی ہے تو نئے اعلانات کر کے پرانے منصوبے ختم کر دیے جاتے ہیں۔ موجودہ حالات میں یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ حکومت کے پاس تو دو ماہ سے بھی کم کا مینڈیٹ رہ گیا ہے‘ اس کے بعد نگران حکومت آئے گی‘ الیکشن ہوں گے اور نجانے کون سی پارٹی وفاق میں حکومت بنائے‘ اس صورتحال میں ان منصوبوں کو عملی جامہ کیسے پہنایا جائے گا۔ کیا چین اور عرب ممالک نئی حکومت کے قیام کے بعد ملک میں سرمایہ کاری کریں گے یا موجودہ سیٹ اَپ کو ہی ایکسٹینشن دی جائے گی۔ بظاہر امکانات تو یہی ہیں کہ الیکشن نومبر میں ہوں گے لیکن یہاں کب کیا ہو جائے‘ کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ گو کہ سرمایہ کار سیاسی حکومتوں کے بجائے 'اصل سٹیک ہولڈرز‘ سے معاملات طے کرنے پر زیادہ زور دیتے ہیں لیکن سیاسی جماعتوں کی اہمیت سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ماضی میں نواز شریف دور میں سی پیک پر بہترین کام ہو رہا تھا مگر تحریک انصاف کی حکومت میں سی پیک کے منصوبوں کو تقریباً روک دیا گیا اور چین کی ناراضی کے باوجود بھی ان پر کام نہیں کیا گیا۔ موجودہ اتحادی حکومت میں شامل کوئی جماعت بھی آئندہ وفاق میں حکومت بنا سکتی ہے‘ اگر اس طرح کا سیٹ اَپ بن جاتا ہے تو ممکن ہے کہ موجودہ معاشی پالیسیوں کو نہ چھیڑا جائے اور منصوبوں کو روکنے کے بجائے انہیں مزید سپورٹ فراہم کی جا ئے۔
ملک کی معاشی سمت درست کرنے کیلئے صرف اعلانات کر دینا کافی نہیں ہے بلکہ کاروبار دوست ماحول بنانا بھی ضروری ہے۔ اس وقت شرحِ سود21 فیصد سے زائد ہے۔ اس شرح کے ساتھ بینکوں سے قرض لے کر کاروبار کرنے سے مطلوبہ منافع کمانے کے امکانات کم ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی اور انٹر بینک ڈالر ریٹ میں اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے مہنگائی میں کمی آ سکتی ہے۔ اگرچہ کچھ عالمی ادارے شرحِ سود مزید بڑھانے پر زور دے رہے ہیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ شرحِ سود میں کمی لانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ بیرونی سرمایہ کاروں کو محض سہولتیں فراہم کر دینا کافی نہیں۔ جب تک مقامی سرمایہ کاروں کو سہولت نہیں دی جائے گی معیشت کا پہیہ چلنا مشکل ہے۔ اور یہ کام شرحِ سود کم ہونے سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ اس فیصلے پر بینکوں کو اعتراض ہو سکتا ہے لیکن پچھلے چھ ماہ سے بینکوں نے ریکارڈ منافع کمایا ہے۔ تقریباً تمام شعبے مالی مشکلات کا شکار رہے لیکن بینکنگ شعبہ بہترین منافع کماتا رہا۔ امید کی جا سکتی ہے کہ اب وہ قربانی دینے کے لیے تیار ہو جائیں گے۔ معیشت کے پلان بی کو کامیاب بنانے کے لیے سب کو اپنا حصہ ڈالنا چاہیے ۔ اسی صورت میں ملک پر موجودہ فیصلوں کے مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اور ملک اپنے پیروں پر کھڑا ہو سکتا ہے۔