مشرقِ وسطیٰ میں جاری کشیدگی اگر مزید طول پکڑتی ہے تو اس صورت میں پاکستان کی معیشت پر اس کے گہرے منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ یہ ایک طویل جنگ ہو سکتی ہے اور اس کے معاشی اثرات پاکستان پر بھی نظر آسکتے ہیں کیونکہ اس جنگ کی وجہ سے خام تیل کی قیمتوں میں اضافے کا خدشہ ہے جس سے پاکستان میں بھی آئندہ مہینوں میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ پاکستان کے معاشی مسائل کے تناظر میں یہ بات بھی اہم ہے کہ گزشتہ ہفتے ملک میں ایک بار پھر انٹر بینک میں روپے کی قدر میں کمی آنا شروع ہوئی جبکہ اس سے قبل ڈالر کی سمگلنگ کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کے باعث روپے کی قد ر میں نمایاں اضافہ ہوا تھا۔ پاکستان کے اندرونی عوامل ایک طرف لیکن خام تیل کی قیمتیں بڑھنے اور روپے کی قدر میں کمی کا سلسلہ اگر پھر سے شروع ہوگیا تو اس دو دھاری تلوار کا نتیجہ مزید مہنگائی کی صورت میں برآمد ہو گا۔
پاکستانی روپے کی قدر میں حالیہ بہتری ممکنہ طور پر قلیل المدت ہے۔ بڑھی ہوئی شرحِ سود ، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ قلیل مدتی انتظامات اور بیرونی توازن کو سہارا دینے کے لیے دو طرفہ مالی اعانت کے کم انتظامات کے باعث روپے کی قدر میں حالیہ بہتری جُز وقتی دکھائی دیتی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کی جنگ کے باعث امریکہ کی معیشت پر پڑنے والے اثرات بھی مقامی سطح پر مرتب ہو سکتے ہیں۔ رواں مالی سال کے پہلے دو ماہ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی برآمدات میں 8 فیصد کمی دیکھی گئی جبکہ جولائی اور اگست میں پاکستان صرف ساڑھے چار ارب ڈالر کی برآمدات کرپایا جو گزشتہ سال کے اس عرصے میں پانچ ارب ڈالر تھیں۔ دوسری جانب تیل کی قیمتوں میں اضافے کا رجحان جاری رہا تو ایسی صورت میں تجارتی خسارہ مزید بڑھ سکتا ہے اور معاشی ترقی کی رفتار‘ جو پہلے ہی انتہائی کم ہے‘ مزید کم رہنے کا خدشہ ہے۔ معاشی نمو میں کمی ملازمتوں میں کمی، غربت میں اضافے اور ان سے پیدا ہونے والے سماجی اور معاشی حالات مزید خرابیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ آئی ایم ایف نے اپنی تازہ رپورٹ میں پاکستان کی اقتصادی نمو 2.5 فیصد رہنے کی توقع ظاہر کی ہے جبکہ اس سے قبل ایشیائی ترقیاتی بینک نے ترقی کی شرح اس سے بھی کم یعنی 1.9 فیصد رہنے کی توقع ظاہر کی تھی۔ علاقائی ممالک کا جائزہ لیں تو بھارت کی اقتصادی ترقی کی شرح اس سال 6.3 فیصد، مالدیپ کی 6.5 فیصد، نیپال کی 3.9 فیصد اور بنگلہ دیش کی 5.6 فیصد رہنے کی توقع ہے۔ دوسری جانب عالمی معیشت کی تنزلی سے بیرونِ ملک سے بھیجی جانے والی ترسیلاتِ زر میں بھی کمی آ سکتی ہے۔ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے رواں مالی سال کے پہلے دو ماہ میں بھیجی جانے والی رقوم میں 21 فیصد کی بڑی کمی دیکھی گئی ہے اور یہ رقم 4 ارب 10 کروڑ ڈالر ریکارڈ کی گئی۔ اگر جنگ جاری رہتی ہے تو اس سے امریکہ اور یورپ کی معیشتوں میں مندی آئے گی جس سے بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی ترسیلاتِ زر میں مزید کمی کا خدشہ ہے۔ یہ بجا کہ پاکستانیوں کی ترسیلاتِ زر میں بڑا حصہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں مقیم پاکستانیوں کا ہے؛ تاہم مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کا دائرۂ کار بڑھنے کی صورت میں یہاں کی معیشتوں میں بھی سست روی آسکتی ہے جو براہِ راست پاکستانیوں کی ترسیلاتِ زر کو کم کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔ اسرائیل‘ حماس جنگ کے باعث منفی معاشی اثرات بڑھے ہیں اور ایسے علاقائی ممالک جو پہلے ہی معاشی عدم استحکام کا شکار ہیں‘ جن میں مصر، اردن، شام اور لبنان وغیرہ شامل ہیں‘ یہ اثرات ان ممالک کی مالی اور سیاسی حالت پر مزید منفی اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔ مصر، لبنان اور اردن سے متعلق آئی ایم ایف کی ستمبر میں جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ یہ ممالک اپنا سماجی و سیاسی استحکام کھو سکتے ہیں کیونکہ ان ممالک کو پہلے ہی مختلف اقسام کے معاشی دباؤ کا سامنا ہے۔ اگر صورتحال پر جلد قابو نہ پایا گیا تو یہ بحران اس پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے جو تیل کی عالمی سپلائی کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ورلڈ بینک نے بھی اس جاری لڑائی میں وسعت کی صورت میں عالمی سطح پرتیل کی قیمتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا ہے جس سے دنیا بھر میں مہنگائی کا نیا طوفان اٹھ سکتا ہے۔ اگر جلد جنگ بندی ہو جاتی ہے تو پھر تیل کی قیمتوں پر اس کے اثرات محدود نوعیت کے ہوں گے لیکن اگر لڑائی مزید پھیل جاتی ہے تو پھر صورتِ حال تیزی سے خراب ہوسکتی ہے۔
اگر تصادم وسعت اختیار نہیں کرتا تو پھر اس کے اثرات محدود ہو سکتے ہیں کیونکہ تیل کی قیمتیں‘ جو اس وقت 90 ڈالر فی بیرل ہیں‘ توقع ہے کہ آئندہ سال یہ 81 ڈالر فی بیرل تک آجائیں گی۔ اگر تیل کی سپلائی میں خلل درمیانے درجے کا ہوا تو عالمی سطح پر تیل کی یومیہ سپلائی میں کمی ہوسکتی ہے اور ممکنہ طور تیل کی قیمتوں میں 35 فیصد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ سے تیل کی سپلائی میں درمیانی نوعیت کا خلل عراق کی جنگ کے دوران بھی پڑا تھا۔ اگر سپلائی میں بڑے پیمانے کا خلل پڑتا ہے‘ جیسے 1973ء میں عربوں نے تیل کی سپلائی مکمل بند کر دی تھی‘ توعالمی سطح پر سپلائی میں واضح کمی سے تیل کی قیمتیں 56 فیصد سے75 فیصد تک بڑھ سکتی ہیں یعنی فی بیرل قیمتیں 140 ڈالر سے 157 ڈالر فی بیرل تک جا سکتی ہیں۔ واضح رہے کہ یوکرین پر روس کے حملے کے عالمی معیشت پر جو منفی اثرات مرتب ہوئے‘ وہ آج بھی موجود ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اسرائیلی ٹینک اور فوجی دستے غزہ میں داخل ہو رہے ہیں جبکہ اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے اس جنگ کے دوسرے مرحلے کا اعلان کر دیا ہے۔ ادھر حماس نے حزب اللہ سمیت اپنے اتحادیوں سے علاقائی سطح پر مزید مدد طلب کی ہے جبکہ یمن میں حوثی باغیوں کی فوج کے ترجمان نے اسرائیل کے خلاف جنگ کا باقاعدہ اعلان کر دیا ہے۔ اگر یہ تصادم پھیلتا ہے تو عالمی معیشت کو عشروں بعد دہرا جھٹکا برداشت کرنا پڑ سکتا ہے۔ اب تک ا س تصادم کے باعث تیل کی قیمتوں میں تقریباً چھ فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ سونے کی قیمت میں بھی‘ جو عموماً عالمی تصادم کے دور میں بڑھتی ہے‘ آٹھ فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ عالمی امن کے ذمہ داران اور معیشتوں کو تحفظ دینے والے عالمی اداروں کو اس موقع پر آگے بڑھ کر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ بصورتِ دیگر ایک کے بعد ایک عالمی بحران ترقی پذیر ممالک میں معاشی اور سیاسی عدم استحکام کا باعث بنتا رہے گا۔
نگران حکومت نے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں برقرار رکھنے جبکہ مٹی کا تیل اور لائٹ ڈیزل آئل کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا ہے۔ سرکاری ذرائع کے حوالے سے پہلے یہ دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ اگر حکومت پٹرولیم لیوی میں مزید اضافہ نہیں کرتی تو ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت میں تقریباً 5 سے 6 روپے فی لٹر کمی کا امکان ہے جبکہ پٹرول تقریباً 18 روپے فی لٹر سستا ہوسکتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ گزشتہ دو ہفتوں میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں تقریباً 3 روپے کا اضافہ ہے، اس دوران عالمی مارکیٹ میں ڈیزل کی اوسط قیمت میں بھی تقریباً 1.3 ڈالر فی بیرل کمی آئی جبکہ پٹرول کی قیمت میں تقریباً 3.5 ڈالر فی بیرل کا اضافہ ہوا۔ ذرائع کے مطابق قیمتوں میں کمی سے حکومت کو ڈیزل پر ڈویلپمنٹ لیوی 55 روپے سے بڑھا کر 60 روپے فی لٹر کرنے کا موقع ملا؛ تاہم محصولات کی وصولی اب تک طے شدہ اہداف سے بہتر رہی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کے بعد گیس کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو چکا ہے۔ نگران وزیر توانائی عوام کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتے دکھائی دیے کہ گیس کی قیمتیں بڑھانا کس قدر ضروری تھا۔ وزیر صاحب چونکہ سیاسی آدمی نہیں‘ شاید اس لیے عوام کی نفسیات بارے نہیں جانتے۔ عوام کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ مہنگائی کیوں ہو رہی ہے‘ ان کا مطالبہ ہے کہ کسی بھی طور قیمتیں کم کی جائیں۔ پاکستانی عوام مہنگائی کی موجودہ صورتحال سے بلبلا رہے ہیں جبکہ حکومت ہر شے کی قیمتیں بڑھاتی جا رہی ہے۔ اگر حماس‘ اسرائیل جنگ نے طول پکڑا تو پٹرول کے ساتھ گیس کی قیمتوں میں بھی ناقابلِ برداشت حد تک اضافہ ہو سکتا ہے کیونکہ موسمِ سرما شروع ہو چکا ہے اور یورپ سمیت پوری دنیا میں گیس کی ڈیمانڈ بڑھ رہی ہے۔