نیا سال شروع ہو چکا مگر پاکستان کے مسائل وہی پرانے ہیں۔پچھلے سال اِنہی دنوں متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سے قرض رول اوور کرنے کی درخواستیں کی جا رہی تھیں اور اس نئے سال کے آغاز پہ بھی متحدہ عرب امارات کو قرضوں کو رول اوور کرنے کی درخواست دی گئی ہے۔ اس حوالے سے باقاعدہ بات چیت شروع ہو گئی ہے۔ دو ارب ڈالر کا قرض اسی ماہ میچور ہونا ہے۔ واضح رہے کہ متحدہ عرب امارات کی جانب سے مجموعی طور پر تین ارب ڈالر ڈِپازٹ سٹیٹ بنک میں رکھوائے گئے تھے جن میں سے ایک ارب ڈالر 17 جنوری اور ایک ارب ڈالر 23 جنوری کو میچور ہوں گے ۔ ایک ارب ڈالر کے قرض پر سود کی شرح 3 فیصد اور دوسرے ارب ڈالر پر ساڑھے 6 فیصد ہے۔پاکستان قرضوں کے بوجھ تلے اس قدر دب چکا ہے کہ تقریباً پورا سال قرضوں کو رول اوور کرانے ہی میں گزرتا ہے اور قرضوں کو رول اوور ہونے ہی کو معاشی کامیابی قرار دے دیا جاتا ہے۔وزارتِ خزانہ کو امید ہے کہ جلد ہی یہ قرض رول اوور ہو جائے گا۔ ابھی تک متحدہ عرب امارات کی جانب سے کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے۔ دوسری طرف اطلاعات ہیں کہ چین کے دو کمرشل بینکوں نے پاکستان کیلئے 600 ملین ڈالر کے کمرشل قرض کو چینی پاور پلانٹس کے واجبات کی ادائیگی سے مشروط کردیا ہے۔حکومت نے اس شرط کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔ انڈسٹریل اینڈ کمرشل بینک آف چائنہ (آئی سی بی سی) اور بینک آف چائنہ کے ساتھ 600 ملین ڈالر قرض کے لیے مذاکرات ہو رہے ہیں‘ دونوں بینکوں سے 300‘ 300 ملین ڈالر کی فنانسنگ کے لیے رابطہ کیا گیا تھا۔ پاکستانی حکام کو امید تھی کہ دسمبر میں قرض مل جائے گا مگر ذرائع کے مطابق دونوں بینکوں نے اپنے قرضوں کو چینی انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کو واجب الادا ادائیگی سے منسلک کیا ہے۔ چینی بینکوں نے کہا ہے کہ وہ واجب الادا رقم کی فہرست فراہم کریں گے اور 600 ملین ڈالر کے قرضے ان ادائیگیوں سے مشروط ہوں گے۔نئی شرائط کی وجہ سے ان تجارتی قرضوں کے حصول کے امکانات کم ہو سکتے ہیں۔ وزارتِ خزانہ کے ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ حکومت یہ شرائط قبول نہیں کر رہی‘ جو قرض دینے کے طریقہ کار کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے غیر معمولی ہیں۔ آئی پی پیز قرضوں کی ادائیگی کی یہ شرط اب سامنے آئی ہے حالانکہ فریقین پہلے ہی قرضوں کی شرائط پر متفق ہو چکے ہیں۔ ماضی کے برعکس اس بار 300 ملین ڈالر چینی آر ایم بی کی صورت میں دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ بینک آف چائنہ نے بیرونِ ملک سے قرض کی تقسیم کی پیشکش کی تھی۔ آئی سی بی سی نے پاکستان کے اندر فنڈز تقسیم کرنے کا منصوبہ بنایا تھااور نئی کمرشل سہولت پر شرحِ سود 6 فیصد پر اتفاق کیا گیا تھا لیکن آئی سی بی سی ود ہولڈنگ ٹیکس کے اثرات کو پورا کرنے کیلئے اضافی 2.5 فیصد وصول کرنا چاہتا تھا۔ وزارتِ خزانہ کے ذرائع کے مطابق چینی کمرشل قرضوں کو کسی بھی شرط سے منسلک نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ایسی شرائط صرف پروگرام قرضوں کی صورت میں قابلِ قبول ہوتی ہیں۔ تجارتی قرضوں کیلئے سود کی شرح پروگرام قرضوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔
اس وقت حکومت کے پاس چینی آئی پی پیز کے قرضوں کی ادائیگی کیلئے بجٹ مختص نہیں اور وہ آئی ایم ایف کی جانب سے عائد کردہ شرائط کی وجہ سے ضمنی گرانٹ بھی جاری نہیں کر سکتی۔ حالیہ برسوں میں چین نے پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچنے میں خاصی مدد کی ہے لیکن چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت ہونے والے معاہدوں پر عمل درآمد نہ ہونے پر مایوسی دیکھی گئی۔ اس منصوبے میں پاور پلانٹس سی پیک فریم ورک کے تحت قائم کیے گئے تھے۔سی پیک کے انرجی فریم ورک معاہدے کے تحت پاکستان نے ایک گردشی فنڈ قائم کرنے اور بجلی کی ادائیگیوں کے لیے پیدا ہونے والے انوائسز کے 21 فیصد کے مساوی رقم جمع کرانے کا وعدہ کیا تھا مگر حکام رقم جمع کرنے میں ناکام رہے، جس سے بجلی کے شعبے کے گردشی قرضوں میں اضافہ ہوا۔ یہ انتظام چینی فرموں کو گردشی قرضوں سے بچانے کے لیے کیا گیا تھالیکن فنڈ قائم کرنے کے بجائے اکتوبر 2022ء میں سٹیٹ بینک میں پاکستان انرجی ریوالورنگ اکاؤنٹ (پی ای آر اے) کھولا گیا جس میں سالانہ 48 ارب روپے مختص کیے گئے اور اس شرط کے ساتھ کہ زیادہ سے زیادہ 4 ارب روپے ماہانہ نکالے جائیں گے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چینی آئی پی پیز کا قرضہ اب 400 ارب روپے کے لگ بھگ ہو چکا ہے۔چین پاکستان کے بیرونی شعبے کو مستحکم کرنے میں مدد کے لیے سیف ڈپازٹس‘ رعایتی قرضے اور تجارتی قرضے فراہم کر رہا ہے۔ گزشتہ سال جون میں چین نے 1.3 ارب ڈالر کی ادائیگی کو قبل از وقت ایڈجسٹ کرکے پاکستان کو غیر ملکی زرمبادلہ کے انتہائی کم ذخائر میں مزید کمی سے بچنے میں مدد فراہم کی تھی۔اطلاعات یہ بھی ہیں کہ آئی پی پیز کو ادائیگی کی شرط سے متعلق چینی میڈیا خاموش ہے لیکن ملکی ذرائع اس کی تصدیق کر رہے ہیں۔ چین نے ہمیشہ بین الاقوامی سطح پر یہ تاثر قائم رکھنے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان اور چین کے دیرینہ تعلقات ہیں‘ شاید اسی لیے چین کی جانب سے انٹرنیشنل میڈیا کو یہ خبر نہیں دی گئی۔
نئے سال کے پہلے ماہ میں کچھ اچھی خبریں بھی سامنے آئی ہیں۔ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے دسمبر میں بھیجی گئی ترسیلاتِ زر سالانہ بنیادوں پر 13.4 فیصد اضافے کے بعد 2 ارب 38 کروڑ 15 لاکھ ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔ترسیلاتِ زر نومبر 2023ء کے مقابلے میں 5.4 فیصد بڑھیں۔ دسمبر 2022ء میں 2.1 ارب ڈالر اور دسمبر 2023ء میں 2 ارب 25 کروڑ 85 لاکھ ڈالر موصول ہوئے۔ اس کی ممکنہ وجہ ڈالر ریٹ میں استحکام ہو سکتی ہے۔ انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ ریٹ میں زیادہ فرق نہ ہونے کی وجہ سے ترسیلات بینکنگ چینلز کے ذریعے ملک میں بھیجی جا رہی ہیں۔ اگر روپیہ ڈالر کے مقابلے میں اسی طرح مستحکم رہا تو امید ہے کہ آنے والے دنوں میں ترسیلاتِ زر مزید بڑھیں گی۔
پاکستان اور سعودی عرب کے مابین رواں ہفتے ریکوڈک منصوبے پر معاہدہ طے پانے کا امکان ہے۔سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں شروع ہونے والے تین روزہ فیوچر منرلز فورم کے دوران پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ریکوڈک منصوبے میں سرمایہ کاری کے حوالے سے پیش رفت متوقع ہے۔پاکستان کا ایک اعلیٰ سطحی وفد نگران وزیر توانائی محمد علی کی قیادت میں فیوچر منرلز فورم میں شریک ہے۔فورم کا مقصد افریقہ، مغربی ایشیا اور وسطی ایشیا میں معدنی ذخائر کے منصوبوں کو فروغ دینا ہے۔نگران وزیراعظم متعدد مرتبہ اس معاہدے سے متعلق بات کر چکے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ہی پاکستان ڈیفالٹ کے خطرے سے بمشکل نکل پایا ہے۔ یہ سرمایہ کاری پاکستان میں انتہائی ضروری ہے اور غیر ملکی زرِمبادلہ (فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ) لانے کا باعث بن سکتی ہے۔ جیو پولیٹکل طور پر حساس علاقے کو معاشی طور پر مستحکم کرنے میں سعودی عرب کا کردار اہم سمجھا جارہا ہے۔ تانبے کی عالمی قلت اور سعودی شمولیت سے ممکنہ استحکام کے ساتھ‘ اگر ریکوڈک پروجیکٹ آگے بڑھتا ہے تو بیرک گولڈ اس منصوبے میں مزید ترقی کے لیے بھی تیار ہو سکتی ہے۔ یہ معاہدہ یقینی طور پر درپیش طویل معاشی بحران اور ادائیگیوں کے توازن کے مسئلے کو ٹالنے میں مدد فراہم کر سکتا ہے۔ پاکستان کی نئی تشکیل شدہ باڈی ''سپیشل انویسٹمنٹ فسیلی ٹیشن کونسل‘‘ (ایس آئی ایف سی) نے کان کنی کے شعبے پر خصوصی توجہ مرکوز کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔اس کا مقصد اگلے پانچ سال میں ضلع چاغی میں تانبے کی پیداوار میں آٹھ گنا اضافہ کرنا ہے۔ سعودی عرب اپنی معیشت کو مزید وسعت دینے اور تیل کے بجائے متبادل ذرائع سے آمدن بڑھانے کے لیے نہ صرف پاکستان بلکہ برازیل میں بھی ایسی سرمایہ کاری شروع کرچکا ہے۔ماہرین تانبے کو مستقبل کی دھات قرار دیتے ہیں۔ دنیا کو 2050ء تک صفر کاربن کے عزائم کو حاصل کرنے کے لیے برقی نقل و حمل اور بجلی کے وسائل کے لیے کافی مقدار میں تانبے کی ضرورت ہے۔ ایک اندازے کے مطابق تانبا تقریباً 11 ہزار سال سے انسانوں کے زیرِ استعمال ہے اور انسانی تہذیب کے ہر مرحلے پر موجود اور کارآمد رہا ہے۔