ایف بی آر‘ بلوم برگ اکنامکس اور افغان بارڈر

میں نے گزشتہ کالموں میں ذکر کیا تھا کہ ایف بی آر کی ری سٹرکچرنگ کی جائے گی۔ یہ انتہائی اہم اور حساس معاملہ ہے کیونکہ ٹیکس نظام میں ایک چھوٹی سی خامی بھی ملک کو اربوں ڈالرز کا نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اب ہر فیصلہ دوراندیشی سے کیے جانے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے کچھ پیشرفت ہوئی ہے۔ وفاقی کابینہ نے ایک نئی بین الوزارتی کمیٹی تشکیل دی ہے جو ایف بی آر کی ری سٹرکچرنگ کے لیے چار روز کے اندر حتمی سفارشات پیش کرے گی تاکہ مختلف ٹیکس گروپس کے درمیان فرق کو کم کیا جاسکے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق نگران وزیر خزانہ کو اس کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔ نجکاری، خارجہ امور، تجارت، توانائی، قانون و انصاف اور آئی ٹی کے وزرا بھی کمیٹی میں شامل ہوں گے جبکہ کمیٹی تجاویز پر اپنی سفارشات وفاقی کابینہ کے اگلے اجلاس میں پیش کرے گی۔ نگران وزیراعظم اور تمام کابینہ ممبران نے ایف بی آر اصلاحات تجاویز کی تائید کی ہے۔ نگران وزیراعظم کا کہنا ہے کہ حکومت ایف بی آر میں اصلاحات کا ایجنڈا پایۂ تکمیل تک پہنچائے گی۔ ٹیکس حکام پہلے ہی نگران وزیر خزانہ کی جانب سے ''ٹیکس ایڈمنسٹریٹو میکانزم‘‘ کی جانچ پڑتال میں عجلت اور مخصوص مداخلت پر تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔ اس حوالے سے اصلاحات اس وقت تک متوقع نتائج فراہم نہیں کرسکتیں جب تک سیاسی حلقے زرعی آمدنی، ریٹیل سیکٹر اور سروسز پر ٹیکس لگانے کا تہیہ نہ کرلیں۔ پچھلے تجربات سے پتا چلتا ہے کہ تبدیلیاں صرف اسامیاں بنانے اور مخصوص افراد کو فائدہ پہنچانے کے لیے کی گئیں جبکہ بنیادی چیلنجز کو نظر انداز کر دیا گیا۔نظام کو بہتر بنانے کے لیے وفاقی پالیسی بورڈ (ایف پی بی) کی تشکیلِ نو کی جائے گی۔ یہ بورڈ ٹیکس پالیسی اور انتظامیہ کے ماہرین‘ ماہرینِ اقتصادیات اور ماہرینِ صنعت پر مشتمل ہوگا جن میں مفادات کا کوئی تنازع نہیں ہے۔ بورڈ اور ریونیو ڈویژن کے سیکرٹری ٹیکس پالیسیاں تیار کریں گے، محصولات کے اہداف تفویض کریں گے اور تمام سٹریٹجک مسائل کو سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مربوط کریں گے، پالیسی کی تشکیل فنانس ڈویژن سے بورڈ کو واپس بھیج دی جائے گی۔
ویسے تو ایف بی آر کی سینکڑوں خامیاں ہیں جن کا ذکر کیے جانے کی ضرورت ہے لیکن آج کل جو موضوع زیادہ زیرِ بحث ہے وہ سگریٹس پر ٹیکس کے حوالے سے ہے۔ مشہور سگریٹ برانڈز کے جعلی پیکٹس پر نقلی ٹکٹوں کے چسپاں ہونے کے بڑھتے واقعات سے ایف بی آر کا ''ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم‘‘ ناکام ہوتا دکھائی دے رہاہے۔ادارۂ شماریات کے مطابق جولائی تا نومبر 2023ء میں تمباکو کی بڑی صنعتوں کی پیداوار میں 40 فیصد کمی آئی ہے لیکن کھپت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ ایک اندازے کے مطابق پورے ملک میں تقریباً 85 کروڑ جعلی سگریٹس فروخت ہو رہے ہیں،جس کے نتیجے میں ملکی خزانے کو تقریباً 5.7 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔اگرچہ سگریٹ نوشی ویسے بھی صحت کے لیے نقصان دہ ہے مگر غیر معیاری سگریٹس کا استعمال خودکشی کے مترادف ہے۔ ریاست کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے اقدامات کرے کہ عوام کو کم سے کم نقصان کا سامنا ہو اور ملک کی آمدن میں بھی اضافہ ہو سکے۔
جنرل الیکشن سر پر ہیں لیکن انتخابی گہما گہمی نہ ہونے کے برابر ہے۔ سوشل میڈیا اور الیکشن سرویز کو دیکھ کر ہی یہ احساس ہوتا ہے کہ انتخابات ہونے والے ہیں۔ اس وقت الیکشن کا بنیادی مدعا معیشت ہے اور سبھی سیاسی جماعتیں عوام کو یہ بتانے کی کوشش کر رہی ہیں کہ ان کے پاس بہتر معاشی پالیسی موجود ہے۔ وہ پالیسی کیا ہے‘ ابھی تک عوام کے سامنے نہیں آ سکی۔ پرانے دعووں اور نعروں کی گونج ضرور ہے جن میں تین سو یونٹس مفت بجلی اور لاکھوں گھروں کی فراہمی کے اعلانات سرفہرست ہیں۔ عوام کو ان نعروں پر یقین نہیں ہے‘ شاید اس لیے وہ زیادہ پُرجوش دکھائی نہیں دے رہے۔ اگر سرویز پر نظر ڈالیں تو امریکی جریدے ''بلومبرگ‘‘ نے نواز حکومت کی معاشی کارکردگی کو تین دہائیوں میں سب سے بہتر قرار دیا ہے۔ بلومبرگ اکنامکس کی رپورٹ کے مطابق مسلم لیگ (ن) نے اپنے سیاسی حریفوں کے مقابلے ''پچھلی تین دہائیوں میں معیشت کو سنبھالنے میں بہترین کارکردگی‘‘ دکھائی ہے۔پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) نے مزری انڈیکس (Misery index) کہلائے جانے والے بیروزگاری اور مہنگائی کے حوالے سے ''بہتر سکور‘‘ کیا ہے۔ اس جائزے کے لیے متعلقہ سالوں کے دوران انڈیکس کی قدروں کا اوسط استعمال کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی بتایا گیا ہے کہ زیادہ قدر شہریوں کے لیے زیادہ معاشی مشکلات کی نشاندہی کرتی ہے۔اس وقت مہنگائی مسلسل ریکارڈ بلندی پر ہے جبکہ بلند سطح کی بے روزگاری کی وجہ سے الیکشن جیتنے والی کسی بھی پارٹی کے لیے آگے کا راستہ آسان نہیں ہوگا۔نئی حکومت کو ایسی پالیسیاں نافذ کرنے کی ضرورت ہوگی جو ووٹرز میں غیر مقبول ہو سکتی ہیں جیسے سبسڈی واپس لینا اور ٹیکسز میں اضافہ کرنا۔ اس وقت سیاسی مقبولیت کے سرویز بھی سامنے آ رہے ہیں مگر پاکستانی عوام کی اکثریت سرویز کو عوام کی سوچ کا ترجمان نہیں سمجھتی لیکن یہ رائے عام ہے کہ جس پارٹی کے حق میں سرویز آرہے ہوں‘ وہ حکومت بنا ہی لیتی ہے۔
میں نے گزشتہ کالموں میں ذکر کیا تھا کہ افغان سرحد پر ڈرائیوروں کے ویزے کے مسئلے کو جلد حل کرنے کی ضرورت ہے‘ تجارتی سامان کو روکنا مسئلے کا حل نہیں ہے۔ شاید سرکار کو اس بات کا احساس ہو گیا ہے۔ پاک افغان بارڈر طور خم گیٹ گیارہویں روز تجارتی سرگرمیوں کے لیے کھول دیا گیا۔ طورخم بارڈر دس دن تک درآمدات و برآمدات کے لیے بند رہا۔ دونوں ممالک کے حکام کے مذاکرات کی کامیابی کے بعد طورخم گیٹ دو طرفہ تجارت کے لیے اب کھول دیا گیا ہے۔ بندش کے دوران دونوں اطراف پھل اور سبزیوں سے بھری ہزاروں گاڑیاں کھڑی رہیں اور گاڑیوں میں موجود اجناس خراب ہونے لگی تھیں۔
حکومتِ پاکستان طورخم بارڈرکو مین سٹریم میں لانے اورپاسپورٹ ویزے کے نظام کو لاگو کرنا چاہتی ہے‘ دوسری طرف ٹرانسپورٹرز بارڈر پر سٹیکر ویزے کی سہولت اور بارڈر جلد از جلد کھولنے کا مطالبہ کررہے تھے۔افغان ڈرائیورز کو سفری دستاویزات بنوانے کیلئے 31 مارچ تک مہلت دی گئی ہے۔ یکم اپریل سے سفری دستاویزات نہ رکھنے والی کارگو گاڑیوں کا پاکستان میں داخلہ ممنوع ہوگا۔ طورخم بارڈر کھولنے کا فیصلہ پشاور میں افغان قونصلر جنرل اور پاکستانی حکام کے درمیان طے پایا۔کارگو گاڑیوں کے لیے سفری دستاویزات کا فیصلہ وفاقی حکومت نے کیا تھا، جس پر 13 جنوری کو عمل درآمد شروع ہوا تو حکام نے تجارت کیلئے سرحد بند کردی تھی۔اس معاہدے پر عملدرآمد کے لیے افغانستان کی جانب سے سنجیدہ کوششیں کی جانے کی ضرورت ہے۔
ماضی میں بھی کئی مرتبہ اس طرح کے معاہدے ہوئے، سرحدیں بند ہوئیں، دونوں اطراف کے عوام نے پریشانی برداشت کی لیکن مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے۔ مالی سال 2011ء کے بعد سے پاکستان اور افغانستان کے مابین تجارت کا حجم کافی کم ہو چکا ہے۔ پہلے اس کے اسباب میں افغانستان کے نامساعد سیاسی حالات، نیٹو رسد کے لیے راستوں کا بند ہونا اور کسٹمز نظام میں جدت کی کمی بتائی جاتی تھی۔ 2010ء کے پاک افغان معاہدے پر بھی دونوں ممالک کی طرف سے خاطر خواہ عملدرآمد نہیں ہوا اور نہ ہی تجارت کی راہ میں رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش کی گئی۔ جب تک دونوں ممالک پیسوں کی ادائیگی، تجارتی مال کے لیے انشورنس کے طریقہ کار، ویزہ اجرا، ٹیکس وصولی، تجارتی فنانسنگ اور تجارتی دستاویزات کی آسانی کے ساتھ فراہمی کو ممکن نہیں بناتے‘ تجارت کا حجم بڑھانا ممکن نہیں ہو گا۔ کووِڈ 19 سے پہلے ڈرائیورز ویزہ لے کر ہی افعانستان سے پاکستان میں داخل ہوتے تھے لیکن کورونا کے باعث انہیں ویزے کے بغیر‘ محض پاسپورٹ پر داخلے کی اجازت دی گئی تھی۔اب وہ سہولت ختم ہو گئی ہے مگر شاید افغان ڈرائیورز کو یہ تسلیم کرنے میں وقت لگے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں