ٹیکسٹائل سیکٹر کی برآمدات سالانہ بنیادوں پر 10.10 فیصد اضافے کے بعد ایک ارب 45 کروڑ ڈالر پر پہنچ گئی ہیں‘ جو گزشتہ برس ایک ارب 32 کروڑ ڈالر تھیں جبکہ ماہانہ بنیادوں پر ان میں 3.33 فیصد اضافہ ہوا؛ تاہم مالی سال 2024ء کے ابتدائی 7 ماہ کے دوران ٹیکسٹائل اور کپڑے کی برآمدات گزشتہ سال کی نسبت2.99 فیصد کم ہو کر 9 ارب 73 کروڑ ڈالر ریکارڈ رہیں۔ان کا حجم مالی سال2023 ء کے اس دورانیے میں 10.03 ارب ڈالر رہا تھا۔ تنزلی کی وجہ توانائی کی بلند قیمتوں کی وجہ سے بڑھتی پیداواری لاگت ہے۔ چند مہینے قبل وزارتِ تجارت نے اعلان کیا تھا کہ حکومت جلد ٹیکسٹائل برآمدکنندگان کو توانائی کی علاقائی مسابقتی قیمتوں کی پیشکش کرے گی اور زیرِالتوا ٹیکس ریفنڈ جاری کرکے مسائل کو حل کرے گی؛ تاہم اس فیصلے پر اب تک عملدرآمد نہیں ہوسکا۔ ابھی پرانے وعدے پورے نہیں ہوئے تھے کہ سرکار نے گیس کی قیمتوں میں ایک مرتبہ پھر اضافہ کر دیا۔ اس بار لگ بھگ 67 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ پروٹیکٹڈ صارفین کیلئے ماہانہ 25 کیوبک میٹر تک گیس کا ٹیرف 79 روپے اضافے کے ساتھ 121 روپے سے بڑھا کر 200 روپے جبکہ ماہانہ 50 کیوبک میٹر والے پروٹیکٹڈ صارفین کیلئے قیمت 100 روپے اضافے کے ساتھ 150 سے بڑھا کر 250 روپے کر دی گئی ہے۔ اسی طرح ماہانہ 60 کیوبک میٹر گیس استعمال کرنے والے پروٹیکٹڈ گھریلو صارفین کیلئے قیمت 100 روپے اضافے کے ساتھ 200 سے بڑھ کر 300 روپے اور ماہانہ 90 کیوبک میٹر تک گیس استعمال کرنے والے پروٹیکٹڈ گھریلو صارفین کیلئے قیمت 100 روپے جبکہ ماہانہ 100 کیوبک میٹر نان پروٹیکٹڈ صارفین کیلئے 250 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو اضافے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ماہانہ 150 کیوبک میٹر والے صارفین کے لیے 350 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو اور ماہانہ 200 کیوبک میٹر والے صارفین کے ٹیرف میں 350 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کا اضافہ کیا گیا ہے۔ ماہانہ 300 اور 400 کیوبک میٹر تک گھریلو صارفین کے لیے قیمت 300 روپے اور جبکہ ماہانہ 400 سے زائد کیوبک میٹر گیس استعمال کرنے والے نان پروٹیکٹڈ گھریلو صارفین کے لیے قیمت 200 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو بڑھائی گئی ہے۔
کامرس اینڈ انڈسٹری سے متعلقہ افرا دکا کہنا ہے کہ گیس مہنگی کرنے سے بر آمدات بند ہو جائیں گی‘ گزشتہ ایک سال میں گیس 600 فیصد سے زائد مہنگی ہوچکی ہے اور گیس پر انحصار کرنے والی بیشتر ایکسپورٹ انڈسٹریز بند ہو گئی ہیں۔ اپٹما نے بھی گیس کی قیمتوں میں اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انڈسٹری بند کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ دنیا بھر میں گیس کی قیمتوں میں کمی ہو ہی ہے جبکہ پاکستان میں قیمتوں میں اضافے کے باعث 60 سے 70 فیصد صنعتیں بند ہونے کے دہانے پر پہنچ گئی ہیں جس سے لاکھوں افراد بے روزگار ہو سکتے ہیں۔ ان حالات میں مستقبل میں ملکی برآمدات میں اضافہ ہوتا ہے یا نہیں‘ یہ ایک سوالیہ نشان ہے کیونکہ برآمدات بڑھانے کیلئے بین الاقومی مارکیٹ میں مسابقت کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ جو اسی وقت ممکن ہے جب پروڈکٹ کی قیمت دیگر ممالک سے کم یا کم از کم ان کے برابر ہو۔ نئی حکومت اس حوالے سے کیا پالیسی اختیار کرتی ہے اس کا اندازہ چند ماہ میں ہو جا ئے گا۔ آئندہ حکومت اگر ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کی خواہش مند ہے تو برآمدات کو بڑھانے کے تمام ممکنہ آپشنز پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ان حالات میں اچھی خبر یہ ہے کہ بلوچستان کے ضلع کوہلو سے گیس کے نئے ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔بتایا گیا ہے کہ ان سے یومیہ 64 لاکھ مکعب فٹ تک گیس حاصل ہو سکے گی۔ گیس دریافت کرنے کے لیے 2516 میٹر تک کنویں کی کھدائی کی گئی۔ اس نئی دریافت سے ملک میں گیس ذخائر میں بہتری آنے کی امید کی جا سکتی ہے۔ پاکستانی عوام اور انڈسڑی کے لیے یہ ایک مثبت خبر ہے۔ جس طرح گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے‘ عام آدمی کیلئے بلز کی ادائیگی بہت مشکل ہو چکی ہے۔ ملک میں گیس فراہم کرنے والی دونوں کمپنیاں تکنیکی طور پر ڈیفالٹ ہو چکی ہیں۔ تقریباً20 فیصد گیس چوری ہوتی ہے جس پر تاحال قابو نہیں پایا جا سکا۔ نئی حکومت کوان مسائل سے بھی نمٹنا ہو گا۔ گیس کی قیمتیں بڑھانا کوئی حل نہیں ہے‘ پچھلے دس سال سے قیمتیں مسلسل بڑھائی جا رہی ہیں لیکن نقصان کم ہونے کے بجائے بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کا بہترین حل پرائیوٹائزیشن ہے۔ اس سے توانائی کے ریٹس نیچے آ سکتے ہیں اور گردشی قرضوں کا بوجھ بھی کم ہو سکتا ہے۔ اگرچہ نئی حکومت کیلئے یہ فیصلے مشکل ہو سکتے ہیں لیکن مسائل کا حل سخت فیصلے لینے ہی میں مضمر ہے۔
حکومت نے لیکویفائیڈ نیچرل گیس (ایل این جی) کی قیمتوں میں 9.30 فیصد کمی کا اعلان کیا ہے۔ سوئی ناردرن کے سسٹم پر ایل این جی 1.20 ڈالر اور سوئی سدرن کے سسٹم پر ایل این جی کی قیمت میں 1.29 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کمی کی گئی ہے۔ سوئی ناردرن کے سسٹم پر ایل این جی کی نئی قیمت 12.49 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو اور سوئی سدرن کے سسٹم پر ایل این جی کی نئی قیمت 12.96 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو مقررکی گئی ہے۔ جنوری میں سوئی ناردرن کے سسٹم پر ایل این جی کی قیمت 13.69 اور سوئی سدرن کے سسٹم پر 14.24 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو تھی۔ ایل این جی کے ریٹس میں یہ کمی خوش آئند ؛ تاہم ناکافی ہے۔ ایل این جی کا استعمال محدود ہونے کی وجہ سے اس کے فوائد بھی عام آدمی تک پوری طرح منتقل نہیں ہو سکیں گے۔
سیاسی حالات کی بات کی جائے تواس وقت مخلوط حکومت بننے کے امکانات قوی ہیں۔مگر ایسی حکومت سے متعلق عالمی مالیاتی اداروں کی رائے زیادہ اچھی نہیں ہوتی کیونکہ کب عدم اعتماد کی تحریک آجائے اور حکومت گھر چلی جائے‘ کچھ پتا نہیں چلتا۔ اس سے معاشی پالیسیاں اور ادارہ جاتی سٹرکچر بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں قرض سخت شرائط پر ملتا ہے۔یہ بھی مد نظر رہنا چاہیے کہ پاکستان کو صرف آئی ایم ایف سے نہیں دوست ممالک سے بھی قرض لینا پڑے گا۔ پہلے بھی دوست ممالک نے انتہائی مہنگے قرض دیے تھے جو ابھی تک ادا نہیں کیے جا سکے۔ نئی حکومت کو سب سے پہلا امتحان آئی ایم ایف کا درپیش ہو گا۔ مارچ میں آئی ایم ایف کا سٹینڈ بائی پروگرام ختم ہو رہا ہے اور اس کے فوراً بعد نئے پروگرام میں جانا ہو گا۔ اگلا پروگرام موجودہ پروگرام سے بڑا ہو سکتا ہے کیونکہ 25 ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادائیگی آئی ایم ایف کی سپورٹ کے بغیر مشکل ہے۔ نئی حکومت کی مشکلات اسی صورت کم ہو سکتی ہیں جب وہ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کی پالیسیوں کو پوری طرح آگے بڑھائے۔ یہ ادارہ تقریباً دو سال سے کام کر رہا ہے اور معاشی میدان میں کافی کامیابیاں حاصل کر چکا ہے۔ ملکی اور عالمی سطح پر اس کے مثبت نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ گو کہ مارکیٹ میں ڈالر کے حوالے سے مختلف دعوے کیے جا رہے ہیں لیکن اگر ایس آئی ایف سی کو نئی حکومت سپورٹ کرتی رہی تو ڈالر کی قیمت میں زیادہ اتار چڑھائو نہیں آئے گا اور مارکیٹ میں استحکام رہے گا۔اگرچہ دنیا میں پالیسی ریٹ نیچے آرہا ہے لیکن پاکستان میں یہ ابھی تک بلند ترین سطح پر ہے۔ جب تک ملک میں مہنگائی کم نہیں ہو گی آئی ایم ایف پالیسی ریٹ نیچے نہیں آنے دے گا۔ مہنگائی کم کرنے کیلئے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں کمی کرنا ہو گی اور اس کیلئے ضروری ہے کہ توانائی کے شعبے میں چوری کو روکا جائے۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں تقریباً 580 ارب روپے کا سالانہ نقصان کر رہی ہیں‘ نقصان میں چلنے والے اداروں کو پرائیوٹائز کرنے ہی سے مسائل میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ پی آئی اے سمیت نقصان میں چلنے والے اداروں کی نجکاری سے نئی حکومت کے مسائل کم ہو سکتے ہیں۔ امید ہے کہ آنے والی حکومت اس معاملے کو بہتر انداز میں لے کر چلے گی کیونکہ یہ معاملہ ایس آئی ایف سی کے سامنے بھی موجود ہے۔