آئی ایم ایف اور پاکستان میں سٹاف لیول معاہدہ ہو گیا ہے۔37 ماہ میں سات ارب ڈالرز پاکستان کو ملیں گے۔ ملکی معیشت کے لیے یہ اچھی خبر ہے لیکن عوام کے لیے شاید اچھی نہیں۔ یہ سٹاف لیول معاہدہ اچھے ماحول میں ہوا ہے اور ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان عدم اعتماد میں کمی آئی ہے۔ تحریک انصاف کے دور میں آئی ایم ایف اور حکومت کے درمیان وعدوں کے انحراف کی وجہ سے عدم اعتماد کافی بڑھ گیا تھا جس کے اثرات چار سال سے دیکھنے میں آرہے تھے۔ موجودہ معاہدہ بروقت ہوا ہے اور آئی ایم ایف نے اپنے لیٹر میں حکومت پاکستان کے تعاون پر شکریہ ادا کیا ہے۔ آئی ایم ایف کی بہت سی شرائط ایسی ہیں جن پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ زراعت‘ ریٹیل اور ایکسپورٹ سیکٹر کو باقاعدہ ٹیکس نیٹ میں لانے کا یقین دلایا گیا ہے۔ زرعی آمدنی پر ٹیکس نہیں لگایا گیا بلکہ جنوری 2025 ء سے زرعی آمدنی پر ٹیکس کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ صوبے اپنے ٹیکس محصولات حاصل کرنے کے لیے اقدامات کریں گے۔خصوصی طور پر زرعی انکم ٹیکس اور خدمات پر سیلز ٹیکس وصول کرنے کے لیے اقدامات کا وعدہ کیا گیا ہے۔ پاکستان اینٹی کرپشن‘ شفافیت اور گورننس کے لیے اصلاحات کرے گا‘نجکاری پروگرام تیز کرنے کے لیے اقدامات کرے گا‘ ترقیاتی اخراجات کے لیے وسائل بڑھائے گا۔ان کے علاوہ دیگر کئی شرائط طے کی گئی ہیں۔
حکومت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ تمام شرائط پر بھی عمل درآمد کر لیں گے۔ پچھلے معاہدے سے پہلے آئی ایم ایف نے تمام شرائط پر پہلے عمل کرایا تھا بلکہ اپوزیشن سے ملاقاتیں کیں اور گارنٹیاں لی تھیں۔ ادارے نے دوست ممالک سے بھی گارنٹی مانگی تھی جنہیں حاصل کرنے کے لیے کئی ماہ لگ گئے تھے۔ چین کے قرضوں سے متعلق بھی آئی ایم ایف کو تحفظات تھے اور سی پیک معاہدوں پر اعتراضات کو بنیاد بنا کر معاہدے میں تاخیر کی جاتی رہی۔ اس مرتبہ کچھ لچک دکھائی گئی ہے اور وزیراعظم پر اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ پچھلے معاہدے پر حکومت نے من و عن عمل کیا ہے۔ ٹیکس اہداف حاصل کیے گئے ہیں اور عوام پر ٹیکسوں کی بھرمار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ آئی ایم ایف اور سرکار خوش ہیں لیکن عوام اور کاروباری حضرات پریشان ہیں کیونکہ اس معاہدے کے بعد مہنگائی میں مزید اضافہ ہو جائے گااور عام آدمی کی قوتِ خرید مزید کم ہو سکتی ہے۔
کاروباری طبقے نے معاملے کی نزاکت کو بروقت محسوس کر لیا ہے اور اس لیے اکثر تنظیمیں احتجاج کرتی دکھائی دے رہی ہیں۔ فلور ملز ایسوسی ایشن نے وِد ہولڈنگ ٹیکس کیخلاف ہڑتال کا اعلان کیا تھا مگر چیئرمین ایف بی آر سے مذاکرات کے بعد ہڑتال کو دس دن کے لیے مؤخر کیا ہے۔ آل پاکستان سیمنٹ ڈسٹری بیوشن ایسوسی ایشن نے سیمنٹ انڈسٹری پر ٹیکسز کے خلاف ہڑتال کی کال دے دی ہے۔ ان کے مطابق نئے ٹیکس لگانے سے سیمنٹ کی قیمت میں ہوشربا اضافہ ہو گیا ہے جس سے کاروبار مزید مندی کا شکار ہو جائے گا۔ ایک طرف کاروبار ختم ہورہا ہے اور دوسری طرف ایف بی آر انہیں ہراساں کر رہا ہے۔ بجٹ میں فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں ایک روپیہ اضافہ ہونے سے سیمنٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی فی کلو تین سے بڑھاکر چارروپے کی گئی جس سے سیمنٹ کی 50 کلو کی بوری کی قیمت میں 207 روپے تک اضافہ ہو چکا ہے۔ایف بی آر سٹاف پوائنٹ آف سیلز کو وجہ بنا کر بھی کاروباری طبقے کو پریشان کر رہا ہے۔ اسی طرزپر پراپرٹی ڈیلرز ایسوسی ایشن نے پریس کانفرنس کر کے مطالبہ کیا ہے کہ رئیل اسٹیٹ کے پرانے ٹیکسز کو بحال کیا جائے بصورت دیگر وہ بھی ہڑتال کی کال دیں گے۔ دکانوں پر کرائے کی بنیاد پر ٹیکس وصول کرنے کے خلاف بھی احتجاج کیا گیا ہے۔ رائس ملز ایسوی ایشن والے بھی ہڑتال کا عندیہ دے رہے ہیں۔ تنخواہ دار طبقہ پہلی مرتبہ سڑکوں پر نکلا ہے کیونکہ اس بجٹ میں سب سے زیادہ تنخواہ دار طبقے پر بوجھ ڈالا گیا ہے۔
عوام اور کاروباری حضرات پر ٹیکس لگا دینا کامیابی نہیں ہے۔ سرکار طاقتور ہے اور جبراً ٹیکس وصول کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن جبرا ًٹیکس وصول کرنا اور اس کے بدلے عوام کو کوئی سہولت نہ دینا اصل مسئلہ ہے۔ اگر سرکار عوام کو سہولتیں نہیں دے سکتی تو زیادہ عرصہ تک ٹیکس بھی وصول نہیں کر سکے گی۔ کاروباری طبقہ ملک چھوڑنے کو ترجیح دینے لگے گا۔ جب ایک گھنٹے کی پرواز پر ایک ایسا ملک موجود ہو جہاں ٹیکس نہ ہونے کے برابر ہو‘ بہترین بنیادی سہولتیں موجود ہوں اور سرمایہ بھی محفوظ ہو تو اکثریت اپنا سرمایہ بیرونِ ملک منتقل کرنے کی کوشش کرے گی۔موجودہ صورتحال میں چیئرمین ایف بی آر کا امتحان کافی سخت ہوتا جا رہا ہے۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے فنانس میں انہوں نے ٹیکس اہداف حاصل کرنے سے متعلق مایوسی کا اظہار کیا۔ تیرہ ہزار ارب روپے کے ٹیکسز حاصل کرنے کے لیے سسٹم کو مزید ڈیجیٹائز کرنے کی ضرورت ہے جس میں کم از کم ڈھائی سال لگ سکتے ہیں۔
ایک طرف وزیراعظم آئی ایم ایف کو ٹیکس اہداف بروقت حاصل کرنے کی یقین دہانی کرا رہے ہیں اور دوسری طرف چیئرمین ایف بی آر اسے فی الحال ناممکن قرار دے رہے ہیں۔ اسی لیے ایف بی آر اور وزیراعظم کے درمیان ہونے والی میٹنگ خوشگوار نہیں رہی۔ ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعظم یہ تک کہہ گئے کہ وہ دباؤ میں نہیں آئیں گے اور استعفیٰ دے دیں گے۔ اب اس بیان کا کیا مطلب ہے اس کی وضاحت تو وزیراعظم صاحب ہی کر سکتے ہیں۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ شاید چیئرمین ایف بی آر کو جلد تبدیل کر دیا جائے گا لیکن اس کا نقصان ادارے ہی کو ہو گا۔ عمومی طور پر یہ گلہ کیا جاتا ہے کہ ٹیکس اہداف حاصل نہ ہونے میں جو رکاوٹ ہے وہ بتائی جائے اور جب وجہ بتائی جاتی ہے تو آفیسر کو نااہل قرار دے کر نئے افسر کو لے آیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ادارے کی پالیسی اور مینجمنٹ خراب ہو جاتی ہے۔ میرے خیال میں موجودہ چیئرمین ایف بی آر نظام کو کافی حد تک سمجھ چکے ہیں‘ آئی ایم ایف کو بھی انہوں نے مطمئن کیا ہے‘انہیں اعتماد میں لے کر نظام کو درست کیا جاسکتا ہے۔
اگر زرعی آمدن پر ٹیکس کو منظم کر لیا جائے تو ایف بی آر کی کارکردگی بہتر ہو سکتی ہے۔ گو کہ زرعی آمدن پر ٹیکس کو صوبوں کے حوالے کیا گیا ہے لیکن چیئرمین ایف بی آر اس کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں بشرطیکہ کوئی سیاسی دباؤ نہ ڈالا جائے۔وزیرخزانہ کا کہنا ہے کہ ہر شعبے کی جانب سے دباؤ آ رہا ہے کہ اس پر ٹیکس نہ لگایا جائے۔ یہ دعویٰ درست ہو سکتا ہے لیکن جو شعبے پہلے سے ٹیکس دے رہے ہیں اُن پر مزید ٹیکسز نہ لگانے کے لیے جو دباؤ ہے‘ وہ جائز ہے اور اسے سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔حقیقت یہ ہے کہ پہلے سے ٹیکس دینے والے شعبے چاہتے ہیں کہ ان پر جو ٹیکس لگایا جائے اسے اس کے مطابق سہولتیں بھی دی جائیں۔ بچوں کی سکول فیسیں‘ ہسپتال کے اخراجات سمیت تمام ضرورتیں عام آدمی اپنی جیب سے پوری کرتا ہے تو سرکار کو ٹیکس دینے کا کیا مقصد ہے‘یہ واضح کیے جانے کی ضرورت ہے۔ وزیر خزانہ ایکسپورٹرز سے درخواست کر رہے ہیں کہ وہ ٹیکس ریفنڈ کے لیے سپیڈ منی نہ دیں۔ سپیڈ منی کو عرفِ عام میں رشوت کہا جاتاہے‘ جبکہ ہونا یہ چاہیے کہ وزیرخزانہ ایف بی آر پر کنٹرول سخت کریں تا کہ رشوت نہ لی جا سکے۔ وزیر خزانہ صاحب کی اگر یہی اپروچ رہی تو حالات درست ہونے کے بجائے مزید خراب ہو سکتے ہیں۔