ایف بی آر اور امداد کی معطلی کے معاشی اثرات

کسی بھی ملک کے معاشی نظام کی مضبوطی میں ٹیکس اکٹھا کرنے والا ادارہ کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان اس وقت آئی ایم ایف پروگرام میں ہے اور ٹیکس اکٹھا کرنے والا ملکی ادارہ ایف بی آر آئی ایم ایف کے طے کردہ ٹیکس اہداف کو حاصل کرنے میں مسلسل ناکام ہے۔ چیئرمین ایف بی آر کے مطابق اس کی بڑی وجہ ایلیٹ کلاس کا ٹیکس نیٹ میں شامل نہ ہونا ہے۔اب کالے دھن سے پراپرٹی خریداری کو روکنے کیلئے سخت قانون کی تجویز دی گئی ہے۔ حکومتی جماعتوں‘ رئیل اسٹیٹ کمپنیوں اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے فنانس نے اس تجویز کی مخالفت کی ہے‘ بلکہ وہ ایک کروڑ سے اڑھائی کروڑ تک کی پراپرٹی ٹرانزیکشن پر ایمنسٹی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہاں سوال یہ ہے کہ کیا ان حالات میں ایف بی آر کالے دھن کی رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری روک پائے گا؟ ایف بی آر ٹیکس ریٹرن ریکارڈ کے مطابق پورے پاکستان میں صرف 12 لوگوں کے اثاثے 10 ارب روپے (35 کروڑ امریکی ڈالرز) سے زیادہ ہیں‘ جو ٹیکس نظام کے غیر مؤثر ہونے کا واضح ثبوت ہے۔ میں ذاتی طور پر سینکڑوں ایسے افراد کو جانتا ہوں جن کے اثاثے 10 ارب روپے یا 350ملین ڈالر سے زیادہ ہوں گے۔ جن لوگوں کا میں ذکر کر رہا ہوں‘ یہ بڑے سیاستدان‘ مشہور بزنس مین یا بڑے بیورو کریٹ نہیں بلکہ ان میں سے زیادہ تر درمیانے درجے کے غیر معروف کاروباری ہیں۔ پاکستان میں 10 ارب روپے یا اس سے سے زائد اثاثے رکھنے والوں کی تعداد ہزاروں بلکہ لاکھوں میں ہو گی۔ پاکستان کی صوبائی اور قومی اسمبلیوں اور سینیٹ ممبران کی کل تعداد 1100 سے زیادہ ہے اور ان میں سے 90 فیصد کروڑوں‘ اربوں پتی ہیں۔ بڑے بزنس مین‘ اوور سیز پاکستانی‘ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے مالکان‘ صنعت کار‘ زمیندار اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے لاکھوں لوگ اربوں روپے کے اثاثوں کے مالک ہیں۔ جب بھی انہیں ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے کوشش شروع کی جاتی ہے تو یہ بااثر افراد درخواستیں لے کر اسمبلی اور عدالتوں میں پہنچ جاتے ہیں اور اس طرح نظام کو مزید کمزور کر دیا جاتا ہے۔ وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ وہ سٹینڈنگ کمیٹی کی تجاویز پر غور کر رہے ہیں لیکن ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔
رواں ماہ کے آخر یا مارچ کے اوائل میں آئی ایم ایف ٹیم جائزے کے لیے پاکستان آ رہی ہے۔ کسی بھی قسم کا ٹیکس ریلیف دینے کا فیصلہ آئی ایم ایف کی اجازت کے بغیر ممکن نہیں۔ اگر آئی ایم ایف کی طرف دیکھیں تو حال ہی میں اس نے کاروباری طبقے کو بجلی میں دو روپے ریلیف دینے کی اجازت نہیں دی اور حکومت کو فیصلہ واپس لینا پڑا۔ صوبوں کی آمدن کے حوالے سے بھی شرائط پوری نہیں ہوئیں۔ جنوری میں ٹیکس وصولی ہدف سے 85 ارب روپے کم ہے۔ ان حالات میں آئی ایم ایف کے رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو ریلیف دینے کے امکانات کم ہیں۔ رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں نئے ٹیکس قوانین آئی ایم ایف کے مطالبے پر بنائے گئے‘ اگر ٹیکس اہداف حاصل ہو جاتے تو شاید ریلیف دینا آسان ہو تا مگر فی الحال مشکلات زیادہ ہیں۔ تاہم اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ جب ہماری اشرافیہ نے اپنے ذاتی مفاد کے حصول کے لیے رضامندی لینی ہو تو اس کے لیے ہر ممکن راستہ اختیار کر لیا جاتا ہے۔
ایف بی آر نے ذاتی استعمال کے لیے 1010 گاڑیاں لینے کا اعلان کر رکھا ہے۔ میں نے ایک کالم میں وزیراعظم سے گزارش کی تھی کہ چھ ارب کی ٹرانزیکشن کا اچھا خاصا کمیشن بن سکتا ہے‘ اس معاملے پر نظر رکھیں۔ اب سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے فنانس نے اس معاملے کا نوٹس لیا ہے اور سینیٹر فیصل واوڈا نے گاڑیوں کے معاملے پر ایف بی آر سے ملنے والی دھمکیوں کے ثبوت پیش کیے ہیں‘ جس کے بعد گاڑیاں خریدنے کا پروگرام فی الحال معطل ہو گیا ہے۔ اس سے میرے خدشات بھی درست ثابت ہو رہے ہیں۔ یہ معاملہ کب تک معطل رہتا ہے‘ اس کا فیصلہ تمام سٹیک ہولڈرز کے مفادات کو مدنظر رکھ کر کیا جا سکتا ہے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ سیاستدانوں کو عوام کے پیسے کی فکر ہے‘ یہاں مسئلہ شاید اپنے اپنے حصے کا ہے۔
دوسری جانب امریکی صدر نے مصر اور اسرائیل کے علاوہ پوری دنیاکو دی جانے والی امریکی امداد بند کر دی ہے اور نئی امداد جاری کرنے سے بھی روک دیا ہے۔ یہ امداد 172 ممالک کو دی جاتی تھی۔ اس پابندی سے دنیا کے کئی ممالک‘ خصوصی طور پر ترقی پذیر ممالک متاثر ہو سکتے ہیں۔ امریکہ نے یو ایس ایڈ پروگرام کے تحت ملنے والی امداد بند کی ہے‘ یہ صرف ایک ادارہ ہے۔ دیگر شعبوں میں ملنے والی امداد ابھی مل رہی ہے لیکن یہ امداد بھی زیادہ مؤثر نہیں تھی کیونکہ اس کا بہت بڑا حصہ یو ایس ایڈ کنسلٹنٹ لے جاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً 60 سے 65 فیصد رقم اسی زمرے میں واپس امریکہ چلی جاتی ہے۔ اگر لوکل کنسلٹنٹ کو ہزار ڈالر ملتے ہیں تو امریکی کنسلٹنٹ کو دو ہزار ڈالر دیے جاتے ہیں۔ اگر اعداد وشمار پر نظر دوڑائیں تو پاکستان کے لیے امریکی امداد اب تقریباً ختم ہو چکی ہے‘ اگر پچھلے بیس سال کاڈیٹا دیکھیں تو امریکہ نے پاکستان کو تقریباً 32 ارب ڈالرز براہِ راست امداد دی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اس میں بتدریج کمی ہوتی رہی۔ 2023ء میں امریکہ کی طرف سے پاکستان کو 170 ملین ڈالر امداد ملی جو تقریباً 49 ارب روپے بنتی ہے۔ 2024ء میں یہ امداد مزید کم ہو کر 116 ملین ڈالر رہ گئی جو تقریباً 32 ارب روپے بنتی ہے۔ پاکستان کا سالانہ بجٹ تقریباً 68 بلین ڈالر (18 ہزار ارب روپے) ہے۔ اس حساب سے امریکی امداد صرف 0.17 فیصد بنتی ہے جو آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔البتہ اس سے پاکستانی معیشت کو براہ راست کوئی فرق نہیں پڑے گا تاہم امریکہ کو کافی فرق پڑ سکتا ہے‘ کیونکہ امریکہ پاکستان کو امداد مخصوص شرائط کے ساتھ دیتا ہے۔ اس خطے میں امریکہ کو پاکستان کا متبادل ملنے میں مشکلات کا سامنا کر ناپڑ سکتا ہے۔ امریکی امداد بند ہونے سے پاکستان کا جھکاؤ چین کی جانب بڑھ سکتا ہے اور چین پاکستان کو امریکی امداد سے کئی گنا زیادہ دے سکتا ہے۔ اس وقت چین دنیا میں امداد دینے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔ پاکستان ٹیکنالوجی اور فنڈز کے لیے امریکہ کے بجائے چین پر انحصار کرتا ہے۔ پاکستان اے آئی میں بھی امریکہ کی بجائے چین سے مدد لیتا ہے۔ چین کے ہوتے ہوئے پاکستان کو امریکی امداد کی زیادہ ضرورت بھی نہیں۔ پہلے کبھی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے امریکی امداد ملتی تھی مگر جب سے امریکہ افغانستان سے گیا ہے‘ یہ فنڈ بھی ساتھ لے گیا ہے۔ امریکہ کی پاکستان کو امداد کی مالی حیثیت تو پہلے ہی بہت کم تھی لیکن اس کی سٹرٹیجک اہمیت بہت تھی۔ امریکہ کی جانب سے کسی بھی ملک کو ملنے والی امداد ان کے بہتر سفارتی تعلقات کو ظاہر کرتی ہے۔ پاکستان کو امداد خوراک‘ تعلیم‘ صحت‘ صنفی برابری اور جمہوریت کے فروغ جیسے شعبوں میں زیادہ ملتی تھی۔ سب سے زیادہ امداد خوراک ایمرجنسی فوڈ اسسٹنٹ پروگرام کے تحت دی جاتی تھی جو 21 ملین ڈالر سے زائد تھی۔ یو ایس پے اینڈ بینی فٹس اور تعلیم کے شعبے کو تقریباً آٹھ‘ آٹھ ملین ڈالر اور توانائی اور پولیو کے خاتمے کیلئے تقریباً سات‘ سات ملین ڈالر امداد دی جا رہی تھی۔ ٹرمپ صنفی برابری اور جمہوریت کے حوالے سے جو خیالات رکھتے ہیں‘ وہ سب پر عیاں ہیں۔ اس لیے جائزے کے بعد یہ پروگرام بھی مکمل بند ہو سکتے ہیں‘ جس سے امداد میں مزید کمی ہو سکتی ہے۔ ٹرمپ دو طرفہ معاملات کرنے والے صدر ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اگر میں آپ کو کچھ دے رہا ہوں تو آپ اس کے بدلے مجھے کیا دے رہے ہیں۔ وہ منصوبوں اورسماجی فلاح کیلئے فنڈز دینے کے حامی نہیں لہٰذا امداد بند ہونے سے پاکستان کی معیشت کو تو کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن اس کے تحت چلنے والے پروگرامز اور اداروں کو ضرور فرق پڑ سکتا ہے اور اچانک پروگرامز بند ہونے سے بہت سے خاندانوں کا ذریعہ معاش بند ہو سکتا ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں