کرپٹو کرنسی کے معیشت پر اثرات

دنیا میں کرپٹو کرنسی کا استعمال بڑھ رہا ہے اور آنے والے وقتوں میں یہ پیپر کرنسی کے متبادل کے طور پر استعمال ہو سکتی ہے۔ 2010ء میں Laszlo Hanyecz نامی امریکی شہری نے دس ہزار بٹ کوائن دے کر چالیس ڈالر مالیت کے دو پیزے خریدے تھے۔ آج ایک بٹ کوائن ایک لاکھ ڈالر سے زیادہ مالیت کا ہے۔ کرپٹو خطرہ نہیں بلکہ موقع ثابت ہو سکتا ہے۔ کرپٹو کرنسی میں جو ممالک بروقت قانون سازی کریں گے وہ مستقبل میں کرپٹو کرنسی کنٹرول کرنے کی پوزیشن میں آ سکتے ہیں۔ پاکستان میں کرپٹو کرنسی کے حوالے سے سرکاری سطح پر کام ہوتا دکھائی دے رہا ہے لیکن یہ احساس بھی پیدا ہونے لگا ہے کہ سرکار شاید ابھی تک ہوم ورک مکمل نہیں کر پائی۔ چند دن قبل سیکرٹری خزانہ کی جانب سے بتایا گیا کہ پاکستان میں کرپٹو کرنسی کا استعمال ابھی تک غیر قانونی ہے جبکہ پاکستان کرپٹو کونسل کے سربراہ بلال بن ثاقب نے گزشتہ ہفتے امریکہ میں بٹ کوائن ویگاس 2025ء کی تقریب میں بیان دیا تھا کہ پاکستانی حکومت کی زیر قیادت بٹ کوائن کو قومی ذخائر کا حصہ بنایا جا رہا ہے۔ پاکستان اپنی حکومت کی زیر قیادت بٹ کوائن سٹرٹیجک ریزرو قائم کر رہا ہے۔ اس تقریب میں امریکی نائب صدر جے ڈی وینس اور صدر ٹرمپ کے دو صاحبزادوں نے بھی خطاب کیا۔ ایسی تقریبات کافی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ کرپٹو مارکیٹ بعض اوقات ڈیمانڈ اور سپلائی کی بنیاد پر کام کرتی ہے۔ پاکستان کرپٹو کونسل کے سربراہ کے بیان سے پاکستان میں کرپٹو کرنسی کی ڈیمانڈ میں اضافہ دیکھنے میں آیا اور سیکرٹری خزانہ کے بیان کے بعد مارکیٹ سست روی کا شکار ہوتی دیکھی گئی۔ یہ حقیقت سب کو معلوم ہے کہ پاکستان میں کرپٹو کرنسی کا استعمال غیر قانونی ہے لیکن مرکزی بینک کی جانب سے پہلے سے موجود قانون کی یاددہانی کرانا یہ تاثر دیتا ہے کہ اربابِ اختیار ابھی کرپٹو کرنسی کو لیگل قرار دینے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ پاکستان فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ سے حال ہی میں باہر آیا ہے‘ ایسا لگتا ہے کہ کرپٹو کرنسیوں کے لیے کوئی قانونی فریم ورک موجود نہیں ہے۔ سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ پاکستان کرپٹو کرنسی کو منی لانڈرنگ سے کیسے بچائے گا جبکہ کرپٹو کرنسی کی کوئی ریگولیشنز ہی اب تک موجود نہیں ہے۔ پاکستان میں اس وقت اندازاً دو کروڑ سے زیادہ لوگ کرپٹو کرنسی کے ساتھ منسلک ہیں۔ دنیا میں کرپٹو استعمال کے حوالے سے پاکستان دسویں نمبر پر ہے۔ کرپٹو کرنسی بلاک چین کے تحت کام کرتی ہے۔ بلاک چین ایک مضبوط نظام ہے جسے ابھی تک ہیک نہیں کیا جا سکا۔ آرٹی فیشل ڈیمانڈ سپلائی سے اسے متاثر کیا جا سکتا ہے لیکن ہیک کرنا ابھی تک تقریباً ناممکن سمجھا جاتا ہے۔ بلاک چین ٹیکنالوجی صرف کرپٹو کرنسی کے لیے نہیں بلکہ پراپرٹی ریکارڈ رکھنے سمیت کئی شعبوں میں استعمال ہو سکتی ہے۔ مبینہ طور پر یہ بینکوں کے سافٹ ویئر سے زیادہ سکیورٹی چیک کی حامل ہے۔ کرپٹو میں لوگوں کے ساتھ فراڈ رپورٹ ہوئے ہیں لیکن وہ انفارمیشن کی بنیاد پر کیے گئے‘ سسٹم ہیک نہیں کیا جا سکا۔ ایتھریم میں 2016ء میں ایک سکیورٹی مسئلے کے باعث پانچ کروڑ ڈالر مالیت کی ایتھر کرنسی چوری ہو گئی تھی۔ یہاں بھی بلاک چین ہیک نہیں ہوئی تھی بلکہ یہ ایک سافٹ ویئر کی کمزوری تھی۔ شاید اسی لیے کروڑوں ڈالرز کی ٹرانزیکشنز کے لیے کرپٹو کرنسی اور بلاک چین سٹم استعمال کیے جانے کا رجحان بڑھنے لگا ہے۔
جب ملک کی بڑی تعداد کرپٹوکرنسی استعمال کر رہی ہو تو اسے قانونی شکل دیے بغیر شاید کوئی دوسرا بہتر آپشن موجود نہیں۔ سرکار اگر اس کیلئے بروقت قانون سازی نہیں کر پاتی تو امکانات ہیں کہ ڈالرز بیرون ملک منتقل ہو سکتے ہیں۔ پاکستان پہلے ہی مشکل سے ڈالرز ذخائر مینج کر پا رہا ہے۔ دو سالوں سے ڈالر ریٹ مستحکم ہے لیکن پھر بھی ٹوٹل ڈالر ذخائر سولہ ارب سے نہیں بڑھ پائے۔ اب بھی بینک امپورٹس کلیئر نہیں کر رہے۔ ایک مرتبہ پھر درآمدات کے بل رکنا شروع ہو گئے ہیں۔ جون کے اختتام پر ڈالرز ذخائر کی آئی ایم ایف شرط کو پورا کرنا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ کرپٹو کرنسی پر اگر احتیاط سے قانون سازی کر کے اس کے استعمال کی اجازت دے دی جائے تو پاکستان کے ڈالرز ذخائر میں اضافہ ہو سکتا ہے‘ لیکن اگر بے احتیاطی سے کام لیا گیا تو بڑے پیمانے پر قانونی طور پر ڈالرز کی سمگلنگ کا راستہ کھل سکتا ہے۔ بینکوں کو بھی کرپٹو کی تجارت کے حوالے سے روکا گیا ہے اور ان سے مشاورت طلب کی گئی ہے کیونکہ وہ بڑے سٹیک ہولڈرز ہیں۔ اگر عوام بینکوں کے کھاتے میں سرمایہ رکھنے کے بجائے کرپٹو کرنسی کی بلاک چین میں سرمایہ رکھنا شروع کر دیں تو پاکستان میں بینکوں کا کاروبار متاثر ہو سکتا ہے۔ اگر پاکستان میں کرپٹو کرنسی کا استعمال لیگل ہوا تو وہ سیٹ اَپ بھی بینکوں کے ذریعے چلایا جا سکتا ہے۔ پاکستان اور ڈونلڈ ٹرمپ کے بہتر ہوتے تعلقات میں کرپٹو کرنسی کا اہم کردار سامنے آ سکتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کرپٹو کرنسی کے حامی ہیں۔ وہ اپنے نام سے بھی ایک کرپٹو کرنسی لانچ کر چکے ہیں۔ پاکستانی حکومت شاید ٹرمپ دبائو کی وجہ سے کرپٹو کرنسی کو سرکاری سطح پر استعمال کرنے کے حوالے سے بیان دے رہی ہے۔ اس حوالے سے بین الاقوامی سطح پر واضح قانون سازی بھی موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے حکومت قانون سازی کا مرحلہ مکمل نہیں کر پا رہی۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف کی جانب سے بھی دباؤ کا سامنا ہے۔ آئی ایم ایف کرپٹو کرنسی کے حق میں نہیں۔ 2022ء میں ارجنٹائن جیسی مضبوط معیشت کو آئی ایم ایف نے 45 ارب ڈالر کا بڑا پروگرام دیا لیکن اس سے کرپٹو کرنسی پر پابندی عائد کروا دی۔
حکومت پاکستان نے کرپٹو کرنسی مائننگ اور آرٹی فیشل انٹیلی جنس کے لیے دوہزار میگاواٹ بجلی دینے کااعلان کیا ہے۔ پاکستانی عوام مہنگی بجلی کے بحران سے دو چار ہیں۔ ایسے حالات میں کرپٹو مائننگ کے لیے 22 روپے فی یونٹ بجلی فراہم کرنے کے اعلان پر آئی ایم ایف کو تحفظات ہیں جو کہ جائز بھی ہیں۔ کرپٹو مائننگ کے لیے پاکستان کے پاس وافر بجلی موجود ہے لیکن اس کے ریٹ پر تحفظات درست ہو سکتے ہیں۔ پاکستان اس وقت تقریباً 48 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کر سکتا ہے۔ لیکن وہ مہنگی بجلی ہے جس سے آئل امپورٹ کا بل بڑھ سکتا ہے اور ڈالر پر دباؤ بھی بڑھ سکتا ہے۔ کوئلے سے پیدا ہونے والی بجلی سے ماحولیاتی آلودگی بڑھ سکتی ہے۔ پاکستان پہلے ہی ماحولیاتی آلودگی سے متاثرہ ممالک میں شامل ہے اس لیے آئی ایم ایف سمیت دیگر ادارے پاکستان میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے حق میں نہیں اور کرپٹو کرنسی کی مائننگ کے لیے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کی اجازت ملنا مشکل ہو سکتا ہے۔ بٹ کوائن کی مائننگ سالانہ تقریباً 130 ٹیرا واٹ آور بجلی استعمال کرتی ہے جو نیدرلینڈز یا ارجنٹائن کی پوری بجلی کھپت سے بھی زیادہ ہے۔ کرپٹو کے حوالے سے بجلی کے استعمال اور قیمتوں میں رد وبدل کا تصور نیا نہیں ہے بلکہ دنیا کے کئی ممالک کرپٹو کرنسیوں کی مائننگ کے لیے بجلی کی کھپت کے حوالے سے پالیسیاں تبدیل کر چکے ہیں۔ ایران بجلی کی پیدوار میں خودمختار ہے‘ گودار کے کئی علاقوں میں بجلی اب بھی ایران سے آتی ہے اور اس کا ریٹ پاکستان کے بقیہ شہروں سے کم ہے۔ بٹ کوائن میں بجلی کی اتنی کھپت ہے کہ ایران بجلی کے زیادہ استعمال کے دنوں میں بٹ کوائن مائننگ کے لیے سبسڈی دینا بند کر دیتا ہے اور مائننگ روکنا پڑتی ہے۔ چین میں دنیا کے سب سے بڑے ڈیم ہیں اور سستی بجلی پیدا کرنے میں بھی اسے اوّل درجہ حاصل ہے لیکن بجلی کے زیادہ استعمال کو وجہ بتا کر 2021ء میں بٹ کوائن مائننگ پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ اس سے پہلے چین بٹ کوائن مائننگ کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔ پاکستان اعلان تو کر رہا ہے لیکن وہ اسے عملی جامہ کیسے پہنائے گا‘ یہ ابھی تک سوالیہ نشان ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں