شیخ الحدیث علامہ غلام رسول سعیدی نے شرح صحیح مسلم ، جلد:3، ص:169تا190میں میلادالنبیﷺکے موضوع پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔انہوںنے احناف کے مسلَّمہ اکابر علامہ ابن عابدین شامی کی ''شَرحُ الْمَوْلِد لِابْنِ حَجربحوالہ: جواہر البحار، جلد:3،ص:340‘‘ اورملاّ علی قاری کی اَلْمَوْلِدُالرَّوِی فیِ الْمَوْلدِالنَّبَوِی،ص:7-8کے حوالے سے ثابت کیا کہ یہ اکابرِ اُمّت بھی میلادالنبی ﷺ کے جواز کے قائل تھے۔
برصغیر کی مسلّمہ دینی وعلمی شخصیت شاہ ولی اﷲ محدّث دہلوی ''اَلدُّ رُالثَّمِیْن فِیْ مُبَشَّرَاۃِ النَّبِیِ الْاَمِیْن‘‘میں لکھتے ہیں:''میلاد کا اہتمام میرے والدِ گرامی(شاہ عبدالرحیم ) فرماتے تھے کہ میں یومِ میلاد کے موقعہ پر کھاناپکوایاکرتاتھا۔اتفاق سے ایک سال کوئی چیز میسر نہ آسکی کہ کھاناپکواؤں ، صرف بھنے ہوئے چنے موجود تھے،چنانچہ یہی چنے میں نے لوگوں میں تقسیم کیے۔خواب میں دیکھاکہ آنحضرتﷺتشریف فرماہیں،یہی چنے آپ کے سامنے رکھے ہیں اورآپ نہایت خوش اورمسروردکھائی دے رہے ہیں۔(رسائلِ شاہ ولی اﷲ دہلوی:254)‘‘۔یعنی میلاد کایہ اہتمام رسول اللہ ﷺکی نظرمیں محبوب تھا۔
شیخ عبداللہ بن محمد بن عبدالوہاب نجدی' مختصر سیرۃ الرسول‘ میں لکھتے ہیں:''ثُوَیبہ ابولہب کی باندی تھی ، جب نبیِ کریم ﷺ کی ولادت ہوئی،تواس نے اپنے آقا کو بھتیجے کی ولادت کی خوشخبری سنائی،اس خوشی میں ابولہب نے انگلی کے اشارے سے اُسے آزادکردیا، بعدمیں ثُوَیبہ نے آپﷺکو دودھ بھی پلایا۔ ابولہب کی وفات کے بعد کسی نے اسے خواب میں دیکھا اور پوچھاکہ تمہارے ساتھ کیاسلوک ہوا؟۔اس نے بتایا: تم سے جدا ہونے کے بعد عذاب میں مبتلاہوں، مگرہرپیرکے دن انگلی سے ٹھنڈک ملتی ہے۔پس مقامِ غور ہے کہ جب ابولہب جیسے دشمنِ رسول کافرکو ولادتِ محمد ؐبن عبداللہ کی خوشی منانے پر جہنم میں راحت مل سکتی ہے، تو ایک مسلمان کومحمد رسول اللہﷺکی ولادت کی خوشی منانے پر بے پایاں اجرکیوں نہیں ملے گا؟یہ عبارت کاخلاصہ ہے‘‘۔ امام محمد بن اسماعیل بخاری نے بھی قدرِاختصار کے ساتھ اسی واقعہ کو بیان کیا ہے،(صحیح بخاری:5101)‘‘۔
علامہ سعیدی نے علمائِ دیوبند کے شیخِ طریقت حاجی امداداللہ مہاجر مکی کا یہ قول نقل کیا:''اور مَشرَب فقیر کا یہ ہے کہ محفلِ مَولِد میں شریک ہوتاہوں،بلکہ ذریعۂ برکات سمجھ کرہرسال منعقد کرتااورقیام میں لطف ولذت پاتاہوں،(فیصلہ ہفت مسئلہ:05)‘‘... وہ مزید لکھتے ہیں:''ہمارے علماء مَولِد شریف میں بہت تنازعہ کرتے ہیں،تاہم علماء جواز کی طرف بھی گئے ہیں،جب صورت جواز کی موجود ہے،پھر کیوں ایسا تشدُّد کرتے ہیں اور ہمارے واسطے اِتَّباعِ حرمین کافی ہے،البتہ وقت قیام کے، اعتقاد تولُّد کا نہ کرنا چاہئے،اگر احتمالِ تشریف آوری کیا جاوے ، مُضائقہ(حرج)نہیں،کیونکہ عالم خَلق مقید بہ زمان ومکان ہے ،لیکن عالَم اَمر دونوں سے پاک ہے ، پس قدم رنجہ فرمانا ذاتِ بابرکات کا بعید نہیں ‘‘... وہ مزید لکھتے ہیں: ''مولِد شریف تمام اہلِ حرمین کرتے ہیں، اسی قدر ہمارے واسطے حجت کافی ہے اور حضرتِ رسالت پناہ کا ذکر کیسے مذموم ہوسکتاہے؟، البتہ جو زیادتیاں لوگوں نے اختراع کی ہیں ، نہ چاہئیں اور قیام کے بارے میں کچھ نہیں کہتا،ہاں مجھ کو ایک کیفیت، قیام میں حاصل ہوتی ہے‘‘... وہ مزید لکھتے ہیں: ''اگر کسی عمل میںغیر مشروع عوارض(خارجی امور)لاحق ہوں ، تو اُن عوارض کو دور کرنا چاہئے،نہ یہ کہ اصل عمل سے انکار کردیا جائے،ایسے امور سے انکار کرنا خیرِ کثیر سے بازرکھنا ہے، جیسے قیام ِمولِد شریف،اگر بوجہ آنے نام آنحضرت کے کوئی شخص تعظیماً قیام کرے تو اس میں کیا خرابی ہے؟،جب کوئی آتاہے تولوگ اس کی تعظیم کے واسطے کھڑے ہوجاتے ہیں،اگر سردارِ عالَم وعالمیاں(رُوحی فداہُ)کے اسمِ گرامی کی تعظیم کی گئی تو کیا گناہ ہوا،(شمائمِ امدادیہ:47,50,68)‘‘۔
علمائِ دیوبند کے مُسَلمَّہ پیشوا علامہ اشرف علی تھانوی نے اس آخری جملے پر حاشیے میں لکھا ہے: '' البتہ اصرار کرنا کہ تارکین سے نفرت کرنازیادتی ہے،(امدادالمشتاق:68)‘‘۔اس عبارت سے ہمیں اتفاق ہے ، کیونکہ کسی مستحب یا پسندیدہ امر کو ترک کرنے پر ملامت کرنا اسے واجب قرار دینا ہے اور یہ درست نہیں ہے ۔ اس حاشیے پر علامہ غلام رسول سعیدی نے یہ اضافہ کیاہے :''اور میں کہتا ہوں کہ اس سے بھی بڑی زیادتی یہ ہے کہ محفلِ میلاد کو ''بدعتِ سَیِّئَہ‘‘ قرار دیا جائے اور میلاد شریف کرنے والوں سے نفرت کی جائے اور انہیں اہلِ بدعت کے نام سے پکارا جائے‘‘۔
ہمارا مَوقِف بھی یہی ہے کہ فی نفسہٖ میلادالنبی ﷺ جائزبلکہ مستحسن ہے ، لیکن میلادالنبی کے عنوان سے قائم مجالس اور جلوسوں کو ہر قسم کی بدعات، مُنکَرات اور خرافات سے پاک ہوناچاہئے تاکہ چند لوگوں کی بے اعتدالیوں کی بنا پر ایک مستحسن امر کے خلاف منفی پروپیگنڈے کا جواز نہ مل سکے۔
مشہور اہلحدیث عالِم علامہ وحیدالزمان لکھتے ہیں:''اِس حدیث(یعنی رسول اللہ کا پیرکا روزہ رکھنے) سے ایک جماعتِ علماء نے آپ کی ولادت کی خوشی یعنی مجلسِ میلاد کرنے کا جوازثابت کیاہے۔اورحق یہ ہے کہ اگراس مجلس میں آپ کی ولادت کے مقاصداوردنیاکی رہنمائی کے لئے آپ کی ضرورت اورامورِرسالت کی حقیقت کوبالکل صحیح طریقہ پر اس لئے بیان کیاجائے کہ لوگوں میں اِس حقیقت کاچرچا ہواورسننے والے یہ ارادہ کرکے سُنیں کہ ہم کو اپنی زندگیاں اُسوۂ رسول ؐ کے مطابق گزارنا ہیںاور ایسی مجالس میں کوئی بدعت نہ ہو،تومبارک ہیں ایسی مجلسیں، اور حق کے طالب ہیں ان میں حصہ لینے والے، بہرحال یہ ضرور ہے کہ یہ مجلسیں عہدِ صحابہ میں نہ تھیں،(لغات الحدیث، جلد:3،ص:119)‘‘۔
یہ بات درست ہے کہ موجودہ ہیئت پر جو مجالسِ میلادالنبیﷺ منعقد ہوتی ہیں یا جلوس کا شِعار ہے ، یہ جدید دور کی معروف اَقدار ہیں اور دین کے بہت سے شعبوں میں ہم نے دورِ جدید کے شِعار اور اَقدار کو اپنایا ہے، مثلاً : مُصحفِ مبارک میں سورتوں کے نام، آیات کی علامات، اِعراب لگاناوغیرہ۔ کتبِ احادیث بھی دوسری صدی ہجری میں یااس کے بعد مرتب ہوئیں ۔ قرآن وحدیث کو سمجھنے کے لئے تمام معاون علوم بعد میں ایجاد اور مُدَوَّن ہوئے، عالی شان مساجدا ور مدارس قائم ہوئے ، دینی لٹریچر کی جدید اندازمیں نشرواشاعت کا انتظام ہوا۔اورکسی نظریے سے وابستگی کے اظہار کے لئے یا کسی غلط بات کے استرداد اوراس پر احتجاج ریکارڈ کرانے کے لئے جلوس نکالنے کی روش قائم ہوئی ۔ تقریباً تمام مکاتبِ فکر نے دینی مقاصد کے لئے جلوس نکالے، مثلاً: شوکتِ اسلام ، نفاذِ شریعت ، ناموسِ رسالت اور عظمتِ صحابہ وغیرہ کے نام پر جلوس نکالے جاتے رہے ہیں اور یہ تمام سرگرمیاں دین اور مقاصدِدین سے تعلق رکھتی ہیں اور انہیں اس دورمیں قبولِ عام مل چکا ہے ۔ اسی طرح دینی جماعتوں کاقیام، تبلیغی اجتماعات کاانعقاد، افتتاحِ بخاری یا ختمِ بخاری کی تقریبات ، مدارس کے سالانہ جلسے یا پچاس سالہ اورڈیڑھ سوسالہ جشن، سیرت النبی ﷺکے جلسوںکاانعقاد، انٹرنیٹ کادرسِ قرآن اوردین کے ابلاغ کے لئے استعمال وغیرہ ۔ مقامِ حیرت ہے کہ اس طرح کی تمام سرگرمیوں پر کبھی کسی نے کوئی فتویٰ صادر نہیں کیا، توصرف محافل وجلوسِ میلادالنبی ﷺ کو ہدفِ تنقید بنانا یا بدعت قرار دینا انتہائی زیادتی ہے۔
میلادالنبیﷺکو بدعت قرار دینے والوں کا کام آسان ہے کہ وہ فتویٰ دے کر اپنے فرض سے سبکدوش ہوجاتے ہیں ، لیکن میرا درد اس سے سوا ہے۔میری خواہش ہے کہ ان مجالس کو دینی تعلیم و تربیت کا مؤثر ذریعہ بنانا چاہئے اور محبتِ رسول اللہﷺکاثمر اِطاعت واِتباعِ نبوی کی صورت میں ظاہر ہوناچاہئے۔پیشہ وَر واعظین، موضوع روایات بیان کرکے لوگوں کی عقیدت کو اپنی دنیاسنوارنے کے لئے ابھارتے ہیں اوراِسے روحانی سرور کا ذریعہ بنالیاگیا ہے۔خیر کاکام اِس انداز سے ہوناچاہئے کہ اُس کے مثبت نتائج برآمد ہوں، لاؤڈ اسپیکر کا استعمال بقدرِضرورت اور مناسب وقت تک ہو،یہ نہ ہو کہ لاؤڈ اسپیکر کے شور سے لوگوں میں بیزاری اور نفرت پیداکی جائے،کسی اور کی غلط رَوِش کو اپنے لئے جواز نہ بنایاجائے۔چراغاں کے لئے بجلی کا استعمال قانون کے دائرے میں ہونا چاہئے ،ناجائز طریقے اختیار کرکے اُسے سعادت یا باعثِ اجرسمجھنا غیر شرعی فعل ہے،اﷲتعالیٰ فرماتاہے : ''اے ایمان والو ! (اللہ کی راہ میں ) اپنی پاکیزہ کمائی میں سے او ر اُن چیزوں میں سے خرچ کروجوہم نے تمہارے لئے زمین سے نکالی ہیں،اور ناقص چیزیں خرچ کرنے کا اِرادہ نہ کرو ،جن کو تم خود بھی چشم پوشی کئے بغیر(خوشدلی سے )نہ لو،(بقرہ:267)‘‘۔مالِ حرام کوحرام سمجھتے ہوئے اﷲکی راہ میں صدقہ کرنااوراس پراجرکی امیدکرناایمان کے منافی ہے۔