"MMC" (space) message & send to 7575

حسد

ہمارے سیاسی امراض کی اصلاح کا بیڑا تو ماشاء اللہ ہمارے میڈیا نے رضا کارانہ طور پر اٹھا رکھا ہے، یہ الگ بات ہے کہ روزانہ کے دھواں دار مناظرے اور مباحثے کے بعد جب وہ اپنے پروگرام کی بساط لپیٹتے ہیںتو ناظرین کے دامن میں فکری انتشار، بے یقینی اور قنوطیت کے سوا کچھ باقی نہیں بچتا۔ لہٰذا بہتر ہے کہ ہم آج اصلاحِ ذات اور پاکیزگیٔ نفس کی بات کریں ۔ رسول اللہ ﷺ تعلیمِ امت کے لیے اکثر اپنے خطباتِ مبارَکہ میں یہ کلمات ارشاد فرماتے تھے:''ہم اپنے نفس کی شرارتوں سے اﷲکی پناہ میں آتے ہیں‘‘۔انسان کو جو اَخلاقی اور نفسانی عوارض لاحق ہوتے ہیں، ان میں سے ایک حسد ہے، اسے ہم اردو میں'' جلنا‘‘اور انگریزی میں ''Jealousy‘‘کہتے ہیں۔اس کے مقابل جو پسندیدہ صفت ہے، اسے عربی میں ''غِبْطَہ‘‘اور اردو میں''رشک‘‘کہتے ہیں۔
کسی کو جمال، مال، صحت، علم یا جاہ ومنصب جیسی نعمتوں میں پھلتا پھولتا دیکھ کر یہ تمنا کرنا کہ اُس سے یہ نعمت چھن جائے اور مجھے مل جائے، حسد کہلاتا ہے۔ یہ اتنی قبیح نفسانی صفت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ''سُوْرَۃُ الْفَلَق‘‘ میں حاسد کے حسد سے پناہ مانگنے کی تعلیم دی ہے۔ نعمتیں عطا کرنے والی ذات اﷲ تعالیٰ کی ہے اور وہی بہتر جانتا ہے کہ کسے نعمت تفویض کرے اورکسے محروم کردے یاکون نعمت کاحق دار ہے اورکون نہیں اور یہ کہ کس کے لیے اُس کی عطائیں انعام کے طور پر ہیں اورکس کے لیے امتحان اوراِبتلاکے طور پر ہیں؟ 
حاسد دَراصل اﷲ کی تقدیر اور تقسیم پر اعتراض کرتاہے۔اﷲتعالیٰ کاارشاد ہے:
(1) ''کیا یہ لوگ اُس چیز پر حسد کرتے ہیں جو اللہ نے ان کو (یعنی اپنے پسندیدہ بندوں)کواپنے فضل سے عطا فرمائی ہے‘‘(النساء:54)۔ 
(2) ''اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پرجو فضیلت دی ہے،اس (کے چھن جانے )کی تمنا نہ کرو‘‘(النساء:32)۔ایسی تمنا تو وہ کرے گا جس کا یہ ایمان ہو کہ اللہ کے خزانے میں اتنا ہی تھا جو اِس شخص کو دے دیا،اب میرے لیے کچھ نہیں بچا۔ مومن کا تو یہ اعتقاد ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے خزانے بے حد وبے حساب ہیں، وہ جتنا بھی کسی کو عطا کرے اس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں آتی ۔ پس مومن کو تو یہ تمنا کرنی چاہیے کہ اے اللہ! یہ بھی تیری نعمتوں میں پھلتا پھولتا رہے اور مجھے بھی اپنے فضل وکرم سے نواز دے۔چنانچہ فرمایا:''اوراللہ سے اُس کے فضل کا سوال کرو‘‘(النساء:32)مشرکینِ مکہ نے اعتراض کیاکہ اگر اﷲتعالیٰ کو نبوت عطا کرنی ہی تھی تو مکہ اور طائف کی بستیوں میں سے کسی بڑے سردار یا رئیس کو عطا کی جاتی، ظاہری اعتبار سے وسائل نہ رکھنے والے حضرت عبداللہ وآمنہ کے یتیم فرزندکوکیوں عطاکردی گئی؟اﷲعزّوجلّ ارشاد فرماتاہے:'' اور انہوں نے کہا: یہ قرآن ان دو شہروں (مکہ اور طائف) کے کسی بڑے آدمی پرکیوں نہ نازل کیا گیا؟(اﷲتعالیٰ نے ان کے اِس اعتراض کا جواب دیا)کیا یہ (کفار) آپ کی رحمت کو تقسیم کرتے ہیں ؟ہم نے (اپنی حکمت سے)ان کے درمیان دنیاوی زندگی میں (اسبابِ) معیشت کو تقسیم کیا ہے‘‘۔(الزخرف:31-32) اس آیت میں بتایا کہ دنیا یا آخرت کی نعمتوں کو اﷲتعالیٰ اپنی حکمت سے تقسیم فرماتا ہے، اس کے لیے وہ کسی کو جوابدہ نہیں ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتاہے جیسے آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے اورصدقہ گناہوںکو ایسے دھو ڈالتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھادیتا ہے اور نماز مومن کا نور ہے اور روزہ جہنم سے (بچاؤ کے لیے) ڈھال ہے‘‘۔(سنن ابن ماجہ:4210) آپ ﷺ نے ایک طویل حدیث میں فرمایا:''مومن کے دل میں ایمان اور حسد دونوں بیک وقت جگہ نہیں پاسکتے‘‘۔(سنن نسائی:3109) رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا:'' تمام لوگوں میں افضل کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:''ہر وہ شخص جو نرم دل اورزبان کا سچا ہو، صحابہ نے عرض کی: زبان کا سچا ہونے کو تو ہم پہچانتے ہیں، یہ ''مَخْمُوْ مُ الْقَلْب(نرم دل)‘‘کو ن ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ جو متقی ہو،اس کا دل پاکیزہ ہو،اس نے کوئی گناہ اور سرکشی نہ کی ہواور وہ اپنے دل میں کسی کے لیے کینہ اور حسد نہ رکھتا ہو‘‘۔(ابن ماجہ: 4216)
یہودِمدینہ ان آیات وعلامات سے سیدالمرسلین ﷺ کو جان چکے تھے کہ یہی وہ نبی ہیں جن کی بشارت سارے انبیائے کرام علیہم السلام دیتے چلے آئے ہیںاوران کی نشانیاں تورات کی آیات میں موجود ہیںاور وہ اﷲتعالیٰ کے اس آخر ی نبی کے منتظِربھی تھے۔قرآن نے یہ بھی بتایا کہ اپنے عہد کے کفارکے مقابلے میں وہ آنے والے نبیِ آخرالزمان ﷺ کے وسیلے سے فتح کی دعائیں بھی مانگتے تھے، لیکن جب خاتم النبیین سیدنا محمدرّسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے تو صرف اورصرف اس حسد کی بنا پرکہ یہ آخری نبی اور سارے انبیاء کے تاجداربنی اسرائیل کے بجائے بنواسماعیل سے کیوں آئے؟ چنانچہ اﷲتعالیٰ فرماتاہے :''اور جب ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ کتاب آئی جواُس آسمانی کتاب کی تصدیق کرنے والی ہے جوان کے پاس (پہلے سے موجود) ہے اور وہ اس سے پہلے(اسی نبیِ آخرالزمان کے وسیلے سے)کفارکے خلاف فتح کی دعا کرتے تھے، پس جب وہ ان کے پاس آگئے جن کو انہوں نے (تورات میں بیان کردہ نشانیوں سے) پہچان لیا تو انہوں نے ان کے ساتھ کفرکیا‘‘۔(البقرہ:89) اللہ تعالیٰ نے فرمایا:''جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے، وہ اس نبی کواس طرح پہچانتے ہیںجس طرح اپنے بیٹوںکو پہچانتے ہیں‘‘۔(البقرہ:146) اس سے معلوم ہوا کہ حسد اخلاقی اوراعتقادی اعتبار سے اتنی مُہلک بیماری ہے کہ اس کے باعث انسان نعمتِ ایمان سے محروم ہوجاتا ہے اور بعض اوقات ایک پوری امت اس کے نتیجے میں آخرت کی تباہی اوربربادی کا شکار ہوجاتی ہے۔
اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے تاکیداً فرمایا:''بدگمانی سے بچو، بدگمانی سب سے بڑا جھوٹ ہے اور تم لوگوں کی (پوشیدہ) باتیں نہ سنواور لوگوں کے عیوب کی چھان بین نہ کرواور جس چیزکو خریدنے کا ارادہ نہ ہواس کے قیمت بڑھانے کے لیے بولی نہ لگاؤ اور ایک دوسرے کے ساتھ حسد نہ کرواورایک دوسرے کے ساتھ بغض نہ کرواور پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی برائی نہ کرواور اے اللہ کے بندو! بھائی بھائی بن جاؤ‘‘۔کفار رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حسد بھی کرتے تھے، مختلف طریقوں سے ایذا بھی پہنچاتے تھے اور نظرِ بد بھی لگاتے تھے، جبرائیلِ امین آئے اوریہ دعائیہ کلمات پڑھ کرآپ کو دم کیا:''ہراس چیز سے جو آپ کو ایذا پہنچائے اورحسد کرنے والے ہر نفس اور آنکھ کے شر سے بچنے کے لیے میں اﷲکے نام سے آپ کو دم کرتا ہوں، اﷲکے نام سے میں آپ کو دم کرتاہوں، اﷲآپ کو شفا عطا فرمائے‘‘۔(ترمذی:972) 
حسد ہی وہ مرض ہے جس میں شیطان مبتلا ہوا، اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو مسجودِ ملائک بنا کر جو عظمت عطا کی، وہ اس سے برداشت نہ ہوئی اور اسی نفسانی مرض کے نتیجے میں وہ اللہ تعالیٰ کا نافرمان ہوا اور اﷲکی رحمت سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوگیا۔ آج ہمارے گھرانوں میں اور ماحول میں یہ اَخلاقی بیماری بہت عام ہے۔ حاسدکے حسد سے پناہ مانگنے کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے اسی لیے عطا فرمائی کہ حاسد آتشِ انتقام میں جَل کر کوئی بھی قدم اٹھا سکتا ہے ، لیکن زیادہ تر صورتوں میں حاسد اپنا ہی نقصان کرتاہے، اپنے ہی اعمالِ خیرکو بربادکرتاہے اوراپنے ہی دل ودماغ میں بھڑکائی ہوئی آگ میں جلتا اورکڑھتا رہتا ہے، دوسرے کا نقصان کم ہی کر پاتاہے، اسی لیے اﷲکے نیک بندے یہ دعا کیا کرتے ہیں :'' اے اﷲ! مجھے حاسد نہ بنا، محسود بنا‘‘۔ محسود اسے کہتے ہیں جس سے حسد کیا جائے اور ظاہر ہے کہ حسد اسی سے کیا جائے گا جس میں کوئی کمال ہو، خوبی ہو، صورت وسیرت کا جمال ہو، اﷲتعالیٰ نے اسے اپنی نعمتوں سے نوازا ہو۔ پس حسد کی آگ میں جلنے سے بہتر ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ سے اس کی رحمت، نعمت ،رأفت اور فضل وکرم کاسوالی بن کر رہے، اس کے خزانے میں کوئی کمی نہیں ہے اور اس کی عطا لامحدود ہے، نعمت ملے تو شکر کرے ، مشکل کا سامنا ہو تو صبر کرے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں