"MMC" (space) message & send to 7575

ایک مثالی اسلامی مملکت کا مثالی منشور … (آخری قسط)

اطاعت امیرکی حدود:اسلام میں خلیفۂ برحق اور شرعی طور پر مُجاز حاکم وامیر کی اطاعت بلاشبہ لازم ہے اور رعایا میں سے جو بھی فرد خلیفۂ برحق کی اطاعت سے عدول وخروج کرے، وہ باغی کہلاتا ہے۔ لیکن یہ اطاعت غیر محدود اور غیر مشروط (Unconditional)نہیں ہے، بلکہ یہ اطاعت صرف اسی صورت میں اور اس وقت تک لازم ہے جب تک خلیفہ یا امیر یا حاکم اعلیٰ کے احکام ،اطاعتِ الٰہی اور اطاعت رسول کے دائرے میں ہوں۔ اور اگر امیر خودہی اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول مکرم ﷺ کی مقررہ حدود کی حرمت کو پامال کرے، تو اس کی اطاعت ہرگز لازم نہیں ہے۔ اس سلسلے میں میں رسول اللہ ﷺنے ایک ابدی اور دائمی ضابطہ بیان فرمادیا ہے کہ''کسی ایسے معاملے میں مخلوق (خواہ وہ سربراہ مملکت وحکومت ہی کیوں نہ ہو)کی اطاعت تم پر لازم نہیں ہے، جس سے خالق عزّوجلّ کی نافرمانی لازم آتی ہو‘‘۔
اس سے معلوم ہؤا کہ اسلام میں مقتدر مطلق (Sovereign)نہ سربراہ مملکت وحکومت ہے، نہ قاضی القضاۃ (Cheif Justice) ،نہ پارلیمنٹ اور نہ ہی عوام۔ مُقتدِرِ مُطلق(Absolute sovereign)صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے،اور غیر مشروط مُطاع، یعنی جس کی اطاعت ہر حال اور ہرصورت میں لازم ہو،صرف اﷲتعالیٰ اور رسول اللہﷺکی ذات ہے، اسی کو قرآن نے ''حاکمیتِ الٰہیہ‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔لہٰذا اس قسم کے تمام سلوگن کہ: ''اقتدار کا سر چشمہ عوام ہیں‘‘یااقتدارِ اعلیٰ (Sovereignty)پارلیمنٹ کو حاصل ہے‘‘،اسلام میں ہر سطح کا اقتدار واختیار مشروط ہے اور نیابتِ رسول اور خلافتِ الٰہی کی مقررہ حدود کا پابند ہے۔اسی اصول کو اللہ تعالیٰ نے سورۂ نساء آیت:59 میں بیان فرمایا ہے۔
عوام کی ذمہ داری: حضرت ابو بکر صدیق نے فرمایا:''اگر میں غلط روش اختیار کروں تو تم مجھے سیدھاکردو‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ عامّۃ المسلمین بالخصوص اہل الرائے اور اہل فکر ونظر پر یہ شرعی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو امور مملکت وحکومت سے الگ تھلگ نہ رکھیں، حاکمِ وقت پر کڑی نظر رکھیں، اگر وہ شریعت کے جادئہ مستقیم پر رواں دواں ہے، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی ہدایات وحدود پر سختی سے کاربند ہے تو حمایت حق کیلئے اس کے دست و بازو بن جاؤ۔ اگر خدانخواستہ وہ راہ راست پر نہیں ہے، حق کو ٹھکرا رہا ہے ،حدود الٰہی کو پامال کر رہا ہے ،تو اسے اجتماعی قوت سے سیدھا کر دو اور اگراصلاح و ہدایت کی ہر صدا کیلئے وہ اندھا اور بہرا بن گیا ہے تو اسے معزول کر دو ۔ کچھ لوگ اپنے تقوے اور پارسائی پر ناز کرتے ہیں اور گردو پیش میں کچھ بھی ہوتا رہے ، اس سے الگ تھلگ رہتے ہیں ،ایسے لوگوں کی توجہ کیلئے احادیث پیش خدمت ہیں:
''حضرت حذیفہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قسم اس رب ذوالجلال کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، تم پر لازم ہے کہ نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو، ورنہ (اگر تم نے اس طرز عمل کو نہ اپنایا)بعید نہیں کہ اللہ تم پر اپنا عذاب نازل فرمائے، پھر تم ضرور دعائیں بھی کروگے ،لیکن وہ اللہ کی بارگاہ میں قبول نہیں ہوگی،(سُنن ترمذی:2169)‘‘۔
حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اللہ عزوجل نے جبرئیل علیہ السلام کو حکم فرمایا کہ فلاں بستی کو اس کے رہنے والوں سمیت الٹ دو،جبرئیل امین نے عرض کی:اے ربّ جلیل! اس بستی میں تیرافلاں(نیک اور پارسا) بندہ بھی ہے جس نے کبھی پلک جھپکنے کی مقدار بھی تیری نافرمانی نہیں کی(یعنی اس کے ساتھ کیا سلوک کیاجائے) ،ربّ ذوالجلال نے فرمایا: ہاں‘ اس شخص سمیت پوری بستی کو الٹ دو ،کیونکہ(اس کے سامنے میری حدود پامال ہوتی رہیں، لیکن اس کی غیرتِ ایمانی کبھی نہ جاگی اور) میری خاطر (حق کو پامال ہوتادیکھ کر )اس کا چہرہ کبھی غضب آلود نہ ہوا،(مشکوٰۃ :5152) ‘‘ ۔ 
اسلامی حکومت کے قیام کا مقصد: تاریخ کے اکثر ادوار میں یہ دیکھا گیا ہے کہ ظالم طاقت ور ہوتا ہے ، وہ طاقت کے نشے میں چُور ہوتا ہے، اثر ورسوخ کا مالک ہوتا ہے، اس کے سامنے قانون بے اثر ہوجاتاہے اور نظامِ عدل معطَّل و مفلوج ہو جاتاہے اور رقص ابلیس کرتا ہے۔ حکومت الٰہیہ ، خلافتِ ربّانی اور امارتِ اسلامی کے قیام کا اولین مقصد یہی ہے کہ ظلم کے بڑھتے ہوئے ہاتھ کو روکا جائے ، نہ رکے تو اسے کاٹ پھینکا جائے۔''طاقت ‘‘ کو معیار حق نہ بنایا جائے بلکہ '' حق‘‘ کی قوت کو تسلیم کیا اور کرایا جائے۔مظلوم چونکہ حق پر ہوتا ہے اس لئے ریاست اپنی طاقت اس کے پلڑے میں ڈال دے تاکہ ظالم‘ حق کی طاقت کو تسلیم کر کے اس کے آگے سرنگوں ہو جائے اور مظلوم کو اس کا حق دینے پر راضی ہو جائے۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے اولین خطبۂ خلافت میں اسی فلسفۂ حکمرانی کوعمل کے قالب میں ڈھال کر دکھا یا کہ ''میری نگاہ میں مظلوم ہی طاقت ور ہے تا وقتیکہ اس کا حق اسے دلا نہ دیا جائے‘‘۔ کیونکہ مظلوم کی فریاد میں اتنی تاثیر ہے کہ عرش الٰہی کو ہلا دیتی ہے، رسول اللہ ﷺ کاارشادہے:''مظلوم کی فریاد سے ڈرو ، کیونکہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہے،(بخاری:1496)‘‘۔
حدیث مبارَک ہے:'' قیامت کے دن مقتول مظلوم اپنے قاتل کو پکڑ کر اللہ کی عدالت میںپیش کرے گااور عرض کرے گا کہ اے رب کریم!اس سے پوچھئے کہ اس نے کیوں مجھے (ظلماً) قتل کیا؟،قاتل عرض کرے گا:(اے رب!)فلاں بادشاہ یا حکمراں کے دور میں، میں نے یہ قتل کیا ،(یعنی وہ دور ہی ظلم کا تھا)،(نسائی:4010)‘‘۔اور انسانیت اسی نظام عدل کیلئے ترس رہی ہے جس کا نمونۂ کامل سید المرسلین ﷺ نے قائم فرمایا اور پھر خلفائے راشدینؓ نے اس''منہاج ِ نبوت‘‘پر نظام خلافت اور نظام عدل کو قائم کر کے دکھایا۔اسی عدل کی برکات تھیں کہ اس دور کی ساری سپر پاورز، یعنی قیصر وکسریٰ ، عظمت اسلام کے آگے سرنگوں ہوگئیں۔
جہاد ہی میں بقا ہے: رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :''جہاد قیامت تک جاری رہے گا‘‘ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا :''جو قوم جہاد کو ترک کردیتی ہے ،ا للہ اس پر ذلّت و رسوائی مسلط فرما دیتاہے‘‘۔ لہٰذا اہل ایمان کی سربلندی اور عزت وسرفرازی کا راز جہاد ہی میں مضمر ہے۔
فواحش نزول بلا ء و وبا کا سبب ہے: حضرت ابوبکر نے اپنے خطبہ میں فرمایا کہ ''جب کسی قوم میں بے حیائی و بدکاری فروغ پاتی ہے تو اس پر ارضی وسماوی مصیبتیں نازل ہوتی ہیں۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :''جب کسی قوم میں اللہ کی نافرمانی کا دور دورہ ہو ، معاصی عام ہوں ، اور وہ طاقت کے باوجو د ان کا سدِباب نہ کریں تو اللہ ان پر عمومی عذاب نازل فرماتاہے۔ 
مسئلۂ تکفیر:آج کل بہت سے لوگ اس مسئلے کو پوری قوت کے ساتھ اجاگر کرتے ہیں کہ ریاست کے علاوہ کسی شخص کو اس امر کی اجازت نہیں ہونی چاہئے کہ وہ کفر کا فتویٰ جاری کرے یا کسی فعل کو کفر قرار دے اور اس کے مرتکب کو کافر کہے ۔ بلاشبہ کسی کو کافر کہنا یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ہمارے فقہائِ کرام نے لکھا ہے: ''خلاصہ‘‘ وغیرہ میں ہے : جب ایک کلام میں کئی پہلو کفر کا اَحتمال رکھتے ہوں اورایک احتمال کفر سے مانع ہو،تو مفتی پر لازم ہے کہ اس مسلمان کے ساتھ حسنِ ظنّ رکھتے ہوئے‘ اُس ایک احتمال کو ترجیح دے اور تکفیر سے احتراز کرے، (عالمگیری، جلد2،ص:283)‘‘۔ لیکن اگر کوئی شخص کفریہ معنیٰ کو سمجھ کر اس پر اصرار کرے ،توپھر اس پر کفرکا حکم لگایاجائے گا۔
لیکن اگر حکومت اسلام سے لاتعلق ہوجائے تو اُس عہد کے علماء ِ حق پر لازم ہے کہ اسلامی عقائد کی حفاظت کریں اور کفر صریح کو کفر کہیں ۔ لوگ ہمارے پاس ایسے بے شمار سوال لے کرآتے ہیں کہ ایک شخص سرے سے اللہ کی ہستی کا منکر ہے ، معاذاللہ! اللہ تعالیٰ کو ظالم کہتاہے، قرآن کا، رسول کا انکار کرتاہے، تو ہمیں کیا کہنا چاہئے کہ وہ سچا اور پکامسلم ہے۔ فتویٰ کسی بھی دریافت طلب مسئلہ کے بارے میں فقہی رائے اور شرعی حکم بیان کرنے کا نام ہے۔ فتویٰ قضا نہیں ہے ، قضاعدالت کامنصب ہے۔ یہ قاضی اور جج کا منصب ہے کہ وہ کسی دعوے کی صداقت کو پرکھے ، اسے درست قرار دے ، اس کا حکم بیان کرے اور قانون کے مطابق سزا دے یا دعوے کو باطل قرار دے ۔ اگر ریاست اپنی ذمہ داری پوری کرے ، تو یہ سب سے اَحسن طریقہ ہے اورحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہی کیاکہ رسول اللہ ﷺ کے وصال فرمانے کے بعد انتہائی حساس اور نازک دور تھا، مگر جب زکوٰۃ کی ادائیگی سے انکاراور جھوٹے مُدعیانِ نبوت کا فتنہ برپاہوا، تو خلیفۃالرسول نے زکوٰۃ کی ادائیگی سے انکار کرنے والوں سے قتال کیا، مُرتدین اور خصوصاً مُسَیلَمہ کذّاب کے خلاف جہاد کرکے اِن فتنوںکی سرکوبی کی۔ اِسی طرح حضرت علی ؓنے خارجیوں کے خلاف جہاد کیا اور اس فتنے کا خاتمہ کیا،اُس زمانے کے خوارج کا فتنہ یہ تھاکہ وہ انارکسٹ اور مذہبی انتہا پسند تھے اوراپنے نظریے سے اختلاف رکھنے والے مسلمانو ں کو کافر اور واجب القتل سمجھتے تھے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں