''استخارہ‘‘کے لفظی معنی ہیں :''خیر طلب کرنا‘‘ اور اس کا شرعی مفہوم یہ ہے :وہ معاملہ جس کے دونوں پہلو شرعاً جائز ہیں ، یعنی شرعاً آپ اُسے اختیار بھی کرسکتے ہیں اور ترک بھی کرسکتے ہیں۔ اور انجام کار فائدہ اسے اختیار کرنے میں ہے یا ترک کرنے میں ، اس کے بارے میں آپ کو تردّد ہے، آپ متذبذب ہیں ،اپنی عقل کی روشنی میں آپ فیصلہ نہیں کرپاتے کہ کروں یا نہ کروں اور آپ کا دل اس طرف مائل بھی ہورہا ہے، آپ اُس خیال کہیں ذہن سے جھٹک کر نکال بھی نہیں سکتے کہ: ''کہیں ایسا نہ ہوجائے، کہیں ویسا نہ ہوجائے‘‘، اُس کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے خیرکے تعین کے بارے میں رہنمائی حاصل کرنا۔
جس کام کے کرنے کا شریعت میں حکم ہے، اس کے لئے ''استخارہ‘‘ نہیں کیا جاتا، وہ تو ویسے بھی شریعت کا مطلوب ہے، اسی لئے فارسی کا مقولہ ہے:''در کارِ خیر حاجتِ استخارہ نیست‘‘، یعنی نیک کام میں استخارے کی کوئی حاجت نہیں ہے۔ استخارہ گزشتہ اُمور کے بارے میں بھی نہیں کیا جاتا کہ کوئی آکر آپ کو بتائے کہ: ''آپ پر جادو ہوگیا ہے یا بندش کردی گئی ہے اور اب اس کا توڑ کیا جائے گا‘‘ ۔ جو کام شرعاً حرام ہے ، اس کے لئے استخارہ کرنا بھی حرام ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر بہت بڑی جسارت ہے اور اس کے غیظ وغضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ استخارہ مباح اُمور میں ہوتاہے کہ: فلاں کے ساتھ اپنے بیٹے یا بیٹی کا رشتہ قبول کریں یا نہ کریں ، کسی شخص کے ساتھ کاروباری شراکت کریں یا نہ کریں ، آپ کو ایک سے زائد مقامات سے ملازمت کی پیشکش آتی ہے، آپ تذبذب میں پڑجاتے ہیں کہ کسے قبول کریں اور کسے رَد کریں،وغیرہ۔
استخارہ کی تعلیم حدیث پاک میں فرمائی گئی ہے: حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں: ''نبیﷺ ہمیں تمام(جائز اور مباح) اُمور میں ''استخارہ‘‘ کی تعلیم اس اہتمام کے ساتھ فرماتے تھے، جیسے ہمیں قرآن کی کوئی سورت تعلیم فرماتے تھے، (تو استخارہ یہ ہے کہ ) جب تم میں سے کوئی کسی کام کا ارادہ کرے، تو اُسے چاہئے کہ دو رکعت نفل پڑھے، پھر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ دعا کرے:''اے اللہ! میں تیرے علم سے خیر کو جاننے کے لئے رہنمائی چاہتاہوں اور خیر کو حاصل کرنے کے لئے تیری ذات سے توفیق کا طلب گار ہوں اور میں تیرے فضل عظیم سے سوال کرتاہوں ہوں ، کیونکہ تو قدرت والا ہے اور میں عاجز وبے بس ہوں ، تو معاملات(کے اچھے یا برے انجام)کو جانتا ہے اور میں نہیں جانتا ، کیونکہ تو غیبی امور کوبہت جاننے والا ہے۔ اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ معاملہ جو مجھے درپیش ہے، میرے دین کے لئے، میری معاش کے لئے ،انجامِ کارکے اعتبار سے، فوری اوردیرپافائدے کے اعتبار سے میرے لئے بہتر ہے،توتواسے (اپنے فضل وکرم سے) میرے لئے مقدر فرما۔ اور (اے اللہ!) اگرتوجانتا ہے کہ یہ معاملہ (جو مجھے درپیش ہے)،میرے دین ،میری معاش ،انجامِ کارکے اعتبار سے ،فوری اور دیرپا فائدے کے اعتبار سے میرے لئے برا ہے،تو اسے مجھ سے دور کردے اور مجھے اس سے دور کردے، اور(اس کے بدلے میں ) جہاں بھی خیر ہے،وہ میرے لئے مقدر فرما،پھر اسے میرے دل میں پسندیدگی عطا فرما (یعنی مجھے قلبی اطمینان اور قرار و سکون نصیب ہوجائے کہ بس یہی میرے لئے خیر ہے)،اور ''ہٰذَالْاَمْرَ‘‘ (یعنی یہ معاملہ) کی بجائے (چاہے تو) اپنی حاجت کا نام لے کردعاکرے،(صحیح بخاری:6382)‘‘۔اس حدیث کوامام مسلم کے سوامحدثین کی ایک جماعت نے روایت کیاہے۔
علامہ علاؤ الدین حصکفی لکھتے ہیں:''اوران مستحب نمازوں میں دورکعت نماز ِاستخارہ بھی ہے‘‘۔اس کی شرح میں علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں:''اور''حلیہ‘‘ میں ہے: اور اس دعائِ استخارہ کی ابتدا اورآخر میں حمد وصلوٰۃ پڑھنا مستحب ہے، اور ''الاذکار‘‘ میں ہے:پہلی رکعت میں سورۂ ''الکافرون‘‘ اور دوسری رکعت میں سورۂ ''اخلاص‘‘پڑھے ۔اوربعض بزرگوں سے روایت ہے کہ پہلی رکعت میںسورۂ''الکافرون‘‘ کے بعدسورۂ القصص کی آیات:68-69 اور دوسری رکعت میںسورۂ اخلاص کے بعد سورۂ احزاب، آیت:36 کی ''مِنْ اَمْرِھِمْ‘‘ تک پڑھے۔( اور اگر درپیش مسئلہ کے بارے میںکسی ایک جانب قلبی اطمینان حاصل نہ ہوتو) سات دن تک مسلسل اس طریقۂ کار کے مطابق اللہ تعالیٰ سے استخارے کی مسنون دعا مانگتے رہنا چاہئے جیسا کہ'' ابن السّنی‘‘ نے روایت کیا ہے: ''اے انس: ! جب تم کسی کام کا ارادہ کرو،تو اس کے بارے میں اپنے رب سے سات باررہنمائی کی دعا کرو، پھر سمجھو کہ تمہارے دل میںدرپیش مسئلے کے کرنے یا نہ کرنے کی بابت جو بات قرارپا گئی ہے، بس خیر اسی میں ہے‘‘۔اور اگر استخارے کے لئے نفل نماز پڑھنا دشوار محسوس ہو تو صرف دعا پر بھی اکتفا کرسکتے ہو،یہ( ''اذکار‘‘ کی عبارت کا )خلاصہ ہے۔اور ''شرح الشرعۃ‘‘ میں ہے:ہم نے اپنے مشائخ سے سنا ہے کہ مذکورہ دعا پڑھنے کے بعد باوضو ہوکر قبلہ رُوسوجائے ، پس اگروہ خواب میں سفید یا ہرا رنگ دیکھے تو سمجھ لے کہ اس میں خیر ہے اور اگر کالایا سرخ رنگ دیکھے توسمجھ لے کہ اس میں شر ہے، پھر اس کام سے اجتناب کرے، (ردالمحتارعلی الدرالمختارجلدنمبر2صفحات 409-410)‘‘۔
حدیث پاک میں خواب میں کسی چیز کے نظر آنے یا نہ آنے کا ذکر نہیں ہے اور نہ ہی خواب کا آنا ضروری ہے، یہ بزرگوں اوراہل خیر کے اپنے اپنے تجربات ہیں۔ لیکن اگرخواب نظرآجائے،تو اس سے رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے، مگرآج کل کے خواب بالعموم افکارِ پریشاں ہوتے ہیں، جنہیں سورۂ یوسف میں ''اَضْغَاثُ اَحْلَام‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ ایک دن خواب میں ایک رخ دیکھتے اور دوسرے دن اس کے برعکس؛ چنانچہ وہ کنفیوژ ہوجاتے ہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے استخارہ کرنے کے بعد جب دل کو کسی ایک جانب سکون وقرار نصیب ہوجائے ،تو اسے اﷲتعالیٰ کی طرف سے سمجھے اوراُس کی ذات پر توکّل کرتے ہوئے اُس کام کو انجام دے۔ اللہ تعالیٰ سے کامیابی کی دعا کرتے ہوئے یہ امید رکھے کہ وہ اس میں برکت عطافرمائے گا۔ اگرخدانخواستہ اس پر عمل کرنے کے نتیجے میں کسی ناکامی کا سامناہو ،تو یہ سمجھے کہ اللہ تعالیٰ کے منشاکو سمجھنے میں مجھ سے خطاہوگئی ہے یا یہ گمان کرے کہ اگر اس کے برعکس کیا ہوتا توممکن ہے کہ اس سے بڑی ناکامی یا نقصان کا سامنا کرناپڑتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''ہوسکتا ہے کہ ایک چیز کو تم اپنے حق میں ناپسندیدہ سمجھو،(مگر)وہ (درحقیقت)تمہارے حق میں بہتر ہو اور (یہ بھی) ہوسکتا ہے کہ ایک چیز کو تم اپنے لئے پسندیدہ سمجھو (مگردرحقیقت) وہ تمہارے لئے بری ہو،(البقرۃ:216)‘‘۔صرف نبی کا خواب یا الہام'' قطعی حُجت ‘‘ہوتا ہے، غیر نبی کا خواب یا الہام ایک ظنّی اَمر ہے،لہٰذااگر کسی نے کسی مسئلے میں استخارہ کیا اورکسی وجہ سے اس پر عمل نہ کیا،تو اس سے گنہگار نہیں ہوگا، نہ ہی اُس پر کوئی وبال آئے گا۔
جو شخص اپنے دَرپیش مسئلے میں پانچ /سات بار عاجزی سے اپنے رب کے حضورالتجا اورطلبِ خیرودعا کے لئے ذہنی،فکری اور عملی طورپر آمادہ نہ ہو،وہ استخارے کی روح اورحقیقت کو سمجھا ہی نہیں۔ باقی وہ لوگ جو استخارے کے نام پر ماضی کے اَحوال بتاتے ہیں کہ کسی پر کالا جادو ہوگیا ہے،سفلی عمل کردیا گیا ہے،چند سیکنڈ میں یہ تمام غیبی اُمور ان پر منکشف ہوجاتے ہیں اور ایک ہی لمحے میں اُن کا حل بھی نکل آتا ہے،یہ حدیث میں نہیں ہے۔ اس سے لوگ توہُّم پرستی اور تشکیک میں مبتلا ہوتے ہیں، تقدیرِ الٰہی پر رضا، جومومن کا شِعار ہونا چاہئے، اُس میں کمزوری واقع ہوتی ہے ۔پھر لوگ کسی مشکل صورتِ حال میں، جب انہیں کوئی فیصلہ کن راہ سجھائی نہ دے،اللہ تعالیٰ کی ذات سے براہِ راست رجوع کرنے اور اس کے حبیبِ کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام سے توسُّل کی روش کو ترک کرکے،طرح طرح کے عاملوں سے رجوع کرتے ہیں۔استخارہ تومستقبل میں کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں اﷲتعالیٰ سے رہنمائی طلب کر نے کا نام ہے۔ آج کل اسے کاروبار بنادیا گیا ہے اور کئی جگہ بورڈ آویزاں ہوتے ہیں کہ ''استخارہ کرالو‘‘ ۔ یعنی بندہ اتنا بے نیاز ہوگیا ہے کہ خود اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں رجوع کرنے کی بجائے یہ کام بھی نذرانہ اور فیس دے کر دوسروں سے کراناچاہتاہے۔
حدیث پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ َدرپیش معاملات اورمباح امورمیں سے کسی ایک کے انتخاب کے لئے یاکسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں استخارہ کرنا افضل اورمستحب ہے ،لیکن یہ واجب نہیں ہے ،یعنی استخارہ نہ کرنے پر گنہگارنہیں ہوگا۔