"MMC" (space) message & send to 7575

Disclaimer

آج کل ہمارے الیکٹرانک میڈیا پر بعض پروگراموں کے شروع میں Disclaimerلکھا ہواآتاہے اوراس کے مندرجات پلک جھپکتے میں نظروں کے سامنے اسکرین پر گزرجاتے ہیں۔ اس کا ہم اردو میں ترجمہ ''اظہارِ لاتعلقی‘‘ یا ''اعلانِ برأت‘‘ کرسکتے ہیں ۔ اس میں بتایا جاتاہے کہ پروگرام میں پیش کردہ مشمولات (Contents)میزبان کے ذاتی خیالات ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ انہیں حقائق کے طور پر پیش نہ کریں یا اس میں پیش کیے گئے واقعات فرضی ہیں اور کسی سے مشابہت محض ''اتفاق‘‘ ہوگا اور یوں ادارہ ان خیالات وافکار کے لئے اپنا فورم یا پلیٹ فارم بھی فراہم کرتاہے اور اس کے ممکنہ قانونی نتائج سے بری الذّمہ بھی ہوجاتاہے۔ 
''اتفاق‘‘ سے یاد آیا کہ ہماری سیاست کے ایک مرنجا مرنج کرداراور ایک عرصے سے اپنی جماعت کے معتوب اور ناپسندیدہ حافظ حسین احمد صاحب ہیں ۔ 2002ء کے قومی انتخابات کے بعداُس وقت کے صدر جناب جنرل(ر) پرویز مشرف کو ایک عدد فرماں بردار اور بے ضرر وزیراعظم کی تلاش تھی اورمختلف شخصیات زیرغور تھیں، اُن میں سے ایک پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے جناب مخدوم محمدامین فہیم بھی تھے۔''علیٰ رُؤوسِ الاَشھاد‘‘ یعنی آن دی ریکارڈ ملنے میں اپنی پارٹی کے حوالے سے انہیں مشکلات دَرپیش تھیں ۔چنانچہ رات کو مری روڈ پردامنِ کوہ میں ایک ریستوران میں یہ ملاقات ہوگئی۔ اخبارات کے تجسُّس اور رازہائے دروں جاننے کے ماہراور ہرآن چوکس رہنے والے رپورٹرزنے تعاقب کرکے اس کا کھوج لگالیا اور یوں یہ راز طشت اَزبام ہوگیا، چنانچہ فریقین نے اسے ''اتفاقیہ ملاقات‘‘ قرار دیا۔ اس پر حافظ صاحب نے بامعنی طنزیہ پھبتی کسی کہ ہاں واقعی یہ ''اتفاقیہ ملاقات‘‘ تھی، کیونکہ اس پر پیشگی ''اتفاق‘‘ ہوگیا تھا۔ 
گفتگو کا اصل موضوع ''Disclaimer‘‘تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ جن زریں افکار وخیالات کے اَمرواقعہ اور نفس الامرکے مطابق ہونے کا خودادارے کو یقین نہیں ہے، ان کو نشر کرنااخلاقًا کس حدتک درست ہے؟،یہ ایک اہم سوال ہے۔ جب کہ اللہ تعالیٰ کا حکم یہ ہے:''اے ایمان والو! جب تمہارے پاس کوئی فاسق (یعنی بے اعتبار شخص) کوئی خبر لے کرآئے ، تو (فوری رَدِّ عمل سے پہلے اُس کی) تحقیق کرلیاکرو ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم حقیقت حال کو جانے بغیر کسی قوم کو نقصان پہنچادو اور پھر تمہیں اپنے کئے پر ندامت ہو، (الحجرات:6)‘‘۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے اتنا ثبوت ہی کافی ہے کہ ہر سنی سنائی بات کو (تحقیق کے بغیر ہر ایک سے) بیان کرتاپھرے،(صحیح مسلم:07)‘‘۔
الیکٹرانک میڈیاکو اب تک بلوغت کی منزل میں داخل ہوجاناچاہئے تھا،اُس کے انداز میں ٹھہراؤ آجانا چاہیے تھا۔ مسابقت(Competition) اگر تعمیری اور مثبت ہو تویہ ایک اچھی رَوِش اور قابلِ تحسین شِعار ہے، محض سنسنی خیزی کے لئے نہ ہو کہ لوگ سکتے میں آجائیں ، مبہوت ، حیرت زدہ اور دہشت زدہ ہوجائیں اور آپ کی اسکرین سے چپٹے رہیں ۔ا سی طرح صرف ایسی خبروں پر زور نہیں ہوناچاہئے جو پاکستان میں مایوسی پھیلائیں اور بیرون ملک پاکستان کا منفی چہرہ دکھائیںاور اپنے اور غیر سب کو یہ یقین ہونے لگے کہ پاکستان اب حکمرانی کے قابل نہیں رہا ۔ یا یہ کہ پاکستان ایک انتہائی خطرناک ملک ہے اور ہر پاکستانی دہشت گرد ہے اور انسانیت کے لئے خطرے کی علامت ہے۔ ایسے میں کون پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے آگے آئے گا اور غیر ملکی ٹیمیں کیسے پاکستان کے میدانوں کا رُخ کریں گی۔
نوبت یہاں تک آگئی کہ یہی Disclaimerاب الیکٹرانک میڈیاکے چینل ایک دوسرے کے خلاف استعمال کررہے ہیں۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ ہمارے تمام حدود وقیود اور اخلاقی بندھنوں سے آزاد بلکہ بہت زیادہ آزاد میڈیا کے لئے باہر سے اور اندر سے بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ :Enough is Enough، بہت ہوچکا ، اب کسی قانونی اوراخلاقی دائرے میں آجائیے اور قبل اس کے کہ پورے معاشرے میں ایک مزاحمتی تحریک برپاہو، خود اپنی غلطی کا اعتراف وادراک کرکے اپنے اندر ایک اصلاحی نظام قائم کریں اور توازن واعتدال کی راہ اپنائیں۔
اسی طرح لازم ہے کہ کسی کی تحقیر وتوہین اور طنز ومزاح میں فرق ملحوظ رکھا جائے۔ بقول شخصے: احتساب اور انتقام میں بہت خفیف سافرق ہے، اسی طرح میرے نزدیک تحقیر اور طنز میں بھی معمولی فرق ہے۔ اور اسلام کسی کی تحقیر ، تضحیک ، توہین اور تذلیل کی اجازت نہیں دیتا۔'' سُورۃُ الحجرات‘‘ میں اس حوالے سے تفصیلی احکام موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: (۱) ''اے ایمان والو! تم میں سے کچھ لوگ دوسرے لوگوں کا مذاق نہ اڑائیں، ہوسکتا ہے کہ جن کا مذاق اڑایا جارہا ہے، وہ (درحقیقت) مذاق اڑانے والوں سے بہتر ہوں ، اسی طرح عورتیں بھی دوسری عورتوں کا مذاق نہ اڑائیں ، بہت ممکن ہے کہ جن کا وہ مذاق اڑا رہی ہیں، وہ اُن سے بہتر ہوں اور اپنے (یعنی ایک دوسرے کے) عیب بیان نہ کرو اور ایک دوسرے کو برے ناموں سے نہ پکارو ، ایمان لانے کے بعد (اﷲتعالیٰ کی) حکم عدولی بدترین گناہ ہے اورجواس (یعنی واضح احکام آنے) کے بعد بھی (اپنی اِس رَوِش سے) رجوع نہ کرے، تو یہی لوگ ظالم ہیں، (الحجرات:11)‘‘۔اسی طرح سورۂ ''الھُمَزہ‘‘ میں دوسروں پر لفظاً یا اشارتاً طعن وتشنیع کرنے اور عیب جوئی کی شدید مذمت فرمائی گئی ہے اور اس پر بڑی وعید آئی ہے۔
اسی طرح الیکٹرانک میڈیا کے اینکر پرسنزنے مصلح اعظم ہونے کے ساتھ عدالت کا منصب بھی اَزخود حاصل کرلیا ہے۔ اسلام آباد میں رمشامسیح کیس سامنے آیا تو ''وائس آف امریکہ‘‘ نے مجھے ''راؤنڈ ٹیلیفونک‘‘ کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی۔ جب میری باری آئی تو میںنے پروگرام کے اینکریا میزبان سے گزارش کی کہ مجھے تھوڑی سی تمہیدی گفتگو کی اجازت دیں، انہوں نے اَزراہِ کرم اجازت دیدی۔ میں نے کہا : فرض کریں کہ ''قانونِ تحفظِ ناموسِ رسالت‘‘ امریکہ کا قانون ہوتا اور وہاں یہ واقعہ رونما ہوتا، تو کیا مقدمے کی تفتیش پولیس کا متعلقہ ادارہ کرتا یاکوئی پرائیویٹ مولانا صاحب یارپورٹر؟، اگر رمشامسیح نابالغہ تھی، تومولانا صاحب فیصلہ صادر کرتے یا عدالت اس معاملہ میں کسی ماہر طبیب کی رائے لیتی؟، اگر اُس کا دماغی توازن درست نہیں تھا، تو کوئی مولانا صاحب یا رپورٹر فیصلہ صادر کرتا یا عدالت کسی ماہر نفسیات سے باضابطہ رائے مانگتی؟۔ انہوں نے کہا: یقینا یہ پولیس اور عدالت کا کام تھا۔ میں نے عرض کیا: ہمارے ہاں تو 40منٹ میں یہ تمام مراحل کسی بھی چینل کے ٹاک شو میں حل ہوجاتے ہیںاور اس مسئلے میں بھی ایسا ہی ہوا کہ ایک مولانا صاحب نے بذاتِ خود تحقیق کرکے اسے مُد عی قاری صاحب کی سازش قرار دیا اور آخر میں اینکر پرسن نے سوال کیا: مولانا صاحب اُس مولوی کی سزا کیا ہونی چاہئے؟۔ بس آخر میں ایک یہی مرحلہ باقی رہ جاتاہے کہ اسے اسٹوڈیوز میںجکڑکر کھڑا کردیا جائے اور اینکر پرسن اسے نشانہ لگا کر فائر کھول دیں اور فوری انصاف کی مثال قائم ہوجائے۔ کہاں کی تحقیق اور کیسی عدالتیں ، اس لمبے بکھیڑے میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ میں نے اُن سے کہا: آپ بتائیں کیا امریکہ میں ماورائے عدالت یہ سارے مراحل طے ہوسکتے ہیں، انہوں نے کہا: ہرگز نہیں ، یہ سب تحقیقاتی اداروں اور پولیس کاکام ہے۔ میں نے عرض کیا : ہمارے ہاں یہی ہورہا ہے اور ہمیں بتایا جاتاہے کہ اسے میڈیا کی آزادی کہتے ہیں ۔ توایسے حالات میں جب میڈیاکسی واقعے کے بارے میں پہلے ہی ایک جذباتی فضا پیداکردے اور کیمرے تعاقب میں ہوں ، توپولیس کی کیا جرأت کہ وہ آزادانہ تحقیقات کا روگ پالے، اس کی ہمت ہے کہ میڈیا کے عادلانہ فیصلے کو چیلنج کرے۔
لہٰذا انتہائی مؤدبانہ گزارش ہے کہ مزاج، رَویوں اور اقدامات میں ٹھہراؤ پیدا کیا جائے۔ کسی کے پاس کسی واقعے کے بارے میں مصدّقہ معلومات ہیں تو متعلقہ ادارے کے سامنے پیش کرے۔ سردست صورتِ حال یہ ہے کہ آگے آگے میڈیا ہے اور پیچھے پیچھے حکومت، وہ بھی ڈری اور سہمی ہوئی۔ بعض میڈیا کے ماہرین عقل ودانش کے امام ہیں ، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ قوم انہیں فرائض حکومت تفویض کرتی تاکہ حکومتی نظام کی غلطیاں زیرو لیول پر آجائیں ، لیکن لگتا ہے کہ عوام میں دس بارہ سال سے اپنی آنکھوں سے انہیں دیکھتے ہوئے اور کانوں سے سنتے ہوئے بھی یہ شعورپیدا نہیں ہوا۔ آج کل ایک اور من پسند موضوع حکومت اور دفاعی اداروں کا اختلاف ہے اور میڈیا پرسنز کسی ناگہانی حادثے کے شدت سے منتظر ہیں ، اللہ خیرکرے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں