آج غیر مسلم اقوام وممالک میں بعض اَقدار کی پاس داری ہے،ان میں سے ایک وقت کی پابندی ہے،لیکن مسلمان بدقسمتی سے اپنی اَقدار بھلا بیٹھے ہیں ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پوری قوم کے پاس صرف وقت ہی ایک ایسی اَرزَاں شے ہے ،جسے ہم فراخ دلی سے ضائع کرتے ہیں۔ حدیث پاک میں ہے : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو،جوانی کو بڑھاپے سے پہلے ،تندرستی کو بیماری سے پہلے،مال داری کومحتاجی سے پہلے، فرصت کے لمحات کو مصروفیت سے پہلے اوراپنی زندگی کو موت سے پہلے(غنیمت جانو)،(جامع الصغیر:1210،مستدرک :306/4)‘‘۔
ذرا غور کریں کہ تقریبات میں جب بھی مَدعُو کیا جاتا ہے ،تو داعی(Host) کی جانب سے مَدعُوئین (Guests)سے تحریری صورت میں یہ وعدہ ہو تا ہے کہ آپ فلاں وقت تشریف لائیں ۔انگریزی میں Sharpکا لفظ بھی تحریر ہوتا ہے ،جس کے معنی ہیں: ٹھیک ،مقررہ وقت پراور طے شدہ پروگرام کے مطابق ،یہ تقریب منعقد ہوگی۔ مہمانوں کے استقبال اور طعام کا وقت بھی تحریر ہوتاہے۔ لہٰذایہ دعوت نامہ ایک ایسا وعدہ ہوتا ہے،جو تقریب کا دَاعی بیک وقت درجنوں یا سینکڑوں مہمانوں سے کرتاہے۔
ہر مسلمان جانتا ہے کہ اسلام میں ایفائے عہد کی بہت تاکید کی گئی ہے،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:(1)''اور وعدہ پوراکرو، بے شک وعدے کی بابت (آخرت میںہر ایک سے) پوچھا جائے گا،(بنی اسرائیل 34)‘‘۔اور فلاح یافتہ اہلِ ایمان کی صفاتِ حمیدہ بیان کرتے ہوئے فرمایا: (2)''اور وہ جو اپنی امانتوںاور عہد کی(مکمل) پاسداری کرتے ہیں، (المؤمنون:8)‘‘۔اسی طرح نیکی کے مرتبۂ کمال پر فائز اہلِ ایمان کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے فرمایا: (3)''اور(یہ)وہ لوگ ہیںجب وعدہ کرلیںتو(پھر) اپنے عہد کی پاس دَاری کرتے ہیں، (البقرہ:177)‘‘۔
اسلام میں قول وفعل میں تضاد انتہائی معیوب بات ہے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا سبب ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:(1) ''اے ایمان والو!تم ایسی باتیں کیوں کہتے ہو،جن پر تم خود عمل نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ اس پر غضب ناک ہوتاہے کہ تم ایسی بات کہو ، جس پر تم خود عمل نہیں کرتے،(الصف:2-3)‘‘۔یعنی قول وفعل کا تضاد اور دوغلاپن اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے ۔علمائِ یہود کی اسی روش کو ناپسند فرماتے ہوئے ، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:(2)''کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو، حالانکہ تم کتاب(یعنی تورات) کی تلاوت کرتے ہو، تو کیاتم عقل نہیں رکھتے،(البقرہ:44)‘‘۔یعنی کتابِ الٰہی میں قول وفعل ، کردار وگفتار کے تضاد اور دوغلے پن کی مذمت فرمائی گئی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے منافق کی نشانیاں بیان کرتے ہوئے فرمایا:(1)'' منافق کی تین نشانیاں ہیں،جب بات کرے توجھوٹ بولے، وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اورجب اس کے پاس امانت رکھی جائے، تو خیانت کرے،(صحیح بخاری:33)‘‘۔(2)'': جس میں چارباتیں ہوں وہ خالص منافق ہے اور جس کے اندر ان میں سے کوئی ایک بات ہوتو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے، یہاں تک کہ اسے چھوڑدے:(1) جب اسے امانت سپردکی جائے تو خیانت کرے(2) جب بات کرے تو جھوٹ بولے(3) جب معاہدہ کرے تودھوکادے (4)اور جب جھگڑے تو حدسے تجاوز کرے، (صحیح بخاری:34)‘‘۔
رسول اللہ ﷺ سے سوال ہوا کہ کون سا عمل اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہے؟، آپ ﷺ نے فرمایا: '' نماز کو اپنے مقررہ وقت پر ادا کرنا،(صحیح بخاری:527)‘‘۔ترکِ نماز پر تو قرآن وحدیث میں بڑی وعیدیں ہیں۔ نماز میں تساہُل کو بھی منافقوں کا شِعار قرار دیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (1)''بے شک منافق (اپنے زُعم میں )اللہ کو دھوکا دے رہے ہیں ، دَرآں حالیکہ اﷲ ان کو ان کے دھوکے کی سزا دینے والا ہے اور جب وہ نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں ، تو سستی سے کھڑے ہوتے ہیں ،(محض) لوگوں کو دکھانے کے لئے اور اللہ کا ذکر بہت ہی کم کرتے ہیں ، (النساء:142)‘‘۔ (2):''سوا ن نمازیوں کے لئے افسوس ہے ، جو اپنی نمازوں سے غفلت کرتے ہیں ، جو ریا کاری کرتے ہیں،(الماعون:5-6)‘‘۔
یہی صورتِ حال ہمارے تعلیمی اداروں ،دفاتر اور دیگر شعبوں کی ہے ۔ہماری پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے اجلاس،جن پر قومی خزانے سے کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں،اکثر وقت پر شروع نہیں ہو پاتے ۔خاص طورپر بڑے شہروں میںوقت کے ضیاع کی ایک صورت ٹریفک کا بے ہنگم اندازمیں چلناہے،اپنی طرف سے توہرایک دوسروں کا حق مار کر پہلے نکلنا چاہتاہے،اس تَگ ودَو میں ٹریفک لین ٹوٹنے سے ٹریفک پھنس جاتی اوررَوانی موقوف ہوجاتی ہے،جس کے نتیجے میں سینکڑوں لوگوں کا وقت کا ضائع ہوتاہے۔
ہمارے ہاں بجلی کا شدید بحران ہے ،مگر ہم کسی سنجیدہ مصروفیت کے بغیر راتوں کو دیر تک جاگتے ہیں اور صبح دیر سے اٹھتے ہیں، جب کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :(1)''ہم نے رات کو لباس(ستر پوشی)کے لئے اور دن کو (کسبِ)معاش کے لئے بنایا ہے، (النبا:11۔10)‘‘(2)''وہی ہے جس نے تمہارے لئے رات بنائی تاکہ تم اس میں سکون پائو اور دن کو روشن بنایا (تاکہ تم اس میں کسب معاش کرو)،(یونس:67)‘‘۔ترقی یافتہ ممالک میں بازار اور مارکیٹیں سرشام بند ہوجاتی ہیں اور صبح معمول کے مطابق کھل جاتی ہیں ،سوائے 7/11یا24/7والی مخصوص دکانوں اور مارکیٹوں کے، جن کے پاس 24گھنٹے کاروبار جاری رکھنے کا اجازت نامہ ہوتا ہے۔ ہماری کئی حکومتوں نے چاہا کہ آٹھ یا نوبجے شب تک بازار اور مارکیٹیں بند ہوجائیں،لیکن تاجر حضرات کسی طور اپنے معمولات بدلنے پر تیار نہیں ہیں۔یہی صورتِ حال ہمارے خدمات فراہم کرنے والے اداروں ریلوے اور پی آئی اے وغیرہ کی ہے ۔اگرچہ ہمارے پورے نظام کو سسٹم میں لانے اور اوورہالنگ کی اَشد ضرورت ہے،لیکن ہمارے زمینی حقائق اور قومی مزاج قومی مفاد سے ہم آہنگ نہیں ہے ۔دنیا کی تمام ترقی یافتہ قوموں کے عروج کا راز وقت کی قدر دانی اور بہتر ین استعمال کے سبب ہے۔
اہلِ دین اور علمائِ کرام سے لوگ بجاطور پر توقع رکھتے ہیں کہ وہ رول ماڈل بنیں ۔ اس لئے آئے دن اخباری کالم نگار بھی علماء کو کوستے رہتے ہیں کہ انہیں عوام کے مسائل کا کوئی اِدراک نہیں ہے اور زمینی حقائق سے نابلد ہیں ۔ وہ یہ بھی شکایت کرتے ہیں کہ علماء اپنے خطبات میں سماجی برائیاں اور استحصالی طبقات کے خلاف نہیں بولتے، کیونکہ ان کے خیال میں یہ ان کے زیرِ بارِ احسان اور نمک خوار ہیں ۔ ان کا علماء سے ایک شکوہ یا علماء پر طعن یہ ہوتاہے کہ انہیں ''مائیک فوبیا‘‘ہے ، یہ لاؤڈ اسپیکر کی جان نہیں چھوڑتے ، خاص طور جمعہ یا عیدین کی نماز بروقت کھڑی نہیں کی جاتی ، یہ شکوے اور شکایتیں کافی حدتک بجا ہیں۔ کسی انتہائی ناگزیر صورتِ حال کے سوا ہر صورت میں جماعت مقررہ وقت پر کھڑی ہونی چاہئے ۔ حدیثِ پاک کی رو سے جس فرض نماز کے بعد سنتیں ادا کرنی ہوتی ہیں ، اس کی دعا مختصر ہونی چاہئے ۔ اسی طرح بعض اوقات ہماری مذہبی تقریبات یا جلسے ہورہے ہوتے ہیں، تو جلسے کی کارروائی کا تسلسل برقرار رکھنے کے لئے فرض نماز کی جماعت کو مقررہ وقت سے مؤخر کردیا جاتاہے، ہمیں معلوم ہے کہ مشروع وقت میں اس کی گنجائش ہوتی ہے ، لیکن عوام پر اس کا اثر منفی مرتب ہوتاہے؛ لہٰذا بہتر یہ ہے کہ جلسے میں اذان کے وقت وقفہ کردیا جائے اور نمازِ باجماعت کے بعد جلسے کی کارروائی کا سلسلہ جہاں سے ٹوٹا ہو،وہیں سے شروع کردیا جائے ۔ الغرض وقت کی پابندی، دعوتِ دین کی حکمت کا تقاضا ہے اور اس سے صَرفِ نظر نہیں کرناچاہیے۔