میرے اکلوتے فرزند ضیاء الرحمن کا منگل :20 مئی 2014ء کو36سال کی عمر میں تقریباً نوبجے شب قضائِ الٰہی سے وصال ہوگیا ، اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ وہ سرطان (Cancer)کے عارضے میں مبتلاتھے۔ کینسر ایک خطرناک اور مُہلِک بیماری ہے، میری دعا ہے اللہ عزّوجلّ سب کو اس بیماری سے اپنی عافیت، سلامتی اور حفظ وامان عطا فرمائے۔ طبی زبان میں کینسر کو Tumour(وَرَم یا رَسَولی)کہتے ہیں، اس میں گوشت گٹھلی کی شکل اختیار کرتاہے اور پھر بڑھتا جاتاہے ، اسے کاٹ کر پھینک بھی دیں ، تو پھر نشوونما پالیتاہے اور بتدریج پھیلتے پھیلتے جان لے لیتاہے، تاوقتیکہ اس کو جڑ سے کاٹ کر پھینک دیا جائے۔ مرض کے پہلے یا دوسرے مرحلے میں اِس سے نجات ممکن ہے ، تیسرے درجے میں مشکل ترین اور چوتھے درجے میں عملاً ناممکن۔
جب یہ Tumour انسانی وجود کے کسی داخلی حصے یا خَلیے (Cell)میں تشکیل پانا شروع ہوتاہے، تو بروقت اس کی تشخیص نہیں ہوپاتی، تاوقتیکہ انسانی وجود کے داخلی نظام کے کسی حصے کو وہ بلاک یا مفلوج کردے یا ناقابلِ کار اور ناقابلِ اصلاح بنادے ، وہیں سے مشکلات کا آغاز ہوتاہے ۔ میرے بیٹے کا ٹیومر بڑی آنت میں تشکیل پایا اور بتدریج بڑھتے بڑھتے پانچ سینٹی میٹر تک پھیل گیا اور چھوٹی آنت کے راستے کو بلاک کردیا ۔یہ تشخیص مارچ2012ء میں ممکن ہوسکی ۔
اس کے بعد آغا خان ہسپتال میںمعروف سرجن ڈاکٹر انعام پال صاحب نے ان کا بڑا آپریشن کیا، پھرسینئر انکالوجسٹ ڈاکٹر نہال مسعود صاحب نے کیموتھراپی کے 12دورانئے(Cycle) مکمل کیے، تواِس مرحلے پر ڈاکٹرصاحبان نے کہا کہ ہم اسے ساٹھ فیصد کامیاب قرار دے سکتے ہیں، مگر بیماری کے لوٹ آنے کے چالیس فیصد امکانات اب بھی موجود ہیں۔کیمو تھراپی کے بارے میں عرض کرتا چلوں کہ اسے آپHighest PotencyکیAntibiotic یا زہر بھی کہہ سکتے ہیں ۔ یہ رگوں (Vein)میں انجیکٹ ہوتی ہے اور اس کے Side Effectsیعنی ضمنی اثرات بھی ہوتے ہیں ۔یہ خون کے White Cellsکو ختم کرتی ہے، جو امراض کے مقابلے کے لیے انسانی جسم کے اندر قدرتی مدافعتی نظام ہے۔ اسی لیے کیموتھراپی لگانے سے پہلے مریض یا اس کے وارث سے تحریر لی جاتی ہے کہ اس کے ضمنی وذیلی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اور خدانخواستہ موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔ اگر یہ خوش قسمتی سے جاکر اصل نشانے پر لگے،مرض کو جڑ سے ختم کرکے مطلوبہ نتیجہ دے دے ،تو اسے اللہ تعالیٰ کا کرمِ خاص اور انعام سمجھنا چاہیے، سو یہ بھی ایک امکانی حیلہ وتدبیر اور سبب ہے، مگر سوفیصداور قطعی طور پرنتیجہ خیز ہونے کی ضمانت نہیں دی جاسکتی ؛ چنانچہ ہم مسلسل ماہ بہ ماہ ٹیسٹ کراتے رہے ، ڈاکٹر صاحبان کے ساتھ رابطے میں رہے ، مختصر وقفوں سے سی ٹی اسکین بھی کراتے رہے،آخرِ کار اکتوبر2013ء میں سی ٹی اسکین کے ذریعے یہ رپورٹ ملی کہ مرض دوبارہ لوٹ آیاہے۔
اس تجربے سے گزر کر ہمیں پتا چلا کہ ہمارے وطنِ عزیز میں ایسے پیچیدہ امراض کا علاج نہایت مشکل ہے اور اتنا مہنگا کہ مڈل کلاس کی پہنچ سے بہت دورہے اورلوگ اذیتیںبرداشت کرتے کرتے اور ایڑیاں رگڑتے رگڑتے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ مہنگی دوائیں،ہسپتال کے چارجز، ڈاکٹرصاحبان کی فیس اور مختلف طرح کے میڈیکل ٹیسٹ، ایکسریزاور سی ٹی اسکین وغیرہ سب بے انتہا مہنگے اور عام آدمی کی قوت خرید سے ماوَرَاہوتے ہیں۔ یہاں آکر وہ مرحلہ آتا ہے کہ انسان اﷲتعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت، نعمت حیات کو بارسمجھنے لگتا ہے اور اُس سے نجات پانے کی دعا مانگتاہے، حالانکہ حدیثِ مبارک میں اس کی ممانعت ہے۔دوسروں پر بوجھ بننے کا احساس بھی دل میں اجاگر ہوتا ہے اور ایک طرح کی مایوسی اور پژمردگی (Depression)مستقل طور پر چھا جاتی ہے ،جبکہ مُہلِک اَمراض، حادثات وسانحات اور مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لئے انسان کو حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن جب وہ اندر سے ٹوٹ پھوٹ جائے، تو ایک طرح سے زندگی ہار جاتاہے، باقی سب اﷲعزّوجلّ کی حکمتیں ، تقدیر اور قضاہے، جس پر راضی رہنا ہر مومن کا شِعار ہوناچاہئے۔
اس کے بعد ہم نے ایس آئی یوٹی میں انکالوجسٹ ڈاکٹر نجیب نعمت اللہ صاحب سے رابطہ کیا ۔ ڈاکٹر ادیب رضوی صاحب اور ان کی پوری ٹیم نے بے انتہا محبتوں اور ہمدردی سے نوازا۔سنگاپور سے ایک Biopsyکرائی ، بائیوپسی سے مراد جسم کے متاثرہ حصے کی بافتوں(Tissues)کا تجزیہ کرنا ہے ۔ بافت سے مراد انسانی گوشت کے لوتھڑوں کی بُنَت، تانے بانے یا ساخت کے باریک اجزا ہیں ، جسے عربی میں نسیج کہتے ہیں ۔ اس بائیوپسی کے نتیجے میں کیموتھراپی کیAfleberceptنامی دوا تجویز ہوئی ، جو پاکستان میں ممنوع ہے؛ چنانچہ ایک میڈیکل بورڈ نے اپنی سفارش کے ذریعے اسے مریض کے لئے ضروری قرار دیا ، پھر نیشنل ڈرگ کنٹرول اتھارٹی پاکستان سے درآمد کرنے کا خصوصی اجازت نامہ فارماسیوٹیکل کمپنی Aventisکے لئے جاری ہوا اور اس کمپنی کے جناب عبدالسمیع نے اسے سعیِ بسیار کے بعد امریکہ سے درآمد کرکے دیا۔ اس کے دو دورانیے ہی ہوسکے ، لیکن مزید پیچیدگیوں کی وجہ سے اس کے مزید دورانیے مکمل نہ کئے جاسکے ۔
آنتوں کے جکڑاؤ کے سبب انتقال سے پہلے چار ماہ تک ضیاء الرحمن کو منہ سے کوئی ٹھوس یا مائع غذا نہ دی جاسکی ۔ صرف ڈرِپ کے ذریعے رگوں(Vein)میں تحلیل شدہ سیّال(Liquid)غذاہی داخل کی جاسکی ۔ اِن تکلیف دہ مراحل سے گزرنے والوں کے لیے رسول اللہ ﷺ کی ذات نمونہ بھی ہے اور آپ ؐکی بشارت تسکین کا سامان بنتی ہے : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : '' میں نے (مرضِ وفات) میں رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر کسی کو تکلیف میں نہیں دیکھا،(صحیح بخاری: 5646)‘‘۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جب اللہ تعالیٰ اپنی تقدیر میں اپنے کسی بندے کے لیے ایک بلندمرتبہ مقدر فرمادیتا ہے ، پھر وہ اپنے اعمالِ خیر کے ذریعے اس کا حق دار قرار نہیں پاتا ، تو اللہ تعالیٰ اُسے کسی جسمانی یا مالی یا اولاد کی آزمائش میں مبتلا فرمادیتا ہے ، پھر وہ اس پر صبر کرتاہے یہاں تک کہ (اس صبر پر اجر کا حق دار بن کر ) اللہ تعالیٰ کے مقدر کئے ہوئے مرتبے کو پالیتا ہے،(مسنداحمد:22338)‘‘۔عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :''ایک خاتون رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا : مجھے مرگی کی بیماری ہے ،آپ دعا فرمائیے کہ مجھے اس سے شفامل جائے ، آپ ﷺ نے فرمایا:اگر تم چاہو تو صبر کرلو اور (اس صبر پر اجر کے طور پر) تمہارے لئے جنت ہے اور اگر چاہو تو میں اللہ سے دعا کروں کہ وہ تمہیں شفا عطا فرمائے ، تواُس (صاحبِ عزیمت صحابیہ) نے عرض کی: میں(آپ کی جانب سے جنت کی بشارت پانے پر) صبر کروں گی ، (البتہ) اس نے عرض کی: ( مرگی کے دورے کے دوران ) میرا ستر کھل جاتاہے،آپ دعا فرمائیے کہ میرا ستر قائم رہے ، حضورؐنے اس کے لیے ستر قائم رہنے کی دعا فرمائی،چنانچہ عبداللہ بن عباس فرمایا کرتے تھے کوئی کسی جنتی کو دیکھنا چاہے تو اس عورت کو دیکھے،(صحیح بخاری:5652)‘‘۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :'' ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ آپ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم ؓ کے رضاعی باپ علی ابو سیف القین کے گھر داخل ہوئے ،تو آپ ﷺ نے انہیں اپنے ہاتھوں میںاٹھایا، انہیں بوسہ دیا اورسونگھا ، اس کے بعد ہم پھر ان کے پا س گئے، تواس وقت حضرت ابراہیم کی روح پرواز کررہی تھی ، اس مرحلے پر رسول اللہ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، آپ ﷺ سے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے عرض کی: یارسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم! آپ بھی رو رہے ہیں؟ ، تو آپ ﷺ نے فرمایا:اے ابن عوف! یہ آنسو رحمت ہیں ، پھر آپ ؐکے(اور) آنسو بہے، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: بے شک آنکھ روتی ہے اور دل غمگین ہوتاہے اور ہم صرف وہی بات کہتے ہیں کہ جس سے ہمارا رب راضی ہو ، اے ابراہیم ! ہم تمہاری جدائی پر غمگین ہیں ،(صحیح بخاری:1303)‘‘۔
حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں(۱) :''میں نے رسول اللہ ﷺ کو وصال کے لمحات میں دیکھا، آپ ﷺ کے پاس چمڑے یا لکڑی کے ایک برتن میں پانی تھا، آپ اس برتن میں ہاتھ ڈالتے اور پھر اپنا تر ہاتھ اپنے چہرۂ مبارک پرملتے اور یہ دعا فرماتے:''اَللّٰھُمَّ اَعِنِّیْ عَلیٰ سَکَرَاتِ الْمَوْتِ‘‘ ( اے اللہ! سکراتِ موت(موت کی سختیوں کوآسان کرنے)میں میری مدد فرما ...''فِی الرَّفِیْقِ الْاَعْلیٰ‘‘ (یعنی رفیقِ اعلیٰ اللہ عزّوجلّ کے حضور )، پھر آپ کی روح قبض کرلی گئی اور آپ کا ہاتھ نیچے گر گیا،(صحیح بخاری :6510،ابن ماجہ:1623)‘‘۔اﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے:''اور موت کی سختی حق کے ساتھ آپہنچی، یہی وہ چیز ہے جس سے تو کنارہ کشی کرتاتھا،(ق ٓ:19)‘‘۔ (جاری)