استقبال کے معنی ہیں: کسی آنے والے کو خوش آمدید کہنا، اگر وہ محبوب ہے تو اس کے لئے دیدہ و دل فرش راہ کرنا، عربی زبان میں اس کے لئے ''اَھْلاًوَّ سَھْلاً‘‘ اور ''مَرْحَبًا بِکُمْ‘‘ کے کلمات استعمال ہوتے ہیں۔ ''رَحْب‘‘ کے معنی کشادگی کے ہیں اور کسی کو ''مَرْحَبًا بِکُمْ‘‘ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے لئے ہمارے دل میں بڑی کشادگی ہے، کوئی انقباض نہیں ہے۔ قمری سال کے مہینوں میں ''رمضان‘‘ ہی ایسا عظیم المرتبت مہینہ ہے‘ جس کی شان قرآنِ کریم میں بھی بیان کی گئی ہے اور اس کی بابت رسول اللہﷺ کا ایک خصوصی استقبالی خطبہ بھی منقول ہے، جو درج ذیل ہے:
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں: ''(ایک بار) رسول اللہﷺ نے شعبان کے آخری دن ہمیں ایک (خصوصی) خطبہ ارشاد فرمایا: آپ نے فرمایا: اے لوگو! ایک عظیم مہینہ تم پر سایہ فگن ہونے والا ہے، (یہ) مبارک مہینہ ہے، اس میں ایک رات (ایسی ہے جو) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اﷲ عزّوجلّ نے اس ماہ کا روزہ رکھنا فرض قرار دیا ہے اور اس کی راتوں کے (نوافل میں) قیام کو نفلی عبادت قرار دیا ہے۔ جو (خوش نصیب) اس مہینے میں اللہ کی رضا کے لئے کوئی نفلی عبادت انجام دے گا، تو اُسے دوسرے مہینوں کے (اسی نوع کے) فرض کے برابر اجر ملے گا اور جو اس مہینے میں کوئی فرض عبادت ادا کرے گا، تو اسے دوسرے مہینوں میں (اسی نوع کے) ستر فرائض کے برابر اجر ملے گا۔
یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے، یہ دوسروں سے ہمدردی اور ان کے دکھ درد کے ازالے کا مہینہ ہے، یہ ایسا (مبارک) مہینہ ہے کہ اس میں مومن کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ جو شخص اس مہینے میں کسی روزے دار کا روزہ افطار کرائے گا، تو یہ اس کے لئے گناہوں کی مغفرت کا ذریعہ بنے گا اور اس کے سبب اس کی گردن نار جہنّم سے آزاد ہو گی اور روزے دار کے اجر میں کسی کمی کے بغیر اُسے اُس کے برابر اجر ملے گا۔ (حضرت سلمان بیان کرتے ہیں) ہم نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم! ہم میں سے ہر کوئی اتنی توفیق نہیں رکھتا کہ روزے دار کا روزہ افطار کرائے، (تو کیا ایسے لوگ افطار کے اجر سے محروم رہیں گے؟) آپﷺ نے فرمایا: یہ اجر اُسے بھی ملے گا، جو دودھ کے ایک گھونٹ سے یا ایک کھجور سے یا پانی پلا کر ہی کسی روزے دار کا روزہ افطار کرائے۔ اور جو شخص کسی روزے دار کو پیٹ بھر کر کھلائے گا، تو اللہ تعالیٰ اسے (قیامت کے دن) میرے حوضِ (کوثر) سے ایسا جام پلائے گا کہ (پھر) وہ جنت میں داخل ہونے تک پیاسا نہیں ہو گا۔
یہ ایسا (مقدّس) مہینہ ہے کہ اس کا (عشرۂ ) اول (باعثِ نزولِ) رحمت ہے اور اس کا درمیانی (عشرہ) ذریعۂ مغفرت ہے اور اس کا (عشرۂ) اخیرہ نارِ (جہنم) سے آزادی کا سبب ہے۔ اور جو شخص اس مہینے میں اپنے زیردست (خدام اور ملازمین) کے کام میں تخفیف کرے گا، تو اللہ تعالیٰ اسے بخش دے گا اور اسے نارِ (جہنم) سے رہائی عطا فرما دے گا‘‘ (شُعَبُ الایمان لِلبَیہقی: 3608)۔
روزہ اور رمضان کے فضائل کے بارے میں رسول اکرمﷺ کا ایک جامع اور ایمان افروز خطبہ ہے۔ باہر کی دنیا کے بارے میں تو ہمیں زیادہ معلومات نہیں ہیں، لیکن ہمارے ہاں ماشاء اللہ! ''استقبالِ رمضان‘‘ کی محفلیں منعقد ہوتی ہیں۔ استقبالِ رمضان دراصل ایک وجدانی، روحانی اور باطنی کیفیت کا نام ہے۔ پس لازم ہے کہ ہم نہ صرف اپنے آپ کو نظریاتی اور عملی طور پر رمضان المبارک کی اِن بے حدوحساب نعمتوں اور اجروثواب کو اپنے دامن میں سمیٹنے کے لئے آمادہ کریں بلکہ دوسروں کو بھی راغب کریں تاکہ ایک اجتماعی کیفیت پیدا ہو اور روزہ و رمضان المبارک کی بدنی و مالی عبادات ہمیں بار معلوم نہ ہوں بلکہ اُن سے روحانی راحت نصیب ہو۔
یہ داخلی ترغیب و آمادگی جذبۂ اخلاص و رضا کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''اللہ نے کسی شخص کے سینے میں دو دل نہیں بنائے‘‘ (الاحزاب:2)۔ یہاں قلب سے مراد گوشت کا وہ لوتھڑا نہیں ہے، جو انسانی جسم کی رگوں میں کلیجے سے حاصل ہونے والا پاک و صاف خون پمپ کرتا ہے، کیونکہ ایسے شواہد ملتے رہتے ہیں کہ تخلیق انسانی کی سنّتِ جاریہ کے برعکس خال خال بعض بچوں کے سینے میں پیدائشی طور پر دو دل بھی ہوتے ہیں بلکہ اس سے مراد قلبِ انسانی کے اندر خیروشر کی ترغیبات و میلانات کو اپنے اندر جذب کرنے کی وہ استعداد ہے جو قدرت نے ہر انسان کے دل و دماغ میں ودیعت کی ہے اور خیروشر کی یہ کشمکش جس طرح انسانی وجود سے باہر کی دنیا میں ہمیشہ سے موجود چلی آرہی ہے، اسی طرح یہ کشمکش انسانی وجود کے اندر بھی برپا ہے، بقول علامہ اقبال ؎
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفوی سے شرارِ بولہبی
باطل کی آندھیاں اس چراغِ مصطفوی کو گل کرنا چاہتی ہیں، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ''وہ اپنے مونہوں سے (پھونکیں مار کر) اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں اور اللہ اپنے نور کو پورا کرنے والا ہے، خواہ کافروں کو کتنا ہی ناگوار ہو‘‘ (الصف:7)۔ دوسرے مقام پر فرمایا: ''وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں اور اللہ اپنے نور کو مکمل کئے بغیر ماننے والا نہیں ہے، خواہ کافروں کو ناگوار ہو‘‘ (توبہ:32)۔ پس اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ہی دل میں کفر اور ایمان، ہدایت اور گمراہی، اللہ تعالیٰ سے رجوع اور اس سے انحراف، صدقہ و خیرات کرکے غریبوں کی ہمدردی اور سنگ دلانہ ذخیرہ اندوزی اور غیرفطری منافع اور استحصال جمع نہیں ہو سکتے۔ بدقسمتی سے ہم نفسِ لوّامہ (ضمیر conscience) اور نفسِ امّارہ کو بیک وقت خوش رکھنا چاہتے ہیں اور اسی کا نام دو عملی اور رویّوں کی منافقت ہے، یہ کیسے ہو سکتاہے کہ ع: ''باغباں بھی خوش رہے، راضی رہے صَیّاد بھی‘‘۔ ہم ہر چیز کا دو نمبر ایڈیشن ایجاد کرنے کے ماہر ہیں، غریبوں اور ناداروں کے لئے افطار کا اہتمام کرنے کے متبادل ہم نے اُمرا کی عالی شان افطار پارٹیوں کے سماجی کلچر کو پروان چڑھایا اور اسے بااثر حلقوں میں سماجی روابط بڑھانے کا ذریعہ بنایا۔ رمضان المبارک کے ''قیامُ اللَّیل‘‘ کا بدل ہم نے سہ روزہ اور پنج روزہ تراویح میں ختم قرآن کا شعار اپنایا تاکہ اُس کے بعد بازاروں کی رونقیں سجا دی جائیں، ایک طرف مصنوعی تاجرانہ حربوں سے معاشرے کے زیریں طبقات پر رمضان میں غیرمعمولی مہنگائی کا عذاب مسلّط کرنا اور دوسری طرف غریب پروری کے اظہار کے لئے چوراہوں اور فٹ پاتھوں پر دستر خوان سجانا۔ اور اب تو حال یہ ہے کہ ہمارے ہاں قتلِ ناحق ہو رہا ہے، گردنیں کاٹی جا رہی ہیں، تخریب و فساد اور دہشت گردی کو بھی مذہبی عنوان دیا جا رہا ہے، فیالَلعجب! بقول شاعر ؎
کسے خبر تھی کہ لے کر چراغِ مصطفوی
جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بولہبی
اسی طرح ہمارے ہاں ایک نیا کلچر متعارف ہوا ہے کہ رمضان المبارک کے آخری جمعے کے خطبے میں ''اَلوَداع اَلوَداع یا شھرَ رمضان‘‘ پڑھا جاتا ہے۔ گزشتہ سال ایک خطیب صاحب نے اس کی بابت دریافت کیا، میں نے انہیں بتایا کہ شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں ہے، نہ ہی قرونِ اولیٰ سے یہ شِعار ثابت ہے۔ انہوں نے کہا: ہماری انتظامیہ اور مقتدی کہتے ہیں کہ یہ تو آپ کو خطبے میں پڑھنا ہو گا۔ میں نے کہا: حضور! امام تو دینی رہنما ہوتا ہے، غلامی کو آپ نے کب سے شِعار بنا لیا۔ مزید یہ کہ: ''آج رمضان کی الوداع ہے‘‘کے عنوان سے رقت آمیز لہجے میں اشعار پڑھے جاتے ہیں اور لوگ چار آنسو بہا کر رمضان المبارک کے حقوق سے عہدہ برآ ہو جاتے ہیںَ ہمار ا الیکٹرانک میڈیا بھی انہی چیزوں کو فروغ دے رہا ہے۔ اسی طرح سارے لوگوں کی جانب سے ''توبہ‘‘ کا فریضہ بھی نعت خواں حضرات انجام دے دیتے ہیں، یہ مذہبی عقیدت اور جذباتیت کا کاروباری استعمال ہے۔
الغرض استقبالِ رمضان تو حدیث سے ثابت ہے اور اس کی حکمت بھی سمجھ میں آتی ہے کہ رمضان المبارک کی برکات کو اپنے دامنِ ایمان و عمل میں سمیٹنے کا ایک مزاج اور ماحول پیدا ہو کیونکہ جب دلوں کی زمیں زر خیز ہو گی، قبولِ حق کے لئے اس میں نرمی اور لطافت پیدا ہو گی تو ایمان دل میں جڑ پکڑے گا، اعمالِ خیر کے برگ و بار پیدا ہوں گے اور شجرِ ایمان ثمرآور اور بارآور ہو گا۔