"MMC" (space) message & send to 7575

عید کا تاریخی پس منظراور فلسفہ

عیدکالفظ عودسے ماخوذہے جس کے معنی'' لوٹنا‘‘ ہے۔چونکہ یہ دن مسلمانوں پر بار بار لوٹ کر آتا ہے،اس لئے اس کو عید کہتے ہیں۔ رب تبارک وتعالیٰ اس دن اپنے مقبول بندوں پراپنی اَن گنت نعمتیں اور برکتیں لوٹاتا ہے اس لئے بھی اسے عیدکہتے ہیں۔دنیاکی ہرقوم اور مذہب کے ماننے والے کسی نہ کسی صورت میں سال میں چنددن تہوار مناتے ہیں۔ہر قوم اور مذہب و ملت کے لوگ یہ تہواراپنے عقائد، روایات اور ثقافتی اَقدارکے مطابق مناتے ہیں، لیکن اس سے یہ حقیقت ضرور واضح ہوتی ہے کہ تصورِعید انسانی فطرت کا تقاضا اور انسانیت کی ایک قدرِ مشترک ہے۔ مسلمان قوم چونکہ اپنے عقائد اور ملی اَقدار کے لحاظ سے دنیا کی تمام اقوام سے منفرد و ممتاز ہے، اس لئے اس کا عید منانے کا انداز بھی سب سے نرالا ہے، بقول علامہ اقبالؒ ؎
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
خالص اسلامی فکر اور دینی مزاج کے مطابق اسلامی تمدُّن، معاشرت اور اجتماعی زندگی کا آغاز ہجرت کے بعد مدینۂ منوّرہ میں ہوا۔ چنانچہ 2ھ میں عیدین کا مبارک سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ اہل یثرب سال میں دو دن میلہ لگاتے تھے اور کھیل تماشے کرتے تھے۔رسول اللہ ﷺ نے یہ تہوار منع فرما دئیے اور فرمایا:ــاللہ تعالیٰ نے ان کے بدلے میں تمہیں دو بہتر دن عطا کردئیے ہیں ، یعنی عیدالاضحی اور عیدالفطر۔
یہاں فطری طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسا کیوں نہیں کردیا کہ نو روز اور مہرجان کے انہی تہواروں کی اصلاح فرمادیتے اور ان میں جو رسوم شرعی اعتبار سے منُکرات کے زمرے میں آتی تھیں، ان کی ممانعت فرمادیتے اور اظہارِ مسرت کی جو جائز صورتیں تھیں ،وہ اختیار کرنے کی اجازت دے دیتے۔اس کاجواب یہ ہے کہ اس میں اللہ کی حکمت کار فرما تھی۔ دراصل ہر چیز کاایک مزاج اور پس منظر ہوتا ہے،آپ لاکھ کوشش کریں کسی چیز کو اس کی ماضی کی روایات اور تاریخی پس منظرسے جدا نہیں کرسکتے۔لہٰذا جس چیز کی اساس مُنکَرات ومحرمات پر رکھی گئی ہو اس کی کانٹ چھانٹ اور بنائو سنگھار سے کوئی خیر پر مبنی نتیجہ برآمد نہیں ہوسکتا ۔اور اسلام تو آیا ہی اس لئے ہے کہ کفر اور بدی کے اثرات کو مٹایا جائے۔ معلوم ہوا کہ اسلامی عقائد اور خالص دینی فکر اور شرعی مزاج کا تقاضایہ تھا کہ مسلمانوں کا تعلق تمام جاہلانہ رسوم سے یکسر ختم کردیا جائے تاکہ عہد جاہلیت کی تمام علامات سے کٹ کر ان میں صحیح دینی فکر پیدا ہو۔چونکہ اسلام دین ِفطرت ہے اس لئے اس نے جہاں اپنے ماننے والوں کو لادینی نظریات سے محفوظ رکھا وہاں ان کے صحیح جِبِلِّی اور فطری تقاضوں کی آبیاری بھی کی، عید منانا انسانی فطرت کا تقاضا تھا، لہٰذا مسلمانوں کو ایک عیدکی بجا ئے عیدین کی نعمت عطا فرمائی۔
جس طرح ہر قوم وملت کی عید اور تہوار اپنا ایک مخصوص مزاج اور پس منظر رکھتے ہیں ، بالکل اسی طرح اسلام میںعیدین کا بھی ایک ایمان افروز پس منظر ہے ۔ رمضان المبارک انتہائی بابرکت مہینہ ہے ،یہ ماہِ مقدس اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمتوں ، مغفرتوں اور عنایات وبرکات کا خزینہ ہے ، اسے ماہ نزول قرآن ہونے کا شرف بھی حاصل ہے ۔فتح مکہ اور اسلامی تاریخ میں حق وباطل کا پہلا فیصلہ کن معرکہ غزوۂ بدربھی اسی مبارک مہینے میں وقوع پذیر ہوئے ۔ روزے کی عظیم المرتبت عبادت کی فرضیت کا شرف بھی اسی مہینے کو عطا کیا گیا ۔تراویح کی صورت میں ایک مسنون نماز بھی اس مہینے کی روحانی بہاروں میں ایک اور اضافہ ہے ۔ اور پھر سب سے بڑھ کر ہزار مہینوں کی عبادت پر فوقیت رکھنے والی ایک رات، ''لیلۃ القدر‘‘ بھی اسی رمضان میں ہے ۔ یہی وہ مبارک مہینہ ہے، جس میں بندۂ مومن ایک عشرے کے لئے سب سے کٹ کر اپنے رب سے لَو لگانے کے لئے اعتکاف میں بیٹھ جاتا ہے ۔جب مومن اتنی بے پایاں نعمتوں میں ڈوب کر اور اپنے رب کی رحمتوں سے سرشار ہوکر اپنی نفسانی خواہشات ، سِفلی جذبات ، جسمانی لذّات ، محدود ذاتی مفادات اور گروہی تعصبات کو اپنے رب کی بندگی پر قربان کر کے سرفراز وسربلند ہوتا ہے، تو وہ رشکِ ملائک بن جاتا ہے ، اللہ کی رحمت جوش میں آتی ہے،باری تعالیٰ کے کرمِ خاص کا یہ تقاضا بن جاتا ہے کہ وہ پورا مہینہ اپنی بندگی میں سرشار ، سراپا تسلیم واطاعت اور پیکر صبر ورضا بندے کے لئے اِنعام واِکرام کا ایک دن مقرر فرمادے ۔ چنانچہ یہ ماہ ِ مقدس ختم ہوتے ہی یکم شوال کو وہ دن عید الفطر کی صورت میں طلوع ہوجاتا ہے۔ 
رمضان کی آخری رات فرمانِ رسول ﷺ کے مطابق ''انعام کی رات‘‘قرار پائی ہے اور اللہ کے اس اِنعام واِکرام سے فیض یاب ہونے کے بعد اللہ کا عاجز بندہ سراپا سپاس بن کر شوال کی پہلی صبح کو یومِ تشکُّر کے طور پر مناتا ہے ۔ بس یہی حقیقت ِ عید اور روحِ عید ہے ، چنانچہ فرمانِ رسول ﷺ ہے: ''رمضان کی آخری رات میں آپ کی امت کے لئے مغفرت کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے ۔ صحابہ نے عرض کیا : یارسول اللہ ﷺ ! کیا وہ (رات) شبِ قدر ہے؟، حضور ﷺنے فرمایا کہ: شبِ قدر تو نہیں ہے ،لیکن عمل کرنے والا جب عمل پورا کردے تو اسے پورا اجر عطا کیا جاتا ہے ۔
نمازِعید کا ثبوت صحیح احادیث سے ملتاہے۔احناف کے نزدیک عید کی نمازہر اس شخص پرواجب ہے جس پرجمعہ فرض ہے ،دیگر آئمہ میں سے بعض کے نزدیک فرضِ کفایہ ہے اور بعض کے نزدیک سنتِ مؤکَّدہ۔نمازِ عید بغیر اذان واقامت کے پڑھنا حدیث سے ثابت ہے۔نمازِعید کا وقت چاشت سے لے کر نصفُ النّہار شرعی تک ہے۔عید الفطر ذرا تاخیر سے پڑھنا اور عید الاضحیٰ جلدی پڑھنا مستحب ہے ۔ نمازِ عید کے بعد امام کا دو خطبے پڑھنا اور ان کا سنناسنت ہے۔ احناف کے نزدیک نمازِ عید میں چھ زائد تکبیریں ہیں ،پہلی رکعت میں سورۂ فاتحہ سے پہلے تین اور دوسری رکعت میں رکوع سے پہلے تین زائد تکبیریں امام کے ساتھ پڑھنی چاہئیں ۔ دیگر آئمہ کے نزدیک ان زائد تکبیرات کی تعداد چھ ہے۔ عید کی نماز آبادی سے باہر کھلے میدان میں پڑھنا سنت ہے ۔ البتہ بارش ، آندھی یا طوفان کی صورت میں مسجد میں بھی پڑھی جاسکتی ہے ۔ عیدالفطر میں نماز سے پہلے کچھ کھا پی لینا سنت ہے ۔ 
قوموں کی زندگی میں المیے، حوادث اور مصائب پیش آتے رہتے ہیں اور بدقسمتی سے گزشتہ برسوں سے اس طرح کے المناک واقعات ہماری روزمرہ زندگی کا ایک معمول بن چکے ہیں۔ ایسے حوادث کے پیش نظر اکثر اوقات بعض افراد یا حلقوں کی جانب سے یہ سننے میں آتا ہے کہ اس سال ہم عید نہیں منائیں گے۔ اس طرح کے بیانات کے پیچھے یقینا نیک نیّتی‘ حُبُّ الوطنی، اُخُوَّتِ اسلامی اور انسانیت دوستی کا جذبہ کار فرما ہوتا ہوگا، لیکن سوال یہ ہے کہ عید نہ منانے کا مطلب کیا ہے؟ ۔یہ کوئی جشن یا تہوار تو ہے نہیں، یہ تو عبادتِ الٰہی اور سنت ِمصطفی ﷺ ہے۔ اخوت ِاسلامی اور اتحادِ امت کا مظاہرہ ہے وحدت ِ ملّت کا ایک حسین منظر ہے، اللہ کی بارگاہ میں دوگانہ نمازِ عید کی ادائیگی کا نام ہے، شرافت، متانت اور نفاست ایسی انسانی خصوصیات کا مظہر ہے۔ ان میں سے کوئی چیز اور کوئی بات ایسی نہیں جو عُسرویُسر اور رنج و راحت ہر حال میں منائے جانے کے قابل نہ ہو۔ البتہ لہو و لعب میں مشغولیت، رقص و سرود کی محافل برپا کرنا، نائو نوش اور مُحرَّماتِ شرعیہ کا ارتکاب اور ہوائے نفس کی تسکین کے سامان بہم پہنچانا، یہ ایسے امور ہیں جن کا اسلامی تصورِ عید سے کوئی تعلق نہیں ہے اور جو ایک مسلمان کو نہ صرف عید کے مُقدَّس موقع پر بلکہ زندگی کے ماہ و سال کے ہر لمحہ و لحظہ میں ہمیشہ کے لئے چھوڑدینے چاہئیں، بلکہ ان محرمات و منکَراتِ شرعیہ کو چھوڑنا ہی ایک مومن ِکامل کی حقیقی عید ہے اور ایسی عید اللہ تعالیٰ ہر بندئہ مومن کو نصیب فرمائے۔اس سے ہٹ کرمسرت کاموقع ہویارنج و اَلم کا ،مسلمانوں کاآپس میں مل بیٹھنا،نفرتوں،عصبیتوں اور کدورتوں کو مٹانا اور محبتوں کی خوشبوؤں کو قلب ونظر میں بسانااگرغلامان مصطفیٰ کو عید کے دن میسر ہوجائے، تو یہ معراجِ عید ہوگی۔لہٰذاقومی ، ملّی اور ملکی سانحات کے موقع پر اور ضروری ہوجاتا ہے کہ ہم اجتماعی طور پر اللہ تعالیٰ سے رجوع کریں، استغفار کریں اور اس کی رحمتوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے ساتھ ساتھ آفات وبلیّات سے نجات کی بھی دعائیں کریں ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں