سن نو ہجری میں پہلا ''حَجۃ الاسلام ‘‘فرض ہوا۔ اس اعتبار سے 1435ھ کا حج اسلام کا چودہ سو ستائیسواں حج تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے دس ہجری میں اپنی حیاتِ ظاہری کا پہلا اور آخری حج ادا فرمایا، اسے محدِّثین اور سیرت نگاروں کی اصطلاح میں ''حَجۃالوَداع‘‘ کہا جاتاہے، کیونکہ اس میں رسول اللہ ﷺ نے ایسے اشارات فرمائے تھے کہ شاید آئندہ حج کے موقع پر آپ ﷺ مسلمانوں کے درمیان موجود نہ ہوں گے، چنانچہ آپ نے فرمایا:'' میری باتیں توجہ سے سنو، شایدمیںآئندہ حج نہ کرپاؤں، شاید اس سال کے بعد اس مقام پر میری آپ سے ملاقات نہ ہو‘‘۔ چنانچہ آپ نے اپنے خطبۂ حجۃ الوَداع میں عالَمِ انسانیت کے لئے حقوقِ انسانی کا پہلا جامع اور مُدوَّن منشور جاری فرمایا۔
ہر سال کا خطبۂ حج اسی خطبۂ حجۃ الوَداع کا توارُث اور تسلسل ہے۔ اس سال یہ خطبہ امام الحج شیخ عبدالعزیز آلِ شیخ نے دیا اور اخبارات سے معلوم ہوا کہ یہ ان کا مسلسل چھتیسواں خطبۂ حج تھا۔ اس خطبے میں انہوں نے عقائد، اُمّت کی وحدت ، صلاح وفلاحِ اُمّت ، حکمرانوں کی ذمے داریوں ، قتلِ ناحق اور جہاد کے عنوان سے اُمّت کو جس صورتِ فساد کا سامنا ہے، اس کی کھل کر مذمت کی ، ان لوگوں کو لادین قرار دیا اور رسول اللہ ﷺ نے خوارج کے بارے میں جو مستقبل کی خبر دی تھی اور ان کا جوشِعار بیان فرمایا تھا، اس کا حوالہ دیا اور آج کے مفسدین کو اس کا مظہر ومصداق قرار دیا ۔ ہم امام الحج کے اس موقف کی تحسین وتائید کرتے ہیں، لیکن بصد ادب یہ بھی عرض گزار ہیں کہ : ''بہت دیر کی مہرباں آتے آتے‘‘۔
جہاد کے نام پریہ رُجحان (Phenomenon) آج پہلی بار مِنَصّۂ شُہود پر نہیں آیا بلکہ یہ گزشتہ تین دہائیوں پر مشتمل ہے اور اس کی سرپرستی ایک عرب ملک اور اس کے زیر اثر ممالک کی حکومتوں کی جانب سے سرکاری طور پر اور وہاں کے رُؤ سا ء اور اُمَراء کی جانب سے غیرسرکاری طور پر کی جاتی رہی، اسے وہیں سے توانائی ، وسائل اور ترغیب فراہم کی جاتی رہی، یہی وجہ ہے کہ اس کی اصل فکری ، روحانی اور عملی قیادت عرب اسکالرز کے پاس رہی ۔ باقی خطوں سے اس کے لئے خام مال اور اَفرادی قوت میسر آتی رہی ، جدید ترین اسلحہ اور اس کی فنی مہارت امریکا اور مغرب سے فراہم ہوتی رہی۔ یہ آگ ہمیں گزشتہ کئی دہائیوں سے بھسم کررہی ہے اور اس کا سب سے زیادہ نقصان بھی ہم نے اٹھایا۔
اب صورتِ حال یہ ہے کہ دولتِ اسلامیہ عراق وشام (داعش)یا اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ سیریا (ISIS) سعودی عرب کی سرحدوں پر دستک دے رہی ہے، اس آگ کا الاؤ اُن کے پڑوس میں شعلہ زن ہے، اس لئے اب اس کی تَپِش وہاں شدت سے محسوس ہورہی ہے اورامام الحج کے خطبۂ حج کا یہ حصہ اُسی دَرد کی صدا ہے۔ امام الحج نے اپنے خطبے میں وحدتِ اُمّت کا بھی درس دیا اور اس حدیث کا حوالہ دیا:''ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لئے ایک جسم کی طرح ہے، اگر جسم کے کسی ایک عضو کو کوئی تکلیف پہنچے تو سارا بدن بخار اور بیزاری کے کرب میں مبتلا ہوجاتاہے‘‘۔ کاش کہ جب ہم اس آگ میں جَل رہے تھے ، تو ہمیںبھی جسدِملّی کا ایک عُضو سمجھا گیا ہوتا اور کسی خطبۂ حج میں یہ درد بھی اُمّت اور مِلّت کا درد بن کر امام الحج کی زبان پر آتا ، تو شاید اس فساد کے پھیلاؤ کو روکنا نسبتاً آسان ہوتا، اس وقت امام الحج کی آواز میں بڑی تاثیر ہوتی ۔اب مشکل یہ ہے کہ ان مجاہدین یا امام الحج کے ارشاد کے مطابق خوارج کے نزدیک مسلم ممالک کے وہ تمام علماء جو اپنی اپنی حکومتوں کے خلاف برسرِ پیکار ، سراپا احتجاج اور میدانِ عمل میں مصروفِ جہاد نہیں ہیں ، وہ ان حکمرانوں اور اس نظام کے معاون ومدد گار اور اس سے فیض پانے والے ہیں اور اسی لئے اب یہ سب اُن کے لئے قابلِ نفرت ہیں۔اب اس کے لئے کسی مؤثر حکمتِ عملی کی ضرورت ہے، ورنہ ایسے تمام خطبات ، جن کے پیچھے قوتِ تنفیذ نہ ہو ، بہت جلد ہوا میں تحلیل ہوجاتے ہیں ۔
امام الحج نے حکمرانوں کو ان کی ذمے داریوں کا احساس دلا یا اور رعایا کے حقوق کی جانب متوجہ کیا، ہم اس کی دل وجان سے تحسین کرتے ہیںاور امام الحج ، آئمہ حرمین طیبین اور وہاں کے تمام سرکردہ علماء سے بصد ادب واحترام عرض گزار ہیں کہ وہ اپنی راحتوں اور عشرتوں سے نکل کر ذرا دیکھیں آج وہاں غیرملکی مزدوروں کے لئے کفالت کا جو ادارہ ہے، آیا وہ عہدِ قدیم کی غلامی کی جدید شکل تو نہیں ہے؟۔ ہمارے ہم وطن جن کا وہاں سالہاسال سے وسیع کاروبارہے ہیں، اُن کا کہنا ہے کہ کسی بھی وقت ہمارے ہاتھ میں خروج (Exit)لگاہوا پاسپورٹ تھما کر ہوائی جہاز میں بٹھایا جاسکتا ہے اور ہمیں اپنی کمائی میں سے کچھ بھی ساتھ لے جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی ، کیونکہ یہ سب کچھ ''کفیل‘‘ کے نام پر ہے۔لہٰذا ان مظلوم ومجبور انسانوں کے حقوق کے تحفظ کی طرف بھی امام الحج کو توجہ فرمانی چاہئے ، کیونکہ میدانِ عرفات میں مسجد نمرہ کے جس منبر پہ کھڑے ہوکر وہ خطبہ ارشاد فرما رہے ہوتے ہیں، اس کے مُورِثِ اعلیٰ رحمۃ لّلعالمین ، خاتم النبیین ، امام الانبیاء والمرسلین سیدنا محمدرّسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کی جان ومال اور آبرو کی حُرمت وتقدیس کو بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا:'' اے لوگو! توجہ سے سنو ! بیشک تمہاری جانیں ، تمہارے مال اور تمہاری آبرو کو وہی حُرمت اور تقدیس حاصل ہے ، جو آج کے دن(یومِ عرفہ) ، اس ماہِ ذوالحجہ اور اس بلدِ امین (مکۂ مکرمہ) کو حاصل ہے‘‘ ۔
امام الحج نے سعودی عرب کی سرحدوں کے قریب داعش اور القاعدہ کے شکار ممالک عراق ، شام اور یمن کے لئے دعا فرمائی۔ ہم اس کی دل وجان سے تحسین کرتے ہیں اور اخلاص کے ساتھ ''آمین‘‘ کہتے ہیں ، لیکن ان سے بصدادب گزارش ہے کہ مقبوضہ کشمیر ، فلسطین ،غزہ کے مظلومین اوربلکتے بلکتے پیوندِ خاک بننے والے بچوں ، برما اور دیگر خطوں کے مظلوم مسلمانوں کے لئے بھی اپنے خطبۂ حج میں چند دعائیہ کلمات ارشاد فرمائے ہوتے ، توان کی ڈھارس بندھتی ، انہیں حوصلہ ملتا کہ وقوفِ عرفہ کے دن مسجدہ نمرہ کا منبر بھی ان کے درد کو محسوس کررہا ہے اورمسلم حکمرانوں اور مسلم رُؤساء واُمراء کو اس جانب متوجہ کررہا ہے اور انسانیت تک ان کی آہیں اور سسکیاں پہنچ رہی ہیں اور انسانیت کے ضمیر کو ان کی خاطر جھنجھوڑا جارہا ہے ۔
یہ سطور میں نے اس لئے لکھیں کہ آئمہ حرمین اور امام الحج کا بڑا مقام ہے ،وہاں سے بلند ہونے والی آواز کو پوری دنیا توجہ سے سنتی ہے۔ورنہ یہ وہی سرزمین ہے جہاں اعلانِ نبوت سے پہلے بتوں کی پرستش ہوتی تھی، بیت اللہ میں بت سجے ہوئے تھے، لات ومنات کی بندگی ہوتی تھی ، صفا پراِسعاف اورمَروہ پر نائلہ نامی بت سجے ہوئے تھے ، ان پہ چڑھاوے چڑھائے جاتے تھے اور ان کے نام پہ قربانیاں کی جاتی تھیں ۔ نسلی ونسبی اور قبائلی نَخوت وتفاخُر(Arrogance)کے نظریاتی بت اس سے سوا تھے، زمانۂ جاہلیت میں مناسکِ حج ادا کرنے کے بعد منیٰ کے مقام پرذوالِمجنّہ اور عُکاظ کے میلے سجتے تھے ، جن میں قریش کے خطبا وشعراء اپنے اجداد کے کارنامے بیان کرتے تھے۔ سیدا لمرسلین ﷺ نے ان نظریاتی بتوں کو پامال کیا اور فرمایا:''سنو! جاہلیت کے نَخوت وغرور، قبائلی اور نسلی ونسبی تفاخر کو آج میں اپنے قدموں تلے روند رہا ہوں‘‘ ۔ اور اللہ عزّوجلّ نے ارشاد فرمایا:'' بس جب تم ارکانِ حج ادا کرچکو ، تو جس طرح تم (ماضی میں)اپنے آباواجداد کا ذکر کرتے تھے ، (اب ) اسی طرح اللہ کا ذکر کرو یا اس سے بہت زیادہ ، (البقرہ:200)‘‘۔