خیر وشر کی کشمکش اَزل سے جاری ہے ۔ علامہ اقبال نے کہا ؎
ستیزہ کار رہا ہے اَزل سے تا امروز
چراغِ مصطفوی سے، شرارِ بولہبی
علامہ اقبال نے چراغِ مصطفوی کو خیر کے لئے اور شرارِ بولہبی کو شر کے لئے بطورِ استعارہ استعمال کیا۔ انسانیت کے جدِّ اعلیٰ حضرت آدم علیہ السلام کو ابتدائے آفرینش ہی سے ابلیس سے واسطہ پڑا اور وہ حضرت آدم وحوّا کے جنت سے نکالے جانے کا ظاہری سبب بنااور آدمیت وابلیسیت کی یہ کشمکش تاقیامت جاری رہے گی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (1):''وہ یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں اور اللہ اپنے نور کوضرور درجۂ کمال پر پہنچائے گا،خواہ کافروں کو ناگوار ہو‘‘۔(التوبہ:32)
دنیا میں انسانوں کے بنائے ہوئے نظام میں ، انسانی شخصیت کی جو تشکیل ہوتی ہے، وہ قانونی ضوابط میں کس کر بنائی جاتی ہے ، انہیں ایک قانونی نظام کا پابند اور ذمے دار شہری بنایا جاتاہے۔ قانون کی پابندی کرتے کرتے ایک وقت آتا ہے کہ وہ قانون اس کے مزاج اور عادت کا حصہ بن جاتاہے۔ اس پر چیک رکھنے کے لئے مختلف طرح کی نگرانی کے انتظامات کئے جاتے ہیں۔ اُن میں سے ایک تو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افراد ہر وقت چوکس رہتے ہیں اور نظر رکھتے ہیں اور آج کل جدید سائنسی ترقی کی وجہ سے سی سی ٹی وی کیمرے نصب کئے جاتے ہیں اور زیادہ تر ترقی یافتہ ممالک بہت سی چیزوں کو سیٹلائٹ کیمروں سے بھی چیک کرتے ہیں اورپھر انہی آلات کی مدد سے قانون شکن عناصر کو تلاش کرکے قانون کی گرفت میں لیا جاتا ہے‘ لیکن یہ تمام ذرائع بھی انسان کی سوفیصد اصلاح میں ناکام رہتے ہیں ، اسی لئے دنیا میں عدالتیں ہیں ، جزا وسزا کا نظام ہے ، مجرموں کے لئے جیلیں ہیں ۔
لیکن اسلام ایک ایسے انسان کی تشکیل چاہتا ہے کہ جہاں قانون کی کوئی ظاہری یا خفیہ آنکھ اسے نہ دیکھ رہی ہو، وہاں بھی وہ اپنے آپ کواللہ عالم الغیب والشہادۃ کے سامنے جوابدہ سمجھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''بے شک اللہ اپنے بندوں (کے حال ) کو خوب دیکھنے والا ہے‘‘(المؤمن:44)۔ وہ نہ صرف ظاہر کو جانتا ہے بلکہ باطن کو بھی جانتا ہے اورکسی عمل ،خواہ بظاہر کتنا ہی پرکشش کیوں نہ ہو ،کے پیچھے کار فرمانیت کو بھی جانتا ہے اور آخرت کے اجر کا مدار اسی نیت پر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''وہ نگاہوں کی خیانت کو بھی جانتا ہے اور اُن (رازوں )کو بھی جو تم اپنے سینوں میں چھپاتے ہو‘‘(المؤمن:19)۔ اسی لئے ارشاد ہوا :''اور انہیں فقط اسی بات کا حکم دیا گیا ہے کہ وہ دین کو اللہ کے لئے خالص کرتے ہوئے ، اس کی عبادت کریں‘‘ (البینۃ:05)۔ اور رسول اللہﷺ نے فرمایا:''اعمال پر( اُخروی جزا) کا مدار نیتوں پر ہے،سو جس کی ہجرت (خالصاً) اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہو، تو وہ اللہ اور اس کے رسول کے لئے ہی قرار پائے گی اور جس کی ہجرت کسی دنیوی مقصد کے حصول کے لئے یا کسی عورت سے نکاح کے لئے ہو، تو وہ انہی مقاصد کے لئے قرار پائے گی‘‘(بخاری:01)۔ ایسی ہجرت کا آخرت میں کوئی اجر نہیں ہوگااور آپﷺ نے یہ بھی فرمایا: ''بے شک اللہ تمہارے جسموں اور (ظاہری) صورتوںکو نہیں دیکھتا ، بلکہ وہ تمہارے دلوںکو دیکھتا ہے‘‘(بخاری:33)۔ راوی کہتے ہیں کہ یہ کہتے ہوئے حضور نے اپنے سینے کی طرف اشارہ فرمایا۔ چنانچہ ارشاد ہوا: ''بے شک کان اور آنکھ اور دل ان سب کے بارے میں آخرت میں پوچھا جائے گا‘‘ (اسراء:36)۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے سننے، دیکھنے اور سمجھنے کی جو صلاحیتیں انسان کو عطا فرمائی ہیں، ان کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی کہ اُس نے ان صلاحیتوں کو اُس کی اطاعت میں استعمال کیا یانافرمانی میں۔
الغرض اسلام ایک اخلاقی شخصیت کی تشکیل چاہتا ہے کہ جب اللہ کی زمین پر کوئی بھی نظر اسے نہ دیکھ رہی ہو، تب بھی وہ اپنے آپ کو اللہ کے سامنے جوابدہ سمجھے اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کی طرف قدم نہ بڑھائے اور جوشخص اللہ کے خوف سے معصیت کی طرف بڑھتے ہوئے قدموں کو روک لے، اُسے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنے خصوصی سایۂ رحمت میں پناہ عطا فرمائے گا ، جبکہ اس کے سایۂ رحمت کے سوا اور کوئی جائے امان نہ ہو گی۔ ''ان میں سے ایک وہ شخص ہے کہ جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا اور اپنی خطاؤں پر نادم ہوکر اُس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور ایک وہ شخص ہے کہ جسے کسی منصب وجمال والی عورت نے دعوتِ گناہ دی(اور جب نفسانی شہوت کی تکمیل میں کوئی رکاوٹ نہ رہی)، تو اس نے (یہ کہہ کر قدم روک لئے کہ)میں اللہ سے ڈرتا ہوں ‘‘(نسائی:5395)۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اے بنی آدم!کہیں شیطان تم کو فتنے میں مبتلا نہ کردے ، جس طرح وہ تمہارے ماں باپ کے جنت سے اخراج اور ان کے لباس اتروانے کا سبب بنا تھا(تاکہ وہ انہیںاُن کی شرمگاہیں دکھائے)،بے شک وہ(شیطان) اور اُس کے کارندے تمہیں (ایسی جگہ سے )دیکھتے ہیں، جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ پاتے‘‘(الاعراف:27)۔ اُس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی آزمائش کے لئے جنات اور شیاطین میںایسی قوّتِ ادراک پیدا کی ہے ، جس کے سبب وہ انسانوں کو دیکھ لیتے ہیں اور عام انسانوں میں ایسی قوّت نہیں ہے کہ وہ جنات اور شیاطین کو دیکھ سکیں، کیونکہ جنات اور شیاطین کے جسم لطیف ہیں ، اس لئے ان کی شعاعِ بصر بہت قوی ہے، وہ لطیف(Thin) اور کثیف (Thick)دونوں اجسام کو دیکھ لیتی ہے،جبکہ عام انسان اپنے اجسام کے کثیف ہونے کی وجہ سے لطیف اجسام کو نہیں دیکھ سکتے، البتہ انبیاء علیہم السلام بطورِ معجزہ اور اولیائے کرام بطورِ کرامت جنات اور شیاطین کو دیکھ لیتے ہیں۔حضرتِ سلیمان علیہ السلام کی بابت اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''اور بعض جنات کوان کے تابع کردیا تھا، جو ان کے سامنے ان کے رب کے حکم سے کام کرتے تھے اور انہیں بتا دیا کہ اُن میں سے جوہمارے حکم کی نافرمانی کرے گا، ہم اسے بھڑکتی ہوئی آگ کا عذاب پہنچائیںگے،وہ اُن کے حسبِ منشاء اُن کے لئے اونچے قلعے ، مجسمے اور حوض کی مانندبڑے بڑے ٹب اور (چولہوں پر) گڑی ہوئی بڑی بڑی دیگیں بناتے تھے‘‘ (سباء: 13-14)۔ آج کل کی جو عالَمی قوتیں ہیں، انہوں نے مادّی اسباب سے اپنے لئے مخفی آنکھیں بنا لی ہیں۔
حدیثِ پاک میں ہے: ''نبی ﷺ کے پاس ام المؤمنین صَفِیّہ بنت حُیَیّ مسجد میں ملاقات کے لئے آئیں، جب وہ لوٹیں تو رسول اللہﷺ بھی ان کے ساتھ چل پڑے۔ آپﷺ کے پاس سے دو انصاری شخص گزرے ، آپ نے ان دونوں کو بلایا اور کہا:یہ صَفِیّہ(یعنی میری زوجہ)ہیں ، ان دونوں نے کہا : سبحان اللہ، آپ نے فرمایا: شیطان انسان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے‘‘(بخاری:7171)۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگرچہ نبیﷺ معصوم ہیں، مگر اس کے باوجود آپ نے ممکنہ بدگمانی کے ازالے کے لئے یہ طریقہ اختیار کیا۔ایک روایت میں ہے:''ایسے مواقع سے بچو، جہاں لوگوں کی بدگمانی اور تہمت کا امکان ہو‘‘۔ الخرائطی نے مرفوعاً روایت کیا ہے :''جواپنے بارے میں بدگمانیوںکے مواقع پیدا کرے گا، وہ (انجامِ کار) لوگوں کی تہمت کا ہدف بنے گا، پھر اسے بدگمانی کرنے والوں کو ملامت نہیں کرناچاہئے‘‘ (کشف الخفاء و مزیل الالباس، جز : اول ، ص:44)۔ ایک اور حدیثِ پاک میں ہے:''حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جن عورتوںکے شوہر موجود نہ ہوں، ان کے پاس نہ جاؤ، کیونکہ شیطان تمہاری رگوں میں خون کی طرح سرایت کرتاہے‘‘ (ترمذی:1172)۔اللہ تعالیٰ کا ارشادہے: ''اور جس چیز کا تمہیں علم نہ ہو، اس کی ٹوہ میں نہ لگو، بے شک کان ، آنکھ اور دل ان سب کے بارے میں قیامت کے دن پوچھا جائے گا‘‘(بنی اسرائیل:36)۔
الغرض کامل مومن وہی ہے جو اپنے آپ کو اُس اللہ کے حضور جوابدہ سمجھے جس سے ظاہر وباطن کا کوئی ذرہ پوشیدہ نہیں ہے۔ انسانی اعمال پر تو اس کی نظر ہے ہی ، ان اعمال کے پیچھے جو نیت کارفرما ہے اور جو اس کے باطنی اورقلبی محرکات ہیں، وہ اُن سے بھی خوب آگاہ ہے۔ چنانچہ ایک بار ایک بادشاہ اپنی ریاست میں سیروسیاحت کرتے ہوئے ایک باغ میں گیا تو اسے باغ کے مالی کی بیوی کے حسن وجمال نے فریفتہ کردیا۔ اس نے اس کے شوہر کو دوردراز بھیجا اور اس کی بیوی کو اپنے حرم میں بلایا اور اُس کو حکم دیا کہ سارے دروازے‘ کھڑکیاں ، روشن دان بندکردو۔ اس نے حکم کی تعمیل کی۔ بادشاہ نے اُس سے پوچھا کہ سب روزن بند کر دیے، اس نے کہا کہ سوائے ایک کے سب بند کردئیے۔ بادشاہ نے کہا:''اسے بھی بند کردو‘‘۔ اس نے کہا: ''وہ میرے بس میں نہیں ہے‘‘۔ بادشاہ نے کہا:''بتاؤ میں بند کردیتا ہوں‘‘۔ اُس نے کہا :''آپ بھی نہیں کرسکتے‘‘کیونکہ یہ وہ روزن ہے جو بندے اور اللہ کے درمیان ہے۔ اس سے بادشاہ کی دل کی آنکھ جو شہوت کے غلبے سے بند ہوچکی تھی ، کھل گئی اور فوراً توبہ کی اور گناہ میں مبتلا ہونے بچ گیا۔