15مئی کے کالم میں وفاقی وزیرِ اطلاعات جناب پرویز رشید کے علمائِ دین اور دینی مدارس کے بارے میں ''فرمودات‘‘ مِن وعَن آپ کی خدمت میں پیش کیے تھے، ان میں انہوں نے دینی مدارس کو ''جہالت کی یونیورسٹیاں‘‘ اور دین کے مابعدَ الموت اَحوال اور جزا وسزاکے عقیدے کو ''مُردہ فکر‘‘ سے تعبیر کیا تھا۔ آئیے! آج آپ کی ملاقات اُن کے مطابق ایک ''جاہل‘‘ سے کراتے ہیں، جو دینی مدارس کی پیداوار ہیں۔ آپ ہمارے دارالعلوم جامعہ نعیمیہ کے شیخ الحدیث ، اپنے عہد کے امام المفسرین والمحدّثین اور فقیہِ عصر علامہ غلام رسول سعیدی ہیں۔ آپ کا سن پیدائش 1937ء ہے اور آپ نے صرف ساتویں جماعت تک اسکول میں پڑھا اور اس کے بعد آپ کی تعلیم اور تعلُّم کی پوری زندگی مدارس میں گزری۔
شیخ الحدیث علامہ غلام رسول سعیدی نے سات ضخیم مجلّدات اور 7850صفحات پر مشتمل انتہائی وقیع شرح صحیح مسلم لکھی، 605صفحات پرمشتمل فہرستِ موضوعات اور اشاریہ اس کے علاوہ ہے، بارہ ضخیم مجلّدات اور 11000صفحات پر مشتمل اس عہد کی سب سے جامع تفسیر ''تبیان القرآن‘‘ لکھی ، فہرستِ موضوعات اور اشاریہ اس کے علاوہ ہے، سولہ ضخیم مجلّدات اور 15500صفحات پر مشتمل ''نعمۃ الباری شرح صحیح بخاری‘‘ لکھی، فہرستِ موضوعات اور اشاریہ اس کے علاوہ ہے۔ تفسیرِ تبیان القرآن کا خلاصہ الگ سے ''انوارِ تبیان القرآن‘‘ کے نام سے طبع ہوچکا ہے۔ تذکرۃ المحدّثین، مقالاتِ سعیدی ، مقامِ ولایت ونبوت اور دیگر متعدد تصانیف اس کے علاوہ ہیں۔ اگر تفسیر تبیان القرآن، شرح صحیح مسلم اور نعمۃ الباری کی متعدد تحقیقی ابحاث کو الگ کتب کی شکل میں شائع کیا جائے تو یہ تعداد سو تک پہنچ سکتی ہے۔ یہ سب کام انہوں نے 1984ء سے اب تک انجام دیاہے اور ایک جدید تفسیر ''تبیان الفرقان‘‘ زیر طبع وتصنیف ہے۔الحمدﷲ یہ کتب پاکستان اور پاکستان سے باہراہلِ علم کے ذاتی کتب خانوں اور علمی لائبریریوں کی زینت ہیں۔علامہ صاحب کی شخصیت اور تصانیف پر ایم فل اور پی ایچ۔ڈی کے مقالے متعدد یونیورسٹیوں میں لکھے جا چکے ہیںاور یہ سلسلہ جاری ہے۔
میں ان کتب سے وقیع ، تحقیقی ، تفسیری اورفقہی مباحث کا حوالہ دینے سے اجتناب کرتے ہوئے چندجدید مسائل کی جانب قارئین کو متوجہ کروں گا۔ جب ٹیسٹ ٹیوب بے بی کا طبّی نظریہ اور تحقیق سامنے آئی ، تو علامہ صاحب نے شرح صحیح مسلم میں اس کے جواز پر تفصیلی بحث کی اور ایک عظیم حنفی فقیہہ علامہ شمس الدین محمد بن احمد سرخسی متوفّٰی:483ھ کا حوالہ دیا کہ شوہر اور بیوی کے ازدواجی تعلق کے بغیر اگر شوہر کا نطفہ بیوی کے رحم میں پہنچ جائے اور اس کے بیضہ سے امتزاج کے بعد حمل قرار پائے اور بچہ پیدا ہوجائے،تو اس کا نسب شوہر سے ثابت ہوجائے گا ۔ ہمارے ایک عالم مولانا عبدالمجید نے برسٹل یو۔کے میں مسیحی سکالرز کے ساتھ جدید مسائل پر مکالمہ کرتے ہوئے اس کا حوالہ دیا، تودو سکالر مشرف بہ اسلام ہوگئے ۔ انہوں نے کہا:'' آج سے ایک ہزار سال پہلے اگر اسلام کے کسی عالِم نے یہ امکانی تصور پیش کیا ہے، جس کے طبّی اعتبار سے وقوع پذیر ہونے کا اُس وقت دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آتاتھا، تو اس کے پیچھے وحیِ ربّانی کا نور اور فیضان ہی ہوسکتا ہے۔سورۃ الزلزال کی تفسیر میں زلزلے کی سائنسی تحقیق کرتے ہوئے ماضی کے زلزلوں کی پوری تاریخ پیش کردی اور زلزلہ پیمائی کے لیے ریکٹر سکیل کا تعارف پیش کیا۔ سورۃ البروج پر بحث کرتے ہوئے بارہ برجوں ، ان کی ہیئت واسماء کے بارے میں پوری تفصیل بیان کی۔ حرمتِ خمر کی بحث کرتے ہوئے حرامِ قطعی شرابوں اور حرامِ ظنّی کے درمیان فرق کو بیان کیا اور دونوں کے احکام جداجدا بیان کیے۔اسلام کی رو سے اِسقاطِ حمل تو جائز نہیں ہے اور جنین میں جان پڑنے کے بعد اِسقاط (Abortion)قتلِ نفس ہے، مگر علامہ سعیدی نے وہ صورتیں اور انسانی اَحوال بیان کردئیے ہیں ، جن کی رو سے احتیاط کی بنا پر امتناعِ حمل کے طریقوں کو اختیار کیا جاسکتا ہے۔
انعامی بانڈز پر ملنے والے انعام کے جواز اور عدمِ جواز کے بارے میں علماء کی دو آراء ہیں، کیونکہ یہ فقہی اور اجتہادی مسئلہ ہے۔ علامہ صاحب نے قوی اور مفصل دلائل کے ساتھ اس کے جواز کو ثابت کیا ہے۔ اسی طرح بعض علماء زکوٰۃ کے علاوہ ریاست کی طرف سے ٹیکس یعنی محصولات (Revenues)حاصل کرنے کو جائز نہیں سمجھتے ، علامہ صاحب نے اس کے جواز کے نقلی اور عقلی دلائل بیان کیے ہیں، لیکن یہ بھی قرار دیا ہے کہ عوام سے حاصل کیے ہوئے مالی واجبات قوم کی امانت ہوتے ہیں اور ان میں خیانت ، لوٹ کھسوٹ ، اسراف وتبذیر ، عیاشی اور الّلے تلّلے کسی بھی درجے میں جائز نہیں ہیں ۔ اَمراض کے متعدی ہونے کے بارے میں مختلف روایات ہیں۔ علامہ صاحب نے شرح صحیح مسلم میں ان میں تطبیق کرتے ہوئے امراض کے متعدی ہونے کو ثابت کیا ہے ، لیکن یہ بتایا کہ اسباب ،خواہ نفع کے ہوں یا ضرر کے ، وہ مؤثِّر بالذات نہیں ہوتے، اُن کی تاثیر اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تابع ہے۔علامہ صاحب نے ووٹ کی شرعی حیثیت پر بھی بحث کی ہے ، بعض علماء نے ووٹ کو گواہی سے تعبیر کیا ہے۔ علامہ صاحب نے اس نظریے سے اختلاف کیا اور بتایا کہ یہ قضا ہے اور ہر ووٹر اپنے آپ کو اپنے ضمیر اور اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دہ سمجھ کر ووٹ کی پرچی پر مہر لگاتا ہے کہ میرے فیصلے کے مطابق اس منصب کا حق دار فلاں شخص ہے۔ قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی یا کسی بھی سطح کے حلقۂ نیابت کا منصب تفویض کرنے کے لیے ووٹرز کی حیثیت مجلسِ قضا کی سی ہے اور جس طرح ایک بڑے عدالتی بینچ میں اگر فیصلہ اتفاقِ رائے سے نہ ہو تو کثرتِ رائے سے فیصلہ ہوتا ہے، یہی حیثیت ووٹ کی بھی ہے، شہادت تو قبول بھی کی جاسکتی ہے اور رَد بھی ہوسکتی ہے۔
یہ مسئلہ علماء کے درمیان مختلف فیہ ہے کہ آیاانجکشن سے روزہ ٹوٹتا ہے یا نہیں؟۔ علامہ صاحب نے تفصیلی دلائل سے ثابت کیا کہ انجکشن سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ، کیونکہ معنوی طور پر انجکشن سے انسانی بدن کو براہِ راست وہی فائدہ پہنچتا ہے، جو معدے میں غذا کے تحلیل ہونے، فُضلات اور صالح اجزا کے جدا ہونے اور پھرمختلف مراحل سے گزرتے ہوئے وٹامن ، مِنرل ، پروٹین اور گلوکوز کی شکل میں بدن کو فائدہ پہنچتا ہے، لہٰذا یہ معنوی طور پر مُفسدِ صوم ہے ، لیکن اس سے قضا لازم آئے گی ، کفارہ لازم نہیں آئے گا۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کی نشانیاں بیان کرتے ہوئے بتایا کہ اس کی قدرت سے مادہ جانور کے معدے کے کارخانے میں غذا کے تحلیل اور ہضم ہونے کے بعد اس کے بعض اجزاء گوبر کی صورت میں آنتوں کے راستے سے خارج ہوتے ہیں اور بعض صالح اجزاء مختلف مراحل سے گزر کر خون میں شامل ہوتے ہیں اور اسی کیمیکل پروسیس کے دوران رنگ دار اور ناپاک گوبر اور رنگین خون کے درمیان میں سے چاندنی کی طرح چمکتا ہوا سفید اور شفاف دودھ جانوروں کے تھنوں میں آتا ہے اور اس سے انسانوں اور جانوروں کے بچے استفادہ کرتے ہیں۔
زمین کی حرکت علماء کے درمیان مختلف فیہ مسئلہ رہا ہے، تبیان القرآن میں متعدد مقامات پر آیات سے استدلال کرکے زمین کے مُدَوّر ہونے کو ثابت کیاہے۔ اگر تخلیقِ کائنات کا سائنسی نظریہ ''بگ بینگ تھیوری‘‘ یعنی یہ کہ قدرت کا پیدا کردہ منبعِ حرارت وقوت ایک بڑے دھماکے کی صورت میں پھٹا اور اس کے مختلف اجزاء فضا میں بکھر گئے اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی بیرونی سطح ٹھنڈی ہوتی چلی گئی، اگر یہ نظریہ حقیقتِ ثابتہ ہے ، تو علامہ صاحب نے قرآن کی اصطلاحات ''فَتق‘‘ اور ''فَلق‘‘سے اس کے امکان کی طرف اشارہ کیا، تخلیقِ حیات میں پانی کی تاثیر جو قرآن نے بیان کی ، اس کی حقیقت کو بیان کیااور اس اشکال کا بھی حل پیش کیا کہ بعض چیزوں کو پانی کے بغیر پیدا فرمایا ۔ تخلیقِ کائنات ، ستاروں کی گردش ، نظریۂ کشش ثقل ، حیات کی بنیادی اکائی سالمیہ (DNA)پر بھی تفصیل سے بات کی ہے۔
میں نے علامہ صاحب کی تحقیقات کے حوالے سے تفسیر وحدیث کی وقیع مباحث اور فقہی مباحث کا حوالہ نہیں دیا، فقہی مسائل کے دلائل کا تقابلی جائزہ بھی پیش نہیں کیا، کالم کی تحدیدات میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔ بتانا یہ تھا کہ ہمیں اقتدار کی مسندوں پر فائز کیسے کیسے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے، جو لمحہ بھر کے لیے بھی نہیں سوچتے کہ ایسے عظیم اہلِ علم پربلا استثناء پھبتی کسنا اور عظیم مراکزِ علم کی تحقیر اورتجہیل کرناکتنی بڑی جسارت ہے ، جن کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایاتھا:''اہلِ ارض وسما اور (پانی میں تیرنے والی) مچھلیاں عالمِ (ربّانی )کے لیے اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتی ہیں، (ترمذی: 2682)‘‘، غالب نے کہا تھا ؎
تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو اسد
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں