چند برسوں سے ہر سال انہی دنوں سیلاب یا کسی اور قسم کی ناگہانی آفات کا سلسلہ رہتاہے ،اکثر لوگ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ ہمارے ملک میں تباہ کن سیلاب آیاہے ،جس سے کافی جانی ومالی نقصان ہواہے ، لاکھوں لوگ بے گھر ہیں، قربانی کوموقوف کرکے یہ رقم ان متاثرین کی مدد پر صرف کی جانے چاہیے ۔ہمیں ایک صاحب نے خط لکھاکہ ایک ادارے کا سربراہ یہ کہتا ہے کہ ہمارے ملک میں لوگ بدترین سیلاب کی زَد میں ہیں ،لوگوں کے گھر ،مال ،مویشی اورجانیں تباہ ہورہی ہیں، لہٰذا10ذوالحجہ کو سنّتِ ابراہیمی کے طور پر جو قربانی کی جاتی ہے ، اس سال نہ کی جائے اور وہ رقم سیلاب زدگان کو بطور امداد دی جائے تاکہ اُن کی مشکلات میں کمی ہوسکے ۔ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ علمائے کرام نے یہ فتویٰ دیاہے کہ لوگ حج وعمرہ کے بجائے یہ رقم سیلاب زدگان پر خرچ کریں تو انہیں کئی حج اور عمروں کا ثواب ملے گا ۔
پہلی عرض تویہ ہے کہ قربانی کا بدل مالی صدقہ نہیں ہے اورنہ ہی دین کے فرائض وواجبات کو ساقط کرنے کا کسی کواختیار ہے۔شریعتِ مُطہرہ کی روشنی میں وہ عبادات جو شریعت میں مقرر ہیں،وہ بجائے خود مقصود ہیں اوران کو شارع کے حکم کے مطابق بجالانا ضروری ہے ۔قربانی ہر صاحبِ نصاب بالغ مرد وعورت پر واجب ہے ۔ قربانی کو واجب قرار دینے کے سلسلے میں ہماری دلیل اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے :ترجمہ:'' اپنے رب کی نماز پڑھئے اورقربانی کیجئے ،(کوثر :2)‘‘۔لہٰذا قربانی لازم ہے اور مالی صدقہ اس کا مُتبادل نہیں ہوسکتا ۔قربانی ،جسے عربی میں''اُضْحِیَہ‘‘ کہتے ہیں ،گوشت پوست کے حصول کا نام نہیں ہے ،بلکہ اس کی حقیقت اورروح ایامِ قربانی میں عبادت اور تقرُّب الٰہی کی نیت سے شریعت کی مقررہ شرائط کے مطابق جانور ذبح کرنے کا نام ہے۔حدیث پاک میں ہے :''حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''قربانی کے دن بنی آدم کاکوئی بھی عمل اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں (قربانی کی نیت سے) جانور کا (اِھراقُ الدّم یا اِرَاقۃُ الدّم)خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں ہے ، اوریہ (قربانی کاجانور) قیامت کے دن اپنے سینگوں ،بالوں اورکھروں سمیت (یعنی سالم وجود کے ساتھ) آئے گا ۔اور(قربانی کے جانور کاخون) یقیناًزمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ہاں مرتبۂ قبولیت کو پالیتاہے ،سو (اے اہلِ ایمان !)تم خوش دلی سے قربانی کیاکرو،(سُنن ترمذی:1493)‘‘۔
اس حدیث پاک سے معلوم ہواکہ قربانی کی حقیقت اوراصل عبادت ''اِھراقُ الدّم‘‘ یا ''اِرَاقۃُ الدّم‘‘ ہے ،جس کے معنی ہیں: خون بہانا،یعنی شرعی شرائط کے مطابق ذبح کرنا ،جوخون بہانے کا سبب ہے ‘‘۔اس حکمت کو اللہ عزوجلّ نے بیان فرمایا: ''اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ان(قربانی کے جانوروں) کانہ گوشت پہنچتاہے اورنہ ہی اُن کا خون ، بلکہ (اس عمل قربانی سے مقصود) تقویٰ ہے ،جو اس کی بارگاہ میں پہنچتاہے،(الحج:37)‘‘۔ہاں!اپنے وطن کے مصیبت زدہ بھائیوں کی اپنی بساط کے مطابق ہرممکن مددکرنا بھی ہمارے دین اورایمان کا تقاضا ہے اورپوری قوم کو اس ذمے داری سے عہدہ برا ہونا چاہئے ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:ترجمہ:'' جس شخص کے پاس گنجائش ہو اور وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے، (سُنن ابن ماجہ :3123)‘‘۔قربانی نہ کرنے پر وعید کا لاحق ہونا ،اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب قربانی واجب ہو ۔ترجمہ:''حضرت جندب بن سفیان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں عید الاضحی کے دن رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا، جب آپ ﷺ لوگوں کو نماز پڑھا کر فارغ ہوئے،تو آپ ﷺ نے ذبح کی ہوئی بکری کو دیکھا ،آپ ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے نماز سے پہلے قربانی کی ہے ،وہ اِس کی جگہ دوسری بکری کو ذبح کرے اور جس نے ابھی تک ذبح نہیں کیا ، وہ اللہ کا نام لے کر ذبح کرے ،(صحیح مسلم : 5060)‘‘۔
آیت اور احادیث مبارکہ میں قربانی کا امر (حکم) کیاہے اور امر وجوب کے لئے ہوتا ہے ۔ جس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے قربانی کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنّت فرمایا ہے(سنّۃ ابیکم ابراہیم،سُنن ابن ماجہ:3127) ،اُس سے مراد یہ ہے کہ قربانی دین میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا طریقہ ہے اور یہ وجوب کی نفی نہیں کرتا۔امام برہان الدین علی المرغینانی لکھتے ہیں :ترجمہ:'' ہر آزاد، مسلمان ،مقیم ،مالدار پر ایّامِ قربانی (10تا 12ذوالحجہ)میں اپنی طرف سے اور اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے قربانی کرنا واجب ہے ،امام ابوحنیفہ ،امام محمد ،امام زفر ، امام حسن اور ایک روایت میں امام ابو یوسف رحمہم اللہ اجمعین کے نزدیک قربانی واجب ہے،(ہدایہ ، جلد7،ص:154)‘‘۔ ''ظاہر الروایۃ‘‘ کے مطابق نابالغ پر قربانی واجب نہیں ہے، چنانچہ علامہ علاؤالدین حصکفی لکھتے ہیں: ترجمہ:'' ہر آزاد مقیم مالدار مسلمان پر اپنی طرف سے قربانی واجب ہے، (حنفی مذہب کی) ''ظاہرالروایۃ‘‘ کے مطابق نابالغ بچے کی جانب سے قربانی واجب نہیں ہے ، البتہ نابالغ کا فطرہ واجب ہے، ۔۔۔اس کی شرح میں علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں: ''ظاہر الروایۃ‘‘ کے مطابق نابالغ کے لئے قربانی واجب نہیں بلکہ مستحب ہے البتہ صدقۂ فطر واجب ہے، امام حسن کی روایت کے مطابق اپنی نابالغ اولاد اور یتیم پوتے پوتی کی قربانی واجب ہے ، مگر فتویٰ ''ظاہر الروایۃ ‘‘پر ہے۔ اور اگر کوئی شخص اپنی بالغ اولاد اور بیوی کی جانب سے قربانی کرے تو ان کی اجازت لے کر کرے۔ ایک روایت میں اگر بلااجازت بھی کردی تو استحساناً جائز ہے،(ردالمحتار، جلد:9،ص:382)‘‘۔
فقہائے مالکیہ میں متقدمین قربانی کے وجوب کے قائل ہیں اور متاخرین کے نزدیک سنتِ مؤکدہ ہے ۔حنابلہ اور شافعیہ کے نزدیک قربانی سنتِ مؤکدہ ہے ۔مذکور شخص کا یہ کہنا بھی غلط ہے کہ علماء نے فتویٰ دیا ہے کہ '' لوگ حج وعمرہ کے بجائے یہ رقم سیلاب زدگان پر خرچ کریں تو انہیں کئی حج اور عمروںکا ثواب ملے گا ‘‘۔ دراصل اُس شخص نے علماء کے موقف کو صحیح نہیں سمجھا ۔علماء کا بیان یہ تھا کہ فرض حج تو کسی طور پر بھی ساقط نہیں ہوتا ،البتہ نفلی حج کو مؤخر کرکے یہ رقم سیلاب زَدگان پر خرچ کی جاسکتی ہے ،کیونکہ یہ اہلِ پاکستان پر ایک بہت بڑی آزمائش تھی اورعمرہ اپنی اصل کے اعتبار سے ہی ایک نفلی عبادت ہے ۔لیکن واجب قربانی کو نہ تو ترک کیاجاسکتا ہے ،نہ ساقط کیاجاسکتا ہے ۔البتہ مالی حیثیت والے لوگ اگر اپنے روزمرّہ کے مصارف یا تَعیُّشات میں کمی کرکے پس انداز کی ہوئی رقم سیلاب زَدگان کی مدد پر صرف کریں تو یہ اُن کی دینی اور اخلاقی ذمہ داری بھی ہے اور اعلیٰ انسانی قدر ہے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :ترجمہ:'' اور جو چیز لوگوں کو نفع دیتی ہے ،اُسے زمین پر قرار ملتا ہے ، (الرعد:17)‘‘۔ارشاد ِ رسول ﷺ ہے :ترجمہ:'' بہترین انسان وہ ہے ،جس کی ذات انسانیت کے لئے زیادہ نفع رساں ہو، (الجامع الکبیر :11760)‘‘۔
قربانی بھی ضرورت مند انسانوں کی خدمت کا ایک ذریعہ ہے ۔مویشی پالنے والے لوگ سال بھر اِسی آس پر جانور پالتے ہیں کہ ایامِ قربانی میں اُنہیں فروخت کرکے اپنی ضروریات پوری کریں گے ،پھر قربانی کے گوشت سے بھی غریبوں اور ناداروں کی مدد کی جاتی ہے اورکھال بھی ناداروں کی مدد کا ایک ذریعہ ہے ۔نیز قربانی اسلام کا ایک شِعار ہے ، حضرت ابراہیم واسماعیل علیہما السلام اورامام الانبیاء حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی سنّتِ جلیلہ ہے اور اس کی بے شمار شرعی حکمتیںاور برکات ہیں۔
ایسا شخص جو قربانی کرنے کا ارادہ رکھتاہے ،وہ یکم ذو الحجہ سے عیدالاضحی کے دن تک یا جس دن قربانی کرے گا ،اُس وقت تک ناخن اور بال نہ ترشوائے ،اِس حکم پر عمل کرے تو بہتر ہے ،نہ کرے تو مضائقہ نہیں۔ حدیثِ پاک میں ہے : ترجمہ:'' حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے ذی الحجہ کا چاند دیکھ لیا اور وہ قربانی کرنے کا ارادہ رکھتاہے ،تو جب تک قربانی نہ کرلے ،بال اور ناخنوں سے کچھ نہ لے یعنی اِنہیں نہ ترشوائے،(سُنن ترمذی: 1523) ‘‘۔احادیث مبارکہ میں طہارت ونظافت کے احکام میں ناخن تراشنے ،،مونچھیں پست کرانے اور موئے زیرِ ناف دور کرنے کے لئے جو انتہائی مدت بیان کی گئی ہے، وہ چالیس روز ہے ،اِس سے زائد مدت تک چھوڑے رہنا ممنوع ومکروہ ہے ۔حدیث پاک میں ہے :ترجمہ:''حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مونچھیں کاٹنے ،ناخن ترشوانے ،بغل کے بال لینے اور زیرِ ناف بال دور کرنے کے لئے یہ میعاد مقرر کی گئی کہ چالیس دن سے زیادہ نہ چھوڑیں، (صحیح مسلم :599)‘‘۔
امام احمد رضاقادری قُدِسَ سِرُّ ہ العزیز لکھتے ہیں: ''اگرکسی شخص نے 31دن سے کسی عذر کے سبب خواہ بلاعذر ناخن نہ تراشے ہوں نہ خط بنوایاہوکہ چاند ذی الحجہ کا ہوگیا،تو وہ اگرچہ قربانی کا ارادہ رکھتاہو،اس مستحب پرعمل نہیں کرسکتاکہ اب دسویں تک رکھے گاتو ناخن وخط بنوائے ہوئے اکتالیسواں دن ہوجائے گا ،اورچالیس دن سے زیادہ نہ بنوانا گناہ ہے ،فعل مستحب کے لئے گناہ نہیں کرسکتا۔ردالمحتار میں ہے : ذوالحجہ کے دس دنوں میں ناخن کاٹنے اور سرمنڈانے کے بارے میںآپ نے فرمایاکہ سنّت کو مؤخر نہ کیاجائے جبکہ اس کے متعلق حکم وارد ہے تاہم تاخیر واجب نہیں ہے ۔ تویہ بالاجماع استحباب پر محمول ہے کیونکہ وجوب کی نفی استحباب کے منافی نہیں ہے ، لہٰذا مستحب ہے ،ہاں!اگر اباحت کی مدت کی انتہا چالیس روز ہے ،تو اس سے زیادہ تاخیر مباح نہ ہوگی، (فتاویٰ رضویہ ،جلد20، ص:354)‘‘۔بہتر اور افضل یہ ہے کہ جو مسلمان قربانی کا ارادہ رکھتے ہیں ،اُنہیں ذی الحجہ کے چاند سے ایک دودن پہلے طہارت یعنی ناخن تراشنے ،مونچھیں اور ضرورت سے زیادہ بال کٹوالینے چاہئیں تاکہ مستحب پر عمل کرنے میں ترکِ سنّت لازم نہ آئے ۔