اللہ تعالیٰ نے قرآن ِ مجید میں متعدد مقامات پر مختلف انداز میں اصحابِ رسول کا ذکرتعریف و توصیف کے انداز میں بیان فرمایا ہے۔ سورۂ الفتح میں کئی جگہ اُن کا ذکرِ مبارک موجود ہے ۔خاص طور پر اس سورۂ مبارکہ کی آخری آیت ،جو قرآن مجید کی تین طویل ترین آیات میں سے ایک ہے، ساری کی ساری مدحِ صحابہ پر مشتمل ہے ، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
''محمد(ﷺ) اللہ کے رسول ہیں اور جو اُ ن کے اصحاب ہیں (وہ معرکۂ حق وباطل کے موقع پر ) کفّارپر انتہائی سخت ہیں (اور ) آپس میں نہایت نرم دل ہیں ، (اے مخاطَب! ) تو (جب بھی ) دیکھے گا ، انہیں رکوع کرتے ہوئے(یا ) سجدہ کرتے ہوئے پائے گا ، وہ اللہ کے فضل اور (اُس کی ) رضا کے طلب گار ہیں ، اُن کی خاص نشانی ان کے چہروں پر سجدوں کے اثر سے (عیاں ) ہے ، اُ ن کی یہ صفت تورات میں (بیان کی گئی)ہے اور انجیل میں ان کا وصف( کچھ اس انداز میں) بیان ہوا ہے : جیسے ایک کھیتی ہو ، اُس نے اپنی کونپل نکالی ، پھر اس نے طاقت پکڑی ، پھر وہ موٹی ہوگئی (اور ) پھر وہ (اپنی طاقت کے بل پر )اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہوگئی، (یہ منظر ) کسانوں کو خوب بھاتا ہے تاکہ (اسے دیکھ کر ) کفّار کے دل جلیں ۔ اللہ نے اہلِ ایمان اور نیک اَعمال کرنے والوں سے مغفر ت اور بڑے اجر کا وعدہ فرمایا ہے ، (الفتح : 29)‘‘۔
اس آیتِ مبارکہ میں چند باتیں غور طلب ہیں : ایک یہ کہ جس طرح رسول اللہ ﷺ کا تذکرہ توصیفی انداز میں تورات و انجیل اور انبیائِ کرام علیہم السلام کے صحیفوں میں بیان ہوا ہے ، اسی طرح آپ کے اصحاب کا تذکرہ اور اوصاف بھی اِن کتب میں مذکور ہیں؛چنانچہ انجیلِ متّیٰ باب : 13،آیات : 31-32، مرقس ، باب : 4، آیات: 26-32میں ہے :''اور اس نے کہا : خداکی بادشاہی ایسی ہے ، جیسے کوئی آدمی زمین میں بیج ڈالے اوررات کو سوئے اور دن کو جاگے اور وہ بیج اس طرح اُگے اور بڑھے کہ لگے زمین آپ سے آپ پھل لاتی ہے ۔ پتی پھر بالیں ، پھر بالیوں میں تیار دانے ، پھر اناج پک چکا تووہ فی الفور درانتی لگا تا ہے ، کیونکہ کاٹنے کا وقت آ پہنچا ۔ آگے چل کر کہا : رائی کے دانے کی مانند ہے جب زمین میں بویا جاتا ہے توسب بیجوں سے چھوٹا ہوتا ہے ، مگر جب بو دیا گیا تو اگ کر سب ترکاریوں سے بڑا ہو جاتاہے اور ایسی بڑی ڈالیاں نکالتا ہے کہ ہوا کے پرندے اس کے سائے میں بسیرا کرتے ہیں ‘‘۔
ظاہر ہے کہ آیت میں کاشت کار سے مراد سید المرسلین ﷺ کی ذاتِ گرامی ہے اور بیج سے مراد ایمان کا تُخم ہے اور کھیتی سے مراد صحابۂ کرا م کے قلوب و اذہان ہیں کہ جن میں ایمان اس قدر راسخ ہوا کہ اُن کے پائے ثبات میں کبھی لغزش نہ آئی، بڑے سے بڑا خوف یا طمع انہیں راہِ حق سے ہٹا نہ سکا ۔ ابتدا میں کفر کے مقابلے میں اُن کی تعداد کم تھی ، لیکن پھر رفتہ رفتہ لوگ توانادرخت بن گئے اور آگے چل کر اپنے عہد کی وحدانی سپر پاور بن گئے ۔ ظاہر ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے اپنی محنت کا یہ ثمر دیکھا تو ان کا دل باغ باغ ہو گیا اور کفّار جل بُھن گئے ، بلکہ ایک وقت آیا کہ سرز مینِ حجاز کفر سے پاک ہو گئی ۔
اسی طرح فتح ِ مکہ کے منظر کو تورات نے اِن الفاظ میں بیان کیا تھا :''خداوند سینا سے آیا اور سعیر سے ان پر طلوع ہوا ، فاران کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا، دس ہزار قُدسیوں کے ساتھ آیا، اُس کے داہنے ہاتھ میں ایک آتشی شریعت اُن کے لیے تھی ، (استثناء ، باب: 33، آیت : 2)‘‘۔ یہ اتنا واضح بیان ہے کہ کسی تاویل و توجیہ کی بھی ضرورت نہیں ہے ۔
آیت میں اصحابِ رسول (اور ان کے وسیلے سے تمام اہلِ ایمان )کی ایک پہچان یہ بتائی گئی ہے کہ سجدوں کے نورانی اثرات ان کے چہروں پر عیاں ہوں گے ۔ بعض لوگوں نے یہ سمجھا کہ سجدوں کی وجہ سے بعض لوگوں کی پیشانی پرجو سیاہ نشان پڑ جاتاہے ، اس سے وہ مراد ہے ۔ ہماری نظر میں یہ تعبیر درست نہیں ہے ، بلکہ اس کی بہترین تعبیر حدیثِ پاک میں بیان کی گئی ہے: ''رسول اللہ ﷺ ایک قبرستان میں آئے اور فرمایا :'' اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ دَارَ قَومٍ مَّؤْمِنِینَ وانّا اِنْ شَآئَ اللّٰہُ بِکُمْ لَلَاحِقُونَ ، وَدِدْتُّ اَنّا قدْ رَأَ ینَا اِخْواننَا ‘‘ (اے اہل ایمان کی بستی والو !تم پر سلام ہو، ان شاء اللہ ہم بھی (اپنی باری پر ) تم سے آ ملیں گے ، میری تمنا تھی کہ ہم نے اپنے بھائیوں کو دیکھا ہوتا۔صحابہ نے عرض کی : یا رسول اللہ! کہ کیا ہم آپ کے بھائی نہیں ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تم تو میرے اصحاب ہو، ہمارے بھائی وہ ہیں جو ابھی دنیا میں آئے نہیں ہیں ۔ صحابہ نے پھر عرض کی : یار سول اللہ ! آپ کی اُمت کے وہ افراد جو ابھی(دنیا میں )نہیں آئے ، انہیں کیسے پہچانا جائے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ذرا بتاؤتو سہی اگر ایک آدمی کا پنچ کلیان(یعنی جس کی پیشانی اور چاروں ٹانگوں پر سفید نشان ہو ) گھوڑا ہواور وہ کالے سیاہ گھوڑوں میں موجود ہو ، تو کیا وہ سب سے ممتاز نظر نہیں آئے گا ؟ صحابہ نے عرض کی : یا رسول اللہ! یقیناً ممتاز نظر آئے گا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ اس حال میں آئیں گے کہ ان کے وُضو کے اعضاء(یعنی ہاتھ اور چہرہ ) نورانی ہوں گے اور میں حوضِ کوثرپر ُان کے استقبال کے لیے پہلے سے موجود ہوں گا، (صحیح مسلم : 1845)‘‘۔ اس سے صرف عہدِ رسات مآب ﷺ کے بعد آنے والے امتی ہی مراد نہیں ہیں بلکہ آپ کی ساری امت مراد ہے اور صحابۂ کرام اس کا اولین مصداق ہیں ، کیونکہ وضو پوری امت کا شعار ہے۔ اسی حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں بیان فرمایا ہے :
(1) ''ان کا نور ان کے آگے اور ان کی دائیں جانب رواں دواں ہوگا ، وہ کہیں گے اے ہمارے رب ! ہمار ا نور ہمارے لیے مکمل فرمادے اور ہمیں بخش دے بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے، (التحریم : 8)‘‘۔ (2) ''جس دن منافق مر داور منافق عورتیں ایمان والوں سے التجا کریں گے : ہماری جانب دیکھو ، ہم (بھی ) تمہارے نور سے کچھ روشنی حاصل کرلیں ، اُن سے کہاجائے گا :اپنے پیچھے لوٹ جائو ،وہاں کوئی نور تلاش کرو، پس ان کے درمیان ایک دیوار حائل کر دی جائے گی جس میں دروازہ ہوگا ، اس کے اندرونی حصے میں رحمت ہو گی اور اس کے باہر کی جانب عذاب ہو گا ، (الحدید : 57)‘‘۔
مفسرینِ کرام نے بیان کیا ہے کہ اگر چہ اس آیتِ مبارکہ میں صحابۂ کرام کی جو صفات بیان کی گئی ہیں ، وہ عمومی طور پر تمام صحابۂ کرام میں درجہ بدرجہ موجود ہیں اور ہر ایک صحابی اپنے اپنے مرتبے کے مطابق ان کا مَظہرہے ۔ لیکن اِن صفات میں جو ایک معنوی ترتیب ہے ، وہ خلافتِ راشدہ کی ترتیب کی طرف بھی مشیر (Indicator)ہے۔ پہلی صفت معیّت و رفاقتِ رسول اللہ ﷺ کا مَظہرِ اَتَمّ حضرتِ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں ۔ اعلانِ نبوت کے پہلے دن سے رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ ظاہری کے آخری دن تک آپ کے ساتھ رہے ، بزم میں ، رَزم میں ، سفر میں ، حَضَر میں ، جَلوت میں ، خَلوت میں یہاں تک کہ غارِ ثور میں تین دن اور تین راتیں ایسی بھی آئیں کہ رُخِ مصطفی تھا اور نگاہِ صدیق تھی ، اس روحانی نظارے میں چشمِ فلک بھی اُن کے ساتھ شریک نہیں تھی ، پھر روضۂ انور میں بھی آپ کے ساتھ ہیں ، اسی طرح قبرِ انور سے ایک ساتھ اٹھیں گے اور جنت میں بھی ایک ساتھ داخل ہوں گے ۔
کفّار پر انتہائی شدّت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شخصیت کا امتیاز تھا ۔ طبیعت میں نرمی ،حلم وبردباری ،عفّت و حیا ، سخا و غِنٰی حضرتِ عثمان رضی اللہ عنہ کی شخصیت کا طرۂ امتیاز تھا ۔اور ہر لمحے عبادتِ الٰہی میں محو رہنا ، اللہ تعالیٰ کے فضل و رضا کے بحرِ ذخار میں غوطہ زن رہنا اور حلم و شجاعت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شخصیت کا امتیازی وصف تھا ۔ شاید صحابۂ کرام کے اوصافِ جلیلہ کو اس معنوی ترتیب سے بیان کرنے میں خلافتِ راشدہ کی ترتیب اور تدریج کی طرف بھی معنوی اشارہ موجود ہے اور بعد میں عملی صورت میں بھی اُمت نے خلافتِ راشدہ کی یہی ترتیب دیکھی ۔ سورۂ الفتح ہی میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے جن صحابۂ کرام کو اپنی رضا کی قطعی سند عطا فرمائی ہے اور جس کے بارے میں اہلِ ایمان کے درمیان دو آراء نہیں ہو سکتیں ، اس اعزاز میں بھی یہ چاروں خلفائے کرام شامل ہیں ۔