رسول اللہ ﷺ کے دوسرے خلیفہ ٔ راشد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ تاریخ کے مثالی (Ideal)حکمران گزرے ہیں۔ انہوں نے ایک مثالی فلاحی ریاست قائم کی اور اس کے نظمِ اجتماعی کو منظم و مُدوَّن کرنے کے لیے شِعارِ حکمرانی کو نئی نئی جہتیں عطا کیں ، جنہیں تاریخ میں ''اوّلیاتِ عمر ‘‘کے نام سے یا دکیا جاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا ذہن ایجاد واختراع کی خداداد نعمتوں سے مالا مال تھا ۔ ان کا عہد حکمرانی آج سے تقریباً 1413سال پہلے اختتام کو پہنچا ،یہ عہدِ مسعود تقریباً ساڑھے دس برس پر مشتمل تھا ۔ وہ اپنے عہد کے سب سے بڑے فاتح اور سب سے بڑی ریاست کے حکم ران تھے ۔ ان کی شہادت سے اسلام اور اِنسانیت کو جو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ، اس کے بارے میں ایک صاحب قلم نے نہایت با معنی جملہ ان الفاظ میں لکھا ہے : ''یوں محسوس ہوتا ہے کہ قاتل کا زہرمیں بجھاہوا خنجر سینۂ عمر میں نہیں ، قلب کائنات میں پیوست ہو گیا ‘‘۔
ان کا ذہن ''عرفانِ حق‘‘کے سانچے میں ڈھلا ہوا تھا، کئی ایسے مواقع آئے کہ انہوں نے وحیِ ربانی کی منشا کو پہلے ہی سمجھ لیا ، اس حوالے سے وہ ''میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے ‘‘کا مَظہر اَتمّ تھے ۔ مفسرینِ کرام نے ایسی آیات ِ مبارکہ کو ''مُوَفِّقاتِ عمر ‘‘کے عنوان سے ذکر کیا ہے اور رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے : ''تم سے پہلی اُمتوں میں '' مُحَدَّ ث ‘‘ گزرے ہیں اور اگر میری امت میں کوئی مُحدَّ ث ہے ، تو وہ یقینا عمر ہیں ، (مسندحمیدی : 253)‘‘۔ محدَّث سے مراد قلبِ صفا اورذہن رسا کا حامل ایسا بلند مرتبہ صاحبِ ایمان جس پرغیبی حقائق کا الہام وا لقا ہو تا ہے ۔
اندازِ جہاں بانی و حکمرانی کے لیے غیبی الہامِ سے جو اختراعات انہوں نے کیں اور جو نئی جہتیں انہوں نے متعارف کرائیں ، ان کی طویل فہرست ہے ، ان میں سے چندنمایاں اُمور یہ ہیں : (1) مردم شماری (Census) : اُن سے پہلے اس پورے خطے میں مردم شماری یا انسانی آبادی کے اعداد و شمار (Data) مرتب کرنے کا کوئی تصور نہیں تھا ، انہوں نے اس کا اہتمام کیا ۔ آج بھی دنیا میں ہر دس سال کے بعد مردُم شماری کا رواج ہے ، لیکن ہمارے وطنِ عزیز میں 2000ء میں جو مردُم شماری ہونی تھی ، وہ پندرہ برس گزرنے کے باوجود آج تک نہ ہو سکی۔ اس عرصے میں جنرل (ر) پرویز مشرف کا فوجی دورِ حکومت ، پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کا جمہوری دورِ حکومت شامل ہے ۔ مردُم شماری نہ ہونے کی وجہ ہماری آپس میں بے اعتمادی اور بد گمانی ہے کہ آبادی کی بنیاد پر وفاق سے صوبوں کو منقسم ہونے والے مالی وسائل کے تناسب میں کمی کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے ۔ اور یہ سوچ انہی لوگوں کی ہو سکتی ہے جو ایک متحدہ قومیت کے تصور اور جذبے سے عاری ہوں ۔ مردم شماری کے ذریعے وسائل اور ضرورتوں میں توازن پیدا کیا جاسکتا ہے اور آنے والے دور کے لیے بنیادی ڈھانچے (Infrastructure)، شہری منصوبہ بندی (Town Planing)، معاشی ضروریات اور انسانی حاجات کی منصوبہ بندی کی جاسکتی ہے ۔
(2) مُستعمرات یا نئے شہروں کی آباد کاری : مُستعمرات کو ہم نو آبادیات او ر Coloniesسے بھی تعبیر کرتے ہیں۔ ہماری سیاسی اصطلاح میں استعمار سے مراد اپنے عہد کی طاقت ور اور جارح (Aggressive)اقوام کا دوسرے ممالک کا قبضہ کرکے انہیں اپنی حدودِ سلطنت میں شامل کرنا ہے ۔ماضی ٔ قریب میں برطانیہ ، فرانس ، جرمنی ، نیدرلینڈ، اسپین اور پرتگال اس طرح کی نو آبادیاتی سلطنتیں رہی ہیں ۔ پھر روس نے بھی سوویت یونین کی شکل میں وسیع پیمانے پر استعمار کی صورت اختیار کی ۔ یہاں مُستعمرات سے ہماری مراد یہ ہے کہ پہلے سے قائم بڑے شہروں پر آبادی کے دباؤ کو کم کرنے کے لیے تمام شہری سہولتوں اور معاشی وسائل پر مشتمل نئے شہر آباد کرنا ہے ، چناچہ حضرتِ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کوفہ ، بصرہ ، جیزہ ، فسطاط اور موصل کے نام سے نئے شہر آبادکیے ۔
ہم آج کل اپنے بڑے شہروں پر آبادی کے اسی دباؤ کا شکار ہیں ۔ بڑے شہروں میں ہماری بنیادی شہری خدمات و ضروریات (یعنی آب رسانی ، سیوریج ، بجلی اور گیس کی ترسیل کا نظام اور سڑکیں، ٹرانسپورٹ اور رفاہی اداروں کے لیے زمینی قطعات(Amenities) کی فراہمی وغیرہ )کا نظام ایک محدود آبادی کے لیے تھا ، جو اب بے ہنگم (Unsystematically) طریقے سے کئی گنا زیادہ ہو چکی ہے اور یہی وجہ ہے کہ جرائم کی شرح بڑھ رہی ہے اور مجرمین کے لیے خفیہ پناہ گاہیں بھی زیادہ دستیاب ہیں ۔ اور ملک بھر میں جنگل کی طرح پھیلتی ہوئی ہاؤسنگ کالونیوں اورٹاؤن شپس کے ذریعے زرعی زمینوں کا مُسرِفانہ(Extravagant) استعمال ہو رہا ہے اور اس کا خمیازہ آنے والی نسلوں کو اشیائے خوراک کی قلّت کی صورت میں بھگتنا ہو گا، اس کا سبب یہ ہے کہ ہماری حکومتیں کمزور بنیادوں پر قائم ہوتی ہیں اور روزمرہ بنیادوں پر چلتی ہیں اور مستقبل بینی(Foresee) پر مبنی کوئی طویل المدت منصوبہ بندی نہیں ہوتی۔
حضرت ِ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے مستقبل بینی اور پیش بندی کے حوالے سے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ آج کے دور میں جب ہم اس کا تصور کرتے ہیں تو انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے ، ایسا لگتا ہے کہ ان کا ذہن رسا سید المرسلین ﷺ کی شانِ اعجاز کا مظہر تھا ، پس یہی سبب ہے کہ آپ نے اللہ تعالیٰ سے اسلام کی سربلندی کے لیے عمر کو مانگا ، ارشادِ رسول ہے : ''اے اللہ ! از راہِ کرم ابو جہل بن ہشام یا عمر بن خطاب میں سے کسی ایک کے ذریعے اسلام کو غلبہ و قوت وطاقت عطا فرما ، جب صبح ہوئی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ بارگاہِ نبوت میں حاضرہوئے اور اسلام قبول کر لیا (سنن ترمذی : 3683)‘‘۔ یہ اپنا اپنا مقدر تھا کہ زبانِ نبوت سے ابو جہل اس اُمت کا فرعون قرار پایا اور عمرِ فاروق اسلام کی آبرو اور شان قرار پائے ۔
اسلام کو وراثت میں قبائلی نظام ملا تھا ، جس میں کسی منظم ریاست کا وجود نہیں تھا اور نہ ہی ریاست کی طرف سے تنخواہ دار منظم فوج تھی ۔ لہذا تمام قبائل کے جنگ جُو اپنا اپنا سامانِ حرب اور زاد ِ راہ لے کر جنگ میں شریک ہوتے اور فتح کی صورت میں جو دشمن کا مالِ غنیمت ہاتھ آتا ، وہ سپاہیوں میں تقسیم ہو جاتا ۔ ابتدائے اسلام میں یہی شِعار جاری رہا ۔ لیکن ایک وقت آیا کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو غلبہ عطا فرمایا اور قرآن نے خَمس رسول اللہ ﷺ کی صواب دید پر رکھا اور اس کے مصارف متعین فرمائے ، پھر وہ دور آیا کہ کئی خطوں کے لوگ بلا مقابلہ اطاعت قبول کرنے پر آمادہ ہونے لگے اور ان پر لشکر کشی کی نوبت نہیں آتی تھی ، تو ان سے جو مال ملتا وہ ''مال ِ فَیٔ‘‘ کہلاتا قرآن ِ مجید نے سورہ الحشر آیا ت 6تا 9میں اس کے مصارف بیان فرمائے اور بتایا کہ اسلام کا مزاج دولت کے ارتکاز (یعنی دولت کے چند ہاتھوں میں جمع ہونے )کا نہیں ہے بلکہ تقسیم ِ دولت کا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ ضرورت مند لوگ ا س سے فیضیاب ہوں ۔
دورِ فاروقی میںفتوحات تواتر سے ہو رہی تھیں ، علاقوں پر علاقے اور شہروںپر شہر فتح ہو رہے تھے ۔ اُس وقت رائج الوقت دستور کے مطابق صحابۂ کرام نے مطالبہ کیا کہ مفتوحہ علاقوں کو جاگیروں کو چھوڑ کر مجاہدین میں تقسیم کر دیا جائے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس پر تردُّد تھا ، آپ مسلسل صحابہ ٔ کرام سے مشاورت کرتے رہے اور بالآخر ایک دن آپ نے صحابۂ کرام کو جمع کیا اور سورۃ الحشر کی مذکورہ بالا آیات کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اس میں آنے والی نسلوں کا بھی حصہ ہے اور اُن کے حُقوق کی پاسداری بھی ہماری ذمے داری ہے ۔لہذا یہ آنے والے زمانوں میں ضرورت مند لوگوں پر تقسیم ہوتے رہیں گے ۔ اب آپ حضرت عمر کی بصیرت(Vision) کا اندازہ لگایئے اور آج کے دور میں کراچی میں چائنا کٹنگ کا تصور کیجیے کہ جس میں رِفاہی خدمات اور اداروں کے قیام کے لیے جو کھلی زمین (Open Area)اوررفاہی پلاٹس کے ڈی اے کی ٹاؤن پلاننگ میں موجودہ اور آنے والی نسلوں کی ضرورتوں کے لیے مختص کیے گئے تھے ، وہ بندر بانٹ کی نذر ہو گئے ، اللہ کے بندوں نے موجودہ اور آنے والی نسلوں کی ضروریات کو ہوسِ زر اور حصولِ زمین کی نذر کر دیا ۔ اگر یہی روِش جاری رہی تو لوگوں کے لیے شہروں میں سانس لینا بھی دشوار ہو جائے گا ۔ اسپتال اور تعلیمی ادارے تو بالعموم رہائشی مکانات اور بنگلوں میںقائم ہیں اور کھیل وکود کے میدان یا تو با اثر حریصوں کی نذر ہو گئے یا قبضہ گروپوں کی عشرتوں کی نذر ہو گئے اور یہ سارے کام ان اہلِ اقتدار کی نظروں کے سامنے اور ناک کے نیچے انجام پاتے رہے ، جن کو لوگ اپنی امانتوں کے لیے تختِ اقتدار پر وقتاً فوقتا بٹھاتے رہے ۔ میں نے عہدِ فاروقی کو حالاتِ حاضرہ سے اس لیے جوڑا ہے کہ کسی اعلیٰ چیز کا تقابل اس کی ضد سے کریں تو اس کی حقیقی قدر معلوم ہوتی ہے۔