رسول اللہﷺ کی محبت جوہرِایمان اور حقیقتِ ایمان ہے ۔ آپﷺ کا ارشاد ہے :''تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کی اولاد ، والد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں‘‘ (اور دوسری حدیث میں ) آپﷺ نے خاندان اور مال کا بھی ذکر فرمایا، (صحیح مسلم : 69-70)ان احادیثِ مبارکہ میں مومن کے لیے رسول اللہﷺ کی اَحَبِیَّتْ (Superlative Degree) یعنی سب سے زیادہ محبوب ہونے کولازم قرار دیا گیا ہے ۔ اس کی شرح میں علماء نے فرما یا : جس شخص کے دل میں نفسِ محبت رسول نہیں وہ نفسِ ایمان سے محروم ہے اور جس کے دل میں کمالِ محبت رسول نہیں ہے ، وہ کمالِ ایمان کی سعادت سے محروم ہے ۔
محبتِ رسولﷺ کا دعویٰ تو ہر ایک بڑھ چڑھ کر کرتاہے ، لیکن قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس کی کسوٹی بھی بیان فرمائی ہے ، جیسے دنیا میں چیزوں کے لیے کوالٹی کنٹرول اور معیارات یعنی Standardizationکے پیمانے ہیں ، اسی طرح ایمان کو جانچنے کے معیارات بھی قرآن و حدیث میں بیان فرمائے گئے ہیں ، ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ''(اے رسولﷺ !)آپ فرما دیں : اگر تمہارے آباء (واجداد) ، تمہارے بیٹے (بیٹیاں) ، تمہارے بھائی(بہنیں ) ، تمہاری بیویاں (یا شوہر)تمہارا خاندان، تمہارا کمایا ہوا مال ، (تمہاری ) تجارت جس میں خسارے کا تمہیں اندیشہ رہتا ہے اور تمہارے پسندیدہ مکانات (اگر یہ سب چیزیں جداجدا اور مل کر بھی) تمہیں اللہ تعالیٰ ، اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں ، تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے (عذاب کا ) فیصلہ صادر فرماد ے اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت سے(فیض یاب ) نہیں فرماتا ‘‘ (التوبہ : 24)
اس آیتِ مبارکہ میں تقابل کے طور پر جن چیزوں کا ذکر فرمایا گیا ہے ، وہ سب انسان کے محبوب رشتے اور پسندیدہ چیزیں ہیں ۔ اگر ان سے محبت کی نفی کو ایمان کے لیے لازم قرار دیا گیا ہو تا تو خلافِ فطرت ہوتا اور اسلام دین فطرت ہے ۔ ان چیزوں کے محبوب ہونے کو ایمان کی ضد قرار نہیں دیا گیا بلکہ اللہ تعالیٰ ، اس کے رسول مکرم اور اس کی راہ میں جہاد کے مقابلے میں محبوب ترین ہونے کو ایمان کے منافی فرمایا گیا ہے ۔ گویا تمہارا محبوب کوئی بھی ہو سکتا ہے ، لیکن محبوب ترین صرف تین چیزیں ہونی چاہئیں ۔ اب رہا یہ سوال کہ یہ کیسے جانا جائے کہ فلاں شخص کو اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد سب سے زیادہ محبوب ہیں یا کوئی اور چیز ؟
پس جب نفس کی خواہشات ، مرغوبات اور مرضیات اللہ کے حکم سے متصادم ہو جائیں تو پھر پتاچلے گا کہ انسان رب کے حکم کو ترجیح دیتا ہے یا اپنے اور اپنے پیاروں کے نفسانی مطالبات کو، مثلاً ایک شخص کے بیوی بچوں کی فرمائشیں اس کی آمدنی کے حلال ذرائع سے پوری نہیں ہوتیں ،اور وہ ان کو پورا کرنے کے لیے رشوت یا حرام ذرائع کا سہارا لیتا ہے، تو اب عملاً اس نے اللہ اور اس کے رسول کے حکم کو پسِ پشت ڈال دیا اور اپنے پیاروں کی فرمائشوں کی تکمیل کو ترجیح دی ، تو پھر عمل کی دنیا میں یہی چیزیں محبوب ترین قرار پائیں ۔ درحقیقت ایمان کی حقیقی آزمائش یہی ہے اور اس مرحلۂ امتحان سے ہمیں دن میں کئی بار دو چار ہونا پڑتا ہے ۔چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے دو ٹوک الفاظ میں فرمایا:''کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا، جس نے اپنی خواہش نفس کو معبود بنا رکھا ہے ‘‘ (الفرقان:43) گویا باری تعالیٰ کے حکم کے مقابل اپنے نفس کی خواہشات کو ترجیح دینا، اسے خدا ہی تو بنا نا ہے ، یہ بھی کوئی بندگی ہے کہ سجدہ تو اللہ کے حضور کرے اور حکم نفس کا یا غیر اللہ کا مانے ، یہ معبود بنانا نہیں تو اورکیا ہے۔ پھر سیاقِ کلام میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرم ﷺ کی کمال محبوبیت کے ساتھ جہاد فی سبیل اللہ کا ذکر فرما کر یہ واضح فرمادیا کہ محبت رسول اور محبت الٰہی کی منزل اتنی آسان نہیں کہ نعت خوانوں اور قوالوں پر نوٹ نچھاور کر کے لوگ بزعم خویش عاشق رسو ل بن جائیں ، یہ معراج عزیمت ، استقامت کے جادۂ مستقیم پر گامزن رہنے والوں کو نصیب ہوتی ہے، علامہ اقبال نے کہا ہے :
یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آساں سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
اور رعلامہ اقبال ہی کاشعر ہے:
چو می گویم مسلمانم بلرزم
کہ دانم مشکلات لاالٰہ را
یعنی جب میں زبان سے اقرار کرتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں تو لرز جاتا ہوں ، کیونکہ کلمۂ لاالٰہ الا اللہ کی راہ میں استقامت کے ساتھ کھڑے رہنے کی صورت میں جو مشکلات پیش آتی ہیں ، میں ان سے بخوبی آگاہ ہوں ۔ اسی حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا :''کیا تم نے گمان کر رکھا ہے کہ تم (کسی آزمائش کے بغیر ) یوں ہی چھوڑ دیے جاؤ گے ، حالانکہ ابھی اللہ نے ان لوگوں کو تم میں سے چھانٹ کر جدا نہیں کیا جنہوں نے تم میں سے جہاد کیا ‘‘ (توبہ : 16)
پھر جس طرح دنیاوی معاملات میں Counter Checkیعنی جانبِ مخالف سے کسی چیز کی حقیقت اور فعالیت کو جانچنے کا انتظام ہوتاہے ، اسی طرح قرآن نے ایمان اور محبتِ رسولﷺ کے لیے بھی یہ کسوٹی رکھی ہے ، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: (اے رسولﷺ!) آپ اُن لوگوںکو جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں ایسا نہ پائیں گے کہ وہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہوں جو اللہ اور اس کے رسول سے عداوت رکھتے ہیں ، خواہ وہ ان کے باپ (دادا) یا بیٹے (بیٹیاں) یا بھائی ( بہنیں ) یا قریبی رشتے دار ہی (کیوں نہ )ہوں، یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان نقش فرمادیا اور اپنی پسندیدہ رو ح سے ان کی مدد فرمائی اور اللہ انہیں جنت کے ایسے باغوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے دریا جاری ہیں ، وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے ، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے ، یہ اللہ کی جماعت ہے، سنو! اللہ کی جماعت ہی کامیابی پانے والی ہے ‘‘ (المجادلہ : 22) رسول اللہﷺ کی محبت کا مرکز و محور اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس ہے اور قرآن مجید نے محبوبیتِ باری تعالیٰ کا شِعار اتباعِ رسول اللہﷺ کو قرار دیا ہے ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :''(اے رسول !) کہہ دیجیے ! (اے اللہ کے بندو!) اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری فرمانبرداری کرو (اس کے نتیجے میں ) اللہ تعالیٰ تمہیں اپنا محبوب بنا لے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا ‘‘ (آل عمران : 31)
پس رسول اللہﷺ کی محبت کے لیے تعظیم ِ رسول، اتباعِ رسول اور اطاعتِ رسول لازم ہے ۔ کسی شخص کے دل میں محبتِ رسول ہے یا نہیں ، اسے اطاعتِ و اتباعِ رسول کی میزان اور کسوٹی پر پرکھا جائے گا ، صرف دعوائے محبتِ رسول کا فی نہیں ہے ، ہر دعویٰ دلیل چاہتا ہے اور حُبِ رسول کی دلیل اطاعتِ رسول ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ اعراف میں رسول اللہﷺ کے اوصاف بیان کرنے کے بعد فرمایا : ''سو جو لوگ اُن پرایمان لائے اور آپ کی تعظیم کی اور آپ کی نصرت کی اور اس نور (قرآنِ مجید ) کی پیروی کی جو ان کے ساتھ اُتارا گیا ، بس یہ لوگ فلاح پانے والے ہیں ‘‘ (الاعراف : 157) یعنی رسول اللہﷺ کی حیثیت محض ایک حاکمِ مجاز کی نہیں ہے کہ قانوناً اس کا حکم مان لیا ، خواہ دل میں اس کے بارے میں ملال ہی کیوں نہ ہو،لہٰذا آپ کی تعظیم و توقیر بھی لازم ہے اور آپ کے فرامین کو نہ صرف ظاہری طور پر ماننا ضروری ہے بلکہ لازم ہے کہ آپ کے کسی بھی حکم کے بارے میں دل میں ملال پیدا نہ ہو اور آئینۂ دل میں بال نہ آئے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ''(اے رسول ! )آپ کے رب کی قسم! (دعوائے ایمان کے باوجود) یہ لوگ مومن نہیں ہو سکتے، جب تک کہ یہ آپس کے تنازعات میں آپ کو حاکم نہ مان لیں ،پھر آپ کے فیصلے پر دل میں کوئی تنگی بھی محسوس نہ کریں (بلکہ اسے دل وجا ن سے قبول کریں ) اور سراپا تسلیم ور ضا نہ بن جائیں‘‘ (النساء: 65) اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ''اے اہلِ ایمان ! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو ‘‘ (النساء :59) یعنی ایمان کے لیے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرمﷺ کی اطاعت لازم ہے اور پھر یہ قولِ فیصل جاری فرما دیا کہ حقیقت کے اعتبار سے اطاعتِ الٰہی اور اطاعتِ رسول ایک ہے :''اور جس نے رسول کی اطاعت کی ، سو اس نے اللہ کی اطاعت کی ‘‘ (النساء : 80) اور فرمایا : ''اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی تو اس نے بڑی کامیابی کوپا لیا‘‘ (الاحزاب: 71)