حال ہی میں پاناما لیکس (انکشاف) کے بعد دیگر الزامات کے علاوہ جناب عمران خان نے کہاکہ وزیرِ اعظم کے لیے اپنے منصب پر برقرار رہنے کا اخلاقی جواز نہیں رہا۔اس کا مفہومِ مخالف یہ ہے کہ تاوقتیکہ اُن پر کوئی ایساالزام عدالت میں ثابت ہو ،جو انہیں نااہل قرار دینے یا منصب سے محروم کرنے کے لیے کافی ہو، اُن کے پاس منصب پر برقرار رہنے کاقانونی جواز موجود ہے ۔ امریکہ ومغرب اور جدید جمہوری دنیامیں ،خواہ پارلیمانی نظام ہو یا صدارتی ،کافی حد تک جمہوری اخلاقیات کی پاس داری کی جاتی ہے،اگرچہ سوفیصد نہیں۔واٹر گیٹ اسکینڈل کے نتیجے میں سینیٹ میں مؤاخذے کا مرحلہ آنے سے پہلے اُس وقت کے امریکی صدر رِچرڈ نکسن نے استعفیٰ دے دیا تھا۔اسی طرح سابق امریکی صدر بِل کلنٹن کاوائٹ ہائوس کے چیف آف اسٹاف Leon Panetta کے دفتر میں زیرِتربیت ایک خاتون Monica Lewinskyکے ساتھ معاشقے کا قضیہ منظرِ عام پر آیاتھا۔اس پر سینیٹ کی کمیٹی نے اٹارنی جنرل کو اس کی تحقیق پر مامور کیا اور بالآخر سینیٹ نے صدر کے مؤاخذے کا عمل شروع کیا اور طے پایا کہ صدر وِڈیو لنک کے ذریعے اپنے آپ کو سینیٹ کے سامنے Testimonyکے لیے پیش کریں گے اوراُن کے سوالات کے جوابات دیں گے ۔ اُس میں انہوں نے اعتراف کیا کہ اُن کا تعلق مونیکا لیوِنسکی کے ساتھ نامناسب تھا،لیکن آخرِ کار سینیٹ نے اپنے صدر کو رعایتی نمبر دے کر پاس کردیا اور اخلاقی بنیادوں پر وہ اپنے منصب سے دستبردار نہ ہوئے۔یہاں یہ امر پیشِ نظر رہے کہ امریکہ میں عام شہری کے لیے جوبات روا ہوتی ہے اور قابلِ ملامت نہیں ہوتی، سیاسی رہنما کے لیے وہی بات ملامت کا سبب بن جاتی ہے ،یعنی اُن کے ہاں صدر کے لیے اخلاقی معیار معاشرے کی اوسط سطح سے بلند ہونا چاہیے،جب کہ ہمارے ہاں صورتِ حال اس کے برعکس ہے۔
لیکن اُن کے ہاں اخلاقی اقدار کا تعیُّن معاشرے کا اجتماعی رویّہ، پارلیمنٹ یا کانگریس طے کرتی ہے ،کیونکہ اُن کے نظام میں مذہب کاعمل دخل نہیں ہے ، اُن کاخداسے رشتہ چرچ تک محدود ہے ، اقتدار کے ایوانوں میں اُس کا داخلہ ممنوع ہے اور قانون واخلاقیات کے بارے میں مذہبی احکام یا ہدایات معتبر نہیں ہیں ۔اس کے برعکس اسلام میں انسان خالق اور خَلق (عوام) دونوں کے سامنے جواب دہ ہے۔اِسی لیے ہماری شریعت اور فقہ میں کئی امور کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ مقدمے کے ایک فریق کو اُس کے خلاف شہادت یا شواہد دستیاب نہ ہونے کی صورت میں قضاء ً (By law/by the court)تو فائدہ مل جائے گا،لیکن دِیانۃً یعنی عند اللہ اگر اُس کا دعویٰ یا موقف باطل ہے ،تووہ اُس کے لیے آخرت میں بہر صورت جواب دہ ہوگا۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:''تم میرے پاس اپنے مقدمات لے کر آتے ہو اور ہوسکتا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص اپنے موقف کو (فریقِ مخالف کے مقابلے میں) زیادہ مؤثر دلائل سے پیش کرے اوراُن دلائل کو سن کر میں اُس کے حق میں فیصلہ کر دوں،سو جس شخص کو میں اُس کے بھائی کاایسا حق د ے دوں (جس کا وہ درحقیقت حق دار نہیں ہے )،تو وہ (عدالتی فیصلے کے باوجود)اُسے نہ لے،کیونکہ میں اُسے آگ کا ایک ٹکڑا دے رہا ہوں، (صحیح مسلم: 1713)‘‘۔
اللہ تعالیٰ رسول اللہ ﷺ کو حقائق پر مطلع فرمادیتا تھا ،لیکن عام قاضی کا انحصار عدالت میں پیش کیے گئے دلائل وشواہد پر ہوتا ہے اور اُن سے فیصلے میں غلطی ہوسکتی ہے ،اس لیے رسول اللہ ﷺ نے امت کو کسی کا حق بلاجوازلینے پر اتنی شدید وعید فرمائی ۔کعب بن مالک بیان کرتے ہیں :''رسول اللہ ﷺ نے غزوۂ تبوک میں پیچھے رہ جانے والے اسّی سے کچھ زائد افراد سے جہاد میں شرکت نہ کرنے کے بارے میں جواب طلبی فرمائی ،سب نے اپنے اپنے عذر پیش کیے (ظاہر ہے اُن میں کچھ کے عذر سچے نہیں تھے )،آپ ﷺ نے اُن کے ظاہری موقف کو قبول فرمالیا ، اُن کی بیعت لے لی اور اُن کے لیے بخشش کی دعا فرمائی اور اُن کے باطن کا معاملہ اللہ کے سپرد کردیا (کہ آخرت میں اللہ کی عدالت میں حقائق پر فیصلہ ہوگا)،(صحیح مسلم: 2769)‘‘۔کعب بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے بھی جواب طلبی ہوئی:''میں نے عرض کی:(یارسول اللہ!) مجھے معلوم ہے کہ اگر آج میں نے (جان چھڑانے کے لیے ) جھوٹ بول کر آپ کو راضی کرلیا ،تو عنقریب اللہ مجھ پر ناراض ہوگا اور اگر آج میں نے سچ بول کر آپ کو وقتی طور پر رنجیدہ بھی کردیا ،تو مجھے یقین ہے کہ اللہ (سچ بولنے کی برکت سے) مجھے معاف فرمائے گا،واللہ مجھے کوئی عذر درپیش نہیں تھا اور جہاد پر جانے کے لیے اس قدر سازگار حالات مجھے پہلے کبھی دستیاب نہ تھے، لیکن میں (اپنی بشری کوتاہی کی بناپر)جہاد میں پیچھے رہ گیا،اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''اس نے سچ بولا ہے ،اب تم اٹھ جائو یہاں تک کہ اللہ تمہارے بارے میں فیصلہ فرمائے،(عمدۃ القاری ، ج: 18،ص:13)‘‘۔ کعب بن مالک کو سچ بولنے کا صلہ اللہ تعالیٰ نے یہ عطا فرمایا کہ توبہ :118میں اُن کی توبہ کی قبولیت کے بارے میں آیت نازل ہوئی، یہ بہت بڑا اعزاز ہے۔اسی طرح فقہی مسئلہ ہے کہ اگر کسی شوہر نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں ،پھر وہ طلاق سے مُکرگیا اور بیوی کے پاس طلاق کے ثبوت کے لیے گواہ نہیں ہیں ،تو قضاء ً طلاق واقع نہ ہونے اور نکاح کے بدستور قائم رہنے کا فتویٰ یا فیصلہ دیا جائے گا ،لیکن طلاق کے باوجود ازدواجی تعلقات قائم رکھنے پر وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جواب دہ ہوگا ،کیونکہ یہ حرام فعل ہے۔
سو اسلام میں عام شہری ہو یا حاکم ،سب قانونی عدالت کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے سامنے بھی جواب دِہ ہیں اور اس کی شان یہ ہے : ''بے شک اللہ پر زمین وآسمان کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے،(آل عمران:5)‘‘۔پس مسلمان کی اصلاح کااصل رازآخرت کی جواب دہی میں مضمر ہے ، اگر آخرت پر ایمان کمزور ہے تو پھر وہ دنیا میں مکروفریب اورحیلہ وتدبیر سے کام لے گا،جس کے مَظاہر ہم آئے روز دیکھتے رہتے ہیں ۔عربی کا مقولہ ہے:''گھر کا مالک اپنے اندرونی رازوں کوکسی بھی دوسرے شخص کی بہ نسبت زیادہ بہتر جانتا ہے‘‘۔ایک موقع پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''مجھے کفار سے لڑنے کا حکم ہے تاوقتیکہ وہ توحید ورسالت کا اقرار کرلیں اورنماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کا عہد کریں ،پس جب وہ یہ پیمان کرلیں تو انہوں نے اپنی جانوں اور مالوں کو مجھ سے محفوظ کرلیا، سوائے اس کے کہ اسلام کے کسی قانون کے تحت اُن کی جان ومال مباح ہوجائے اور اُن کا (حتمی اور قطعی)حساب اللہ پر ہے ،(صحیح البخاری:25)‘‘۔
ہمارے ہاں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم ایسامَن پسند انصاف چاہتے ہیں جو ہم پر لاگو نہ ہو، بلکہ صرف ہمارا فریقِ مخالف اُس کی زَد میں آئے۔نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس اخلاقی کمزوری سے ہماری مذہبی سیاسی قیادت بھی مستثنیٰ نہیں ہے ۔امیرِ جماعت اسلامی جناب سراج الحق پر ذاتی حیثیت میں کرپشن کا کوئی داغ نہیں ہے ،لیکن کل ٹیلی ویژن سکرین پر اُن کے ٹِکر چل رہے تھے کہ غریب کو دو وقت کی روٹی نہیں ملتی اور امیروں کے کتے ائیرکنڈیشنڈ میں پلتے ہیں۔اسی طرح انہوں نے کہاکہ الیکشن امیروں کا کھیل ہے ،اربوں روپے کی عیاشی ہے۔ لیکن جنابِ علیم خان کے لاہور کے ضمنی انتخاب پر تقریباً اجماع ہے کہ انہوں نے کروڑ وںروپے خرچ کیے اور جماعتِ اسلامی نے اُن کی حمایت کا برملا اعلان کیا تھا۔
حکومت پر اللہ کی قدرت اور اسبابِ غیب سے جو دبائو قائم ہوا ہے ،اسے جامع اور ہمہ گیر اصلاح کے لیے استعمال کیا جائے اور اپوزیشن متحد ہوکر حکومت پر دبائو ڈالے کہ احتساب کا ایک آسان، سریع العمل اور جامع قانون بنایا جائے ،شاید یہ وقت پھر نہ آئے اور سیاست دانوں کی تگ وتازاپنا گراف بلند کرنے تک محدود رہ جائے۔موجودہ نظم میں آج اگر کسی غیبی اشارے سے جناب عمران خان یا کوئی اوروزارتِ عظمیٰ کے منصب پر بیٹھ جائے تو اس کے ہاتھ پائوں بندھے رہیں گے ،کیونکہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں پر ان کو غلبہ حاصل نہیں ہوگا اور کوئی بھی مثبت قانون سازی تقریباً ناممکن ہوگی۔اگر بالفرض تازہ انتخابات بھی ہوجائیں ،تب بھی سینیٹ پر کسی اورکا کنٹرول ہوگا اور اصلاحِ احوال کے کسی جامع پیکیج کے بارے میں قانون سازی دشوار ہوگی، لیکن جن کی اُفتادِ طبع بقول عدیم ہاشمی یہ ہو : ؎
مفاہمت نہ سکھا، جبرِ ناروا سے مجھے
میں سر بَکف ہوں ،لڑادے کسی بَلا سے مجھ
اپنے مزاج اور طبیعت کی بے قراری میں ٹھہرائو پیدا کر کے جامع قانون سازی کے لیے آپ تیار نہ ہوں اور پھر عدالتوں کو کوسیں ،تو یہ سراسر زیادتی ہوگی ۔عدالتیں اپنی خواہش کے باوجود اخلاقیات کی بنیاد پرفیصلہ نہیں کرسکتیں،انہیں عدالت میں پیش کیے گئے دلائل وشواہد اور قانون کی بنیاد پر بھی فیصلہ کرنا ہوتا ہے، حتیٰ کہ قاضی اپنے علم کی بنیاد پر بھی فیصلہ نہیں کرسکتا۔جامع قانون سازی کے لیے دوسروں کے ساتھ مل کر بیٹھنا اور مل کر چلنے کا شِعار پیدا کرنا ہوگا ۔آپ کی زبان سے آگ کے شعلے برسیں اور دوسروں کو دیکھنے کے روادار نہ ہوں، تو آپ نظمِ اجتماعی کی اصلاح کیسے کریں گے ۔نوٹ:یہ کالم سوموار 25اپریل کی صبح لکھا گیاہے۔