"MMC" (space) message & send to 7575

زبان وبیان اور متفرقات

رَدّواسترداد:
یہ دونوں عربی الفاظ ہیں ،ہمارے ہاں اردو میں ہم معنیٰ استعمال ہوتے ہیں ،اِسترداد بابِ استفعال ہے ،اس میں طلب اور وجدان کے معنیٰ پائے جاتے ہیں ، پس استرداد کے معنی ہیں: کسی چیز کوواپس لینا ، مُسترَد کر دینا :واپس لی ہوئی یا واپس کی ہوئی چیز۔ ہمارے ہاں رَد کے معنی میں مُسترَدکا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ایک بار میں نے کالم میں ''رَد‘‘کا لفظ استعمال کیا ، تو ہمارے ادارتی ماہرین نے اُسے بدل کر ''مُسترَد‘‘لکھ دیا،کیونکہ ہمارے ہاں یہی لفظ رائج ہے ۔رَد کے معنی ہیں:قبول نہ کرنایا قبول نہ ہونایعنی Rejection، شاعر نے کہا ہے:
ہو رد کوئی دعا تو خسارا نہ جانیے!
ہوتا ہے سب ہمارے بھلے ہی کے واسطے
اس کے دوسرے معنی ہیں:پھیر دینا(Diversion)یا واپس پلٹا دینا،حدیثِ پاک میں ہے: 
''حضرت اسماء بنت عمیس سے دو طریقوں سے روایت ہے :نبی کریم ﷺ پر وحی نازل ہورہی تھی اور آپ کا سرِ مبارک حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گود میںتھا،(اس بنا پر ) وہ عصر کی نماز نہ پڑھ سکے ،یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا۔آپ ﷺ نے پوچھا: علی!تم نے نماز پڑھی ہے؟،انہوں نے عرض کی:نہیں،آپ ﷺ نے دعا فرمائی:اے اللہ!اگریہ تیری اور تیرے رسول کی اطاعت میں تھے (جس کی بناپر عصر کی نماز نہ پڑھ سکے )،تو ان کے لیے سورج کو واپس لوٹادے(یا پھیر دے)،حضرت اسماء بیان کرتی ہیں :میں نے سورج کو غروب ہونے کے بعد واپس پلٹتے ہوئے دیکھا اور خیبر میں صہبا کے مقام پر وہ پہاڑ اور زمین پر رکا رہا ،یہ دونوں روایتیں ثابت ہیں اور اس کے راوی ثقہ ہیں،(اَلشِّفَا بِتَعْرِیْفِ حُقُوْقِ الْمُصْطَفیٰ ،ص:284)‘‘۔اس حدیث میں سورج کے واپس پلٹنے کے لیے ''رَدُّالشَّمْس‘‘ کے کلمات استعمال ہوئے ہیں،شاعر نے کہا ہے:
حکم سے جس کے رَدِّ شمس ہوا
اُس اشارے سیتی ہے شقِ قمر
یعنی جن کے حکم سے سورج واپس پلٹا، انہی کے اشارے سے چاند شق(دو ٹکڑے) ہوا، یہاں ''رد الشمس‘‘ میں رد کے معنی ہیں:واپس پلٹ آنا،جناب شکیل عادل زادہ نے بتایا :سیتی کے معنی ہیں: ''سے یا کے ساتھ ‘‘۔ذیل میں ہم مستند لغات سے دونوں کلمات کا معنی درج کر رہے ہیں:
ردّ:واپس کرنا ،ناپسندکرنا،یعنی قبول نہ کرنا، (المنجد:238) ،Rejection،(المنجد انگلش ٹو عربک،ص:723)
استرداد:(اِسْتِرْدَاد):واپس لینا،واپسی چاہنا،(فرہنگ عامرہ ازمحمد عبداللہ خاں خویشگی،ص:50)،(کسی شے کی واپسی ،بازیابی، واپس کیا جانا)(اردو لغت،اردو لغت بورڈ،ج:1،ص:447)،(کسی شے کی واپسی کا سوال کرنا،مطالبہ کرنا)۔
مسترد:(مُسْتَرَدْ):لوٹایا ہوا،واپس کیا ہوا،(فرہنگ عامرہ ،ص:442)،(رد کیا ہوا ،واپس شدہ،لوٹایا ہوا،واپس کیا)،(اردو لغت، اردو لغت بورڈ،ج:17،ص:290)۔مثلاًہمارے ہاں لکھااور بولا جاتا ہے:قومی اسمبلی یا سینیٹ نے آئینی یا قانونی ترمیم یا قرارداد ''مسترد ‘‘کردی، اس کی بجائے''رد کردی‘‘بولنا اور لکھنا چاہیے یاہم امریکہ کے الزامات اور موقف کو ''مسترد‘‘کرتے ہیں ،اس کی بجائے کہنا چاہیے:''ہم ان کے الزامات یا ان کے موقف کورد کرتے ہیں‘‘۔
الزام علیہان:
جنابِ ظفر اقبال پاکستان کے ممتاز شاعر ہیں، اردوزبان وبیان پر اُن کومکمل عبورہے اور وہ اس پر اتھارٹی ہیں ۔انہوں نے روزنامہ دنیا میں اپنے ایک کالم میں پاناما کیس کے حوالے سے وزیرِ اعظم نواز شریف اور اُن کے بچوں کو ''الزام علیہان‘‘لکھا ہے ۔ اردو ترکیب کی طرز پر'' الزام علیہ‘‘ کی جمع ''الزام علیہان‘‘کردی گئی ہے ۔ظاہر ہے اس سے ان کی مراد ہے : جن پر الزام لگایا گیا ہے،جیسے ہمارے ہاں اردو میں'' مُدّعا علیہان ‘‘استعمال ہوتا ہے۔ فرہنگ عامرہ (از محمد عبداللہ خاں خویشگی)،ص:470 میں لکھا ہے : ''مُلْزَم‘‘،''جس پر الزام لگایا گیا ہو‘‘ ،ظاہر ہے کہ اس کی جمع''مُلزَمِین ‘‘ہے اور ''مُلْزِم‘‘کے معنی ہیں:''الزام لگانے والا‘‘اور اس کی جمع ''مُلزِمین‘‘ ہے لیکن یہ ہمارے ہاں مستعمل نہیں ہے۔''اِلزام علیہ‘‘ عربی میں بھی مستعمل نہیں ہے ، البتہ جس کے خلاف عدالت میں دعویٰ دائر ہوا ہے،اُسے '' مُدَّعیٰ عَلَیہ‘‘کہتے ہیں اور اس کی جمع ''مُدَّعیٰ عَلَیہَان‘‘نہیں ہے،بلکہ ''مُدَّعیٰ عَلَیْھِم‘‘ہے۔اگر کوئی ہم جیسا کم علم کسی بڑے صاحب علم کی فروگزاشت پر متوجہ کرے، تو اسے عربی میں ''تَطَفُّلْ‘‘ یعنی ''چھوٹا منہ بڑی بات‘‘سے تعبیر کرتے ہیں۔ 
اکاما:
ایک چینل پر ٹِکر چل رہا تھااور اس میں ''اقامہ‘‘کو ''اکاما‘‘لکھا ہوا تھا،یہ ایسا ہی ہے،جیسے ایک بیٹے نے اپنے باپ کو لکھا:''ابا جان! اب میں ''کابل ‘‘ہوتا جارہا ہوں، باپ نے جواب میں لکھا:''بیٹا! تمہاری قابلیت ''کابل‘‘(قابل)کے کاف سے ظاہر ہے‘‘۔
مُبِینہ طور پر:
ایک چینل پر مُبَیَّنہ طور پر (Allegedly)کو نیوز ریڈر''مُبِیْنہ طورپر‘‘پڑھ رہی تھیں ،شاید کسی نے بعد میں تصحیح کرادی ہو۔ 
پیپلز پارٹی کی بوالعجبی:
محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کاپوسٹ مارٹم نہ کیا جانا ،اسی طرح فارنزک شہادت کو ضائع کرنا ،جیسے قتل گاہ کے منظر کو دھوکر سارے آثار کو مٹادینا۔لیکن پوسٹ مارٹم نہ کرا کے جو کام خود کیا، اُس کا ذکر نہیں کیا جاتااور جو قانون سے انحراف دوسروں نے کیا،اس کا ذکراب شدّومد کے ساتھ ہورہا ہے ۔ اسی طرح پیپلز پارٹی نے پارٹی کے طور پر اپنی قائد اور جنابِ آصف علی زرداری نے اپنی اہلیہ کے مقدمے کی کارروائی سے اپنے آپ کوالگ تھلگ رکھا ،حالانکہ پانچ سال تک وہ حکومت میں تھے۔اب اچانک وہ متحرک ہوگئے ہیں اور مقدمے کے فیصلے پر شدید ناپسندیدگی کا اظہار کر رہے ہیں ۔اگروہ شروع سے مقدمے کی کارروائی کا حصہ بنتے اور اعلیٰ فوجداری وکیل مقرر کیے ہوتے ، مقدمے کی تحقیق وتفتیش کے دوران اپنے حکومتی اثر ورسوخ کو استعمال کیا ہوتا تو شاید مقدمے کا فیصلہ ان کے لیے کسی درجے میں قابلِ قبول ہوتا ۔اسی طرح انہوں نے اپنے پورے دور میں سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو ہدف نہیں بنایا ،اب اچانک اس سلسلے میں متحرک ہوگئے ہیں ،آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟۔ہمارے خطے کی روایت ہے کہ کوئی بھی اپنے مقتول کے مقدمے سے لا تعلق نہیں رہتا اور اپنی بساط کے مطابق کوشش کرتا ہے ،پس محترمہ بے نظیر بھٹو کے ورثا کی مقدمے کی کارروائی سے لاتعلقی سب کے لیے تعجب کاباعث بنی رہی۔ انگریزی لفظ Forensicsہے ،ہمارے میڈیا والے اسے فرانزک لکھتے ہیں، ہماری رائے میں فارنزک لکھنا چاہیے،اس کے معنی ہیں:'' وقوعے کے آثار وشواہد‘‘۔
2017ء کی مردم شماری:
پاکستان میں بدقسمتی سے ہر حکومت وقت پر، سیاسی جماعتوں کی ایک دوسرے پر اورسب کی نظام پر بے اعتمادی ایک قومی وسماجی بیماری کی شکل اختیار کرچکی ہے ، آج کل اسے اعتماد کے خسارے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔اس کے مِنْجُمْلہ اسباب میں سیاسی رہنمائوں کی عوامی داد وتحسین کے لیے بیان بازی ہے۔دوسرا سبب یہ کہ ہمارے ہاں ریاست اور حکومت کے درمیان فرق کو ملحوظ رکھنے کی نہ روایت قائم ہوئی اور نہ ہی اس بارے میں عوام کی ذہن سازی ہوئی۔ تیسرا سبب انتظامی مشینری کا سیاست زدہ ہوناہے، متمدن ممالک میںقانون ساز ادارے کا کام پالیسی بنانا، نظریاتی سَمت کا تعین اور قانون سازی ہوتا ہے ، جمہوری حکومت کا کام نگرانی اور انتظامی مشینری کا کام اس پر عمل درآمد کرنا ہوتا ہے ۔ 
اعلیٰ عدالتوں کا کام شفاف طریقے سے آئین وقانون کی تطبیق وتشریح اور انتظامیہ کے مختلف اداروں کے درمیان توازن کا قیام ہے۔ ہمارے ہاں عدلیہ فعال ہوتی ہے تو ادارے کمزور ہوجاتے ہیں، ہر بات پر حکمِ امتناع انتظامیہ اور اداروں کو بے توقیر کردیتا ہے ۔ لاہور کی اورنج ٹرین اس کی نمایاں مثال ہے، اس پر قوم کا زرِ کثیر خرچ ہوچکا ہے ،اس پر حکم امتناع تو جاری کردیاگیا، لیکن مسئلے کا حل نہیں نکالاگیا، یہ قومی نقصان ہے اور المیہ بھی۔مشکل یہ ہے کہ بعض ادارے سب سے جواب طلب کرسکتے ہیں لیکن وہ کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ۔یہ کہنا کہ ہم اپنے ضمیر اور اللہ کے سامنے جوابدہ ہیں،بجا اور درست ہے، لیکن اس کے لیے آخرت کا انتظار کرنا ہوگا۔ عدالتوں کے اختیارات بے کراں ہیں، لیکن منصبی اختیار اور قوت کو حکمت ودانش کیساتھ استعمال ہونا چاہیے، مگر ہمارے ہاں یہ نعمتِ گراں مایہ مفقود ہے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں