"MMC" (space) message & send to 7575

شعبان المعظم اور شبِّ برا ٔت ..... (قسط اول)

شعبان المعظم اسلام کی رو سے ایک مقدّس اور متبرک مہینہ ہے۔ نبی کریم ﷺ نے دعا فرمائی:''اے اللہ! رجب اور شعبان میں ہمیں برکت عطا فرما اور (برکتوں کے ماحول میں)ہمیں رمضان تک پہنچا،(شعب الایمان:3815)‘‘۔(2) آپ ﷺ نے فرمایا:''رمضان، اللہ کا مہینہ ہے، شعبان،میرا مہینہ ہے، شعبان پاک کرنے والا ہے اور رمضان گناہوں کو معاف کرنے والا ہے(یعنی اس کا سبب ہے)، (کنزالعمال: 6466)‘‘۔ یہی سبب ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :'' میں نے (کبھی ) نہیں دیکھا کہ سوائے رمضان کے رسول اللہ ﷺ نے کسی مہینے کے پورے روزے رکھے ہوں اورآپ سب سے زیادہ نفلی روزے شعبان میں رکھتے تھے ،(سنن ابی داؤد: 300)‘‘۔
شعبان المعظم کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے احادیث روایت کی گئی ہیں ، جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:''میں نے مشاہد ہ کیا ہے کہ آپ (رمضان المبارک کے علاوہ) کسی بھی دوسرے مہینے کے مقابلے میں شعبان میں زیادہ روزے رکھتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا: یہ رجب اور رمضان کے درمیان ایسا(عظیم المرتبت) مہینہ ہے کہ لوگ اس سے غافل ہیں ، یہ ایسا مہینہ ہے کہ اس میں (بندوں کے) اَعمال ربُّ العٰلمین کے حضور پیش کیے جاتے ہیں ، تو مجھے یہ بات پسند ہے کہ میرے اعمالِ(صالحہ) اس حال میں اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوں کہ میں روزے سے ہوں،(سنن نسائی:2356)‘‘۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: نبیِ کریم ﷺ پورے ماہِ شعبان کے روزے رکھا کرتے تھے، میں نے عرض کیا: یارسول اللہ! کیا نفل روزے کے لیے آپ کو شعبان تمام مہینوں سے زیادہ پسند ہے؟، آپ ﷺ نے فرمایا: اﷲتعالیٰ اس سال وفات پانے والے تمام افراد کے نام(قبضِ ارواح پر مامور فرشتوں کے رجسٹر میں) لکھ دیتاہے، تو میں اس بات کو پسند کرتاہوں کہ میری وفات (اگر مقدر ہے تو) روزے کی حالت میں نصیب ہو،(مسند ابی یعلیٰ:4890)‘‘۔ 
شعبان کی پندرہویں شب:
بعض تفاسیر میں اسے ''لَیْلَۃُ الْبَرَائَ ۃْ ‘‘، ''لَیْلَۃُ الرَّحْمَۃ‘‘ ،''لَیْلَۃُ الْمُبَارَکَۃ‘‘اور ''‘لَیْلَۃُ الصََّکّ‘‘بھی کہا گیا ہے ،قرآنِ کریم میں ''لَیْلَۃُ الْمُبَارَکَۃ‘‘کاذکرآیاہے،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''حٓمٓ ، روشن کتاب کی قسم ، بے شک ہم نے اسے برکت والی رات میں اتارا ، بے شک ہم عذاب کا ڈر سنانے والے ہیں ، اس رات میں ہر حکمت والے کام کا فیصلہ کیا جاتاہے ، (یہ) ہمارے پاس سے حکم ہوتاہے ، بے شک ہم ہی (رسولوں) کو بھیجنے والے ہیں ،(یہ) آپ کے رب کی طرف سے رحمت(ہے) ، بے شک وہ خوب سننے والا ، خوب جاننے والا ہے، (الدخان:1تا6)‘‘۔
جمہور مفسرین کے نزدیک ''برکت والی رات‘‘ سے مراد ''لیلۃُ القدر‘‘ ہے ، تاہم عکرمہ اور بعض مفسرین نے اس سے ''شبِ برأت‘‘ مراد لی ہے، لیکن پہلا قول ہی راجح ہے ۔ جن مفسرین نے دوسرے قول کو اختیار کیا ہے، انہوں نے دونوں اقوال میں تطبیق کی ہے۔ شعبان المعظم کی پندرہویں شب یعنی شب برأت کے بارے میں متعدد احادیث آئی ہیں ، جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
(1)ابو موسیٰ اشعری بیان کرتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''بے شک اللہ شعبان کی درمیانی(پندرہویں) شب کوخاص توجہ فرماتاہے اور مشرک اور کینہ پرور کے علاوہ (مغفرت کے طلب گار) اپنے سب بندوں کو بخش دیتاہے،(سنن ابن ماجہ:1390)‘‘۔ شُعُبُ الایمان کی حدیث میں ہے :(2)''اس شب مومن کی مغفرت ہوتی ہے، کافر کو مہلت دی جاتی ہے اور کینہ پرور کو چھوڑ دیا جاتاہے‘‘۔مجرم کو ڈھیل دینا بھی ایک طرح کی سزا ہے تاکہ وہ سرکشی میں انتہا کو پہنچ کراشدِّ عذاب کا سزاوار قرارپائے،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے(1):''ہم تواُن کو صرف اس لیے ڈھیل دے رہے ہیں تاکہ اُن کے گناہ بڑھتے چلے جائیں اور اُن کے لیے ذلّت آمیز عذاب ہے، (آل عمران: 178)‘‘۔(2):''بے شک کافر اپنی چالیں چل رہے ہیں اور میں اپنی خفیہ تدبیر فرمارہا ہوں،سو آپ کافروں کو ڈھیل دے دیں (اور )اُن کو تھوڑی مہلت دیں، (الطارق: 15-17)‘‘۔
(3)حضرت علی بن ابی طالبؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جب شعبان کی درمیانی شب آئے، تورات کو نوافل پڑھو اور دن میں روزہ رکھو ، کیونکہ اللہ تعالیٰ (اس رات کو) غروبِ آفتاب ہی سے آسمانِ دنیا کی طرف نزولِ اِجلال فرماتاہے (جیساکہ اس کی شان کے لائق ہے )اور ارشاد فرماتاہے:کیا ہے کوئی مغفرت کا طلب گار کہ میں اسے بخش دوں ، ہے کوئی رزق (کی کشادگی) کا طلب گار کہ میں اسے رزقِ (واسع) عطا کروں، ہے کوئی مبتلائے مصیبت کہ میں اس کی مصیبت کا درماں کروں، الغرض بندوں کی تمام حاجات کا اللہ تعالیٰ ذکر فرماتا ہے ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ فیضانِ رحمت طلوعِ فجر تک جاری رہتا ہے، (سنن ابن ماجہ:1388)‘‘۔
(4)حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :'' شعبان کی درمیانی شب رسول اللہ ﷺ میرے بستر سے نکل گئے ، (آگے چل کر ) فرماتی ہیں:مجھے اندیشہ ہوا کہ آپ کسی زوجۂ مطہرہ کے پاس گئے ہیں،میں گھر میں آپ کو تلاش کرنے لگی، تو میرے پائوں آپ کے مبارک قدموں پر پڑے ،آپ حالتِ سجدہ میں تھے،مجھے یاد ہے، آپ فرمارہے تھے: (اے اللہ ! )میرے جسم وجاں تیری بارگاہ میں سجدہ ریز ہیں ، میرا دل تجھ پر ایمان لایا،میں تیری تمام نعمتوں کا اعتراف کرتاہوں، میں نے اپنے آپ پر زیادتی کی ،سو تو مجھے بخش دے، کیونکہ تیرے سوا کوئی بخشنے والا نہیں ہے ،میںتیری سزا سے بچ کر تیرے عفووکرم کی پناہ میں آتاہوں، میں تیرے غضب سے بچ کر تیری رحمت کی پناہ میں آتاہوں ، میں تیری ناراضی سے بچ کرتیری رضا کی پناہ میں آتاہوں، میں تیری گرفت سے بچنے کے لیے تیری ہی پناہ میں آتاہوں، (اے اللہ!) میں تیری حمد وثناکا حق ادا نہیں کرسکا، تیری کامل ثنا وہی ہے جو تو نے خود اپنی ذات کی فرمائی ،حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں: نبی کریم ﷺ مسلسل عبادت میں مشغول رہے یہاں تک کہ صبح ہوگئی اور کثرتِ عبادت سے آپ کے پائوں مبارک پر ورم آگیا تھا، میں آپ کے پائوں مَل رہی تھی ، میں نے عرض کیا: یارسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ نے تو اپنے آپ کو تھکادیا ، اللہ تعالیٰ نے تو آپ کو پہلے ہی مغفرتِ کُلّی کی یقینی نوید سنا رکھی ہے ، آپ پر تو اللہ تعالیٰ کے بے شماررحمتیں ہیں،آپ ﷺ نے فرمایا: یقینا اے عائشہ!، تو کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں،تمہیں معلوم ہے آج کی رات میں کیاکیا برکتیں ہیں، انہوں نے عرض کیا: حضور! بتائیے ،تو آپ ﷺ نے فرمایا: اس رات کو(آنے والے سال)کے دوران ) بنی آدم کے ہر پیدا ہونے والے بچے اورہر وفات پانے والے شخص کا نام لکھ دیا جاتا ہے ، اس رات کو بندوں کے اعمال اٹھائے جاتے ہیں اور اسی میں اُن کا رزق نازل ہوتا ہے، حضرت عائشہ نے عرض کیا: یارسول اللہ! کیا اللہ کی رحمت کے بغیر کوئی جنت میں داخل نہیں ہوگا، آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کی رحمت کے بغیر کوئی جنت میں داخل نہیں ہوگا، میں نے عرض کیا:یارسول اللہ! اور آپ بھی نہیں، تو نبی کریم ﷺ نے اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھا اورتین مرتبہ فرمایا:میں بھی نہیں سوا اس کے کہ اللہ مجھے اپنی آغوشِ رحمت میں ڈھانپ لے، (فضائل الاوقات:26، الدرالمنثورللسیوطی،جلد:7،ص:350)‘‘۔
اس طویل حدیث سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ سیدالمرسلین ،رحمۃ للعالمین سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کے حضور کس قدر عَجز ونیاز فرماتے تھے ،آپ کے دل پر اللہ تعالیٰ کی جلالت کا کتنا غلبہ تھا، آپ کس قدر انہماک سے عبادت کرتے تھے اور اتنی کثرتِ عبادت کے باوجود آپ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے طلبگار رہتے تھے ،آپ ﷺ امت کو تعلیم دینا چاہتے تھے کہ اللہ کا بندہ کثرتِ عبادت سے چاہے انتہائی بلندی پر پہنچ جائے ،لیکن اُسے اپنی عبادت اور تقوے پر ناز نہیں کرنا چاہیے ،بندہ عبادت کر کے اللہ پر کوئی احسان نہیں کرتا، یہ تو بندگی کا فریضہ ہے ، ان عبادات کو شرفِ قبولیت عطا کرنا اور انعامات سے نوازنا پھر بھی اللہ تعالیٰ کی عنایت اور فضل وکرم پر موقوف ہے۔جو لوگ فرطِ عقیدت میں شانِ الوہیت اور مقامِ نبوت کا تقابل کرتے ہیں، انہیں صرف ایک بار نہیں ،بلکہ بار بار نبی کریم ﷺ کے تواضع اورعجز وانکسار سے لبریزاِن مبارک کلمات کو پڑھتے رہنا چاہیے ، یہ سب کچھ تعلیمِ امت کے لیے ہے۔
آپ ﷺ نے متعدد روایات میں فرمایا:''اس عظیم رات کو مشرک،قتلِ ناحق کرنے والا،ماں باپ کا نافرمان ،سود خور، عادی شرابی، عادی زناکا ر،قطع رحمی کرنے والا، چغل خوراور کینہ پرورکی بخشش نہیں ہوگی‘‘، یعنی ان کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرنے والے شریعت میں بیان کی ہوئی توبہ کی قبولیت کی شرائط پوری کیے بغیر اﷲتعالیٰ کی مغفرت اور معافی کے حق دار نہیں بن سکتے۔
الغرض پندرہویں شبِ شعبان کے فضائل حضرت علی، حضرت عائشہ، حضرت معاذبن جبل، حضرت ابوہریرہ،حضرت عوف بن مالک، حضرت ابو موسیٰ اشعری ، حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص، حضرت ابو ثعلبہ اور حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہم سے مروی ہیں،یہ روایات اگر چہ سند کے لحاظ سے ضعیف ہیں، لیکن اِس پر علماء کا اجماع ہے کہ ''فضائلِ اعمال‘‘ میں ضعیف روایات معتبر ہوتی ہیں ۔ 
مفتی محمد شفیع صاحب لکھتے ہیں:''رہا شب برا ٔت کی فضیلت کا معاملہ، سو وہ ایک مستقل معاملہ ہے، جو بعض روایاتِ حدیث میں منقول ہے، مگر وہ اکثر ضعیف ہیں، اسی لیے قاضی ابوبکر بن عربی نے اس رات کی کسی فضیلت سے انکار کیا ہے۔ لیکن شب برأ ت کی فضیلت کی روایات اگر چہ بااعتبارسند کے ضعیف ہیں ، لیکن تعدّدِ طُرق اور تعَدُّد ِ روایات سے اُن کو ایک طرح کی قوت حاصل ہوجاتی ہے۔ اس لئے بہت سے مشائخ نے اِن کو قبول کیا ہے، کیونکہ فضائلِ اعمال میں ضعیف روایات پر عمل کرنے کی بھی گنجائش ہے،(معارف القرآن ، جلد: 7،ص:758)‘‘

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں