ہمارے فلاسفہ نے سیاست کو تین شعبوں میں تقسیم کیا:ایک تہذیب ِ نفس ‘دوسراتدبیرِمنزل اور تیسرا تدبیر ِنظم ِ اجتماعی ۔ دینی اور دنیاوی اعتبار سے فردکااپنے حق میں مفید باتوں کا انتظام کرنا اور نقصان دہ باتوں سے بچنا تہذیب ِ نفس ہے ۔تدبیر ِ منزل سے مراد اپنی کفالت ونگرانی میں جو خاندان کے افراد ہیں ‘اُن کے دینی اور دنیاوی امور کی اصلاح کرنا اورمضَرّات سے بچاناہے‘اسی کو احادیثِ مبارکہ میں ان کلمات میں بیان فرمایا ہے:
(1)حضرت سلمان اپنے دینی بھائی حضرت ابودَرداء کے پاس گئے ‘تو انہوں نے (اُن کی بیوی )اُمِّ دَرداء کو پراگندہ حال دیکھا ‘ انہوں نے اُن سے پوچھا:تم نے اپنا کیا حال بنا رکھا ہے؟انہوں نے کہا: تمہارے بھائی ابودَرداء کو دنیا سے کوئی غرض ہی نہیں ہے ‘پھر ابودرداء آئے : اُن کے لیے کھانا تیار کیا گیا ‘ابودَرداء نے کہا: آپ کھائیں میں روزے سے ہوں‘ حضرت سلمان نے کہا: جب تک آپ نہیں کھائیں گے ‘میں بھی نہیں کھائوں گا‘ سو (مہمان کا دل رکھنے کے لیے )انہوں نے کھایا‘ پھر جب رات آئی ‘تو ابودرداء نوافل میں کھڑے ہونے لگے ‘حضرت سلمان نے کہا: سوجائو‘پھر وہ سوگئے ‘ کچھ دیر بعد وہ پھر نوافل کے لیے کھڑے ہوئے تو سلمان نے کہا: سو جائو‘ پھر جب رات کا پچھلا پہر آیا تو حضرت سلمان نے کہا: اب اٹھ جائو۔راوی بیان کرتے ہیں: پھر دونوں نے نماز پڑھی ‘پھر اُن سے حضرت سلمان نے کہا: بے شک تمہارے رب کا بھی تم پر حق ہے ‘ تمہاری جان کا بھی تم پر حق ہے‘ تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے ‘ پس ہر حق دار کو اُس کا حق دو ‘پھر (صبح) حضرت ابودردائ‘ نبی ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور رات کا ماجرا (شکایت کے طور پر)بیان کیا ‘ تو آپ ﷺ نے فرمایا: سلمان نے سچ کہا ہے۔(صحیح البخاری:6139)
(2)حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص بیان کرتے ہیں:رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: اے عبداللہ! مجھے بتایا گیا ہے کہ تم دن میں روزہ رکھتے ہو اور رات کو نوافل میں قیام کرتے ہو‘میں نے عرض کیا: جی ہاں ! آپ ﷺ نے فرمایا: ایسا نہ کرو ‘کبھی نفلی روزہ رکھ لیا کرو اور کبھی چھوڑ دیا کرو ‘(رات کوکچھ دیر کے لیے )نوافل پڑھ لیا کرو اور (کچھ دیر کے لیے )سوجایا کرو‘ کیونکہ تمہارے جسم کا تم پر حق ہے اور تمہاری آنکھ کا تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا تم پر حق ہے۔(صحیح البخاری:5199)
(3)حضرت عبداللہ بن عمر نے رسول اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور اُس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔حاکم ِ وقت سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا اور ملازم اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہے ‘اس سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا‘یہ باتیں میں نے رسول اکرم ﷺ سے سنیں اور میرا خیال ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: اور آدمی اپنے باپ کے گھر کا نگہبان ہے اور اس سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا‘ پس ہر ایک (کسی نہ کسی درجے میں )نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔(صحیح البخاری:2409)۔
اس کے بعد ملک یا ریاست کے نظم ِاجتماعی کی تدبیر واصلاح کا شعبہ ہے ‘جو انبیائے کرام علیہم السلام انجام دیتے تھے ۔ نظم ِ اجتماعی کا کام یہ ہے کہ ملک کا دفاع ہو‘امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیا جائے‘ جوانفرادی واجتماعی زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہو۔اس میں قرآن وسنت اوراُن سے مستنبط احکامِ شرعیہ کا نفاذ ‘زندگی کے تمام شعبوں میں عدلِ اجتماعی کا قیام ‘مسلمانوں کو اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے حالات کو سازگار بنانا ‘مظلوموں کو اُن کا حق دلانا ‘ظالموں کے ظلم کی طرف بڑھتے ہوئے ہاتھ کو روکنا ‘ امیروغریب کی تمیز کے بغیر تعلیم وترقی کے یکساں مواقع فراہم کرنا ‘ ہرقسم کے استحصال کا خاتمہ ‘بنیادی ضرورتوں اور حاجات کی فراہمی الغرض تمام امور شامل ہیں۔اس کے لیے حاکم ِ وقت میں جن خصوصیات کا ہونا ضروری ہے ‘وہ یہ ہیں: صاحبِ علم اورصاحبِ عزیمت واستقامت ہونا‘ جیساکہ حضرت طالوت کے حوالے سے قرآنِ کریم میں ہے: ''اور اُن سے اُن کے نبی نے کہا:بے شک اللہ نے طالوت کوتمہارابادشاہ بناکر بھیجا ہے ‘وہ بولے:بھلا اُس کی بادشاہت ہم پر کیسے ہوسکتی ہے ‘جبکہ ہم اُس سے زیادہ بادشاہت کے حق دار ہیں اور اُسے تومال کی وسعت بھی نہیں دی گئی ‘(اُن کے نبی نے)کہا: بے شک اللہ نے اُس کو تمہارے لیے منتخب فرمالیا ہے اور اس کو علم اور جسم میں زیادہ کشادگی عطا فرمائی ہے اور اللہ جسے چاہے اپنا ملک عطا فرماتا ہے اور اللہ بڑی وسعت والا اور بڑے علم والا ہے‘‘۔ (البقرۃ:247)
اللہ تعالیٰ نے حضراتِ دائود و سلیمان علیہما السلام کو بادشاہت عطا کی ‘ تو اُن کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے فرمایا: ''ہم نے دونوں کوقوتِ فیصلہ اور علم عطا فرمایا تھا‘‘۔(الانبیائ:79)اسی طرح حاکم کو قومی امانتوں کی حفاظت کا اہل اورصاحبِ علم ہونا چاہیے ‘تاکہ اُسے پتا ہو کہ کس سے لینا ہے اور کس کو دینا ہے۔حضرت یوسف علیہ السلام نے حاکم ِ مصر سے فرمایا: ''مجھے زمین کے خزانوں کا نگران بنادیجیے(کیونکہ) میں حفاظت کرنے کا اہل اور علم والا ہوں‘‘۔(یوسف:55)حضرت شعیب علیہ السلام کی ایک صاحبزادی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اپنے والد سے کہا: ''اے ابا جان! ان کو اُجرت پر رکھ لیجیے‘بے شک آپ جس کو اُجرت پر رکھیں گے ‘اُن میں سے بہترین وہی ہے‘ جو طاقت ور اور امانت دار ہو‘‘ ۔(القصص:26)
(1) ''حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: بنی اسرائیل کی سیاست (نظم ِ اجتماعی کی تدبیر)انبیائے کرام فرماتے تھے ‘ جب کسی نبی کا وصال ہوجاتا تو دوسرا نبی اُس کی جگہ لیتا اور بے شک میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا‘عنقریب خلفاء ہوں گے ‘‘۔ (صحیح البخاری:3455)اس سے معلوم ہوا کہ اصلاحِ امت اور نظم ِ اجتماعی کی تطہیر اور تدبیر شعارِ نبوت ہے ‘حدیث پاک میں ہے:
(2)''حضرت ابوذر بیان کرتے ہیں:میں نے عرض کیا: یارسول اکرمﷺ!آپ مجھے (کسی علاقے کا)حاکم کیوں نہیں بنالیتے ‘تو آپ ﷺ نے میرے کندھے پر اپنا ہاتھ مار کر فرمایا:اے ابوذر!بے شک تم کمزور ہو اور امارت ایک امانت ہے اور یہ قیامت کے دن رسوائی اور شرمندگی (کا باعث) ہوگی ‘سوائے اس کے کہ جو اس کا حق ادا کرے اوراس کی ذمے داریوں کوپوری طرح ادا کرے ‘‘ (صحیح مسلم:1825)۔
یہ سطور ہم نے اس لیے لکھی ہیں کہ قوم کو ایک بار پھر ملک کے حالات کو بہتر لوگوں کے سپرد کرنے کا موقع مل رہا ہے‘تو انہیں فیصلہ کرتے وقت مندرجہ بالا خصوصیات پیشِ نظر رکھنی چاہئیں‘ ورنہ بعد میں پچھتانا بے سود ہوگا۔
علامہ خادم حسین رضوی کی قیادت میں تحریک ِلبیک نے سیاست میں اپنا وجود منوایا ہے۔انہوں نے ملک بھر میں قریباً پانچ سو ستر نمائندے کھڑے کیے ہیں ۔میڈیا کے جانبدارانہ رویے کے باوجود وہ اپنا مشن جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ لوگ حیران ہیں کہ یہ اچانک ہلچل کیسے مچ گئی ؟میرا تجزیہ یہ ہے کہ اس کی سب سے بڑی وجہ اہلسنت کا احساسِ محرومی ہے ۔ یہ حکومت کے نظم ِ اجتماعی سے مکمل طور پرباہر ہیں ‘ نہ انہیں حقوق مل رہے ہیں اور نہ کہیں اُن کی شنوائی ہوتی ہے ۔یہ سلسلہ ستر کے عشرے سے چلا آرہا ہے۔میں اس کے بارے میں جنرل پرویز مشرف سے لے کر اب تک سب ذمے داران کو آگاہ کرتا رہا ہوں ‘لیکن شنوائی نہیں ہوتی‘ کیونکہ جنرل ضیاء الحق مرحوم کے زمانے سے سلیکشن میں دوسرے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں ۔
علامہ خادم حسین رضوی نے مختلف مقامات پربڑے بڑے اجتماعات بھی منعقد کیے ہیں ‘ان کی یہ محنت انتخابی نتائج کی صورت میں منعکس ہوتی ہے یا نہیں ‘ یہ اللہ کے علم میں ہے ‘لیکن اگر وہ جذبات سے معمور اس انسانی اثاثے کو قومی انتخابات کے بعد بھی اپنے ساتھ بدستور جوڑے رہے ‘ تو مستقبل میں یہ ایک بڑی سیاسی قوت کی صورت میں نمودار ہوسکتے ہیں ۔بہت سے اصحابِ فکر ونظر 25جولائی کو منعقد ہونے والے قومی انتخابات کے مابعد کے منظر (Post Scenario)کے حوالے سے انتہائی متفکر ہیں ‘ کیونکہ فی الواقع انتخابات شفاف اور منصفانہ ہوتے ہیں یا نہیں ‘یہ تو وقت آنے پر معلوم ہوگا ‘لیکن قبل از انتخابات (Pre Poll) تاثر اچھا نہیں ہے ‘ ہوسکتا ہے کہ بہت سے ذمے دار حلقوں کو یہ بات ناگوار گزرے‘مگر نوشتۂ دیوار کی طرف بروقت متوجہ کرنا ہی بہتر ہے ‘ بعد میں واویلا کرنا بے سود ہوتا ہے۔الیکشن صرف عوامی مقبولیت کا نام نہیں ہے ‘یہ ایک مینجمنٹ سائنس ہے ‘ اس میں وہی جیتتا ہے ‘جو چوکنا اور چوکس ہواور اس کے پولنگ ایجنٹ ایک پل کے لیے بھی غفلت کا ارتکاب نہ کریں۔ بعض لوگوں کے نزدیک صرف پولنگ کے دن حلقے کے اعتبار سے بیس لاکھ تا ایک کروڑ روپے درکار ہوتے ہیں ‘یعنی یہ باوسائل لوگوں کا کھیل ہے۔