ابوالعباس المبرد لکھتے ہیں: ''حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب ہم حاکم بنے تو ہمیں معلوم ہوا کہ حاکم کیسا ہونا چاہیے اور جب ہم محکوم تھے، تو ہمیں پتا چلا کہ رعیّت کی فلاح کس میں ہے، (الکامل،ج:3،ص:129)۔ نبوت و رسالت کے بعد رسول اللہﷺ کے دوسرے خلیفۂ راشد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ تاریخ کے مثالی حکمران گزرے ہیں۔ انہوں نے ایک مثالی فلاحی ریاست قائم کی اور اس کے نظمِ اجتماعی کو منظم و مُدوَّن کرنے کے لیے شِعارِ حکمرانی کو نئی جہتیں عطا کیں، جنہیں تاریخ میں ''اوّلیاتِ عمر‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، ان کا ذہن ایجاد و اختراع کی خداداد نعمتوں سے مالا مال تھا۔ ان کا عہدِ حکمرانی آج سے تقریباً 1416 سال پہلے اختتام کو پہنچا، یہ عہدِ مسعود تقریباً ساڑھے دس برس پر محیط تھا۔ وہ اپنے عہد کے سب سے بڑے فاتح اور سب سے بڑی ریاست کے حکمران تھے۔ ان کی شہادت سے اسلام اور اِنسانیت کو جو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا، اس کی شدت کا اظہار ایک صاحب قلم نے ان الفاظ میں کیا ہے: ''یوں محسوس ہوتا ہے کہ قاتل کا زہر میں بجھا ہوا خنجر سینۂ عمر میں نہیں، قلبِ کائنات میں پیوست ہو گیا‘‘۔
ان کا ذہن ''عرفانِ حق‘‘ کے سانچے میں ڈھلا ہوا تھا، کئی ایسے مواقع آئے کہ انہوں نے وحیِ ربانی کے نزول سے پہلے ہی اس کے تقاضے کو سمجھ لیا، یعنی وہ ''میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے‘‘ کا مَظہر اَتمّ تھے۔ مفسرینِ کرام نے ایسی آیاتِ مبارکہ کو ''مُوَفَّقاتِ عمر‘‘ کے عنوان سے ذکر کیا ہے اور رسول اللہﷺ کا فرمان ہے: ''تم سے پہلی اُمتوں میں ''مُحَدَّث‘‘ گزرے ہیں اور اگر میری امت میں کوئی مُحدَّث ہے، تو وہ یقینا عمر ہیں، (مسند حمیدی: 253)‘‘۔ محدَّث سے مراد قلبِ صفا اور ذہن رسا کا حامل ایسا بلند مرتبہ مومن جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیبی حقائق کا الہام و القا ہوتا ہے۔
جہاں بانی اور حکمرانی کے لیے توفیقِ الٰہی سے انہوں نے جو اختراعات کیں اور جو نئی جہتیں متعارف کرائیں، ان کی طویل فہرست ہے، ان میں سے چند نمایاں اُمور یہ ہیں:
(1) مردم شماری: اُن سے پہلے دنیا میں مردم شماری یا انسانی آبادی کے اعداد و شمار مرتب کرنے کا کوئی تصور نہیں تھا، انہوں نے پہلی بار اس کا اہتمام کیا، آج بھی دنیا اس روایت پر کاربند ہے اور ممالک میں ہر دس سال بعد مردُم شماری کی جاتی ہے، افزائشِ آبادی کے تناسب سے حکومتیں حال اور مستقبل کے لیے منصوبہ بندی کرتی ہیں، قانون ساز اداروں میں نیابت کا تناسب طے ہوتا ہے، بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے نئے وسائل تلاش کیے جاتے ہیں۔ عوام کے لیے روزگار، مکانات، علاج معالجہ، تعلیم اور شہری سہولتوں پر مشتمل بنیادی ڈھانچے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ مغرب میں ہر بچے کے لیے وظیفہ اور ہر شہری کے لیے روزگار کی ضمانت کا نظام سب سے پہلے سویڈن میں قائم ہوا اور اُسے ''عمر لا‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے، اگرچہ تعصب کے غلبے کی وجہ سے اب مغربی دنیا اس کا اعتراف کرنے میں ہچکچا رہی ہے۔
(2) مُستَعمَرات یا نئے شہروں کی آباد کاری: اسے جدید اصطلاح میں نوآبادیات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ہماری سیاسی اصطلاح میں استعمار سے مراد اپنے عہد کی طاقت ور اور توسیع پسند اقوام کا دوسرے ممالک پر قبضہ کر کے انہیں اپنی حدودِ سلطنت میں شامل کرنا ہے۔ ماضیٔ قریب میں برطانیہ، فرانس، جرمنی، نیدرلینڈ، سپین اور پرتگال اس طرح کی نوآبادیاتی سلطنتیں رہی ہیں، پھر روس نے بھی سوویت یونین کی شکل میں وسیع پیمانے پر استعمار کی صورت اختیار کی۔ یہاں نوآبادیات سے ہماری مراد پہلے سے قائم بڑے شہروں پر آبادی کے دباؤ کو کم کرنے کے لیے شہری سہولتوں اور روزگار کے وسائل پر مشتمل نئے شہر آباد کرنا ہے، کیونکہ شہر جتنے گنجان آباد ہوں گے، مسائل کا حجم بھی اُسی مقدار سے بڑھتا رہے گا۔ اسی سبب حضرتِ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کوفہ، بصرہ، جیزہ، فسطاط اور موصل کے نام سے نئے شہر آباد کیے۔
ہم آج کل اپنے بڑے شہروں پر آبادی کے اسی دباؤ کا شکار ہیں۔ بڑے شہروں میں بنیادی شہری خدمات و ضروریات یعنی آب رسانی، سیوریج اینڈ سالڈ ویسٹ، بجلی اور گیس کی ترسیل کا نظام، سڑکیں، ٹرانسپورٹ، تعلیمی اداروں، کھیل کے میدانوں اور رفاہی اداروںکے لیے زمینی قطعات کی فراہمی کا نظام ایک محدود آبادی کے لیے تھا، جو اب بے ہنگم طریقے سے کئی گنا زیادہ ہو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہروں میں جرائم کی شرح بڑھ رہی ہے اور مجرمین کے لیے خفیہ پناہ گاہیں بھی زیادہ دستیاب ہیں۔ ملک بھر میں جنگل کی طرح پھیلتی ہوئی ہاؤسنگ سکیموں اور ٹاؤن شپس کے ذریعے زرعی زمینوں کا نہایت بے رحمی کے ساتھ استعمال ہو رہا ہے، اس کا خمیازہ آنے والی نسلوں کو اشیائے خوراک کی قلّت کی صورت میں بھگتنا ہو گا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہماری حکومتیں کمزور بنیادوں پر قائم ہوتی ہیں، روزمرہ بنیادوں پر چلتی ہیں اور مستقبل بینی پر مبنی کوئی دس بیس سالہ منصوبہ بندی نہیں ہوتی۔
حضرتِ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے مستقبل بینی اور پیش بندی کے حوالے سے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ آج کے دور میں جب ہم اس کا تصور کرتے ہیں تو انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے، ایسا لگتا ہے کہ ان کا ذہن رسا سیدالمرسلینﷺ کی شانِ اعجاز کا مظہر تھا۔ پس یہی سبب ہے کہ آپﷺ نے اسلام کی سربلندی کے لیے اللہ تعالیٰ سے عمر کو مانگا، ارشادِ رسول ہے: ''اے اللہ! از راہِ کرم ابو جہل بن ہشام یا عمر بن خطاب میں سے کسی ایک کے ذریعے اسلام کو غلبہ اور قوت و طاقت عطا فرما، جب صبح ہوئی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کر لیا (سنن ترمذی: 3683)‘‘۔ یہ اپنا اپنا مقدر تھا کہ زبانِ نبوت سے ابو جہل اس اُمت کا فرعون قرار پایا اور عمرِ فاروق اسلام کی آبرو اور شان قرار پائے۔
اسلام کو وراثت میں قبائلی نظام ملا تھا، جس میں کسی منظم ریاست کا وجود نہیں تھا اور نہ ہی ریاست کی طرف سے تنخواہ دار منظم فوج تھی۔ لہٰذا تمام قبائل کے جنگ جُو اپنا اپنا سامانِ حرب اور زادِ راہ لے کر جنگ میں شریک ہوتے اور فتح کی صورت میں جو دشمن کا مالِ غنیمت ہاتھ آتا، وہ سپاہیوں میں تقسیم ہو جاتا، ابتدائے اسلام میں یہی شِعار جاری رہا۔ لیکن ایک وقت آیا کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو غلبہ عطا فرمایا، قرآن نے خَمس کے مصارف متعین کر کے انہیں رسول اللہﷺ کی صواب دید پر چھوڑا۔ پھر وہ دور آیا کہ کئی خطوں کے لوگ مسلمانوں کی لشکر کشی کے بغیر بلا مقابلہ اطاعت قبول کرنے پر آمادہ ہونے لگے، تو ان سے جو مال ملتا وہ ''مالِ فے‘‘ کہلاتا، قرآنِ مجید نے سورہ الحشر آیات 6 تا 9 میں اس کے مصارف بیان فرمائے اور بتایا کہ اسلام کا مزاج دولت کے ارتکاز (یعنی دولت کے چند ہاتھوں میں جمع ہونے) کا نہیں ہے بلکہ تقسیمِ دولت کا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ ضرورت مند لوگ ا س سے فیضیاب ہوں۔
عہدِ فاروقی میں فتوحات تواتر سے ہو رہی تھیں، علاقوں پر علاقے اور شہروں پر شہر فتح ہو رہے تھے۔ اُس وقت رائج الوقت دستور کے مطابق مجاہدین نے مطالبہ کیا کہ مفتوحہ علاقوں کو جاگیر کے طور پر اُن میں تقسیم کر دیا جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس پر تردُّد تھا، آپ مسلسل صحابۂ کرام سے مشاورت کرتے رہے اور بالآخر ایک دن آپ نے صحابۂ کرام کو جمع کیا اور سورۃ الحشر کی مذکورہ بالا آیات کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اس میں آنے والی نسلوں کا بھی حصہ ہے اور اُن کے حُقوق کی پاس داری بھی ہماری ذمے داری ہے، لہٰذا یہ زمینیں آنے والے زمانوں میں ضرورت مند لوگوں کے کام آتی رہیں گی، حضرت عمر نے ان زمینوں کو ریاست کی تحویل میں رکھا۔ اب آپ حضرت عمر کی بصیرت کا اندازہ لگایئے اور موجودہ دور میں کراچی میں چائنا کٹنگ کا تصور کیجیے کہ رِفاہی خدمات اور اداروں کے قیام کے لیے جو کھلی زمین اور رفاہی پلاٹس کے ڈی اے کی ٹاؤن پلاننگ میں موجودہ اور آنے والی نسلوں کی ضرورتوں کے لیے مختص کیے گئے تھے، وہ بندر بانٹ کی نذر ہو گئے۔ اللہ کے بندوں نے موجودہ اور آنے والی نسلوں کی ضروریات کو ہوسِ زر اور حصولِ زمین کی نذر کر دیا۔ اگر یہی روِش جاری رہی تو لوگوں کے لیے شہروں میں سانس لینا بھی دشوار ہو جائے گا۔ اب ہسپتال اور تعلیمی ادارے بالعموم رہائشی مکانات اور بنگلوں میں قائم ہیں اور کھیل و کود کے میدان یا تو با اثر حریص لوگوں کی نذر ہو گئے یا عشرتوں کے دل دادہ قبضہ مافیا والے اُن پر قابض ہو گئے۔ یہ سارے کام ان اہلِ اقتدار کی نظروں کے سامنے اور ناک کے نیچے انجام پاتے رہے، جن کو لوگوں نے اپنی امانتوں کے تحفظ کے لیے وقتاً فوقتا مسندِ اقتدار پر بٹھایا۔ میں نے عہدِ فاروقی کو حالاتِ حاضرہ سے اس لیے جوڑا ہے کہ کسی اعلیٰ چیز کا تقابل اس کی ضد سے کریں تو اس کی حقیقی قدر معلوم ہوتی ہے۔
آپ نے نظامِ حکومت کو منظم کرنے کے لیے بیت المال قائم کیا اور محکمۂ مال کو منظم کیا، عدالتیں قائم کیں اور قاضی مقرر کیے، سنِ ہجری کو رائج کیا، فوج کا باقاعدہ دفتر قائم کیا اور فوجی چھائونیاں قائم کیں، اُن کے وظائف مقرر کیے، نہریں کھدوائیں، مفتوحہ ممالک کے لیے ذیلی نظم قائم کیا، جیل خانہ قائم کیا، پولس کا محکمہ قائم کیا، محکمۂ ڈاک کو منظم کیا، مسافروں کے لیے مہمان خانے قائم کیے، باجماعت نمازِ تراویح کا سلسلہ شروع کیا، مُصحفِ مقدّس کی صورت میں قرآنِ کریم آپ کے مشورے سے مدوّن ہوا، شراب کی حد مقرر کی، مدرّسین و معلّمین اور ائمہ و مؤذنین کے لیے باقاعدہ تنخواہیں مقرر کیں، عاملینِ حکومت کے لیے کھلے عام احتساب کا نظام قائم کیا، رعایا کے مسائل حل کرنے کے لیے خود ان کے دروازوں تک چل کر گئے۔