وزیر اعظم عمران خان نے نئے شہر آباد کرنے کا عندیہ ظاہر کیا ہے اور کہا ہے کہ شہری آبادیوں کا بے ہنگم پھیلائو اور نِت نئی ہائوسنگ سوسائٹیوں کا جو جال پھیلایا جارہا ہے ‘اس سے مستقبل کیلئے زرعی زمین محدود ہوتی جائے گی ‘لہٰذا کثیر المنزلہ عمارات (یعنی فلیٹ سسٹم) اور شہری سہولتوں کی دستیابی کے ساتھ نئی بستیاں بسائی جائیں گی ۔ یہ ایک اچھا وژن ہے ‘ہم بھی اس کے حامی ہیں ۔ زرعی زمینوں کو لاحق خطرات کے حوالے سے کئی اہلِ نظر کے مضامین آئے دن اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں ‘ ہمارے نزدیک یہ ایک قومی اور ملّی درد ہے اور وقت کی ضرورت ہے ۔دیہاتوں اور قصبات کو تو چھوڑیے ‘ پاکستان کے بڑے شہر بھی شہری سہولتوں کی قلت کا شکار ہیں ‘ یعنی حسب ِضرورت پختہ سڑکیں‘ گیس‘بجلی‘ سیورج لائن‘ پانی کی لائن ‘ سکول‘ کالج ‘جامعات ‘ ہسپتالیں‘ کھیل کے میدان اور پارک وغیرہ آبادی کے تناسب سے دستیاب نہیں ہیں ۔پہلے ایک محدود آبادی کیلئے ان خدمات کی فراہمی کی گئی ‘ پھر پیشگی منصوبہ بندی کے بغیر کثیر المنزلہ عمارات کا جنگل پھیلادیا گیا اور دستیاب سہولتیں آبادی کے لیے ناکافی ہوگئیں ‘جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر ہیں ‘کہیں پانی کی لائن پھٹی ہوئی ہے‘ کہیں سیورج لائن دبائو برداشت نہ کرنے کے سبب اچانک پھٹ جاتی ہے ‘آئے دن لائن بند ہونے کے سبب مین ہول سے گٹر کا پانی بہتارہتا ہے۔ بجلی کا بریک ڈائون یا شارٹ سرکٹ تومعمول کی بات ہے ‘ کیونکہ رسد کم ہے اور طلب زیادہ ‘اس کے سبب ٹرانسفارمر اور بجلی کی تاریں بوجھ برداشت نہیں کرسکتیں اور آئے دن ٹرانسفارمر ٹرپ ہوجاتے ہیں ۔ کراچی جیسے شہر میں پہلے گیس کی لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ نہیں تھا ‘مگر اب موجود ہے ۔
اسلامی تاریخ میں دوسرے خلیفۂ راشد امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک مُدَبِّر اورصاحبِ بصیرت حکمران گزرے ہیں ۔ ان کے عہدِ خلافت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کوجب اُس عہد کی سپر پاور کا منصب عطا کیا ‘ سلطنت ِاسلامی پھیلتی چلی گئی اور بڑے شہروں پر آبادی کا دبائو بڑھنے لگا ‘ توآپ نے نئے شہر آباد کیے ‘ عربی میں انہیں ''مُسْتَعْمَرَات‘‘ (Colonies) کہتے ہیں۔ بصرہ ‘ کوفہ ‘ فسطاط‘ موصل اور جیزہ اس کی نمایاں مثالیں ہیں‘ لیکن جب تک ان نئی آبادیوں میں روزگار کے وسائل نہ پیدا کیے جائیں‘ کاٹیج انڈسٹریز ‘یعنی چھوٹے چھوٹے صنعتی یونٹ نہ بنائے جائیں ‘ معیاری تعلیمی ادارے اور ہسپتال نہ بنائے جائیں ‘بڑے شہروں کی طرف مصنوعی طریقوں سے آبادی کے بہائو کو روکا نہیں جاسکے گا ۔اصل مسئلہ روزگار کا ہے ‘ یہ قانونِ فطرت ہے کہ جہاں روزگار کے مواقع ہوں گے ‘کسی کو پسند ہو یا ناپسند‘ لوگ وہاں کھنچے چلے آئیں گے اور آپ ملک کے اندرشہروں میں داخلے کیلئے پرمٹ سسٹم نافذ نہیں کرسکتے‘ کیونکہ یہ شہریوں کی آزادانہ نقل وحرکت پر پابندی ہے اورآئین کے خلاف ہے۔اس کے نتیجے میں ناپسندیدہ اور سماج دشمن عناصر بھی آبادیوں میں نفوذ کر جاتے ہیں ‘پھر وہ ریاست وحکومت اور پرامن شہریوں کیلئے مسائل پیدا کرتے ہیں۔
پس ہم وزیر اعظم کے اس عزم کی تحسین کرتے ہیں‘ خوش آمدید کہتے ہیں اور دعاگو ہیں کہ وہ اس منصوبے کو عملی جامہ پہناکر آنے والی حکومتوں کے لیے ایک مثال قائم کریں۔ اسی طرح حضرت عمر فاروقؓ ہی نے تاریخ میں پہلی بارانسانیت کیلئے جدید فلاحی ریاست کاماڈل پیش کیا ۔ نئے تصورات ‘ اختراعات اور ادارہ جاتی نظم بھی انسانی تاریخ میں پہلی بار انہوں نے ہی قائم کیا ۔اسی لیے میں کہتا ہوں : ریاستِ مدینہ کا دعویٰ کرنا تو بڑی پرکشش بات ہے ‘ لیکن ایسا دعویٰ کرنے سے پہلے ہمیں ہزار بار سوچنا چاہیے کہ آیا ہم اُن کا پاسنگ بھی ہیں ۔ وزیر اعظم عمران خان نے فیاض الحسن چوہان کی جگہ جناب صمصام بخاری کا بطورِ وزیر اطلاعات تقرر کیا‘ یہ ایک اچھی علامت ہے ‘وہ شریف النفس انسان ہیں ‘اُن کا خاندانی پس منظر قابلِ احترام ہے ‘ ٹھہرائو کے ساتھ اوردلیل سے بات کرتے ہیں ‘ زبان سے زہر آلود شعلے نہیں اگلتے ‘ کاش کہ ہمارے سیاست دان اسی طرح وضع دار ہوں ۔
مَحفِلِ میر: جنابِ سجاد میر پاکستان کے سینئر صحافی ‘کالم نگار اور تجزیہ کار ہیں۔29مارچ کو ایک میٹنگ میں شرکت کیلئے مجھے لاہور جانا تھا۔ میرے اور جنابِ سجاد میر کے ایک مشترکہ دوست علامہ ضیاء الحق نقشبندی ہیں‘ اُن کی پبلک ریلشننگ بہت عمدہ ہے‘ مختلف المزاج اورمتنوّع سیاسی وابستگیوں کے حامل اہلِ فکر ونظر سے ان کا تعلق رہتا ہے ۔انہوں نے جنابِ سجاد میر سے میری آمد کا تذکرہ کیا‘ تو میر صاحب نے خواہش ظاہر کی کہ ہفتے کی صبح‘ میں اپنے گھر پر چند احباب کو دعوت دے دیتا ہوں ‘ ناشتہ بھی ہوگا اور تبادلہ خیال کا بہتر موقع میسر آئے گا؛ چنانچہ انہوں نے پرتکلف ناشتے کے ساتھ ساتھ کئی اصحابِ فکر ونظر کی ملاقات کا اہتمام بھی فرمادیا ‘ یہ میرے لیے ایک نعمت ِ غیر مترقبہ تھی ۔اس محفل میں جنابِ الطاف حسین قریشی ‘ جنابِ عامر خاکوانی ‘ جنابِ اوریا مقبول جان ‘ جناب رئوف طاہر‘ جنابِ حفیظ اللہ نیازی‘ ڈاکٹر حسین احمد پراچہ‘ جناب سلیم منصور خالد‘ڈاکٹر عبدالقادر ‘جنابِ سلمان عابد‘ جنابِ طاہر بٹ‘ جنابِ فرخ شہباز وڑائچ ‘ علامہ ضیاء الحق نقشبندی اوردیگر احباب موجود تھے۔ جب بڑے کالم نگار اور تجزیہ کار جمع ہوں تو حالاتِ حاضرہ پر بحث ناگزیر ہوجاتی ہے ‘کیونکہ ان حضرات کی ذہنی بالیدگی اوردانش کے موتی لٹانے کے لیے یہ بہترین موقع ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ہر باشعور انسان کا کسی نہ کسی طرف سیاسی جھکائو بھی ہوتا ہے؛ اگرچہ ہمیں آئیڈیل قیادت دستیاب نہیں ہے ‘ لیکن قیادت کے دستیاب اثاثے میں سے کوئی نہ کوئی ترجیح قرار پاتا ہے ‘ ماضی میں اس کیلئے Lesser Evil کم تر برائی اور اَھْوَنُ الْبَلایَا کی سیاسی اصطلاحات استعمال ہوتی رہی ہیں ۔سب جانتے ہیں کہ جنابِ اوریا مقبول جان کی تلوار چارسو چلتی ہے ‘ سو اُس کی کاٹ ہر سو یکساں رہتی ہے ۔
میں نے اس مجلس سے استفادہ کیا اور یہ بھی عرض کیاکہ شخصیات کو ایک طرف رکھ کر مسائل پر بات کریں‘ تاکہ ہم وابستگیوں سے بالاتر ہوکر معروضی تجزیہ کرسکیں ۔جنابِ سجاد میر نے جسمانی خوراک کااہتمام تو خوب کیا‘ مگر روحانی فیضان کیلئے شمع دوسروں کے آگے رکھ دی اور خود معزز سامع بن کر بیٹھے رہے ‘ کسی شہبازِ خطابت یا ماہرتجزیہ کار یا صاحبِ فکر ونظر کیلئے خاموش بیٹھ کر سنناہی اُن کاسب سے بڑاایثارہے ۔سوجنابِ الطاف حسین قریشی اور جنابِ سجاد میر نے انتہائی ایثار کا مظاہرہ کیا ‘ اس کے نتیجے میں دوسرے حضرات کو اظہارِ خیال کاخوب موقع ملا ۔کچھ لوگ تاریخ پڑھ کر جانتے ہیں اور ہماری تاریخ اکثر متفق علیہ نہیں‘ بلکہ متنازع رہتی ہے ۔آج بھی قیامِ پاکستان اور تحریکِ پاکستان کی اسلامی اساس کے منکرین موجود ہیں اور انہیں اپنی رائے کی اصابت پر سو فیصد یقین ہے ‘لیکن بزرگ اہلِ صحافت نے تاریخ کو برتا ہے ‘ اتاروچڑھائو کوکھلی آنکھوں اور چشمِ بصیرت سے دیکھا ہے ‘ جبکہ آج بعض نئے لوگ خود کو اتھارٹی سمجھ کر ہمارے ماضی اور حال کے فیصلے صادر کرتے رہتے ہیں ‘ یہ ایک المیہ ہے‘ سانحہ ہے‘ گفتگو کے دوران جماعتِ اسلامی کے امیر کے انتخاب پر بھی اظہارِ خیال ہوا ۔ جنابِ سراج الحق اور مولانا فضل الرحمن کا بھی ذکر ہوا۔میں نے عرض کیا کہ ہم قحط الرجال کے دور سے گزر رہے ہیں اور تمام سیاسی ومذہبی جماعتیں اس سے مستثنیٰ نہیں ۔لوگ مذہبی قائدین کورول ماڈل کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں ‘یہ توقع بجا ہے ‘ لیکن مافوق الفطرت ہونے کی توقع عبث ہے ‘کیونکہ مذہبی لوگ بھی کسی اور سیارے سے پیراشوٹ کے ذریعے نہیں اترتے‘ وہ بھی اسی معاشرے میں جنم لیتے ہیں ‘ نشوونماپاتے ہیں ‘ ایسے میں ہمیں ؛اگر کہیں غیر معمولی فکری استعداد ‘ ذہنی بلوغت اوراعلیٰ کردار کی حامل چند عبقری اور نابغہ شخصیات مل جائیں ‘تو اسے نظام اور ماحول کی پیداوار نہیں ‘بلکہ اللہ کا خصوصی فضل وانعام سمجھنا چاہیے‘لیکن ؛اگر اٹھارہ بیس یا پندرہ بیس کا فرق بھی نظر آجائے‘ توبسا غنیمت ہے۔جب معاشرہ اَقدار کے اعتبار سے تنزُّل کا شکار ہوتا ہے ‘تو اکثر لوگ اس میں مبتلا ہوجاتے ہیں‘ اس کا عملی نمونہ ہمارے ہاں سوشل میڈیا کی صورت میں موجود ہے کہ بعض اوقات گناہ کو بھی وسیلۂ ثواب سمجھ کر کیا جاتا ہے‘ العیاذباللہ تعالیٰ۔ سیاسی رہنمائوں میں انتہائی درجے کی اخلاقی پستی موجودہ عشرے کی پیداوار ہے‘ وضع داری اور رکھ رکھائو کی قدریں ناپید ہوتی جارہی ہیں۔ برطانوی سیاست میں پالیسی کے اعتبار سے وزیر اعظم ٹرسامے اورلیبر پارٹی کے سربراہ جرمی کوربن دو انتہائوں پر ہیں‘ لیکن قوم کو بند گلی سے نکالنے کیلئے آپس میں ملاقات پر آمادہ ہیں۔
دو تین سال پہلے جنابِ انیق احمد کے ساتھ ایک پروگرام میں شرکت کیلئے لاہور جانا ہوا تھا‘ اُس موقع پربزرگ صحافی جنابِ مجیب الرحمن شامی نے بھی ایسی ہی ایک مجلس ِ فکر ونظر اور لذتِ کام ودہن کا عالی شان اہتمام کیا تھا ‘تب بھی ہمیں بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کو ملاتھا۔ ہمارے اکثر قابلِ قدر لکھاری لاہور اوراسلام آباد سے تعلق رکھتے ہیں۔ اہلِ کراچی کا علم وادب اور قلم سے رشتہ کمزور پڑ گیا ہے ‘ شاید فکرِ معاش یا سہل پسندی نے فکری مشقت برداشت کرنے کے قابل نہیں چھوڑایا شاید یہ سوچ رہے ہوں کہ کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہورہا تو دردِ سر پالنے سے کیا فائدہ ‘اس کا سبب یہ بھی ہے کہ گزشتہ دو تین دہائیوں سے کراچی تلخ تجربات سے گزرا ہے ‘ ڈاکٹر قاسم پیرزادہ نے اسی درد کو اپنے ان اشعارمیں بیان کیاتھا:
شہر کرے طلب اگر‘ تم سے علاجِ تیرگی
صاحبِ اختیار ہو‘ آگ لگا دیا کرو
ایک علاجِ دائمی ہے تو ‘برائے تشنگی
پہلے ہی گھونٹ میں اگر‘ زہر ملا دیا کرو
پیاسی زمین کو تو‘ ایک جُرعۂ خون ہے بہت
میرا لہو نچوڑ کر‘ پیاس بجھا دیا کرو