چھٹے پارے کے مضامین
اسلام برائی کی تشہیر کو پسند نہیں فرماتا ،مگر مظلوم کو دادرسی کے لئے ظالم کے خلاف آوازبلند کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ آیت:150میں بتایا کہ جو لوگ ایمان لانے میں اللہ اور اُس کے رسولوں کے درمیان فرق کریں یا بعض رسولوں پر ایمان لائیں اور بعض کا انکار کریں یا ایمان اور کفر کے مابین کوئی درمیانی راستہ تلاش کریں، یہ سب لوگ پکے کافر ہیں ۔ مومن صرف وہی ہیں جو اللہ پر ایمان لائیں اور بلا تفریق اُس کے سارے رسولوں پربھی ایمان لائیں ۔
آیت:153تا161میںیہود کی بہت سی جہالتوں، سرکشیوں، ہٹ دھرمیوں اور فرمائشی مطالبات کا ذکر ہے۔ اُنہوں نے رسول اللہﷺ سے مطالبہ کیاکہ ہم پر آسمان سے کتاب نازل کریں، اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ یہ موسیٰ علیہ السلام سے اِس سے بھی بڑے مطالبات کرچکے ہیں ،پھر اللہ تعالیٰ نے اُن کی عہد شکنی اور کفرکی وجوہ کو بیان کیا کہ (1)اُنہوں نے آیاتِ الٰہی اورمعجزاتِ انبیاء سے انکار کیا(2)انبیاء کرام کو ناحق قتل کیا(3) حضرت مریم پر بہتان باندھا(4) عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کا دعویٰ کیا (5) ہٹ دھرمی سے یہ کہاکہ ہمارے دلوں پر غلاف ہیں۔
آیت نمبر:163میں بتایاکہ وحیٔ ربّانی اور نبوّت کا سارا سلسلہ آپس میں مربوط ہے ۔حضرت نوح اور اُن کے بعد کے انبیاء کرام علیہم السلام اور حضرت ابراہیم تا حضرت عیسیٰ مُتعدد انبیاء کرام علیہم السلام کا ذکر فرمایا۔ مزید فرمایاکہ کچھ رسولوں کے نام اورحالات ہم نے آپ پر بیان کئے اور ایسے بھی رسول ہیں ،جن کے واقعات قرآن میں بیان نہیں ہوئے، جن کے نام قرآن وحدیث میں بیان ہوئے ،اُن پر نام بہ نام ایمان لانا فرض ہے اور جن کے نام اور حالات بیان نہیں ہوئے ،اُن پر اجمالی طورپر ایمان لانا فرض ہے۔
آیت:174میں فرمایا: اے لوگو!تمہارے پاس اللہ کی طرف سے قَوِی دلیل آگئی ہے اور ہم نے تمہاری طرف واضح نور نازل کیاہے ،برہان (قوی دلیل ) سے مراد''سیّدنا محمد رسول اللہ ﷺ‘‘ کی ذاتِ گرامی ہے ۔سیدنا محمدﷺ اور قرآن مجید سے مکمل وابستگی اختیار کرنے پر ہی صراطِ مستقیم پر ثابت قدم رہنے کا انحصارہے۔
المائدہ: سورۃ المائدہ میں فرمایا کہ :مُستثنیات کے سِوا (جن کا بیان آگے آرہاہے) چار پاؤں والے جانور حلال کئے گئے ہیں،لیکن احرام کی حالت میں شِکار حلال نہیں ہے ۔مزید فرمایاکہ اللہ کی نشانیوں اور حُرمت والے (چار)مہینوں کی بے حُرمتی نہ کرو ،اِسی طرح کعبہ میں بھیجی ہوئی قربانیوں اور جن جانوروں کے گلوں میں (قربانی کی علامت کے)پَٹّے پڑے ہوں ،اُن کی بھی بے حُرمتی نہ کرو ۔اِس کے بعد مسلمانوں کو نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرنے اور گناہ اور ظلم کے کاموں میں مدد نہ کرنے کا حکم ہواہے ۔یہ آیتِ مبارکہ ''جوامع الکلم‘‘میں سے ہے ۔ ہر خیر وشَر ،بھلائی اور برائی کا اس آیتِ مبارکہ میں بڑے اختصار کے ساتھ تذکرہ کرکے قرآن مجید نے تمام کاموں کے لئے ایک اصل اور ضابطہ قراردے دیاہے ۔
آیت :3میں مُحرماتِ قطعیہ کا بیان ہے ،جو یہ ہیں: (1) وہ حلال جانور جو طبعی موت مرگیاہواور ذبح نہ کیاجاسکاہو،یعنی مُردار (2) ذِبح کے وقت بہنے والا خون (3) خنزیر کا گوشت (4)جس جانور پر ذِبح کرتے وقت غیراللہ کانام لیاگیاہو(5تا10) وہ حلال جانور جو گلا گھونٹنے یا چوٹ لگنے سے مرجائے یا جو بلندی سے گرکر مرگیاہویا دوسرے جانور نے سینگوں کی چوٹ سے ماردیاہویا درندوں نے کھایاہویا بتوں کے تھان پر ذِبح کیاگیاہو (11)اورفال کے تیروں سے قسمت کا حال معلوم کرنا ۔
اِسی آیتِ مبارکہ میں مسلمانوں کے لئے ایک اِعزازی اعلان ہواکہ : '' آج میں نے تمہارے لئے تمہارادین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت کو پوراکردیا اور تمہارے لئے اسلام کو (بطوردین) پسند کرلیا ہے‘‘۔ اِسی آیت میں بتایا کہ حالتِ اضطرار میں بقائے جان کے لئے بقدرِ ضرورت حرام چیز کا کھانا جائز ہے۔
آیت :5میں بتایاکہ مسلمانوں کا کھانا اہلِ کتاب کے لئے حلال ہے اور ہلِ کتاب کا کھانا مسلمانوں کے لئے حلال ہے، بشرطیکہ وہ کھانا اپنے اصل کے اعتبار سے حلال ہو اور اُس میں کسی حرام کی آمیزش نہ ہو ۔اِسی آیت میں یہ حکم بھی بیان ہواکہ اہلِ کتاب کی آزاد ، پاکدامن عورتوں سے مسلمان کا نکاح جائز ہے ۔
آیت :6میں وضو کے چار فرائض بیان ہوئے یعنی (1) پورے چہرے کو دھونا(2)کہنیوں سمیت ہاتھوں کا دھونا (3)سر کا مسح (4) ٹخنوں سمیت پاؤں کا دھونا۔اِس کے بعد مریض، مسافر ، بے وضو اور جُنبی (جس پر غسل واجب ہو)کے لئے ضرورت کے وقت تیمم کی اجازت کا بیان ہے۔
آیت :17میں اللہ تعالیٰ نے مسیح ابن مریم کو ''اِلٰہ ‘‘قرار دینے والوں کو کافرکہا ہے اور فرمایاکہ (بفرضِ محال )اللہ مسیح ابن مریم اور اُن کی ماں کو ہلاک کرناچاہے ،تو ساری زمین والے مل کر بھی اُن کو بچانہیں سکتے۔پھریہودونصاریٰ کی اِس خوش فہمی اور زَعمِ باطل کا رَد فرمایاکہ وہ اللہ کے بیٹے اور اُس کے محبوب ہیں، فرمایاکہ تم بھی منجملہ انسانوں میں سے ہو۔اہلِ کتاب کو مخاطب کرکے فرمایاکہ انبیاء کی بعثت کے بعد اِنقطاعِ نبوّت کا دور آیا اور پھر ہم نے اپنے رسولِ عظیم کو مبعوث فرمایاتاکہ تم یہ نہ کہہ سکوکہ ہمارے پاس کوئی بشیر ونذیر نہیں آیا، سو اب تمہارے پاس اللہ کی رحمت کی بشارت دینے والے اور اُس کے عذاب سے ڈرانے والے آخری رسول (محمد رسول اللہ ﷺ ) آچکے ۔
آیت :27تا31میں آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کا واقعہ بیان ہوا کہ دونوں نے اللہ کی بارگاہ میں قربانی پیش کی ،ایک کی قربانی قبول ہوگئی اور دوسرے کی رَد ہوگئی۔ اُس زمانے کی شریعتوں میں قربانی کی قبولیت کی علامت یہ تھی کہ آسمان سے آگ آتی اور اُسے جلاڈالتی ۔ قابیل،جس کی قربانی رَد ہوگئی ،اُس نے غصے میں اپنے بھائی ہابیل کوقتل کردیا، پھر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:'' اِسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیاکہ جس شخص نے جان کے بدلے کے بغیر(یعنی حقِ قصاص کے بغیر) یازمین میں فساد کے (جرم کے)بغیر کسی انسانی جان کو قتل کیا ،تو گویا اُس نے تمام انسانوں کو قتل کیا اور جس نے (کسی بے قصور) شخص کی جان کو بچادیا توگویا اُس نے تمام انسانوں کو بچالیا‘‘۔اِس سے معلوم ہواکہ انسانی جان کی حُرمت انسانیت کا اجتماعی حق ہے اور ایک بے قصور انسان کو قتل کرنا پوری انسانیت کے تحفظِ جان کے حق کو پامال کرنا ۔
آیت :35میں اہلِ ایمان کو تقویٰ اختیار کرنے اور اللہ کی بارگاہ میں (نجات کا )وسیلہ تلاش کرنے کا حکم دیا ۔آیت:36میں فرمایاکہ کوئی شخص ساری روئے زمین کا مالک ہوجائے اور اتنی ہی دولت اُسے اور مل جائے ،اور وہ یہ سب کچھ اپنی جان کے فدیے کے طورپر دے دے،توپھر بھی قیامت کے دن کافر کی نجات ممکن نہیں ہے ۔آیت:38میں چوری کرنے والے مرد اور عورت کے لئے ہاتھ کاٹنے کی سزاکا حکم ہے ،یہ اُن کے کئے کی سزاہے اور اللہ کی طرف سے دوسرے لوگوں کے لئے درسِ عبرت ہے ۔اِس کے بعد اگر وہ توبہ کرلیںاور اپنی اصلاح کے لئے آمادہ ہوجائیں توا للہ اُنہیں معاف فرمانے والاہے ۔آیت :40میں زمینوں اور آسمانوں کی بادشاہی اور عذاب دینے اور معاف کرنے کی قدرت رب العالمین کا خاصہ بیان فرمائی ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو فرمایاکہ اگر وہ آپ کے پاس کوئی مقدمہ لے کر آئیں تو آپ کو اختیار ہے کہ آپ فیصلہ کریں یا نہ کریں ، لیکن اگر آپ کو فیصلہ کرنا ہو تووہی فیصلہ کریں،جو انصاف پر مبنی ہو ۔اِس کے بعد آیت :44تا47میں بالترتیب فرمایاکہ جو اللہ تعالیٰ کے نازل کئے ہوئے اَحکام کے موافق فیصلہ نہ کریں ،وہ کافر ہیں،ظالم ہیں اور فاسق ہیں۔
آیت:45میں قانونِ قصاص کو بیان کیاکہ جان کا بدلہ جان،آنکھ کا بدلہ آنکھ ،ناک کا بدلہ ناک،کان کا بدلہ کان،دانت کا بدلہ دانت اور اِسی طرح زخموں کا بھی قصاص ہے اور جو خوشدلی سے قصاص دے دے (اور اپنے جرم پر صدقِ دل سے توبہ بھی کرے)تویہ اُس کے گناہ کا کفارہ ہے ۔
آیت :49-50میں بتایا کہ اللہ نے ہر اُمّت کے لئے ایک شریعت اور واضح راہِ عمل مُقرر کی ہے ۔اگر اللہ کی مشیّت ہوتی تو سب کو ایک اُمت ِ اِجابت بنادیتا،لیکن اُس نے اپنے بندوں کو اختیار دیاہے کہ وہ حق یا باطل جس راہِ عمل کو چاہیں اختیار کریں اور اِسی میں نیک وبَد کی آزمائش ہے ۔آیت :51میں بتایاکہ یہود ونصاریٰ کو اپنا دوست نہ بناؤ،مسلمانوں کے مقابلے میں وہ ایک دوسرے کے حامی اور دوست ہیں،لہٰذا جو اُن کی دوستی اختیار کرے گا ،وہ اُنہی میں سے ہوگا ۔
آیت :57میں بتایا کہ اہلِ کتاب میں سے دین کو مذاق بنانے والوں اور کافروں کو دوست نہ بنانا ۔آیت نمبر:60میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: بدترین سزا اُن لوگوں کی ہے ،جن پر اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی،اُن پر غَضب فرمایا،اُنہوںنے شیطان کی عبادت کی اور اُن میں سے بعض کی صورتوں کو مَسخ کرکے بندر اور خنزیر بنادیا ۔
آیت:73سے 80تک نصاریٰ کے عقیدے کی خرابیوں کو بیان کیا کہ وہ تثلیث کے قائل ہیں حالا نکہ اللہ تعالیٰ کی ذات وحدہٗ لاشریک ہے ۔ مسیح ابن مریم اسی طرح ایک رسول ہیں ، جس طرح ان سے پہلے رسول گزر چکے اور ان کی ماں صدیقہ ہیں، وہ (عام انسانوں کی طرح) کھانا کھاتے تھے، تو وہ خدا کیسے ہوسکتے ہیں۔نافرمانیوں،بے اعتدالیوں ،حد سے تجاوز اور نیکی کا حکم نہ دینے اور برائی سے نہ روکنے کی وجہ سے یہود پر حضرت داؤدؑ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ذریعے لعنت کی گئی ۔