چوبیسویں پارے کے مضامین
سورۃ الزمر
اس کے شروع میں اللہ پر جھوٹ باندھنے اور حق کو جھٹلانے والے کو جہنمی قرار دیا گیااور سچے دین کو لے کر آنے والے‘ یعنی رسول اللہﷺ اور اس کی تصدیق کرنے والے (مفسرین نے اس سے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو مراد لیا ہے)کو متقی قرار دیا گیا۔ آیت38 میں بتایاکہ اللہ کی قدرت پر کسی کا بس نہیں چلتا ۔ آیت41میں رسول اللہ ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے آپ پر حق پر مبنی کتاب نازل کی‘ سو جو ہدایت کو اختیار کرے اس کا فائدہ اسی کو پہنچے گا اور جو گمراہی کو اختیار کرے ‘ اس کا وبال اسی پر ہوگا ‘ آپ ان کے ذمے دار نہیں ہیں۔ اگلی آیت میں نیند کو عارضی موت سے تعبیر کیا اور بتایا کہ نیند اور موت میں اتنا ہی فرق ہے کہ موت کی صورت میں بندے کی روح عارضی طور پر نہیں‘بلکہ مدت دراز کیلئے قبض کرلی جاتی ہے ۔ آیت47میں بے پناہ دولت جمع کرنے والوں کو خبردار کیا کہ اگر وہ زمین کی ساری دولت کے مالک بن جائیں اور اس کے برابر اور بھی ان کو مل جائے اور وہ قیامت کے دن یہ سب کچھ دے کر عذاب سے اپنی گردن چھڑانا چاہیںتو بھی ان کی گلو خلاصی نہیں ہوسکے گی۔ آیت53میں گناہگارانِ امت کو بشارت دی گئی کہ ''(اے رسول!) کہہ دیجئے اے میرے وہ بندو جو گناہ کرکے اپنی جانوں پر ظلم کرچکے ہیں ‘ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو ‘ بے شک اللہ تمام گناہوں کو بخش دے گا ‘ یقینا وہ بہت بخشنے والا ‘ بہت مہربان ہے‘‘۔ یعنی جو اللہ کی راہ سے بھٹک چکا ہے ‘ اسے امید دلائی گئی ہے کہ سچی توبہ کے ذریعے واپسی کا راستہ باقی ہے۔ آیت71سے بتایا کہ کافروں کو گروہ در گروہ جہنم کی طرف ہانکا جائے گا اور وہاں ان کا استقبال توہین آمیز انداز میں ہوگا ‘جبکہ اہلِ ایمان کو اکرام کے ساتھ جنت کی طرف لے جایا جائے گا اور وہاں ان کا استقبال اعزاز و اکرام کے ساتھ ہوگا۔
سورۃ المؤمن
آیت02میں اللہ کے بندوں کو ایک بار پھر نویدِ مغفرت دیتے ہوئے فرمایا : ''وہ گناہوں کا بخشنے والا اور توبہ قبول فرمانے والا‘ (سرکشوں کو ) سخت عذاب دینے والاہے اور (نیکو کاروں پر) بڑا احسان فرمانے والا ہے ‘‘۔ آیت07میں فرمایا :''وہ فرشتے جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور جو اس کے گرد ہیں ‘ وہ سب اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہیںاور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور مومنوں کیلئے مغفرت طلب کرتے ہیں ‘(اور کہتے ہیں) اے ہمارے رب! تیری رحمت اور تیرا علم ہر چیز کو محیط ہے ‘ سو جنہوں نے توبہ کی ہے اور تیرے راستے کی اتباع کی ہے ‘ ان کی مغفرت فرما اور ان کو دوزخ کے عذاب سے بچا ‘‘۔اس آیت میں بتایا گیا کہ اللہ کے مقرب فرشتے نا صرف اس کے تائب بندوں کیلئے ‘بلکہ ان کے صالح آبائواجداد ‘ ان کی بیویوں اور ان کی اولاد کیلئے بھی جنت کی دائمی نعمتوں کی دعائیں مانگتے رہتے ہیں ۔ آیت17سے بتایا کہ قیامت کے دن سب کے ساتھ پورا پورا انصاف ہوگا ‘ وہاں ظالموں کا کوئی حمایتی اور سفارشی نہیں ہوگا‘ اللہ خیانت کرنے والی آنکھوں اور سینوں میں چھپے رازوں کو بھی جانتاہے ۔ آیت23سے بتایا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ہم نے اپنی نشانیاں اور روشن معجزے عطا کرکے فرعون ‘ ہامان اور قارون کی طرف بھیجا ‘ تو انہوں نے انہیں (معاذاللہ) جادوگر اور جھوٹا قرار دیا اور اس کے بعد انہی واقعات کا ذکر ہے ‘جو اس سے پہلے بارہا گزر چکے ہیں۔
آیت37سے بتایا کہ فرعون نے ہامان سے سے کہا : میرے لئے ایک بلند عمارت بناؤ‘تاکہ میں آسمانوں کے راستوں تک پہنچوں اور موسیٰ کے خدا کے بارے میں خبر لوں اور میرا گمان تو یہ ہے کہ (معاذاللہ) یہ جھوٹے ہیںاور اسی طرح فرعون کے برے عمل کو اس کے نزدیک خوشنما بنا دیا گیااور( اس کی سرکشی کے سبب)اسے سیدھے راستے سے روک دیا گیا۔ آیت 46میں فرمایا : جس نے برا کام کیا ‘ اس کو صرف اسی کے برابر سزا دی جائے گی اور جس مرد وعورت نے ایمان پر قائم رہتے ہوئے نیک کام کیا ‘ تو وہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے ‘ جہاں انہیں بے حساب رزق عطا کیا جائے گا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا: اور میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتاہوں ‘ بے شک اللہ بندوں کو خوب دیکھنے والا ہے ۔ سو‘ اللہ نے مخالفین کی سازشوں سے انہیں محفوظ رکھا اور فرعونیوں کو بدترین عذاب نے گھیر لیا ‘ انہیں صبح وشام دوزخ کی آگ پر پیش کیا جاتاہے اور جس دن قیامت آئے گی‘ (یہ حکم دیا جائے گاکہ)آلِ فرعون کو شدید ترین عذاب میں ڈال دو۔آیت49میں بتایا کہ جہنمی ‘ جہنم کے داروغوں سے کہیں گے کہ اپنے رب کو بلاؤکہ ہمارے ساتھ عذاب میں ایک دن کی تخفیف کردے ‘ جہنم کا محافظ عملہ ان سے کہے گا کہ کیا دنیا میں تمہارے پاس رسول نشانیاں لے کر نہیں آئے تھے‘ وہ اقرار کریں گے ۔آگے چل کر فرمایا کہ قیامت میں ظالموں کی عذر خواہی ان کے کوئی کام نہیں آئے گی‘ ان کے لئے لعنت ہے اور برا گھر ہے ۔
آیت64سے فرمایا: وہی (ہمیشہ) زندہ رہنے والا ہے ‘ اس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ‘ سو تم اخلاص کے ساتھ اسی کی بندگی کو اختیار کرو۔ آیت77سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: '' بے شک ہم نے آپ سے پہلے بھی بہت رسول بھیجے‘ ہم نے ان میں سے بعض کے واقعات آپ کے سامنے بیان کئے ہیں اور بعض کے واقعات بیان نہیں کئے‘‘ لیکن سورۂ ہود آیت120میں فرمایا: ''ہم آپ کے سامنے تمام رسولوں کی خبریں بیان کررہے ہیں ‘‘ یعنی رسول اللہ ﷺ کو تمام انبیائے کرام کے احوال بتا دیے گئے تھے‘ قرآن میں جن انبیائے کرام کے نام بتا دئیے گئے ہیں ‘ ان پر نام بہ نام ایمان لانا فرض عین ہے اور دیگر انبیائے کرام علیہم السلام پر تعداد کے تعین کے بغیر (یعنی ان کی حقیقی تعداد کو اللہ کے علم کی طرف مفوَّض کرکے ) اجمالی طور پر ایمان لانا فرض ہے۔
سورہ حٰم ٓ السجدۃ
آیت05میں کفار کی انتہائی سرکشی کی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: ''اور انہوں نے کہا : جس دین کی طرف آپ ہمیں بلا رہے ہیں ‘ ہمارے دلوں میں اس پر پردے پڑے ہوئے ہیں اور ہمارے کانوں میں لاٹ ہے اور ہمارے اور آپ کے درمیان حجاب ہے۔ سو‘ آپ اپنے کام سے کام رکھئے اور ہم اپنے ڈھب پر کاربند رہیں گے ‘‘ یعنی وہ کسی بھی طور پر قبولِ حق کے لئے تیار نہیں تھے ۔ آیت 9سے ایک بار پھر اس کائنات کی تخلیق کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کی بے پایاں قدرت وجلالت اور ان کھلی نشانیوں کو دیکھنے کے باوجود منکر قوموں کی سرکشی کا ذکر ہے ۔ آیت15سے قومِ عاد کی سرکشی کا ذکر ہے کہ انہیں اپنی مادی طاقت پر بڑا ناز تھا اور کہتے تھے کہ ہم سے بڑھ کر بھی کوئی زبردست ہے؟ ان کو جواب دیا گیا کہ تم سے بڑا زبردست وہ اللہ ہے‘ جس نے تمہیں پیدا کیا‘ پھر قومِ عاد پر منحوس دنوں میں خوفناک آواز والی آندھی بھیجی اور ان کا نام ونشان مٹا دیا گیا ‘ قومِ ثمود کا انجام بھی بُرا ہوا۔ آیت19سے بیان ہوا کہ قیامت کے دن اللہ کے دشمنوں کو جمع کرکے جہنم کی طرف لے جایا جائے گا ‘ تو جب وہ جہنم تک پہنچیں گے تو ان کے کان ‘ آنکھیں اور جلدیں ان کے خلاف سلطانی گواہ بن جائیں گی ‘ کفار اپنی جلدوں سے کہیں گے : تم نے ہمارے خلاف گواہی کیوں دی؟ (ان کے اعضا) جواب دیں گے: ہمیں اسی اللہ نے قوتِ گویائی عطا کی ‘ جس نے ہر چیز کو بولنا سکھایا اور اسی نے تم کوپہلی بار پیدا کی ا ور اسی کی جانب لوٹائے جاؤ گے۔آیت30سے بتایا کہ ایمان پر ثابت قدم رہنے والے اہلِ ایمان کی روح جب اس دنیا سے پرواز کرے گی تو اس کے استقبال کیلئے فرشتے نازل ہوں گے اور کہیں گے کہ تم نہ کسی آنے والی بات کا خوف کرو اور نہ کسی گزشتہ بات کا رنج وملال اور اس جنت کی بشارت سنو‘ جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا‘ پھر انہیں بتایا جائے گا کہ اللہ غفور اور رحیم نے ان کیلئے جنت میں ضیافت کا اہتمام فرمایا ہے اور وہاں وہ جس نعمت کی بھی خواہش کریں گے‘ انہیں دستیاب ہوگی ۔
آیت 24میں بتایا کہ نیکی اور بدی برابر نہیں ہیں ‘ دوسروں کی بدی کا جواب نیکی سے دو ‘ اس کے نتیجے میں تمہارا مخالف تمہارا سرگرم اور پرجوش دوست بن جائے گا ۔ آیت39سے اللہ تعالیٰ نے حیات بعد الموت کے ثبوت کیلئے مثال دی کہ تم دیکھتے ہو کہ زمین خشک ‘ بنجر اور غیر آباد ہوتی ہے ‘( یعنی بے جان ہوتی ہے )تو ہم اس پر بارش کا پانی نازل کرتے ہیں ‘ جس کے ذریعے وہ سرسبز اور شاداب ہوجاتی ہے۔ پس‘ جو اللہ بے جان زمین میں جان ڈالتاہے‘ وہی آخرت میں مردوں کو زندہ کرے گا۔ آیت نمبر42میں قرآن کی شانِ اعجاز کو بیان کیا کہ اس میں کسی بھی جانب سے باطل کی آمیزش نہیں ہوسکتی‘ یہ سراسر حق ہے ۔ اگلی آیت میں بتایا کہ رسول بھی عربی ہیں اور قرآن بھی عربی ہے (اور سب سے پہلی مخاطَب قوم بھی عربی تھی )‘ اس لئے اسے عربی زبان میں اتارا‘ تاکہ لوگوں کی سمجھ میں آئے ‘ یہ قرآن مومنوں کے لئے ہدایت اور شفا ہے اور کافر جن کے حق میں ہدایت مقدر نہیں ہے ‘ ان کے کان قبولِ حق کے لئے بند ہوجاتے ہیں اور ان کی آنکھیں اندھی بن جاتی ہیں ۔ آخری آیت میں فرمایا کہ ہر شخص کو اس کے نیک عمل کی جزا ملے گی اور برے عمل کی سزا ملے گی اور تمہارا رب اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے ۔