مقبوضہ کشمیر کے مسلمان کئی عشروں سے جدّوجُہدِ آزادی میں مصروف ہیں ‘اُن کی قربانیاں بے پناہ ہیں ‘ کئی تحریکِ آزادی میں اپنی جانیں نچھاور کربیٹھے ‘بوڑھے ماں باپ نے اپنے سامنے اپنے جگر پاروں کی لاشوں کو تڑپتے دیکھا‘دخترانِ ملت نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنا سہاگ اجڑتے دیکھا‘ راہِ حق کے ایسے ہی جانثاروں کے بارے میں ارشاد ہے: ''مومنوں میں سے کچھ ایسے مردانِ (باوفا) ہیں‘ جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کردکھایا ۔سو‘ اُن میں سے بعض وہ ہیں ‘جو اپنی نقدِجاں نذر کرچکے اوراُن میں سے بعض (اپنی باری کے )انتظار میں ہیں اور انہوں نے (اپنے عہد میں)کوئی تبدیلی نہیں کی ‘‘(الاحزاب:23)۔
کئی حسین وجمیل کشمیری نوجوان عین عالَمِ شباب میں معذور ہوگئے ‘ آبروئیں لٹیں ‘روزگار تباہ ہوئے ‘ کئی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں ‘ بھارتی افواج جس بے دردی سے تحریکِ آزادی کو کچل رہی ہے‘ اُن مناظر کو دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے ‘ امتِ مسلمہ کی بے بسی اور بے حسی ہے کہ اس کا سلسلہ ختم ہونے کو نہیں آرہا ۔ایسا ہی مشکل دور رسالت مآبؐ کے جانثاروں کو غزوۂ احزاب میں پیش آیاتھا ‘جب کفر یکجا ہوکرمسلمانوں پر ٹوٹ پڑا ‘ اس کیفیت کو اللہ تعالیٰ نے ان کلمات میں بیان فرمایا: ''(یاد کرو)جب کفار تمہارے اوپر سے اور تمہارے نیچے سے تم پر حملہ آور ہوئے اور جب آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور کلیجے منہ کو آنے لگے تھے اور تم اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے تھے ‘ اس موقع پر مسلمانوں کی آزمائش کی گئی اورانہیں شدت سے جھنجھوڑ دیا گیا ‘‘ (الاحزاب:10-11)۔
اللہ تعالیٰ کی نصرت یقینا نازل ہوتی ہے ‘لیکن اُس سے پہلے اہلِ ایمان کو اپنے حصے کا کام کرنا ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''کیا تم نے یہ گمان کرلیا ہے کہ تم (یونہی)جنت میں داخل ہوجائو گے؛حالانکہ ابھی تم پر ایسی آزمائشیں نہیں آئیں جو تم سے پہلے لوگوں پر آئی تھیں ‘اُن پر آفتیں اور مصیبتیں پہنچیں اورانہیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا گیا یہاں تک کہ (اُس وقت کے)رسول اور اُن کے ساتھ ایمان لانے والے پکار اٹھے :اللہ کی مدد کب آئے گی ؟(تب نوید آئی)سنو! بے شک اللہ کی مدد قریب ہے‘ ‘(البقرہ:214)۔
باری تعالیٰ کی غیبی نصرت کی صورتیںہر دور میں مختلف ہوتی ہیں ‘ غزوۂ احزاب کے موقع پر یہ نصرت تُند وتیز آندھی کی صورت میں نازل ہوئی ‘ کفارِ کے خیمے اکھڑ گئے ‘دیگیں الٹ گئیں ‘اُن کے اونٹ اور گھوڑے رسیاں تڑا کے بھاگنے لگے اور بالآخر وہ ناکام ونامراد واپس لوٹنے پر مجبور ہوگئے ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اے ایمان والو! تم اپنے اوپر اللہ کی اُس نعمت کو یاد کرو ‘جب تم پر کفار کے لشکر حملہ آور ہوئے تو ہم نے اُن پر آندھی اور ایسے لشکر بھیجے‘ جو تمہیں دکھائی نہیں دیے اور اللہ تمہارے کاموں کو خوب دیکھنے والا ہے‘ ‘(الاحزاب:9)۔
آج ہم سفارتی تنہائی کا شکار ہیں ۔امریکاافغانستان جنگ سے شکست کاتاثُّر دیے بغیرنکلنے کے لیے کوئی آبرومندانہ حل چاہتا ہے اور اس کے لیے ہمیں استعمال کرنا چاہتا ہے ‘لیکن ہم پرُ اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ‘ ہمارے مقابلے میں اس کی ترجیح ِاول بھارت ہے ‘کیونکہ چین کی مخالفت امریکا کی خارجہ اور دفاعی حکمت عملی کا بنیادی ستون ہے اور اس مہم میں بھارت اُس کا حلیف ہے۔
امریکا کا کشمیر کی صورتحال میں جو بیان آیا ہے ‘اس کے اہم نکات یہ ہیں: '' ہم صورتِ حال کا جائزہ لے رہے ہیں ‘ بھارتی فیصلے کے وسیع مضمرات ہوں گے ‘ خطے میں عدمِ استحکام میں اضافہ ہوسکتا ہے ‘ انفرادی حقوق کا احترام کیا جائے ‘ متاثرین سے مذاکرات کیے جائیں ‘ گرفتاری کا سلسلہ بند کیا جائے ‘ پابندیوں پر تشویش ہے ‘ قضیے کے تمام فریق پُر امن رہیں ‘ ضبط وتحمل سے کام لیں‘ لائن آف کنٹرول پر امن واستحکام برقرار رکھیں ‘دہشت گردی کی روک تھام کے لیے سخت اقدام کیے جائیں ‘ ہم کشمیر سمیت تمام متنازع مسائل پر پاک بھارت مذاکرات کی حمایت جاری رکھیں گے ‘‘۔امریکا کی سفارتی زبان کے چند لگے بندھے الفاظ ہوتے ہیں : ''تحمل سے کام لیں‘ باہم مذاکرات کریں ‘ہمیں اس پر افسوس ہے ‘ہم اس کی مذمت کرتے ہیں ‘‘۔ سو‘ امریکا نے بھارتی اقدام پر نہ اظہارِ افسوس کیا اور نہ اس کی مذمت کی ‘ نیز پاک وہند تنازع میں جب امریکادہشت گردی کی روک تھام کی بات کرے ‘تو اہلِ نظر سمجھ سکتے ہیں کہ اس کا اشارہ کس طرف ہے۔تحمل سے کام لینے کا مطلب یہ ہے کہ صورتِ حال کو ٹھنڈے دل سے قبول کرلیں ‘ آپس میں مذاکرات کا مطلب یہ ہے کہ ہم سے مداخلت کی کوئی توقع نہ رکھیں۔جنابِ وزیر اعظم عمران خان نے برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن سے ٹیلی فون پر گفتگو کی۔ انہوں نے بھی بھارتی اقدام کی مذمت نہیں کی ۔
او آئی سی یا مسلم ممالک ''یاشیخ !اپنی اپنی دیکھ‘‘ کا مظہرہیں ‘باہمی تعلقات اپنے اپنے قومی مفادات کے تابع ہیں اور جس کے پاس بے پناہ مالی وسائل ہیں ‘وہ دوسروں کو ''برائے خدمت دستیاب ‘‘کے طور پر دیکھتا ہے ۔بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی متنازع اور جداگانہ حیثیت ختم کر کے اُسے اپنے یونین میں ضم کردیا ‘اس کے بارے میں ردِّ عمل دینے کے لیے پاکستانی پارلیمنٹ کا تاثُّرکچھ زیادہ حوصلہ افزا نہ تھا ۔قائدِ حزبِ اختلاف شہباز شریف کے بیان پر ردِّعمل دیتے ہوئے وزیر اعظم جنابِ عمران خان نے کہا: ''اور کیا کروں ‘ جنگ کروں ؟ آپ کوئی متبادل حل بتائیں ‘‘۔
یہ الفاظ اس بات کے عکاس ہیں کہ ہمارے پاس اشک شوئی کے بیانات دینے ‘ کچھ علامتی سفارتی اقدامات کرنے کے سوا کوئی زیادہ آپشن نہیں ہیں ‘ نہ ہم جنگ کا آپشن اختیار کرنے کی پوزیشن میں ہیں اورنہ دنیا ہمارے ساتھ کھڑے ہونے کیلئے تیارہے۔امریکا ‘برطانیہ اور مغرب سے یہی پیغام آرہا ہے : ''پاکستان اور بھارت دونوں تحمل سے کام لیں‘‘ اس کے معنی یہ ہیںکہ پاکستان تبدیل شدہ صورتِ حال کو اپنے اوپر جبر کرکے قبول کرلے۔ اقوامِ متحدہ سے بھی حمایت کی توقع کم ہے اور سلامتی کونسل سے بھی کوئی فیصلہ کُن قرارداد آنے کی توقع نہیں۔
سو ‘ حزبِ اختلاف کا توشہ خانہ بھی اس حوالے سے خالی ہے ‘صرف نمبر گیم ہے۔یہ بھی قیاس کیا جارہا ہے کہ بھارتی اقدام کے حوالے سے اُس کی پس پردہ امریکا کے ساتھ کوئی نہ کوئی مفاہمت موجود تھی ‘ ہماری پیٹھ تھپکنے کے باوجود امریکا نے ہمیں اس سے بے خبر رکھا۔امریکی نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز نے کہا ہے کہ بھارت نے نہ ہمیں اپنے اقدام کی پیشگی اطلاع دی اور نہ مشاورت کی۔واللہ اعلم بالصواب۔
اس وقت پاکستانی سیاست میں حکومت اور حزبِ اختلاف صرف لفاظی کی حد تک ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں‘ جوشِ خطابت کا مظاہرہ کرسکتے ہیں اور ظاہر ہے کہ ایسے حالات میں حکومت دبائو میں ہوتی ہے ‘کیونکہ اقدام کی ذمہ داری اس پر عائد ہوتی ہے ۔ہم ایک عرصے سے متوجہ کر رہے تھے کہ ملک معاشی بحران سے دوچار ہے اور سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام کی منزلِ مراد کو پانا دشوار ہے اور کسی نہ کسی درجے کی سیاسی مفاہمت یاتعلقاتِ کارحزبِ اختلاف سے زیادہ حکومتِ وقت کی ضرورت ہوتی ہے‘ لیکن مقتدرہ نے اس نزاکت کا احساس نہیں کیا اور سیاسی انتشار کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا۔ جنابِ وزیر اعظم کاتو مزاج ہی تصادم کے سانچے میں ڈھلا ہے ‘اُن کے لیے اپنی اُفتادِ طبع کو ترک کر کے ملکی اور ملّی نزاکتوں کا ادراک کرنا اوراپنے آپ کو اُن کے مطابق‘ ڈھالنا کافی دشوار ہے ۔
قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں مندرجہ ذیل سفارتی اور سیاسی اقدامات کا فیصلہ کیا گیا ہے: (۱) ہندوستان سے سفارتی تعلقات کو نچلی سطح پرلانا‘ بھارتی ہائی کمشنر کو واپس بھیجنا اور اپنے نامزد ہائی کمشنر کو روک دینا ‘(۲) تجارتی روابط کو معطل کرنا ‘(۳)14 اگست کو یومِ یکجہتی کشمیر اور بھارتی یومِ آزادی15 اگست کو یومِ سیاہ کے طور پرمنانا‘ (۴)اقوامِ متحدہ ‘ سلامتی کونسل اور بین الاقوامی فورمز پر اس مسئلے کو اٹھانا‘ ظاہر ہے دستیاب حالات میں یہی ہوسکتا ہے۔
حکمتِ عملی مرتّب کرنے کیلئے وزیر اعظم نے آٹھ رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے ‘اس کے مینڈیٹ میں سیاسی ‘ سفارتی اور قانونی پہلوئوں کا جائزہ لینا اور تجاویز مرتب کرنا ہے ۔ اگرپورا سچ بیان کیا جائے‘ تو یہ طعن کیا جاتاہے کہ پست ہمتی اور مایوسی پھیلائی جارہی ہے ‘حُبُّ الوطنی پر شبہ کیا جاتا ہے‘ اگرمحض لفاظی اور شوروغوغا سے فتح کا دروازہ کھلتا ہے ‘تو یہ کارِ خیر میڈیااحسن طریقے سے انجام دے سکتا ہے۔پس‘ سب کو مصلحت پسندی سے کام لینا پڑتا ہے۔حقیقت پسندی کا سامنا کرنا کافی دشوار ہے ‘لیکن جب تک ہم اپنی تحدیدات اور حقائق کا ادراک نہیں کریں گے ‘حالات کا سامنا کرنے اور مقبوضہ کشمیر کے مظلومین کی مدد کرنے کیلئے کوئی قابلِ عمل لائحۂ عمل بنانے میں کامیاب نہیں ہوپائیں گے ۔
اس وقت صرف مظلومینِ کشمیر پرہی نہیں‘پاکستان پر بھی نہایت مشکل وقت ہے اور امت کا تصور اگر کہیں ہے ‘تو اس کیلئے بھی کڑا وقت ہے‘الطاف حسین حالیؔ کے اشعارپر شاعر منور بدایونی کی تضمین ہمارے حسب ِ حال ہے:
چھائی ہوئی عالم پہ قیامت کی گھٹا ہے
بدلی ہوئی دنیا میں زمانے کی ہوا ہے
گردش میں مسلماں ہیں‘ فلک کانپ رہا ہے
غیروں کی شکایت نہیں‘ اپنی ہی خطا ہے
اے خاصہِ خاصانِ رُسُل وقتِ دعا ہے
اُمّت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے
کفار کے نرغے میں ہے اسلام کا عالَم
جو خاص کا عالَم ہے وہی عام کا عالَم
ہو مصر کا‘ اردن کا‘ کہ ہو شام کا عالَم
ہر صاحبِ ایمان کے لب پر یہ صدا ہے
اے خاصہِ خاصانِ رُسُل وقتِ دعا ہے
اُمّت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے