برطانیہ کے حالیہ دورے کے موقع پر جامعہ قادریہ ٹرسٹ برمنگھم میں حاضری کا موقع ملا ۔یہ ادارہ علامہ صاحبزادہ طیب الرحمن اور ان کے رُفقاء نے قائم کیا ہے ‘اس میں پاکستانی مسلمانوں کی مختلف دینی وسیاسی تنظیموں کے قائدین ‘مختلف مکاتبِ فکر کے علماء اور اہلِ فکر ونظر سے خطاب کا موقع ملا۔ظاہر ہے کہ ان دنوں ہر جگہ گفتگو کا مرکز ومحور مقبوضہ کشمیر کے حالات ہیں۔ میں عام مجالس میں دینی مدارس کے علاوہ پاکستان کے داخلی معاملات پر گفتگو سے گریز کرتا ہوں ؛البتہ نجی محفلوں میں تبادلۂ خیال ہوتا رہتا ہے ۔
میں نے انہیں مشورہ دیا: آپ اپنے گردوپیش کے حالات سے باخبر رہا کریں ۔ عام طور پر اقلیت کواندیشہ ہوتا ہے کہ اکثریت میں اس کا تشخص ‘اَقدار اور شناخت گم یا مسخ ہوجائے گی ۔سو‘ اس حوالے سے اقلیتیں حساس رہتی ہیں ‘جبکہ اکثریت کو ایسا کوئی اندیشہ لاحق نہیں ہوتا ‘لیکن میں نے برطانیہ کے مختلف اداروں کے دوتین ریسرچ پیپرپڑھے ‘ان میں وہ اس بارے میں متفکر دکھائی دیے کہ مسلمانوں سے اُن کی تہذیب اور کلچر کو خطرات لاحق ہیں ‘ میرے لیے یہ بات حیرت کا سبب بنی ‘لہٰذا میں نے ان کومشورہ دیا کہ مسلمانوں کے اہلِ فکر ونظر اس بارے میں سوچ بچار کریں کہ اقلیت ہونے کے باوجود اکثریت کو مسلمانوں کے بارے میں ایسی حساسیت کیوں پائی جاتی ہے ۔
ایک سبب تو سمجھ میں آتا ہے کہ افریقہ ‘ مشرقِ بعید اوربعض ممالک؛ حتیٰ کہ عالمِ عرب کے لوگ بھی مساجد کے علاوہ وہاں کا عمومی لباس استعمال کرتے ہیں ‘ویسی ہی وضع قطع اختیار کرتے ہیں‘ جبکہ پاک وہند اور افغانستان کے مسلمان ڈیوٹی کے اوقات کے علاوہ بالعموم اپنی وضع قطع ‘لباس اور شناخت برقرار رکھتے ہیں ‘نیز اشیائے خوراک کے حوالے سے بھی محتاط رہتے ہیں ‘ جبکہ عرب ممالک کے مسلمان اس سلسلے میں کافی آزاد واقع ہوئے ہیں ‘وہ اس آیت سے استدلال کرتے ہیں: ''اور اہلِ کتاب کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے‘‘ (المائدہ:5)۔اس کے تحت مفسرین نے لکھا ہے:اہلِ کتاب سے مراد وہ لوگ ہیں‘ جن کاکسی الہامی کتاب پر ایمان ہو‘ اللہ کے نام پر حلال جانور کو ذبح کریں تو اُس کا گوشت کھانا حلال ہے۔موجودہ صورتِ حال یہ ہے کہ یہودی ذبیحہ کرتے ہیں‘ اُسے Kosherکہاجاتا ہے‘جبکہ آج کے نصاریٰ کے ہاں ماکولات ومشروبات میں حرام کا کوئی تصور باقی نہیں رہا۔سو‘ یہودی اہلِ کتاب اگر اللہ کے نام پر ذبح کریں تو قرآنِ کریم کی رو سے وہ حلال ہے ۔
آج کل برطانیہ میں سب سے اہم مسئلہ بریگزٹ‘ یعنی یورپین یونین سے برطانیہ کے خروج کا ہے۔23جون2016ء کو برطانیہ میں یورپین یونین سے خروج کی بابت قومی سطح پر ریفرنڈم کیا گیا اور تقریباًباون فیصد رائے دہندگان نے یونین سے خروج کے حق میں ووٹ دیا ‘پھر وہاں کی سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں 26جون2018ء کواس کی پارلیمنٹ نے منظوری دی اوریہ ایکٹ بن گیا۔ اب‘ حکومت اس پر عمل درآمدکی پابند ہے‘ تاوقتیکہ پارلیمنٹ اپنے فیصلے کو منسوخ نہ کرے۔واضح رہے کہ 11فروری کو میں بریگزٹ پر کالم لکھا چکا ہوں۔
بریگزٹ برطانیہ کے لیے ''وزیر اعظم خور‘‘بن گیا۔اس کا وعدہ ڈیوڈ کیمرون نے 2016ء کی انتخابی مہم میں کیا تھا‘ تاکہ علیحدگی پسندوں کوبے اثر بنایا جاسکے ‘الیکشن انہوں نے بھاری اکثریت سے جیتا اور پھر حسبِ وعدہ انہیں ریفرنڈم کرانا پڑا۔ریفرنڈم کو انہوں نے سنجیدگی سے نہیں لیا اور عوام کو یورپین یونین چھوڑنے کے طریقۂ کار اور مابعد اثرات سے آگاہ نہیں کیا گیا۔عوام نے یورپین یونین چھوڑنے کے حق میں ووٹ دیا اور ڈیوڈ کیمرون ‘ جویورپین یونین میں شامل رہنے کے حامی تھے‘نے وزارتِ عظمیٰ سے یہ کہتے ہوئے استعفیٰ دیا : ''نئی قیادت آکر بریگزٹ کے عمل کو مکمل کرے ‘‘۔ اس کے بعد ٹِرسامے وزیر اعظم بنیں ‘ انہوں نے 8جون2017ء کو تازہ مینڈیٹ لینے کے لیے انتخابات کرائے ‘ لیکن اکثریت میں کمی آئی ‘پھرانہوں نے یورپین یونین کے ساتھ بریگزٹ کا مکالمہ شروع کیا اور بالآخر ایک ''بریگزٹ ڈیل ‘‘کرنے میں کامیاب ہوئیں ‘لیکن پارلیمنٹ سے بار بار کی کوششوں کے باوجود توثیق نہ کراسکیں‘ کیونکہ نارتھ آئرلینڈ کے بیک سٹاپ کا مسئلہ اُن کے لیے پائوں کی زنجیر بن گیااورنوڈیل بریگزٹ کو بھی پارلیمنٹ نے رد کردیا ‘اس عمل میں انہیں اپنی پارٹی کے کئی ساتھیوں سے محروم ہونا پڑا‘بالآخر وہ ناکام ہوکر اشکبار آنکھوں کے ساتھ وزارتِ عظمیٰ سے مستعفی ہوگئیں‘ پھر بورس جانسن نے پارٹی لیڈر منتخب ہونے کے بعد وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھایااور پارلیمنٹ کو پانچ ہفتوں کے لیے معطل کرتے ہوئے برملا اعلان کیا کہ 31اکتوبر تک یورپین یونین کو چھوڑ دینا ہے‘ خواہ نوڈیل پر ہی چھوڑنا پڑے۔انہوں نے نئے الیکشن کرانے کی بھی سرتوڑ کوشش کی ‘ لیکن پارلیمنٹ نے اُن کے پائوں میں بھی بیڑیاں ڈال دیں اور دوقراردادیں پاس کیں :(۱) نوڈیل بریگزٹ نہیں ہوگا ‘(۲) بریگزٹ ڈیل کے بغیر نئے الیکشن منعقد نہیں کیے جاسکیں گے۔ الغرض بریگزٹ دو برطانوی وزرائے اعظم کو ہضم کرچکا اور تیسرا اُس کے شکنجے میں ہے ‘ دیکھیے ان کا انجام کیا ہوتا ہے۔ یہ حالیہ برطانوی تاریخ کا سب سے مشکل مرحلہ ہے ۔ماضی میں کہا جاتا تھا: ''برطانوی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا‘‘لیکن آج برطانیہ تماشا گاہِ عالَم بنا ہوا ہے۔ علامہ اقبالؔ نے کہا تھا: ''حذَر اے چِیرہ دستاں!سخت ہیں فطرت کی تعزیریں‘‘۔
برطانیہ میں میرے میزبان علامہ غلام ربانی نہایت باصلاحیت جواں عمر عالم دین ہیں۔اُردو کے پرشُکُوہ خطیب ہیں‘ انگریزی اور عربی میں بھی انہیں مہارت ہے‘وہ جماعتِ اہلسنت برطانیہ کے ترجمان ہیں ‘مختلف فورمز پر علمائے اہلسنت کی مؤثر نمائندگی کرتے ہیں ۔ اُن کے دومراکز لندن مانچسٹر میں قائم ہیں‘ نئی نسل کے ساتھ اُن کا تعامُل اچھا ہے ‘ آج کل مغربی ممالک میں ایسے ہی علماء کی ضرورت ہے۔ علامہ غلام ربانی درس وتدریس کا کام بھی کرتے ہیں ‘ اُن کے تربیت یافتہ نوجوان علماء بعض اسلامی مراکز میں خدمات بھی انجام دے رہے ہیں ۔ علامہ صاحب بین المذاہب مکالمے منعقد کرواتے ہیں ‘ پاکستانی نژاد اور برطانوی سفید فام پارلیمنٹیرین کے ساتھ اُن کا تعامُل اچھاہے اوریہ وقت کی ضرورت ہے۔میری موجودگی میں اُن کے پاس تقریباًبائیس افراد پر مشتمل ایک ملائیشین گروپ اپنے قائد شیخ قاسم کی سربراہی میں آیا اور تقریباً ایک ہفتے وہاں قیام کیا‘ اسی طرح کوسووو سے زُمَر الصالحی اورامریکا سے علامہ ابن عابدین شامی کے پوتے عزیز عابدین تشریف لائے۔علامہ ربانی کراچی کے بزرگ عالم دین علامہ غلام دستگیر افغانی کے صاحبزادے ہیں ۔اس سفر میں ہمارے ادارے کے پرعزم اور جوان فاضل علامہ نصیر اللہ نقشبندی نے بھی بہت رفاقت دی ‘وہ بولٹن میں ایک مرکز میں خدمات انجام دے رہے ہیں ‘ اہلسنت وجماعت کی دینی اور تنظیمی سرگرمیوں میں فعال رہتے ہیں ‘وہ ہمارے لیے رابطے کا بہترین ذریعہ ہیںاور ہر ایک کے ساتھ نہایت اخلاص کے ساتھ پیش آتے ہیں ۔
اس سفر کے دوران بریڈفورڈ میں المرکز الاسلامی کے دورے کا موقع ملا ‘اس مرکز کے بانی اور سربراہ علامہ حسن رضا ہیں‘ جن کا ہری پور کے ایک قدیم علمی خانوادے سے تعلق ہے ‘اُن کے جدِّ اعلیٰ علامہ قاضی عبدالسبحان کھلابٹی اپنے عہد کے نہایت ممتاز عالمِ دین تھے ‘علمی حلقوں میں اُن کا بہت شُہرہ تھا ‘ اُن کے صاحبزادے اورعلامہ حسن رضا کے والدِ ماجدعلامہ قاضی سیف الرحمن بھی ممتاز اور معمّرعالمِ دین ہیں ۔مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ اس ادارے میں چھ سو مقامی طلبہ زیرِ تعلیم ہیں ‘ان میں اکثریت جدید تعلیم یافتہ حضرات کی ہے اور ذریعۂ تعلیم انگریزی ہے‘ برطانیہ کے اعتبار سے یہ تعدادنہایت حوصلہ افزا ہے۔
بریڈفورڈ میں ایک اور نیا ادارہ ''سنی کالج‘‘ دیکھنے کا موقع ملا‘ جو ابتدائی مراحل میں ہے؛ البتہ اس کے بانی جناب عمران چودھری جواں عمر ہیں اورانہوں نے انگریزی میں ابتدائی نصابی کتب اور ترجمۂ قرآن کی اشاعت کا اہتمام کیا ہے۔اسی سفر کے دوران برمنگھم میں مشہور خطیب اوررومیِ کشمیر میاں محمد بخش کے کلام کے حافظ علامہ غلام رسول چکسواری رحمہ اللہ تعالیٰ کے عرس میں شرکت کا موقع ملا۔ انہوں نے جامع مسجد مجدد الف ثانی قائم کی تھی اور اس میں اُن کے صاحبزادے جنابِ حافظ محمد سعید مکی خدمات انجام دے رہے ہیں‘ یہ بھی کافی بیدار مغز اور باصلاحیت ہیں۔ اس سفر کے دوران جماعتِ اہلسنت برطانیہ کے سرپرستِ اعلیٰ علامہ مفتی گل رحمن قادری اور علامہ خلیل حقانی کی عیادت اور علامہ نثار بیگ مرحوم کی تعزیت کا موقع ملا۔
میرے ایک عزیز اور جواں عمر عالم مولانا قاری منظور شاکر صاحب اولڈھم میں ایک ادارہ چلا رہے ہیں۔انہوں نے طالبات کے لیے ایک سکول بھی قائم کیا ہے‘ تاکہ جو لوگ مخلوط نظامِ تعلیم کی خرابیوں سے بچاکر اپنی بچیوں کو دینی ماحول میں جدید تعلیم دینا چاہتے ہیں ‘اُن کے لیے ایک مناسب متبادل میسر ہو‘ اس کی ہر شہر میں ضرورت ہے اور علماء کو ایسے اداروں کی طرف لوگوں کو راغب کرنا چاہیے۔ میرے بھتیجے ڈاکٹر نعیم الرحمن بھی مانچسٹر کے قریب میڈیکل کی پروفیشنل ڈگری کے لیے جاب کر رہے ہیں ‘ اُن کی حال ہی میں شادی ہوئی ہے اور ان کی بیگم بھی ڈاکٹر ہیں اور اعلیٰ تعلیم کے لیے وہاں جاچکی ہیں‘ ان سے بھی ملاقات کا موقع ملا۔ لندن ہی میں ایک پرعزم ملک حبیب الرحمن اور علامہ جمشید احمدسعیدی نے ایک نیا مرکز قائم کیا ہے ‘اس میں بھی ایک پروگرام میں شرکت کا موقع ملا ‘ اسی طرح اِلفورڈاسلامک سنٹرکی جامع مسجد میں عاشورۂ محرم کے حوالے سے جلسے میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی۔اسی دوران جناب عبدالرزاق ساجد کی دعوت پر ''المصطفیٰ ٹرسٹ ‘‘ہنسلو لندن میںحاضری کا موقع ملا ۔یہ ادارہ محترم حاجی حنیف طیب کے ادارے ''المصطفیٰ ویلفیئر ایسوسی ایشن‘‘کے اشتراک کے ساتھ انسانی خدمات بطورِ خاص میڈیکل کے شعبے میں اچھا کام کر رہا ہے۔
میں نے برطانیہ کے علماء کو مشورہ دیا : ''ساراوقت سوشل میڈیا پر ضائع نہ کریں ‘تجربے میں آیا ہے کہ اس کے نقصانات اس کے فوائد سے زیادہ ہیں‘ مطالعے کی عادت ڈالیں ‘ سہل پسندی سے اجتناب کریں ‘ مغرب میں اسلام اور مسلمانوں کو جو چیلنج درپیش ہیں ‘ ان کا صحیح ادراک کریں اور دلیل واستدلال کے ساتھ ان کا سامنا کریں ‘ نوجوانوں کے ساتھ رابطہ رکھیں‘ مذہب کے بارے میں ان کے ذہنی اشکالات کا تسلّی بخش جواب دینا آپ کی دینی ذمے داری ہے ۔ حسّاس مسائل پر عجلت میں ایسے فتوے صادر نہ کریں‘جن کا دفاع مشکل ہوجائے ‘اہم مسائل پر کوئی فتویٰ صادر کرنا یا موقف دینا ہو تواصحابِ فتویٰ اور اہلِ علم سے مشاورت ضروری ہے۔مغرب کا مقولہ ہے: ''اجتماعی دانش انفرادی دانش سے بہتر ہوتی ہے‘‘میری مراد اس دانش سے ہے ‘جو عقلِ سلیم کا فکری نتیجہ ہو‘عقلِ عیّار سے گریز کیا جائے ‘ عقلِ سلیم خداداد نعمت ہے۔