نظامِ عدل میں حقوق کی حفاظت کا مدار اعترافِ جرم یا شہادت پر ہے ‘لہٰذا اسلام نے شہادت کے بارے میں اصول وضع فرمائے: (۱)شہادت میںجانبداری یا ہیر پھیر نہیں ہونا چاہیے: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اے ایمان والو! انصاف پر مضبوطی سے قائم رہنے والے اور اللہ کے لیے گواہی دینے والے بن جائو‘ خواہ (یہ گواہی)تمہارے اپنے خلاف یا تمہارے والدین اورقریبی رشتے داروں کے خلاف ہو‘ (فریق معاملہ) خواہ امیر ہو یاغریب‘ اللہ تم سے زیادہ ان کا خیر خواہ ہے۔ پس‘ تم خواہش کی پیروی کرکے عدل سے روگردانی نہ کرو‘ اگر تم نے گواہی میں ہیر پھیر کیا یا اعراض کیا تو اللہ تمہارے سب کاموں کی خبر رکھنے والا ہے‘‘ (النساء:135)۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: نبی ﷺ کے زمانے میں فتحِ مکہ کے موقع پر قریش کی ایک عورت نے چوری کی ‘ قریش کو(اپنی رسوائی کی) فکر لاحق ہوئی تو انہوں نے کہا: کوئی ہے جو اس معاملے میں رسول کریم ﷺ سے سفارش کرے‘ سب نے کہا: رسول اللہ کے نازنین اسامہ بن زید کے سوا یہ کام کوئی نہیں کرسکتا ‘ اس عورت کو رسول اللہ ﷺ کے پاس لایا گیا ‘ اسامہ بن زید نے اس کی سفارش کی‘ تو رسول اللہ ﷺ کے چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا اور آپ نے فرمایا:کیا تم اللہ کی حدود میں سفارش کرتے ہو‘ اسامہ نے عرض کی: یارسول اللہ! مجھے معاف فرمادیجیے!پس ‘جب شام کا وقت آیا تو آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کے بعد فرمایا: تم سے پہلی قومیں اس لیے ہلاک ہوئیں کہ جب اُن میں سے کوئی معزز شخص چوری کرتا تو اُسے چھوڑ دیتے اور جب کوئی نچلے طبقے کا آدمی چوری کرتا تو اس پر حد قائم کرتے‘ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے‘ اگر (بفرضِ مُحال) فاطمہ بنتِ محمد بھی چوری کرتیں تو میں ضرور اس کا ہاتھ کاٹ دیتا‘پھر آپ نے حکم فرمایا اور اس عورت کا ہاتھ کاٹ دیا گیا‘‘ (مسلم:1688)۔
(۲)گواہی دینے سے گریز نہیں کرنا چاہیے: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اور جب گواہوں کوگواہی کے لیے بلایا جائے تو وہ انکار نہ کریں ‘‘ (البقرہ:282)۔
(۳)گواہی کو چھپانا گناہ ہے: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اور تم گواہی کو نہ چھپائواور جو شخص گواہی کو چھپاتا ہے تو اس کا دل گناہگار ہے‘‘ (البقرہ:283)۔
(۴)حاکمِ وقت یا قاضی کو مثال بننا چاہیے: (الف)''حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:ایک شخص (کا رسول اللہ! کے ذمے ایک اونٹ ادھارتھا) نے آپ ﷺ سے قرض کے تقاضے میں سختی کی ‘ آپ کے اصحاب نے (اس کو ڈانٹنے یا مارنے کا) ارادہ کیاتو آپ ﷺنے فرمایا: اس کو چھوڑ دو‘ کیونکہ حقدار کو بات کہنے کی گنجائش ہوتی ہے ۔بس‘ ایک اونٹ خرید کراسے دے دو‘ صحابہ نے عرض کی: ہمیں (اس وقت )صرف اس سے زیادہ عمر والا اونٹ دستیاب ہے‘ آپ ﷺنے فرمایا: وہی خرید کر اس کودے دو‘ کیونکہ تم میں بہترین شخص وہ ہے جو قرض کو اچھے طریقے سے اداکرے‘‘ (بخاری:2390)۔ (ب) ''غزوۂ بدر کے موقع پر رسول کریم ﷺ کے ہاتھ میں نیزہ تھا ‘ آپ مجاہدین کی صفیں درست فرمارہے تھے ‘ سواد بن غَزِیَّہ صف سے آگے نکلے ہوئے تھے ‘ رسول اللہ ﷺ نے انہیں متوجہ کرنے کے لیے نیزے سے ٹہوکا دیا اور فرمایا: سواد !سیدھے ہوجائو‘ انہوں نے عرض کی: یارسول اللہ! مجھے تکلیف پہنچی ہے اور اللہ نے آپ کو عدل پر مامور کر کے بھیجا ہے‘ مجھے قصاص چاہیے‘ رسول اللہ! نے فرمایا: (میں حاضر ہوں )قصاص لے لو‘ سواد نے عرض کی: جب آپ نے مجھے ٹہوکا دیا تھا تو میرے بدن پر قمیص نہیں تھی۔ رسول اللہ ! نے اپنا کپڑا اٹھایا اور فرمایا: قصاص لو‘ اس پر سواد نے آپ ﷺ کو گلے لگایا ‘ آپ کے جسمِ مبارک پر بوسا دیااور عرض کی: یارسول اللہ! میرا مقصد تو فقط یہی تھا(کہ آپ کے بدن ِ مبارک سے میرا بدن مَس ہوجائے)‘ آپ ﷺ نے فرمایا: سواد! تمہیں اس پر کس چیز نے برانگیختہ کیا؟انہوں نے عرض کی: یارسول اللہ! آپ کو تو معلوم ہے کہ ہم میدانِ جہاد میں کھڑے ہیں اور موت بھی نگاہوں کے سامنے ہے تو میں نے چاہا کہ زندگی کے آخری لمحات میں میرا بدن آپ کے بدن سے چھو جائے(اس کی برکت سے مجھے جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی)‘ پھر رسول اللہ نے اُن کے لیے خیر کی دعا فرمائی‘‘ (الجامع الصحیح للسنن والمسانید‘ ج:14ص:421)۔
مقامِ غور ہے کہ آج کی مہذب اور متمدن دنیا میں بھی حالتِ جنگ میں بنیادی حقوق معطل ہوجاتے ہیں‘ لیکن حالت ِ جنگ تو درکنار ‘ عین میدانِ جنگ میں آپ ﷺ نے اللہ کا نبی ‘مسلمانوں کا حاکم اور سپہ سالار ہوتے ہوئے بھی اپنے لیے استثنا نہیں رکھا ‘بلکہ اپنے آپ کو قصاص کے لیے پیش فرمایا ‘ عالمِ انسانیت میں اس طرح کی کوئی دوسری مثال شاید ہی مل سکے۔
(۵)ذاتی رنجش کی بنا پر نا انصافی کی ممانعت : ہمارا طریقہ کار یہ ہے کہ اگر کسی سے ذاتی عناد ہے‘ تو انتقام میں حد سے گزر جاتے ہیں اور انصاف کا خون ہوجاتا ہے‘جبکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اے ایمان والو! اللہ کے لیے (حق پر) مضبوطی سے قائم رہنے والے ہوجائو‘ درآں حالیکہ تم انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے ہو‘ کسی قوم کی عداوت تمہیں بے انصافی پر نہ ابھارے ‘تم عدل کرتے رہو‘ یہی شعار خوف خدا کے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو‘ بے شک اللہ تمہارے کاموں سے خوب باخبر ہے‘ ‘ (المائدہ:8)۔
(۶) قاضی کا فیصلہ حقیقت کو نہیں بدلتا: دنیا کے ہر نظامِ عدل کی طرح اسلام میں بھی قاضی کا فیصلہ قانونی طور پر اور دنیاوی احکام کے اعتبار سے نافذ ہوجاتا ہے ‘لیکن وہ حقیقت کو نہیں بدلتا‘جبکہ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں فیصلہ حقائق پرہوگا۔
حدیث پاک میں ہے: ''ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: رسول اللہ ‘نے فرمایا: تم میرے پاس اپنے مقدمات لے کر آتے ہو‘شاید تم میں سے کوئی زیادہ (چرب زبان اور )حجت باز ہواور(بالفرض) اس کے دلائل سن کرمیں اس کے بھائی (یعنی فریقِ مخالف) کے حق میں سے اُسے کوئی چیز دے دوں تو وہ اُسے نہ لے‘ کیونکہ میں اُسے آگ کا ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں‘ ‘(صحیح مسلم:1713)۔
رسول کریم ﷺنے یہاں عدلِ اسلامی کا ضابطہ بیان فرمایا ہے۔آپ ﷺکو تو اللہ تعالیٰ حقائقِ اشیاء پر مطلع فرمادیتا تھا‘ لیکن عام قاضی ظاہر پر فیصلہ کرتا ہے اور اس سے غلطی کا امکان ہر وقت رہتا ہے‘ لہٰذا آپ ﷺ نے فرمایا: قاضی کے فیصلے میں خطا حقائق کو تبدیل نہیں کرتی اوراگر قاضی کسی کے حق میں ایسی چیز کا فیصلہ دے دے‘ جو درحقیقت اس کی نہیں ہے‘ تواُسے نہ لے ‘اگر لیتا ہے تو سمجھ لے کہ وہ جہنم کی آگ کا ٹکڑا لے رہا ہے۔
غزوۂ تبوک سے کئی لوگ پیچھے رہ گئے تھے ‘ قرآنِ کریم نے انہیں ''مُخَلَّفِیْن‘‘ سے تعبیر کیا ہے‘ رسول کریم ﷺ کا معمول تھا کہ جب آپ سفر سے واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے مسجد نبوی میں جاتے ‘ دو رکعت نفل ادا کرتے‘ اہلِ شہر کے حالات معلوم کرتے ‘ پھر خانۂ اقدس میں تشریف لے جاتے۔اسّی کے لگ بھگ افراد غزوۂ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے ‘چند مُخلص صحابۂ کرام کے سوا اُن میں اکثریت منافقین کی تھی ‘ان کا حال قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے سورۂ توبہ میں تفصیل سے بیان فرمایا ہے کہ یہ قسمیں کھاکر آپ کے سامنے جھوٹے عذر پیش کریں گے‘ آپ ان سے رُخ پھیر لیں ‘آپ ان سے راضی بھی ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ فاسقوں سے ہرگز راضی نہیں ہوگا‘ صحیح بخاری کی طویل حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اُن کے ظاہری عذروں کو قبول فرمالیا اور اُن کے باطن کا معاملہ اللہ کے سپرد کرلیا‘‘(بخاری:4418)۔
(۷) میرٹ کو کسی قیمت پر نظر انداز نہیں کرنا چاہیے:صحیح البخاری کی روایات میں ہے: رسول کریم ﷺ کو پانی ملاکر بکری کا دودھ پیش کیا گیا۔ آپﷺ نے اس سے نوش فرمایا‘ اس وقت ابوبکر صدیقؓ‘ آپﷺ کی دائیں جانب تھے اور ایک اعرابی آپﷺ کی بائیں جانب بیٹھا ہوا تھا‘ حضرت عمر فاروقؓ نے رسول اللہ کو حضرت ابوبکر کی جانب متوجہ کیا ‘ کیونکہ صحابۂ کرام میں وہ فضیلت رکھتے تھے ‘ مگر آپﷺنے فرمایا: دائیں جانب سے شروع کرو!سو‘ آپﷺ نے فضیلت پر اصول کو ترجیح دی اور میرٹ کو قائم رکھا‘ کیونکہ ہر کام کو دائیں جانب سے شروع کرنا آپ کی سنت ہے۔
(۸)قاضی کو مغلوب الغضب ہوکر فیصلہ نہیں کرنا چاہیے: عبدالرحمن بن ابی بکرہ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ''کوئی شخص غصے کی حالت میں دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ نہ کرے‘‘ (مسلم:1717)۔ کیونکہ ہوسکتا ہے کہ غصے کے عالم میں اس سے بے انصافی ہوجائے۔
(۹)شفاف عدل: امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ ایک نصرانی کے مقابل اپنی زِرہ کے مقدمے میں قاضی شریح کی عدالت میں پیش ہوئے۔ قاضی شُریح کو آفتاب نصف النہار کی طرح یقین تھا کہ زِرہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی ہے اور وہ اپنے دعوے میں سچے ہیں ‘لیکن اسلامی قانونِ عدل کے مطابق ان کے پاس گواہ نہیں تھے ‘کیونکہ آپ نے اپنے بیٹے حسن اور غلام قنبر کو بطور گواہ پیش کیا۔ قاضی نے کہا: بیٹے کی گواہی باپ کے حق میں اور غلام کی گواہی آقا کے حق میں معتبر نہیںہے‘ اس لیے اُن کے خلاف فیصلہ دیا ۔یہ منظر دیکھ کر نصرانی حیران ہوگیا کہ مسلمانوں کا خلیفہ ایک غیر مسلم کے مقابل مساوی حیثیت میں عدالت میں پیش ہوا ‘قاضی نے اُس کے خلاف فیصلہ صادر کیا اور انہوں نے اس فیصلے کو خوشدلی سے قبول کیا ۔اس پر نصرانی نے اعترافِ جرم کیا کہ آپ نے یہ زِرہ لشکر کے کسی آدمی سے خریدی تھی اور پھر آپ کے خاکستری اونٹ سے یہ گر گئی اور میں نے اسے اٹھالیا۔مثالی عدل کا یہ منظر دیکھ کر نصرانی ایمان لے آیا ‘ کلمہ ٔ شہادت پڑھا ‘ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے وہ زِرہ اُسے ہبہ کردی اور اس کا دو ہزار درہم وظیفہ مقرر کیا ‘پھر وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہا‘ یہاں تک کہ جنگِ صفین میں جامِ شہادت نوش کیا‘‘(السنن الکبریٰ للبیہقی ‘ج:10ص:136ملخّصاً)۔
نوٹ: یہاں مشابہت صرف خلیفہ کے عدالت میں پیش ہونے کے اعتبار سے ہے ‘ورنہ آج کے حکمرانوں کوحضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہما سے وہ نسبت بھی نہیں جو ذرّے کو آفتاب اور قطرے کو سمندر سے ہے ‘یہ خلفائے کرام خودعدالت میں پیش ہوئے‘ تاکہ ہر ایک کو معلوم ہوجائے کہ قانون کی نظر میں حاکم اور رعایا برابر ہیں۔