"MMC" (space) message & send to 7575

قیامت سے پہلے …(2 )

قیامت سے پہلے انسانی معاشرے میں اللہ کی زمین پر جو خرابیاں پیداہوں گی اور پھیل جائیں گی۔ احادیث مبارکہ کی روشنی میں 23دسمبر کے کالم میں ہم نے اُن کو بیان کیاہے‘ مگر اس عنوان پر احادیثِ مبارکہ بکثرت ہیں ‘اُن میں بعض امور کا تکرار ہے‘اس کی وجہ یہ ہے کہ جیسے ایک خطیب ایک عنوان پر مختلف مجالس میں گفتگو کرے تو ہر مجلس میں کوئی نہ کوئی نئی بات بھی آجاتی ہے اور بعض گزشتہ باتوں کا تکرار بھی ہوتا رہتا ہے اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہر مجلس میں سامعین ایک ہی طرح کے نہیں ہوتے‘ لہٰذا نئے شرکاء کے لیے درجہ بدرجہ تمام باتوں کا ابلاغ دین کی دعوت و حکمت کا تقاضا ہوتا ہے‘اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ 23 سالہ نبوی زندگی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نزولِ وحی اور اپنے حبیبِ مکرم ﷺ کو امورِ غیبیہ عطا کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔ سطورِ ذیل میں ہم چندنئی باتوں کی نشاندہی کر رہے ہیں:۔
(۱)سابق امتوں کی پیروی: آپ ﷺنے فرمایا :''تم ضرور پچھلی امتوںکے طریقوں کی مِن وعَن پیروی کروگے‘ بالشت برابر اور ہاتھ برابر‘ حتیٰ کہ اگر وہ کسی گو ہ کے سوراخ میں داخل ہوئے ہوں گے ‘ تو تُم بھی ان کی پیروی کروگے ‘ ہم نے عرض کی :یا رسول اللہ ﷺ! آپ کی مراد یہود و نصاریٰ ہیں ‘ آپ ﷺنے فرمایا : اور کون‘‘ (صحیح البخاری : 7320) ۔
(۲)وقت سمٹ جائے گا: حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' قیامت اُس وقت تک قائم نہیں ہوگی‘ حتیٰ کہ زمانہ قریب ہوجائے گا‘ سال ایک مہینے کے برابر ہوجائے گا‘ مہینہ ایک ہفتے کے برابر ہوجائے گا‘ ہفتہ ایک دن کے برابر ہوجائے گا‘ دن ایک ساعت کی مانند گزر جائے گااورساعت آگ کی ایک چنگاری کی مانند پلک جھپکنے میں گزر جائے گی‘‘ (سنن ترمذی:2332)۔
وقت کے سمٹائو کی ایک صورت تو یہ ہے کہ وہ فاصلے جو ماضی میں مہینوں اور برسوں میں طے ہوتے تھے‘ اب گھنٹوں میں طے ہورہے ہیں‘ وہ پیغام جسے پہنچانے میں دن ہفتے اور مہینے لگ جاتے تھے ‘ اب لمحوں میں پہنچ جاتے ہیں اور اگر ہم مشرق سے مغرب کی جانب سفر کریں اور عشاء کی نماز کراچی میں پڑھ کر جائیں تواگلے دن کی فجر کی نماز نیو یارک میں جاکر پڑھ سکتے ہیں؛حالانکہ کراچی سے نیو یارک کا فاصلہ کم وبیش بارہ ہزار کلومیٹر ہے ‘لیکن اگر ہم مغرب سے مشرق کی جانب سفر کریں تو معاملہ اس کے برعکس ہوجاتاہے۔
(۳)اقدار بدل جائیں گی: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا(۱): ''قیامت اُس وقت تک قائم نہیں ہوگی‘ حتیٰ کہ زُہد روایت بن جائے گااور ورع وتقویٰ تصنُّع اور بناوٹ‘‘ (حلیۃ الاولیاء‘ج:3ص:119)۔ (۲) ''قیامت اُس وقت تک قائم نہیں ہوگی کہ بے وقوفوں کی اولاد دنیا میں سب سے زیادہ خوش نصیب بن جائیں گے‘‘ (سنن ترمذی:2209)۔ 
(۴) اچانک اموات: حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں: نبیﷺ نے فرمایا: قیامت قائم نہیں ہوگی‘ حتیٰ کہ مساجد کو گزرگاہ بنالیا جائے گااور اچانک موت کے واقعات زیادہ ہونے لگیں گے‘‘ (المعجم الاوسط:4861)۔آج کل بوجوہ ہارٹ اٹیک کے واقعات ماضی کی نسبت زیادہ ہورہے ہیں‘اُس کی وجہ چکنائی سے معمور غذائیں اور مختلف طرح کے کیمیکلز کی وجہ سے جدید دوائیں متضاد اثرات کی حامل ہوجاتی ہیں‘یعنی اگر ایک بیماری کا ازالہ کرتی ہیں‘ تو دوسری بیماری کاسبب بن جاتی ہیں۔ 
(۵) ہم جنس پرستی: طویل حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا: ''قیامت کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ ہم جنس پرستی کا دور دورہ ہوگا‘‘۔ اب‘ تو مغرب میں نسب بھی محفوظ نہیںہیں ‘ ایک حدیث میں فرمایا: ''باندی اپنے آقاکو جنے گی‘‘۔اس کا ایک مظہر یہ ہے کہ مغرب میںنکاح کو مشکل بنادیا گیا ہے اورنئے جوان جوڑے رسمی شادی کے بغیر خواہشات کی تکمیل اور بچے پیدا کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں‘اس لیے دستاویزات میں ماں کا نام ضروری قرار دیا گیا ہے‘ بعض اوقات باپ کا نام معلوم نہیں ہوتا۔ 
(۶)دین پر چلنا دشوارہوجائے گا: اسلام کی رُو سے امت اور انسانیت کی اصلاح مسلمانوں کی اجتماعی ذمے داری اور فرضِ کفایہ ہے‘ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''(اے مسلمانو!)تم بہترین امت ہو جسے تمام لوگوں کے لیے ظاہر کیا گیا ‘ تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘ (آل عمران:110)‘‘۔
پس جب قرآنِ کریم کی یہ آیت سامنے آئی: ''اے ایمان والو!تم اپنی فکر کرو‘ جب تم ہدایت پر ہو تو کسی کی گمراہی سے تمہیں کوئی ضرر نہیں پہنچے گا‘‘ (المائدہ: 105)۔ بعض حساس صحابہ کرام کو اس پر تشویش لاحق ہوئی‘ کیونکہ اس کے ظاہری معنی سے کوئی یہ تاثر لے سکتا تھاکہ دوسروں کا غم پالناچھوڑو‘ بس اپنی فکر کرو ‘جبکہ اسلام تو پوری انسانیت کی اصلاح کو مسلمانوں کی اجتماعی ذمے داری قرار دیتا ہے؛ چنانچہ ابو امیہ شعبانی روایت کرتے ہیں: میں نے ابوثعلبہ خُشَنِی سے مذکورہ بالا آیت کے بارے میں پوچھا: انہوں نے کہا: (مجھے بھی یہ بات کھٹکی تھی )میں نے اس کی بابت رسول اللہ ﷺ سے پوچھا :آپ ﷺ نے فرمایا: (نہیں)‘بلکہ تم لوگوں کونیکی کا حکم دیتے رہو اور برائی سے روکتے رہو‘ہاں! اگرایک ایسا مشکل دورآجائے کہ کمینوں کی اطاعت اورخواہشاتِ نفس کی پیروی کی جانے لگے‘ دنیاترجیحِ اول قرار پائے‘‘ (قرآن وسنت سے بے نیاز ہوکر)ہرشخص اپنی رائے (کو حرفِ آخر سمجھتے ہوئے اُس )پراِترانے لگے اورتم متزلزل ہوجائوتو پھر اپنی فکر کرواور لوگوں کا خیال چھوڑ دو‘کیونکہ اب تمہارے آگے صبر کے دن آنے والے ہیں۔پس مشکل وقت میں صبر کر کے دین پر قائم رہنااس قدر مشکل ہوجائے جیسے آگ کے کھولتے ہوئے انگارے کو مٹھی میں لینا۔پس اُس وقت جو دین پر عمل پیرا رہے گا‘ اُسے پچاس افراد کے برابر ثواب ملے گا‘ صحابہ نے عرض کی: یارسول اللہ! کیااُس دور کے پچاس افراد کے برابر‘ آپ ﷺ نے (صحابہ سے)فرمایا: تمہارے پچاس افراد کے برابر‘‘ (سنن ابودائود: 4341)۔ 
(۷) عیسائیوں کاغلبہ :مستورِد القرشی نے حضرت عمرو بن عاص کی موجودگی میں کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: ''قیامت سے پہلے رومیوں (مسیحیوں) کی کثرت ہوگی ‘اُن سے عمرو نے کہا: تمہیں معلوم ہے کیا کہہ رہے ہو‘ انہوں نے کہا: وہی کہہ رہا ہوں جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے‘ حضرت عمرو نے کہا: اگر تم ٹھیک کہتے ہو‘ تو اُن میں چار خصلتیں ہیں: وہ آزمائش کے وقت سب لوگوں سے زیادہ حلیم ہیں‘ مصیبت کے وقت بہت جلد اس کا تدارک کرتے ہیں‘شکست کھانے کے بعد جلد دوبارہ حملہ کرتے ہیں اور مسکینوں‘ یتیموںاور کمزوروں کے لیے بہتر ہیں ‘پھر آپ ﷺ نے ان کی پانچویں اہم خصلت بھی بیان فرمائی کہ سب سے زیادہ بادشاہوں کو ظلم سے روکنے والے ہیں‘‘ (صحیح مسلم:2898)۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اُخروی نجات کا مدار تو ایمان واعمالِ صالحہ پر ہے‘ لیکن دنیا میں ملّتیں اپنے کرتوتوں کے سبب زوال سے دوچارہوتی ہیں‘آج یہود ونصاریٰ کے غلبے اور مسلمانوں کے زوال کے اسباب ہمارے سامنے ہیں۔
(۸)بارشوں کا بے مصرف ہونا: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قحط یہی نہیں کہ بارش نہ ہو‘ بلکہ یہ بھی قحط ہے کہ خوب بارش ہو اور زمین کوئی چیز نہ اگائے ‘‘ (صحیح مسلم:2904)۔ اس کی ایک صورت مشاہدے میں آتی ہے کہ شدید بارشوں کے سبب بعض اوقات سیلاب آتے ہیں ‘تو سب کچھ بہاکر لے جاتے ہیںاور بارش کے بعد جس خوشحالی کی توقع کی جاتی ہے‘ لوگ اس سے محروم رہ جاتے ہیں۔ 
(۹)علمائے حق کا اٹھ جانا: گزشتہ کالم میں بخاری :85کے حوالے سے قیامت سے پہلے رونما ہونے والے امور میں ایک یہ تھا: ''علمِ(حق) اٹھا لیا جائے گا‘‘‘ اس کی مزید تفصیل اس حدیثِ مبارک میں ہے:۔
''عبداللہ بن عمرو بن العاص نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: بے شک اللہ علم کو ایسے نہیں اٹھائے گا کہ لوگوں کو (محسوس طریقے سے)کوئی چیز اٹھتی ہوئی محسوس ہو‘ بلکہ علمائے حق کے اٹھ جانے سے علم اٹھتا چلا جائے گا؛ حتیٰ کہ جب کوئی عالمِ ربانی باقی نہیں رہے گاتولوگ جاہلوں کو پیشوا بنائیں گے‘ پھر اُن سے مسئلے پوچھے جائیں گے تو وہ جہل پر مبنی فتوے دیں گے‘ پس وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے‘‘ (بخاری:100)۔
حکیم بیان کرتے ہیں:میں نے رسول اللہ ﷺ سے شر کی بابت پوچھا:آپ ﷺ نے تین بار فرمایا: مجھ سے شر کے بارے میں نہ پوچھو‘ خیر کے بارے میں پوچھو‘پھر فرمایا: سب سے بڑی برائی برے علماء اور سب سے بڑی خیر اچھے علماء ہیں‘‘(سنن دارمی:400)۔ کیونکہ لوگ دین کی نسبت سے علماء کی تکریم کرتے ہیں‘ ان کی بات کا اعتبار کرتے ہیں‘سو اُن پر دیگر طبقات کے مقابلے میں زیادہ ذمے داری عائد ہوتی ہے‘ وہ اپنے آپ کو اسلام کے معلّم کے طور پر پیش کرتے ہیں‘لیکن اگروہ اس معیار پر پورے نہیں اترتے تویہی وجہ فساد ہے‘ آپ ﷺ نے علمائے یہود کی بابت فرمایا: ''حضرت عبداللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: پہلے پہل بنی اسرائیل میں خرابی نے اس طرح نفوذ کیاکہ جب ایک شخص دوسرے کو برائی میں مبتلا دیکھتا تو کہتا: کیا کر رہے ہو‘ اللہ سے ڈرو‘ یہ کرتوت چھوڑ دو‘ یہ تمہارے لیے جائز نہیں ہے‘ پھر اگلے دن ملتاتو اسے اُس کام سے نہ روکتابلکہ اس کا ہم نوالہ وہم پیالہ اور ہم نشین بن جاتا‘ پھر جب اُن کے کرتوت اسی طرح ہوتے چلے گئے‘ تو (اس کے وبال کے طور پر)اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو یک دوسرے کے رنگ میں رنگ دیا‘ پھر آپ ﷺ نے المائدہ کی آیات 78تا80تلاوت کرکے فرمایا: ہرگزنہیں! تم ضرور بالضرور نیکی کا حکم دو گے اور برائی سے روکو گے اورتم ضرور ظلم کا راستہ روکو گے اور لوگوں کو حق قبول کرنے پر مجبور کردو گے‘ ‘(ابودائود:4336)۔
قارئین مندرجہ بالا تین آیات کا ترجمہ قرآنِ کریم میں دیکھ لیں۔ 
قیامت سے پہلے رونما ہونے والے واقعات میں ایک بات تکرار کے ساتھ ملتی ہے کہ عزت وذلت کے معیار بدل جائیں گے‘ رذیل لوگ سربراہی کے منصب پر فائز ہوں گے‘ فاسق لوگوں کے ہاتھوں میں زمامِ اقتدار آجائے گی‘ الغرض اختیار واقتدار اور دوسروں کو نقصان پہنچانے کی صلاحیت وجہِ تکریم بن جائے گی۔ 
درحقیقت کسی کی تکریم اور احترام کے جذبات انسان کے دل میں پیدا ہوتے ہیں‘ لیکن بعض اوقات کسی کی تکریم حالات کے جبر کے تحت کی جاتی ہے‘ بندگانِ اغراض جھک جاتے ہیں اور دینی وملّی حمیت سے دستبردار ہوجاتے ہیں۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں