سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مزاج سنتِ رسول اللہ ﷺ کے سانچے میں ڈھلا ہوا تھا۔ ان کا ہر عمل اتباع واطاعتِ رسول کا مظہر تھا‘حدیث پاک میں ہے:''حضرت ابوہریرہ ؓبیان کرتے ہیں:رسول اللہ ﷺ نے پوچھا:تم میں سے آج کس کا روزہ ہے ؟ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کی: میرا‘ پھر فرمایا: تم میں سے آج کس نے جنازے میں شرکت کی؟ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کی: میں نے‘ پھر فرمایا: تم میں سے آج کس نے مسکین کو کھانا کھلایا؟ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کی: میں نے‘ پھر فرمایا:تم میں سے آج کس نے مریض کی عیادت کی؟حضرت ابوبکرؓ نے عرض کی: میں نے‘ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص میں یہ ساری خصلتیں جمع ہوجائیں ‘وہ یقینا جنت میں داخل ہوگا‘ ( مسلم:1028)‘‘۔ زبانِ رسالت مآب ﷺ سے جنت کی بشارت ملنے کے باوجود حضرت ابوبکر صدیقؓ پر ہمیشہ خشیَتِ الٰہی کا اس قدر غلبہ رہتاکہ نماز پڑھتے پڑھتے رونے لگتے ‘ آپ کے اندازِ تلاوت پر بھی خشیتِ الٰہی اس قدر غالب رہتی کہ آپ کی تلاوت کو سن کر کئی لوگوں نے اسلام قبول کیا‘ یہاں تک کہ قریشِ مکہ نے آپ کی عَلانیہ تلاوت پر بھی پابندی لگا دی تھی اور خداخوفی کا عالم یہ تھا کہ حرام لقمہ کھانا تو دور کی بات ‘اگراس کے بارے شک بھی پیدا ہوجاتاتوفوراً قے کرلیتے تاکہ حرام غذا کا کوئی بھی حصہ آپ کا جزوِ بدن نہ بن سکے؛چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: حضرت ابوبکر صدیق ؓکا ایک غلام تھا جو ان کے لیے خَراج نکالتا تھا اور وہ اس کے خراج سے کھاتے تھے‘ ایک دن وہ کوئی چیز لے کر آیا‘ حضرت ابوبکر ؓنے اس سے کھایا‘ تو غلام نے پوچھا: آپ جانتے ہیں یہ کیا چیز تھی(جو آپ نے کھائی ہے)‘ حضرت ابوبکرؓ نے پوچھا: وہ کیا چیز تھی؟اس نے بتایا: میں نے زمانہ جاہلیت میں ایک شخص کوکہانت سے کچھ بتایا تھا‘ حالانکہ مجھے کہانت اچھی طرح نہیں آتی تھی مگر میں نے اس کو دھوکا دیا تھا‘ (آج) وہ مجھ سے ملا تو اس نے مجھے اس کا معاوضہ دیا‘ سو آپ نے اسی (معاوضہ) سے کھایا ہے‘ پھر حضرت ابوبکرؓ نے اپنا ہاتھ (اپنے حلق میں داخل کیا )اور جو کچھ پیٹ میں تھا‘قے کر کے نکال دیا(صحیح البخاری:3842)‘‘۔ آپ کو دنیا اور دنیا کی نعمتوں سے رغبت نہیں تھی‘ آپ کے وصال کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آپ کے پاس تھیں‘ وہ بیان کرتی ہیں: ''حضرت ابوبکرؓنے مجھ سے پوچھا:آپﷺ کو کتنے کپڑوں کا کفن دیا گیا تھا؟ میں نے بتایا: تین کپڑوں میں‘ انہوں نے کہا: جو دو کپڑے میں نے پہنے ہوئے ہوں‘ مجھے انہی دو کپڑوں میں کفنادینا اور ایک نیا کپڑا خرید لینا ‘کیونکہ مردے کی نسبت زندہ کو نئے کپڑے کی زیادہ ضرورت ہے‘ (یہ کپڑے تو پیوندِ خاک ہوجائیں گے) ‘ (صحیح ابن حبان:3036)‘‘۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو نعمتِ مال سے نوازا تھا‘ مگر آپ اس مال کو جمع کرنے کی بجائے راہِ خدا میں خرچ کرتے رہے۔حدیث میں ہے:حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں:نبی ﷺ نے فرمایا:''ہم پر جس کا بھی کوئی احسان ہے اُس کا صلہ ہم نے عطا کردیا ‘سوائے ابوبکر کے‘کیونکہ اُن کے ہم پراتنے احسانات ہیں کہ اُن کا صلہ اللہ تعالیٰ انہیں قیامت کے دن عطا فرمائے گااور مجھے (یعنی دینِ اسلام کو )کسی کے مال نے اتنا نفع نہیں پہنچایا ‘جتنا کہ ابوبکر کے مال نے پہنچایا ہے ۔ اگر مجھے کسی کو دوست بنانا ہوتا تو ابوبکر کو دوست بناتا‘سنو! تمہارے صاحب خلیل اللہ ہیں‘ (سنن ترمذی:3661)‘‘‘ علامہ اقبال نے آپ کی اسی ادا کو اشعار کی صورت میں بیان کیا ہے:
مَنْ شَبے صِدِّیق را دیدم بخواب
گل زِخاکِ راہِ اُو چیدم بخواب
آں اَمَنُّ النَّاس بر مولائے ما
آں کلیمے اوّلِ سینائے ما
ہمت اُو کِشتِ ملّت را چو ابر
ثانیِ اسلام وغار وبدر وقبر
گفتمش اے خاصّۂ خاصانِ عشق
عشقِ تو سِرِّے مَطلعِ دیوانِ عشق
پختہ از دستت اساسِ کارِ ما
چارہ فرمائے آزارِ ما
ترجمہ:'' ایک رات میں نے خواب میں حضرت ابوبکر صدیق ؓکو دیکھا ‘آپ کی خاکِ راہ سے میں نے عالمِ خواب میں چند پھول چُنے ۔حضرت ابوبکر صدیقؓ جو ہمارے آقا ومولا سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ پر سب سے زیادہ احسان کرنے والے اور ہمارے ''کوہِ سینا‘‘ کے پہلے کلیم اور ہمراز ہیں‘(''سینائے ما‘‘ سے مرادغارِ ثورلیا جاسکتا ہے‘ کیونکہ اس موقع پر رسول اللہ ﷺ کے ہمراز وکلیم صرف جنابِ صدیق اکبرؓ تھے )۔اُن کی عزیمت کشتِ ملّت کے لیے ابرِ رحمت کی طرح ہے ‘وہ اسلام قبول کرنے میں اورغارِ ثور ‘غزوۂ بدر اور روضۂ انور میں آپ ﷺکے ثانی ہیں ۔الغرض وہ نبوت کے تئیس سالہ دور میں اور بعد از وصال آپ کے رفیق ہیں ۔میں نے اُن سے عرض کی: اے عشقِ نبوت کے سرخیلوں کے تاجدار!کتابِ عشق کا عنوان اور اُس کا سربستہ راز آپ ہی تو ہیں ۔آپ ہی کے دستِ مبارک سے تاجدارِ نبوت ﷺ کے وصالِ مبارک کے بعد ''خلافت علیٰ منہاجِ النُّبوّۃ‘‘ کی بنیادپڑی ‘آج امت ایک بار پھر مصیبت میں مبتلا ہے ‘ اس مشکل میں آپ ہماری چارہ گری فرمائیے ‘‘۔
حضرت عمر بن خطابؓ بیان کرتے ہیں: ''رسول اللہ ﷺ نے ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا‘ اس دن اتفاق سے میرے پاس مال تھا‘ میں نے دل میں خیال کیا: اگر میں کسی دن حضرت ابوبکرؓ سے(نیکیوں میں) سبقت لے سکتا ہوں تو آج اس کا بہترین موقع ہے ‘پس میں اپنا آدھا مال لے کر آیا تو رسول اللہ ﷺ نے پوچھا: تم نے اپنے گھر والوں کے لیے کیا باقی رکھا ہے‘ حضرت عمرؓ نے عرض کی: میں نے ان کے لیے اتنا ہی مال باقی رکھا ہے اور حضرت ابوبکرؓ کے پاس جتنا مال تھا‘ وہ سب لے کر آگئے‘ آپ نے پوچھا: اے ابوبکر! تم نے اپنے گھر والوں کے لیے کیا باقی رکھا ہے‘ حضرت ابوبکر نے کہا: میں نے ان کے لیے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کو باقی رکھا ہے؟حضرت عمرؓ نے کہا: تب میں نے دل میں کہا: میں حضرت ابوبکرؓ پر کبھی بھی سبقت نہیں لے سکتا‘ (ترمذی:3675)‘‘‘ علامہ اقبال نے کہا ہے:
پروانے کو چراغ ہے‘ بلبل کو پھول بس
صدیق کے لیے ہے‘ خدا کا رسول بس
حضرت ابوبکر صدیقؓ ہمیشہ رسول اللہ ﷺ کی مدافعت میں سینہ سپر رہے :''حضرت عروہ بن زبیرؓ بیان کرتے ہیں:'' میں نے حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے سوال کیا: مشرکین نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سب سے بڑا ظلم کون سا کیا تھا؟ انہوں نے بتایا: نبی ﷺ نماز پڑھ رہے تھے‘ عقبہ بن ابی مُعَیط نے آکر اپنی چادر آپ کے گلے میں ڈال کر آپ کا گلا گھونٹنا شروع کردیا‘ پس بہت شدت سے گلا گھونٹا‘ پھر حضرت ابوبکرؓ آئے اور اس کو دھکا دے کر آپ ﷺ سے دور کیا‘ پھر یہ آیت پڑھی‘ترجمہ: ''کیا تم ایک شخص کو اس لیے قتل کرنا چاہتے ہو کہ وہ کہتے ہیں: میرا رب اللہ ہے‘ حالانکہ یقینا وہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے واضح نشانیاں لے کر آئے ہیں‘ (المومن:28)‘ (صحیح البخاری: 3678)‘‘۔ حضرت عمر ؓکے سامنے حضرت ابوبکرؓ کا ذکر کیا گیا تو وہ رونے لگے اور کہا: میری تمنا ہے کہ میرے تمام (نیک) اعمال حضرت ابوبکرؓ کے اُس ایک دن ایک رات کے عمل برابر ہوجاتے ‘ رات کے عمل سے مراد وہ رات ہے جب آپ رسول اللہﷺ کے ساتھ غار میں گئے ‘جب وہ دونوں غار تک پہنچ گئے تو حضرت ابوبکرؓ نے عرض کی: اللہ کی قسم! آپ غار میں نہ داخل ہوں حتیٰ کہ میں آپ سے پہلے داخل ہوجائوں تاکہ اگر اس میں کوئی ضررناک چیز ہو تواس کا ضررآپ کے بجائے مجھے پہنچے۔ پس حضرت ابوبکرؓ غار میں داخل ہوئے‘ پھر اس کو صاف کیا‘ پھر انہوں نے دیکھا کہ اس کی ایک جانب سوراخ ہے تو انہوں نے اپنے تہبند کو پھاڑ کر اس کے سوراخ کو بند کیااور اس میں دوسوراخ پھر بھی باقی رہ گئے‘ انہوں نے ان سوراخوں پر اپنے دونوں پیر رکھ دیے‘ پھر رسول اللہ ﷺ سے عرض کی: اب آپ تشریف لے آئیں ‘ سو رسول اللہ ﷺ غار میں داخل ہوگئے اور آپ نے اپنا سر ان کی گود میں رکھ دیا‘ پھر اس سوراخ سے (ایک سانپ نے)حضرت ابوبکرؓ کے پیرمیں ڈس دیا۔حضرت ابوبکرؓ (شدید کرب کے باوجود)ہلے بھی نہیں کہ کہیں رسول اللہﷺ کے آرام میں خلل واقع نہ ہو‘ شدتِ تکلیف سے ان کا آنسو رسول اللہ کے چہرۂ انور پر گرا تو آپ ﷺنے پوچھا: ابوبکر! کیا ہوا‘ انہوں نے عرض کی: میرے ماں باپ آپ پرقربان ہوں‘ مجھے سانپ نے ڈس لیا ہے ۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے اپنا لعابِ مبارک( اُن کے پائوں میں )لگایا توان کی تکلیف جاتی رہی ‘ پھر(ایک وقت آیا کہ ) درد لوٹ آیااور وہی زہر ان کی موت کا سبب بن گیا(اس لیے کہا جاتا ہے کہ آپ کو سِرّی شہادت نصیب ہوئی) اور رہی ان کی دن کی نیکی تو جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوگئی اور بعض عرب مرتد ہوگئے اور انہوں نے کہا: ہم زکوٰۃ ادا نہیں کریں گے‘ تو حضرت ابوبکرؓ نے کہا: اگر یہ ایک رسی دینے سے بھی منع کریں تو میں ان کے خلاف جہاد کروں گا‘(حضرت عمر ؓبیان کرتے ہیں:)میں نے کہا: اے رسول اللہ ﷺ کے خلیفہ! لوگوں کے ساتھ نرمی کریں‘ تو انہوں نے مجھ سے کہا: عمر!تم جاہلیت میں سخت تھے اور اسلام میں کمزور ہوگئے ہو‘ بے شک وحی منقطع ہوچکی ہے اور دین مکمل ہوچکا ہے‘ کیا میرے زندہ ہوتے ہوئے دین میں کمی کی جائے گی ‘ (مشکوٰۃ :6034)‘‘۔ '' حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں: حضرت عمر ؓنے کہا: ابوبکرؓ ہمارے سردار ہیں اور ہم سب سے افضل ہیں اور رسول اللہ کے نزدیک ہم سب سے زیادہ محبوب ہیں‘ (ترمذی:3656)‘‘۔ ''حضرت ابوسعید بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بلند درجے والوں کو نچلے درجے والے ایسے دیکھتے ہیں جیسے تم آسمان کے کنارے میں طلوع ہونے والے ستاروں کو دیکھتے ہو اور ابوبکرؓ و عمرؓانہی میں سے ہیں اور بہت اونچے درجے پر فائز ہیں‘ ( ترمذی:3658)‘‘۔ ''حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں:رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے متعلق فرمایا: یہ دونوں اولین اور آخرین میں سے جنت کے ادھیڑ عمر لوگوں کے سردار ہیں ماسوا نبیوں اور رسولوں کے‘ (ترمذی:3665-66)‘‘۔ (جاری ہے)