اَٹھارہویں پارے کے مضامین
مؤمنون
سورہ مؤمنون کی ابتدائی گیارہ آیات تعلیماتِ اسلامی کی جامع ہیں‘ان میں فلاح یافتہ اہلِ ایمان کی یہ صفات بیان کی گئی ہیں؛ نمازوں میں خشوع وخضوع ‘ ہر قسم کی بیہودہ باتوں سے لاتعلقی‘ زکوٰۃ کی ادائیگی ‘ اپنی پاکدامنی کی حفاظت ‘ امانت اور عہد کی پاسداری اور نمازوں کی پابندی۔ آخر میں فرمایا کہ ان صفات کے حامل اہلِ ایمان ہمیشہ جنت میں رہیں گے۔ آیت 13سے انسانی تخلیق کے مدارج کو بیان کیا ‘ یعنی نطفہ ‘ پھر علقہ(جما ہوا خوان)‘ پھر گوشت کا لوتھڑا اور پھر گوشت اور ہڈیوں پر مشتمل جسم کی تشکیل اوراسی کوحیات بعدالموت کی دلیل قراردیا۔ آیت 17سے اللہ تعالیٰ نے ایک بار پھر اپنی قدرت کی نشانیوں کو بیان کیا۔ آیت 33سے بیان ہوا کہ ہود علیہ السلام کی قوم کے کفار ‘ منکرینِ آخرت اور خوشحال لوگوں نے نبی پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ یہ تو ہم جیسے بشر ہیں ‘ عام انسانوں کی طرح کھاتے اور پیتے ہیں اور اپنے جیسے بشر کی اطاعت کرنابڑے خسارے کی بات ہے۔ یہ حیات بعدالموت کا وعدہ کرتے ہیں‘ جو ناقابلِ یقین بات ہے۔ انہوں نے کہا: جو کچھ ہے ‘ اسی دنیا کی زندگی میں ہے‘ مرنے کے بعد کس نے جینا ہے۔ آیت85سے اللہ تعالیٰ نے استفہامی انداز میں بیان فرمایا کہ اگر ان منکرینِ آخرت سے پوچھا جائے کہ زمین اور اس کے خزانوں کا مالک کون ہے ‘ سات آسمانوں اور عرشِ عظیم کا مالک کون ہے ‘ ہر چیز کی بادشاہت کس کے قبضے میں ہے کہ جس کا مقابل کوئی نہیں ‘ توہر سوال کے جواب میں کہیں گے کہ اللہ ‘ توپھر آپ ان سے پوچھئے کہ کیا تم سحر زدہ ہو ‘ یعنی پھر اس مالک الملک پر ایمان کیوں نہیں لاتے ‘ اس کے احکام کو تسلیم کیوں نہیں کرتے ؟
آیت 91سے بیان ہوا کہ اللہ کی کوئی اولاد نہیں‘ اس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ؛ اگر ایسا ہوتا کہ ایک سے زیادہ خدا ہوتے ‘ تو ہر ایک اپنے لشکر کو لے کر دوسر ے پر غلبہ پانے کی کوشش کرتا؛ حالانکہ اللہ وحدہٗ لاشریک کے اقتدار کو چیلنج کرنے والا کوئی نہیں ہے ۔
النور
سورہ نور میں اللہ تعالیٰ نے خانگی اور معاشرتی اَحکام کو بیان فرمایا۔ابتدائی آیات میں زنا کرنے والے (غیر شادی شدہ) مردوعورت کی سزا کوبیان کیا کہ اُن کی سزا سوکوڑے ہے اور (صاحبان اقتدار)اہلِ ایمان کوکہاگیاکہ تمہیں اس سزاکے نفاذ میں اُن پر رحم نہیں آنا چاہیے اور تمہاری ایک جماعت کو اس سزاکے نفاذ کے وقت موجود رہنا چاہیے ۔آیت 5سے بیان کیاگیاکہ جو لوگ پاکدامن عورتوں پر زناکی تہمت لگائیں ‘پھر (اُس کے ثبوت میں) چار گواہ نہ پیش کرسکیں ‘توتم اُن کو 80کوڑے مارو اور اُن کی شہادت کوکبھی بھی قبول نہ کرو اور یہی لوگ فاسق ہیں ۔سوائے اُن لوگوں کے جو اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے توبہ اور اصلاح کرلیں ۔آیت 6سے یہ ضابطہ بیان فرمایا: ''اگرکوئی شخص اپنی بیوی کو زنا کی تہمت لگائے اور اُس کے ثبوت میں چار گواہ نہ پیش کرسکے اور اُس کی بیوی اس تہمت کا انکار کرے ‘ تو فریقین ایک دوسرے پر لِعان کریں ‘ شوہر چار مرتبہ اللہ کی قسم کھاکر یہ کہے : بیشک وہ ضرور سچوں میں سے ہے اور پانچویں بار یہ کہے :اگر وہ جھوٹوں میں سے ہو‘تواُس پر اللہ کی لعنت‘‘۔
اورعورت سے حدِ زنا اس طرح دور ہوسکتی ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھاکر کہے کہ اُس کا خاوند یقینا جھوٹوں میں سے ہے اور پانچویں بار کہے کہ اگر اُس کا خاوند سچوں میں سے ہو تو اُس (عورت) پر اللہ کا غضب نازل ہو ۔آیت 11سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر جو منافقین نے تہمت لگائی تھی ‘اُس کی جانب اشارہ فرمایا اور اُن چیزوں کا سَدِّ باب کیا ‘جو معاشرے کی بگاڑ کا باعث ہوسکتی ہیں اور جن منافقین نے یہ تہمت لگائی تھی ‘ اُن کا پردہ فاش کیا‘ جو مسلمان منافقین کے بچھائے ہوئے حسین جال میں پھنس گئے تھے ‘اُن پر بھی عتاب فرمایا اور اُن کو تنبیہ کی کہ وہ آئندہ ہوشیار رہیں اور منافقین کے کہنے میں نہ آئیں ۔منافق مسلمانوں کی عزت وناموس کو برباد کرنے کے دَر پے ہیں ‘اس لئے مسلمانوں کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ سنی سنائی بات کو آگے بڑھادیں ‘بلکہ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو اپنوں کے متعلق نیک گمان کرنا چاہیے ۔آیت23سے پاکدامن ‘بے خبر‘ ایمان والی عورتوں پر (بدکاری) کی تہمت لگانے والوں کیلئے دنیاوآخرت میں لعنت اور بہت بڑے عذاب کا بیان ہواہے۔ آیت27سے فرمایا کہ مسلمانوں کیلئے ایک دوسرے کے گھروں میں بلااجازت داخل ہونا جائز نہیں اور اجازت لے کر داخل ہونے پر گھروالوں کو سلام کریں اوراگراُن سے کہاجائے کہ لوٹ جاؤ ‘تو اُنہیں واپس چلے جانا چاہیے۔ ہاں !اگر کسی گھر میں لوگوں کی رہائش نہ ہو اور وہاں مسلمانوں کی کوئی چیز ہو‘تو وہاں داخل ہونے میں کوئی حرج نہیں۔(جیسے پبلک مقامات وغیرہ)
آیت39سے کافروں کے اَعمال کی مثال کو اس طرح بیان کیا کہ وہ زمین میں چمکتی ہوئی اُس ریت کی طرح ہیں ‘جس کو پیاسا دُور سے پانی گمان کرتاہے ؛حتیٰ کہ جب وہ اُس کے قریب پہنچتاہے ‘تو کچھ نہیں پاتا اور وہ اللہ کو اپنے قریب پاتاہے‘ جو اُس کو اُس کا پوراحساب چکادیتاہے یا (اُن کے اعمال) گہرے سمندرکی تاریکیوں کے مثل ہیں ‘جن کو تہہ در تہہ موج ڈھانپے ہوئے ہے۔ اُس کی بعض تاریکیاں بعض سے زیادہ ہیں ‘جب کوئی اپنا ہاتھ نکالے تو اُس کو دیکھ نہ سکے اور جس کیلئے اللہ نور نہ بنائے ‘اُس کیلئے کوئی نور نہیں ہے۔ آیت43 سے فرمایاکہ کیاآپ نے نہیں دیکھاکہ اللہ بادلوں کو چلاتاہے ‘پھراُن کو (باہم) جوڑ دیتا ہے‘ پھراُن کو تَہہ دَر تَہہ کردیتاہے ۔پھر آپ دیکھتے ہیں کہ اُن کے درمیان سے بارش ہوتی ہے اور اللہ آسمانوں کی طرف سے پہاڑوں سے اولے نازل فرماتا ہے۔ سو‘وہ جس پر چاہے اُن اولوں کو برسا دیتاہے اورجس سے چاہے اُن کو پھیر دیتا ہے ۔قریب ہے کہ اُس کی بجلی کی چمک آنکھوں کی بینائی کو زائل کردے ۔اللہ دن اور رات کو بدلتارہتاہے ‘بے شک اس میں غور کرنیوالوں کیلئے بڑی نصیحت ہے ۔
آیت55میں اہلِ ایمان کو یہ بشارت دی کہ اللہ تمہیں زمین میں ضرور خلافت عطا فرمائے گا اور ضرور بضرور اس دین کو مُحکم اور مضبوط کردے گا ۔تم نماز قائم کرو ‘زکوٰۃ اداکرواور( اخلاص کے ساتھ) رسول کی اطاعت پر ڈٹے رہو‘ اللہ تمہارے خوف اور پریشانی کو حالتِ امن اور سکون سے بدل دے گا۔ آیت58سے پردے کے اَحکام کی وضاحت فرمائی کہ تمہارے نوکروں اور نابالغ بچوں کیلئے بھی تین اوقات میں اجازت حاصل کرنی ضروری ہے: (1) نمازِ فجر سے پہلے(2) ظہر کے وقت ‘جب تم اپنے (فالتو) کپڑے اتار دیتے ہو (3) عشاء کی نماز کے بعد ۔جب تمہارے لڑکے بلوغت کی عمر کو پہنچ جائیں‘ تواُن کو بھی اجازت طلب کرکے آناچاہیے‘ جیساکہ اُن سے پہلے مرد اجازت طلب کرتے ہیں ۔آیت62میں یہ بیان کیاگیاکہ مومنین صرف وہی ہیں ‘جو اللہ اور اُس کے رسول پر حقیقتاً ایمان رکھتے ہیں اورجب وہ کسی مجتمع ہونے والی مہم میں رسول کے ساتھ ہوتے ہیں ‘تو اُن کی اجازت کے بغیر کہیں نہیں جاتے‘ ایسے ایمان والوں کوضرورت کی بناپر اجازت دینے کیلئے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے سفارش فرمائی ہے۔ آیت 63میں کہاگیاکہ تم رسول ﷺ کے بلانے کو ایساقرار نہ دو ‘جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کو بلاتے ہو اورجولوگ رسولﷺ کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں ‘وہ اس سے ڈریں کہ اُنہیں کوئی مصیبت پہنچ جائے یا اُنہیں کوئی دردناک عذاب پہنچ جائے۔ بے شک اللہ ہی کی ملکیت ہے ‘جوکچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے۔ اللہ کو تمہارے حال کا خوب علم ہے ۔
سورہ فرقان
سورہ فرقان کے شروع میں اللہ تعالیٰ کی جلالت‘ توحید ‘ اولاد کی نسبت اور شرک سے برأت کا ذکر ہے ۔ کفار کے باطل معبودوں کے مخلوق ہونے ‘ اپنے لئے نفع اور نقصان اور موت وحیات کا مالک نہ ہونے کا ذکر ہے۔ آیت04سے اس بات کا بیان ہے کہ کفار نے قرآن مجید کے کلامِ الٰہی ہونے کا انکار کیااور اسے رسول کریم ؐ کا خود ساختہ کلام قرار دیا کہ پچھلے لوگوں کی کوئی افسانوی کہانیا ں ہیں‘ جوانہوں نے لکھوالی ہیں۔ کفارِ مکہ کے اس اعتراض کا بھی ذکر ہے کہ یہ رسول کھانا کھاتے ہیں ‘ بازاروں میں چلتے ہیں ‘ ان کی تائید کیلئے کوئی فرشتہ کیوں نہ اتارا گیا؟ انہیں کوئی خزانہ اور باغات کیوں نہ عطا کئے گئے ‘ انہوں نے اﷲکے رسول کو سحر زدہ کہا اور قیامت کے دن کو جھٹلایا ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی ان بے تکی باتوں کا رَد فرمایا ‘ قرآن کو اللہ کاکلام قراردیا اور اُن پر یہ بھی واضح کردیا کہ پہلے رسول بھی بشری تقاضے کے تحت کھانا کھاتے تھے اور اپنی ضرورت کیلئے بازار بھی جاتے تھے‘ یعنی بشری ضروریات نبوت ورسالت کے منافی نہیں ۔