امام احمد رضا قادری اپنے خطبۂ جمعہ میں رسول اللہﷺ پر صلوٰۃ وسلام بھیج کر بالتبع خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم پران القاب کے ساتھ درودوسلام بھیجتے:
''َلَا سِیَّمَا عَلٰی اَوَّلِھِمْ بِالتَّصْدِیْقِ وَاَفْضَلِھِمْ بِالتَّحْقِیْقِ اَلْمَوْلَی الْاِمَامِ الصِّدِّیْق،اَمِیْرِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَاِمَامِ الْمُشَاھِدِیْنَ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ، سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا الْاِمَامِ اَبِیْ بَکْرِنِ الصِّدِّیْقِ وَعَلٰی اَعْدَلِ الْاَصْحَابِ، مُزَیِّنِ الْمِنْبَرِ وَالْمِحْرَابِ، الْمُوُافِقِ رَأْیُہٗ لِلْوَحْیِ وَالْکِتَابِ، سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا الْاِمَامِ اَمِیْرِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَغَیْظِ الْمُنَافِقِیْنَ، اِمَامِ الْمُجَاھِدِیْنَ فِیْ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ اَبِیْ حَفْصٍ عُمَرَ ابْنِ الْخَطَّابِ وَعَلٰی جَامِعِ الْقُرْاٰنِ، کَامِلِ الْحَیَائِ وَالْاِیْمَانِ، مُجَھِّزِ جَیْشِ الْعُسْرَۃِ فِیْ رِضَی الرَّحْمٰنِ، سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا الْاِمَامِ اَمِیْرِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَاِمَامِ الْمُتَصَدِّقِیْنَ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ، اَبِیْ عَمْرٍوعُثْمَانَ ابْنِ عَفَّانَ وَعَلٰی اَسَدِ اللّٰہِ الْغَالِبِ اِمَامِ الْمَشَارِقِ وَالْمَغَارِبِ، حَلَّالِ الْمُشْکِلَاتِ وَالنَّوَآئِبِ، دَفَّاعِِ الْمُعْضَلَاتِ وَالْمَصَآئِبْ، اَخِ الرَّسُوْلِ وَ زَوْجِ الْبَتُوْلِ سَیِّدِنَا وَ مَوْلَانَا الْاِمَامِ اَمِیْرِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَاِمَامِ الْوَاصِلِیْنَ اِلٰی رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ اَبِیْ الْحَسَنِ عَلِیِّ ابْنِ اَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالیٰ عَنْہُمْ‘‘۔ اس میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا لقب ''اَعْدَلُ الْاَصْحابِ‘‘بتایا ہے، سو ہم سیرت وتاریخ کی کتب سے ''عدلِ فاروقی‘‘ کی چند مثالیں بیان کر رہے ہیں:
(1)حضرت عطا بن ابی رباح بیان کرتے ہیں: جب حج کا زمانہ قریب آتا تو حضرت عمرؓ اپنے تمام گورنروں کو مکہ معظمہ میں جمع ہونے کا حکم دیتے، پس جب وہ جمع ہو جاتے تو آپ لوگوں کے سامنے خطبہ ارشاد فرماتے: ''اے لوگو! میں نے اپنے عاملوں کو تم پر اس لیے مقرر نہیں کیا کہ وہ تمہاری کھالیں اُتاریںاور تمہارا مال چھینیں، میں نے اُن کا تقرر اس لیے کیا ہے تاکہ وہ تمہارے اختلافات ختم کریں اور تمہارے درمیان مالِ غنیمت کو تقسیم کریں، اگر کسی شخص کے ساتھ میرے کسی عامل نے ناانصافی کی ہے تو وہ کھڑے ہوکر اپنی شکایت بیان کرے۔ یہ سن کر ایک شخص کھڑا ہوا اورکہا: امیر المومنین! آپ کے فلاں عامل نے مجھے سو کوڑے مارے ہیں، حضرت عمرؓ نے اُسے طلب کیا اور پوچھا: کس معاملے میں اِسے سو کوڑے لگائے ہیں، وہ کوئی معقول وجہ بیان نہ کر سکا، حضرت عمرؓ نے اُس شخص کو دُرَّہ حوالے کیا اور فرمایا: اُٹھو اور اِسے اسی طرح سو دُرّے لگائو جیسے اس نے تجھے لگائے تھے، یہ ماجرا دیکھ کر حضرت عمروؓ بن عاص کھڑے ہوئے اور عرض کی: امیر المومنین! اگر آپ نے ایسا کیا تو پھر لوگ بڑی کثرت کے ساتھ آپ کے پاس دعوے لائیں گے، یہ ایک شِعار بن جائے گا اور آپ کے بعد بھی یہی سنت جاری رہے گی، حضرت عمرؓ نے فرمایا: فقط میں ہی وہ شخص نہیں جو مظلوم سے بدلہ لینے کا کہہ رہا ہوں، بلاشبہ میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا ہے: آپ اپنی ذات کو بھی قصاص کے لیے پیش فرماتے تھے، حضرت عمروؓ بن عاص نے کہا: ہمیں کچھ وقت دیجیے تاکہ ہم اِسے راضی کر لیں، چنانچہ حضرت عمروؓ بن عاص نے اُس شخص کو دو سو دینار کے عوض راضی کیا۔ (کنزالعمال،ج:5،ص:659)۔
(2)حضرت انسؓ بن مالک بیان کرتے ہیں: مصر کا ایک شخص حضرت عمرؓ کے پاس آیا اورعرض کی: امیر المومنین! میرے ساتھ ظلم ہوا ہے، میں آپ کے پاس انصاف لینے آیا ہوں، آپ نے فرمایا: تمہارے ساتھ کیا ظلم ہوا ہے؟ اُس نے کہا: میں نے مصرکے گورنر عمرو بن عاص کے بیٹے کے ساتھ دوڑ کا مقابلہ کیا اور میں اُس سے آگے نکل گیا، یہ بات اُسے ناگوار گزری اور اُس نے مجھے یہ کہتے ہوئے کوڑے مارنا شروع کر دیے: ''ہم بڑے لوگ ہیں اور عزت دار لوگوں کی اولاد ہیں‘‘، یہ سن کر حضرت عمر نے اُسی وقت عمرو بن عاص کو پیغام بھجوایا اور بیٹے سمیت فوری طور پر مدینہ طیبہ حاضر ہونے کا حکم دیا، جب حضرت عمرو بن عاص اپنے بیٹے کے ہمراہ مدینہ طیبہ پہنچے تو آپ نے اس مصری باشندے کو طلب کیا، وہ حاضر ہوا تو آپ نے اُسے کوڑا دے کر فرمایا: اس کو مارو، وہ گورنر کے بیٹے کو کوڑے مارنے لگا، حضرت عمرؓ اس دوران فرماتے تھے: ''مار اس عزت دار کو‘‘۔ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں: وہ مصری اس قدر برے طریقے سے پیٹنے لگا کہ ہم اس کے رکنے کی تمنا کرنے لگے، پس جب وہ رک گیا تو حضرت عمر نے گورنر عمرو بن عاص کے متعلق حکم دیا کہ ان کے گنج پر بھی کوڑے مار، اس نے کہا: امیر المومنین! مجھے انہوں نے نہیں، ان کے بیٹے نے مارا ہے اور میں اس سے اپنا بدلہ لے چکا ہوں۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ نے عمرو بن عاص کو مخاطَب کرکے فرمایا: ''ماؤں نے اپنے بچوں کو آزاد جنا ہے، تم نے کب سے اُنہیں اپنا غلام سمجھنا شروع کر دیا ہے‘‘۔ حضرت عمرو بن عاص نے عرض کی: امیر المومنین! نہ مجھے اس واقعے کا کوئی علم ہے اور نہ یہ میرے پاس شکایت لایا۔ (کنزالعمال،ج:12،ص:660)۔
(3)''حضرت عبداللہؓ بن عباس بیان کرتے ہیں: ایک باندی نے حضرت عمرؓ کی خدمت میں اپنے مالک کی شکایت کی اور کہا: میرے مالک نے مجھ پر بدچلنی کا الزام لگایا ہے اور مجھے آگ پر بٹھایا، جس کی وجہ سے میرا جسم جل گیا، حضرت عمرؓ نے اُس کے مالک کو طلب کیا اور فرمایا: ''تجھے اللہ جیسا عذاب دیتے ہوئے حیا نہیں آئی، کیا تو نے اسے بدکاری کرتے ہوئے دیکھا تھا‘‘، اُس نے کہا: نہیں۔ فرمایا: اس نے تیرے سامنے خود اقرار کیا تھا؟ اُس نے کہا: نہیں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ و قدرت میں میری جان ہے، اگر میں نے رسول اللہﷺ کا یہ فرمان نہ سنا ہوتا کہ بیٹے کے قصاص میں باپ کو اور غلام کے قصاص میں آقا کو قتل نہ کیا جائے تو میں ضرور تجھ سے اس کا بدلہ لیتا، پھر آپ نے اُس شخص کو سو کوڑے لگوائے اور کنیز سے کہا: جاؤ تم اللہ کے لیے آزاد ہو، اب تم اللہ اور اس کے رسول کی باندی ہو، میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے: ''جس شخص کو آگ میں جلایا گیا یا جس کی صورت بگاڑی گئی تو وہ آزاد ہے اور وہ اللہ اور اس کے رسول کا آزاد کردہ غلام ہے۔ (المعجم الاوسط:8657)‘‘۔
(4)''غسان کے حکمران جبلّہ بن الایہم کا واقعہ عدلِ فاروقی کی عظیم مثال ہے، اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ آپؓ کے نزدیک آقا و غلام، شاہ و گدا میں فرق نہ تھا۔ جبلّہ نے طواف کے دوران ایک بَدو کو تھپڑ مارا، وہ امیر المومنین سے انصاف طلب کرنے پہنچ گیا، آپؓ نے فرمایا: جبلّہ کو پکڑ کر بَدو کے حوالے کیا جائے، وہ اس کے منہ پر اسی طرح تھپڑ مارے جس طرح اس نے اسے مارا ہے، جبلہ نے کہا: میں ایک بدو کے آگے اپنا چہرہ پیش کروں؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا: اسلام نے اُسے اور تجھے ملا دیا ہے، تجھے اگر اُس پر کوئی فضیلت ہے تو صرف تقویٰ کی بنا پر ہے، لہٰذا یا تو اسے راضی کرو، ورنہ اپنے آپ کو قصاص کے لیے پیش کرو، اُس نے کہا: پھر میں نصرانی ہو جاؤں گا۔ آپؓ نے فرمایا: اگر تو نصرانی ہوگیا تو میں ارتداد کے جرم میں تیری گردن اُتار دوں گا، پس جب اُس نے حضرت عمرؓ کی سختی دیکھی تو کہا: مجھے آج کی رات غور و فکر کی مہلت دے دیں، پھر وہ رات کے اندھیرے میں فرار ہوگیا۔ (المنتظم فی تاریخ الملوک والامم،ج:5،ص:257)‘‘۔
(5)''ابوجعفر بیان کرتے ہیں: حضرت عمرؓ ایک مرتبہ مدینہ طیبہ کی ایک گلی سے گزر رہے تھے کہ راستے میں اُن کی حضرت علیؓ سے ملاقات ہوگئی، ان کے ساتھ حضراتِ حسنین کریمینؓ بھی تھے،حضرت علیؓ نے اُنہیں سلام کیا اور اُن کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا، حضراتِ حسنین کریمینؓ حضرت عمرؓ کے دائیں بائیں کھڑے ہوگئے،اِس دوران حضرت عمرؓ پر گریہ طاری ہوگیا، اکثر آپ پر گریہ طاری ہو جاتا تھا، حضرت علیؓ نے فرمایا: امیر المومنین! کیا بات ہے؟ فرمایا: مجھ سے زیادہ رونے کا سزاوار کون ہو سکتا ہے علی! مجھے اُمت کے معاملات کا والی بنا دیا گیا ہے، میں لوگوں کے فیصلے کرتا ہوں مگر نہیں جانتا کہ عنداللہ میرا مقام کیا ہے، حضرت علیؓ نے کہا: واللہ! آپ ہر کام میں عدل کرتے ہیں، مگر حضرت عمرؓ روتے رہے، پھر حضرت حسنؓ نے ان سے گفتگو کی اور ان کی ولایت اور عدل کا ذکر کیا، حضرت عمرؓ پھر بھی روتے رہے، پھرجب حضرت حسینؓ نے بھی آپ کے عدل کا ذکر کیا تو انہوں نے رونا موقوف کر دیا اور فرمایا: میرے بھتیجو! تم شہادت دیتے ہو کہ عمر عادل ہے؟ اُنہوں نے اپنے والد کی طرف دیکھا، حضرت علیؓ نے فرمایا: تم دونوں گواہی دو اور میں بھی تمہارے ساتھ اس بات کا گواہ ہوں کہ عمر عادل ہیں۔ (اِزَالَۃُ الْخِفَاء عَنْ خِلَافَۃِ الْخُلَفَائ، ج:4، ص:51)‘‘۔
(6)حضرت عبید بن عمیر بیان کرتے ہیں: ایک مرتبہ حضرت عمرؓ کہیں جا رہے تھے کہ اُن کی نظر ایک شخص پر پڑی جو ایک عورت سے باتیں کر رہا تھا، حضرت عمرؓ نے اُسے دُرّہ لگایا، اُس نے کہا: امیر المومنین! یہ عورت میری بیوی ہے، آپ نے فرمایا: پھر راستے میں اپنی بیوی کے ساتھ کھڑے ہو کرکیوں گفتگو کر رہے ہو، مسلمانوں کو بدگمانی میں مبتلا کر رہے ہو۔ اُس نے کہا: ہم مسافر ہیں، مدینہ طیبہ میں ابھی داخل ہوئے ہیں اور اپنے لیے ٹھکانا تلاش کر رہے ہیں، حضرت عمرؓ نے اپنا دُرّہ اُس کے حوالے کیا اور فرمایا: مجھ سے قصاص لو، اُس نے کہا: امیر المومنین! یہ آ پ کا حق ہے، آپ نے پھر اُس کہا: مجھ سے قصاص لے، اُس نے کہا کہ یہ آپ کاحق ہے، آپ نے سہ بارہ فرمایا: اُس نے کہا: امیر المومنین! میں نے آپ کو معاف کیا۔ (اِزَالَۃُ الْخِفَائ، ج:4،ص:52)۔
(7)''حضرت سعید بن مسیب بیان کرتے ہیں: ایک مسلمان اور ایک یہودی حضرت عمرؓ کے پاس اپنا جھگڑا لے کر آئے، حضرت عمرؓ نے دیکھا کہ یہودی حق پر ہے، پس آپؓ نے اُس کے حق میں فیصلہ دے دیا، اُس یہودی نے کہا: اللہ کی قسم! آپ نے حق فیصلہ کیا ہے، حضرت عمرؓ نے اُسے دُرّہ لگاتے ہوئے فرمایا: تجھے کیسے پتا چلا کہ میں نے حق فیصلہ کیا ہے، اُس نے کہا: ہم نے تورات میں پڑھا ہے کہ جو قاضی حق کے ساتھ فیصلہ دیتا ہے، اُس کے دائیں اور بائیں دو فرشتے ہوتے ہیں، وہ اُس کے لیے توفیق کی دعائیں کرتے ہیں، پس جب وہ حق کو چھوڑتا ہے تو وہ اسے چھوڑ کر آسمان کی طرف اٹھ جاتے ہیں۔ (موطا امام مالک:2663)‘‘۔
(8)''جریر بیان کرتے ہیں: ایک مجاہد نے حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کے لشکر کے ساتھ مالِ غنیمت جمع کیا، اس کو ابوموسیٰ نے اس کا پورا حصہ نہ دیا، اس نے لینے سے انکار کیا اور کہا: میں اپنا پورا حصہ لوں گا، اس پر حضرت ابوموسیٰ نے اُسے بیس کوڑے مارے اوراس کا سر منڈوایا، اس نے اپنے منڈے ہوئے بال جمع کیے اور ان کو لے کر حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوا، وہ بال نکال کر حضرت عمرؓ کے سینے پر پھینکے، حضرت عمرؓ نے فرمایا: تجھے کیا ہوا ہے؟ اس نے سارا ماجراسنایا، حضرت عمرؓ نے اسی وقت حضرت ابوموسیٰ اشعری کوخط لکھا:
السلام علیکم! امابعد! فلاں بن فلاں نے مجھے ایسی ایسی خبر دی ہے، میں تمہیں قسم دیتا ہوں اگر تم نے ایساہی کیا ہے جو اس نے بیان کیا ہے، سو اگر تم نے لوگوں کے مجمع میں ایسا کیا ہے تو تم بھی لوگوں کے مجمع میں بیٹھو تاکہ وہ تم سے بدلہ لے اور اگر تم نے وہ بات خلوت میں کی ہے تو تم خلوت میں بیٹھو تاکہ وہ تم سے بدلہ لے، جب اس آدمی نے حضرت ابوموسیٰ کو یہ خط پہنچایا تو اسی وقت بدلہ دینے کے لیے بیٹھ گئے، یہ دیکھ کر اس شخص نے کہا: میں نے اللہ کے لیے آپ کو معاف کر دیا۔ (کنزالعمال، ج: 15، ص:79)‘‘۔