"MMC" (space) message & send to 7575

خصائصِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

ہمارے نزدیک ہر نبی اور رسول محترم ہے، مکرّم ہے، مُعَزَّزْ ومُوَقَّر اور ذی شان ہے، لیکن خود رسولوں کے مابین فضیلت کے اعتبار سے درجہ بندی موجود ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''یہ رُسلِ عظام کہ ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت عطا فرمائی‘‘ (البقرہ: 253)۔ پس ہمارے آقا و مولیٰ، سید المرسلین، رَحْمَۃٌ لِّلْعَالَمِیْن،خَاتمُ النَّبِیّٖٖن سیدنا محمد رسول اللہﷺ کے خصائص اور فضائل بے شمار ہیں۔ ان کی تفصیلات آیاتِ قرآنی اور احادیثِ مبارکہ میں مذکور ہیں۔ حدیث پاک میں ہے: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''مجھے تمام انبیائے کرام پر بعض چیزوں میں فضیلت عطا فرمائی گئی: (۱) مجھے ''جَوَامِعُ الْکَلِم‘‘ یعنی معانی کے سمندر کو ایک جملے میں سمونے کا ملکہ عطا کیا گیا، اسی کو اردومحاورے میں ''دریا کو کوزے میں بند کر دینا‘‘ کہتے ہیں، اس کی مثالیں محدثینِ کرام نے متعدد بیان کی ہیں جن کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں ہے۔ (۲) اللہ نے میری شخصیت کو رُعب دار اور ذی وجاہت بنایا اور (دشمنوں پر) ایک ماہ کی مسافت پر میرا رعب طاری ہو جاتا ہے۔ (۳) میرے (یعنی میری امت کے) لیے اموالِ غنیمت (اور صدقات) کو حلال کر دیا گیا، مجھ سے پہلے کسی کے لیے غنیمت (اور صدقات) حلال نہیں تھے۔ (۴) میرے لیے روئے زمین کو مسجد بنا دیا گیا اور پاکیزہ قرار دیا گیا (بشرطیکہ اس پر کوئی ظاہری نجاست نہ ہو)، پس میرا جو بھی امتی نماز کا وقت پائے، وہ جہاں کہیں بھی ہو‘ قبلہ رُو ہوکر نماز پڑھ لے۔ (۵) ماضی میں نبی ایک خاص قوم کی طرف بھیجا جاتا، مجھے اللہ تعالیٰ نے سارے عالَمِ انسانیت اور ساری مخلوق کی طرف مبعوث فرمایا۔ صحیح مسلم:521 کے الفاظ ہیں: ''مجھے ہر گورے اور کالے کی طرف نبی بنا کر مبعوث کیا گیا ہے‘‘، (۶) مجھے شفاعت کا اذن عطا کیا گیا ہے جو مجھ سے پہلے کسی کو عطا نہیں کیا گیا (اس سے مراد شفاعتِ کُبریٰ ہے)، (۷) مجھ پر نبوت کے سلسلے کو ختم کردیا گیا ہے، یعنی میں ''خَاتمُ النَّبِیّٖن‘‘ ہوں‘‘، (۸) دریں اثنا کہ میں سویا ہوا تھا، مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئیں اور میرے ہاتھ میں رکھ دی گئیں‘‘۔ یہ خصائص ہم نے صحیح البخاری: 335 اور 2977 اور صحیح مسلم: 521 اور 523 کی احادیثِ مبارکہ کو یکجا کر کے اور مکررات کو حذف کر کے لکھے ہیں اور تحت اللفظ نہیں، بلکہ تشریحی ترجمہ کیا ہے۔
علامہ غلام رسول سعیدی نے نعمۃ الباری شرح صحیح بخاری، ج:1، ص:849 میں لکھا ہے: ''امام محمد بن ابراہیم نیشا پوری نے مختلف روایات کے حوالے سے آپﷺ کے پچاسی خصائص لکھے ہیں، ان میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے‘‘۔ ان مِن جملہ خصوصیات میں سے ایک ''رسالتِ عامّہ‘‘ہے، یعنی آپ کی نبوت و رسالت تمام عالم انسانیت، جنّات و ملائک حتیٰ کہ انبیائے کرام و رُسلِ عظام علیہم السلام اور جمیع انواعِ مخلوق کو شامل ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (۱) ''(اے رسولِ مکرم!) کہہ دیجیے : اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں‘‘ (الاعراف:158)، (۲) ''اور ہم نے آپ کو (قیامت تک کے) تمام لوگوں کے لیے جنّت کی بشارت دینے والا اور جہنم سے ڈرانے والا بناکر بھیجا ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے‘‘ (سبا:28)، (۳) ''نہایت بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے مکرم بندے پر قرآن نازل کیا تاکہ وہ تمام جہانوں کے لیے (عذاب سے) ڈرانے والے ہوں‘‘ (الفرقان:1)، (۴) ''اور (اے نبی مکرم!) ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے فقط رحمت بناکر بھیجا ہے‘‘ (الانبیائ:107)۔ الغرض قرآنِ کریم کی متعدد آیاتِ کریمہ اور احادیثِ مبارکہ اس پر دلالت کرتی ہیں کہ آپﷺ کی نبوت قیامت تک پورے عالَمِ انسانیت کے لیے حتیٰ کہ جنّات و ملائک اور دیگر انواعِ مخلوق پر بھی محیط ہے۔
آپ کی ایک منفرد و ممتاز خصوصیت یہ ہے کہ آپ کی رضا آپ کے خالق و مالک اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کو مطلوب و محبوب ہے۔ قرآنِ کریم میں فرمایا: ''اور عنقریب آپ کا رب آپ کو اتنا عطا فرمائے گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے‘‘ (الضحیٰ:5)۔ ہجرت کے بعد مدنی زندگی کے ابتدائی سترہ ماہ تک اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ بیت المقدِس کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھتے رہے، لیکن آپ کے دل میں یہ خواہش تھی کہ آپ کے اجدادِ اعلیٰ حضراتِ ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کے بنائے ہوئے کعبۃ اللہ کو قبلۂ نماز بنا دیا جائے، اس تمنا میں آپ اضطراب کی کیفیت میں بار ہا اپنا رُخِ انور آسمان کی طرف پلٹ کر دیکھتے کہ شاید جبریلِ امین اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے تحویلِ قبلہ کا حکم لے کر آئیں، اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کی اس ادا کا ذکر فرما کر آپؐ کو اپنے خصوصی شرف سے نوازتے ہوئے فرمایا: ''بے شک ہم نے (بار ہا) آپ کو اپنا چہرہ آسمان کی طرف پلٹتے ہوئے دیکھا ہے، سو ہم آپ کو ضرور اُس قبلے کی طرف پھیر دیں گے جو آپ کو پسند ہے، پس آپ (نماز میں) اپنا رُخ مسجدِ حرام کی طرف پھیر دیں اور ( مسلمانو!) تم جہاں کہیں بھی ہو، اپنا رُخ اُسی کی طرف پھیر لو‘‘ (البقرہ:144)۔ یہ آیتِ مبارکہ مقامِ مصطفیﷺ کی رفعتوں کو سمجھنے کے لیے ایک بہترین کسوٹی ہے، کیونکہ عقل کا تقاضا تو یہ ہے کہ جس کی بندگی کی جائے‘ قبلہ اُسی کی پسند کا ہونا چاہیے، لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبِ کریمﷺ کو خصوصی شرف سے نوازتے ہوئے قبلہ آپ کی پسند کا مقرر فرما دیا۔ عام شرعی ضابطہ یہ ہے کہ رضائے الٰہی کو پانا ہی بندگی کی معراج ہے، مگر اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حکم کو رضائے مصطفیﷺ کے مطابق فرما دیا، امام احمد رضا قادری لکھتے ہیں:
خدا کی رضا چاہتے ہیں دو عالم 
خدا چاہتا ہے رضائے محمد
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ''(اے رسولِ مکرم!) اُن کی (دل آزار) باتوں پر صبر کیجیے اور طلوعِ آفتاب اور غروبِ آفتاب سے پہلے اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح پڑھیے اور رات کے بعض حصوں اوردن کے (درمیانی)کناروں میں بھی تسبیح پڑھتے رہیے تاکہ آپ راضی ہو جائیں‘‘ (طہٰ:130)۔ مفسرینِ کرام نے بتایا :اس آیۂ مبارکہ میں حمد و تسبیح سے مراد نمازیں ہیں، کیونکہ بعض اوقات جز بول کر کُل مراد لیا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ حمد و تسبیحات نماز کا حصہ ہیں۔ نیز اس میں نمازوں کے اوقات کی طرف بھی اشارہ ہے اور فی نفسہٖ تو عبادت رضائے معبود کے لیے ہوتی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبِ مکرمﷺ کو ان کلمات کے ساتھ اعزاز عطا فرمایا: آپ اس لیے حمد کے ساتھ تسبیحات پڑھیں، نمازیں ادا کریں تاکہ آپ راضی ہو جائیں، اس سے معلوم ہوا کہ رضائے الٰہی اور رضائے مصطفیﷺ دو جدا چیزیں نہیں ہیں، بلکہ یہ ایک ہی حقیقتِ کاملہ کا نام ہے۔ اللہ کی رضا میں مصطفیﷺ کی رضا اور مصطفیﷺ کی رضا میں اللہ کی رضا شامل ہے۔ یہ دو متوازی یا متضاد چیزیں نہیں ہیں، بلکہ ایک ہی آئینے کے دو رُخ ہیں، ایک ہی حقیقت کے دو پَرتو ہیں اور ایک ہی تجلی کے دو عکس ہیں۔
جب معبودِ حقیقی سبحانہٗ وتعالیٰ کی بندگی اور رضا کا مدار و معیار رضائے مصطفیﷺ قرار پائی، اطاعتِ الٰہی کا شعار اطاعتِ رسول قرار پایا، اس کے سوا کچھ نہیں، تو پھر نیکی وہی ہے جو آپﷺ کی ذات سے منسوب ہو، جو آپؐ کی ادائوں سے جانی جائے، جو آپؐ کی سیرت میں ڈھل جائے، اس کے سوا نیکی کا ہر مَن پسند معیار فریبِ نفس ہے، عُجبِ نفس ہے، انا پرستی ہے اور حق سے انحراف ہے۔ حدیثِ پاک میں ہے: ''انس بن مالک بیان کرتے ہیں: تین افراد ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کے حجرات کی طرف آئے اور آپﷺ کی عبادت کے معمولات کے بارے میں سوال کرنے لگے، پس جب امہات المؤمنینؓ نے انہیں آپﷺ کے (روز و شب کی عبادات کے) معمولات بتا دیے، تو انہوں نے اپنی دانست میں ان کو کم سمجھا اور کہا: کہاں ہم اور کہاں نبیﷺ! (یعنی ہمیں اس سے زیادہ عبادت کرنی چاہیے)، آپﷺ کو تو اللہ تعالیٰ نے قطعی اور کُلِّی مغفرت کی سند عطا کر رکھی ہے۔ پس ان میں سے ایک نے کہا: اب میں ہمیشہ ساری رات نوافل پڑھا کروں گا، دوسرے نے کہا: اب میں ہمیشہ نفلی روزے رکھوں گا اور روزہ کبھی نہیں چھوڑوں گا، تیسرے نے کہا: میں عورتوں سے لاتعلق رہوں گا اور کبھی شادی نہیں کروں گا (تاکہ دنیا داری سے بچا رہوں اور سارا وقت عبادت میں مشغول رہوں)، دریں اثنا رسول اللہﷺ اُن کی طرف تشریف لائے اور (ان کی باتوں کا حوالہ دے کر) فرمایا: تمہی وہ لوگ ہو جنہوں نے یہ یہ باتیں کی ہیں؟ سنو! واللہ! مجھ سے بڑھ کر نہ کسی کے دل میں خشیتِ الٰہی ہے اور نہ مجھ سے کوئی بڑا متقی ہے، لیکن (میرا معمول یہ ہے کہ) میں کبھی نفلی روزے رکھتا ہوں اور کبھی چھوڑ دیتا ہوں، رات کا کچھ حصہ نوافل پڑھتا ہوں اور کچھ وقت کے لیے سو بھی جاتا ہوں اور میں نے عورتوں سے نکاح بھی کر رکھے ہیں، (پس میرا شِعار بندگی یہی ہے )، سو جو میری سنت سے اعراض کرے گا، وہ مجھ سے نہیں ہے‘‘ (صحیح البخاری: 5063)۔ مقامِ غور ہے کہ یہ تنبیہ یا وعید گناہگاروں کے لیے نہیں ہے، بلکہ اُن کے لیے ہے جو اپنی دانست میں سنتِ مصطفیﷺ سے ہٹ کر اعلیٰ معیارِ بندگی اختیار کرنا چاہتے تھے، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: معیارِ بندگی فقط میری سنت کے اتباع کا نام ہے،اس سے اِعراض کا نام نہیں ہے۔ حدیث مبارک میں ہے: ''ملائکہ نبیﷺ کے پاس آئے اور آپؐ اس وقت سو رہے تھے، آپﷺ کے بارے میں مکالمہ کرتے ہوئے بعض نے کہا: ''یہ سو رہے ہیں اور بعض نے کہا: بے شک آنکھ سو رہی ہے اور دل بیدار ہے‘‘۔ پھر بعض نے کہا: ''تمہارے اس صاحب کے لیے ایک مثال ہے، سو وہ مثال بیان کرو، تو دوسروں نے کہا: ان کی مثال اُس شخص کی سی ہے، جس نے ایک گھر بنایا اور اس میں دعوتِ طعام کا اہتمام کیا اور لوگوں کو اس دعوت کی طرف بلایا، پس جس نے اس دعوت کو قبول کیا، وہ گھر میں داخل ہوگیا اور طعام کو تناول کیا اور جس نے داعی کی پکار پر لبیک نہ کہا، وہ گھر میں داخل نہ ہوا اور دعوتِ طعام سے محروم رہا۔ پھر انہوں نے کہا: اس کی تاویل بیان کرو تاکہ سمجھ میں آئے، تو بعض نے کہا: ''بے شک وہ سو رہے ہیں اور بعض نے کہا: بے شک آنکھ سو رہی ہے اور دل بیدار ہے اوربعض نے کہا: یہ گھر (جو بنایا گیا) جنت ہے اور اس کی طرف دعوت دینے والے (سیدنا) محمد ﷺ ہیں، سو جس نے محمدﷺ کی اطاعت کی، تو اس نے (درحقیقت) اللہ کی اطاعت کی اور جس نے محمدﷺ کی نافرمانی کی، تو اس نے (درحقیقت) اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور محمدﷺ لوگوں کے درمیان حق وباطل کی معرفت کی کسوٹی ہیں‘‘ (مختصر صحیح الامام البخاری:2698)۔ یہ اس آیت کی تشریح ہے، فرمایا: ''اور جس نے رسول کی اطاعت کی، تو اس نے (درحقیقت) اللہ کی اطاعت کی‘‘ (النسآئ:80)۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں