عربی زبا ن میں خواب دیکھنے اور خواب میں نظر آنے والی چیزوں کو ''الرُّوْیَا‘‘ کہا جاتا ہے، اس کا مادہ ''الرُّوْیَۃ‘‘ ہے، جس کا معنی ہے: دیکھنا، خواہ بیداری کی حالت میں ہو یا نیند میں، البتہ علامہ زمخشری کے بقول: یہ فقط نیند میں دکھائی دینے والی چیزوں کے ساتھ خاص ہے۔ (تفسیرِ کشاف: ج:2، ص:444)۔ عربی زبان میں خواب کے لیے ''اَضْغَاثُ اَحْلَام‘‘ کی اصطلاح بھی استعمال ہوتی ہے، اس کا معنی ہے: خوابِ پریشاں، یعنی وہ خواب جن کی کوئی تعبیر نہیں ہوتی اور جو تفکرات و خیالات یا شیطانی وسوسوں کے باعث نظر آتے ہیں۔
خواب کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں، بعض ماہرینِ نفسیات کے مطابق انسان کو خواب میں جو چیزیں نظر آتی ہیں وہ درحقیقت ان خواہشات و جذبات کا مظہر ہوتی ہیں جو اس کے شعور میں جاگزیں ہوتی ہیں، الغرض جو جذبات و احساسات پوشیدہ طور پر موجود ہوتے ہیں، وہی متشکل ہوکر خواب کی صورت میں نظر آتے ہیں۔ ماہرین نفسیات کی یہ بات بعض خوابوں کی حد تک تو درست ہے، لیکن تمام خواب اس قسم کے نہیں ہوتے، بہت سے خواب ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن کا انسان کے شعور سے تعلق ہی نہیں ہوتا اور وہ خواب میں ایسی چیزیں دیکھتا ہے جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتیں اور بعض خواب ایسے بھی ہوتے ہیں، جن کا بیداری کی حالت میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ وہ انسانی دسترس سے بالاتر ہوتے ہیں، جبکہ بعض خواب ایسے بھی ہوتے ہیں جو حقائق پر مبنی ہوتے ہیں اور خواب دیکھنے کے بعد اُن کی عملی تصویر ہمارے سامنے آتی ہے۔
خوابوں کے بارے میں اسلام نے جو ہماری رہنمائی کی ہے، اس کے مطابق نہ تو ہر خواب جھوٹا اور نفسانی خیالات کا عکاس ہوتا ہے اور نہ ہر خواب سچا ہوتا ہے، بعض خواب وہ ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دکھائے جاتے ہیں، وہ برحق اور سچے ہوتے ہیں اور کچھ خواب شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں، جو انسان کے لیے افسردگی اور غم کا باعث ہوتے ہیں، جبکہ کچھ خواب تخیلاتی ہوتے ہیں، انسان بیداری کے عالم میں جن چیزوں کے بارے میں غور و فکر کرتا ہے اور جو اس کے پوشیدہ احساسات و جذبات ہوتے ہیں، بسا اوقات وہ اُسے خواب بن کر نظر آجاتے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''خواب تین قسم کے ہوتے ہیں: بعض خواب ڈراؤنے ہوتے ہیں، یہ شیطان کی طرف سے انسان کو پریشان کرنے کے لیے ہوتے ہیں، بعض خواب وہ ہوتے ہیں کہ انسان بیداری کی حالت میں جو کچھ سوچتا رہتا ہے، وہی کچھ خواب میں نظر آجاتا ہے اور بعض (خواب) وہ ہیں جو نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہیں‘‘۔ ( ابن ماجہ:3907)
علمائے اسلام نے خواب کی درجِ ذیل اقسام بیان کی ہیں: (1) بعض اوقات انسان کو نیند میں ایسی بے ربط اور خلافِ واقع چیزیں نظر آتی ہیں جو لائقِ توجہ نہیں ہوتیں، مثلاً انسان خواب میں یہ دیکھے کہ آسمان میں ایک درخت اُگا ہوا ہے یا یہ کہ زمین میں ستارے نمودار ہو رہے ہیں یا دیکھے کہ ہاتھی چیونٹی پر سوار ہے، ایسے خوابوں کو عربی میں ''اَضْغَاثُ اَحْلَام‘‘ اور اُردو میں خوابِ پریشان کہتے ہیں۔ علماء فرماتے ہیں: اس قسم کے خواب شیطانی عمل کی وجہ سے نظر آتے ہیں اور اَطِبّاء کہتے ہیں کہ ہاضمے کی خرابی یا بلڈپریشر ہائی ہونے کی وجہ سے اس قسم کے خواب نظر آتے ہیں۔ (2) انسان جو کچھ سوچتا رہتا ہے وہ اُسے خواب میں نظر آتا ہے، بعض اوقات وہ اپنی ناتمام خواہشوں کو خواب میں پورا ہوتے ہوئے دیکھ لیتا ہے، مثلاً بھوکا شخص خواب میں پسندیدہ چیزیں کھاتے ہوئے اور پیاسا شخص لذیذ اور خوش ذائقہ مشروبات پیتے ہوئے خود کو دیکھتا ہے اور محبوب کے فراق میں غمزدہ عاشق محبوب کا قرب دیکھتا ہے، اس قسم کے خواب نفس کے وسوسے اور تخیلات کہلاتے ہیں۔ (3) کبھی سونے والے شخص کے منہ پر لحاف کا دبائو ہوتا ہے، جس سے اس کا سانس گھٹ رہا ہوتا ہے اور وہ خواب میں دیکھتا ہے کہ کوئی اس کا گلا گھونٹ رہا ہے، کبھی بارش کے چھینٹے کھڑکی کے شیشے سے ٹکراتے ہیں یا ہوا کے زور سے کوئی چیز کھڑکھڑاتی ہے اور وہ خواب میں دیکھتا ہے کہ وہ میدان کار زار میں ہے اور گولیاں چل رہی ہیں، کبھی سونے والے کے چہرے پر دھوپ پڑنے سے اس کا چہرہ تمتمانے لگتا ہے اور وہ خواب میں دیکھتا ہے کہ وہ آگ میں جل رہا ہے، اس قسم کے خواب دیکھ کر بعض اوقات وہ ڈر جاتا ہے، ان خوابوں کو محسوسات کا اثر کہا جاتا ہے۔ (4) بعض اوقات انسان کے ذہن میں غیر شعوری خواہشیں ہوتی ہیں، جن کو وہ کسی کے احترام یا کسی اور مانع کی وجہ سے پورا کرنا نہیں چاہتا، پھر اس کو خواب میں ایسی مثالیں نظر آتی ہیں جن کی تعبیر بعینہٖ واقع نہیں ہو سکتی، لیکن ان مثالوں میں کسی اور چیز کی طرف رمز اور اشارہ ہوتا ہے مثلاً کوئی اپنے ماتحت کو مارے تو غیر شعوری طور پر اس کے دل میں انتقام لینے کا خیال آتا ہے، لیکن اس کا مرتبہ یا احترام اس خواہش کو پورا کرنے سے مانع ہوتا ہے، پھر وہ خواب میں دیکھتا ہے کہ اس نے کسی شیر کو مار دیا ہے یا کسی اژدہے کو مار دیا ہے یا کسی ظالم بادشاہ کو قتل کر دیا اور ظالم بادشاہ یا اژدہا غیر شعوری طور پر اس مارنے والے سے کنایہ ہوتا ہے۔ خواب میں صرف اشارے اور رمز کی مثال یہ آیت ہے: ''جب یوسف نے اپنے والد سے کہا: ابا جان! بیشک میں نے گیارہ ستاروں اورسورج اور چاند کو دیکھا کہ وہ مجھے سجدہ کر رہے ہیں‘‘ (یوسف:4)۔ سورج اور چاند سے اُن کے والدین اور گیارہ ستاروں سے ان کے گیارہ بھائیوں کی طرف اشارہ ہے، ایسے خواب کو ''رمزی خواب‘‘ کہتے ہیں۔ (5) پانچویں قسم ''اَلرُّوْیَا الصَّادِقَۃ‘‘ یعنی سچے خواب ہیں۔ قرآن مجید میں چھ سچے خوابوں کا ذکر ہے، چار خوابوں کا ذکر سورۂ یوسف میں ہے، ایک خواب حضرت یوسف علیہ السلام نے دیکھا تھا، جس میں گیارہ ستاروں اور سورج اور چاند کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھا۔ (یوسف:4) دو خواب قید خانے میں دو قیدیوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو سنائے تھے، ایک نے کہا تھا: ''میں خواب میں شراب (انگور) نچوڑ رہا ہوں اور دوسرے نے کہا تھا کہ میں سر پر روٹیاں اٹھائے ہوئے ہوں، جن کو پرندے کھا رہے ہیں‘‘ (یوسف:36) اور ایک خواب مصر کے بادشاہ نے دیکھا تھا: ''سات فربہ گائیں سات لاغر گایوں کو کھا رہی ہیں اور سات ہرے بھرے خوشے ہیں اور سات سوکھے ہوئے خوشے ہیں‘‘ (یوسف: 43)۔ مؤخر الذکر تینوں خوابوں کی تعبیر حضرت یوسف علیہ السلام نے بیان فرمائی۔ ایک خواب حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ہے، اُنہوں نے خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے ( اسماعیل )کو ذبح کر رہے ہیں۔ (الصافات: 102) اور ایک ہمارے نبی سیدنا محمدﷺ کے خواب کا ذکر ہے کہ مسلمان امن و سلامتی کے ساتھ عمرہ کرنے کے لیے مکہ مکرمہ میں داخل ہوں گے۔ (الفتح: 27)۔ انبیائے کرام علیہم السلام کے خواب نفسانی یا تخیلاتی نہیں ہوتے‘ بلکہ انہیں وحی کا درجہ حاصل ہوتا ہے اور اُنہیں نظر آنے والے خواب اللہ کی طرف سے وحی ہوتے ہیں؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنے بیٹے(حضرت اسماعیل علیہ السلام) کو ذبح کرنے کا حکم خواب ہی میں دیا تھا، پس اُنہوں نے اس خواب کو تخیلاتی ونفسانی خواب کہہ کر ردّ نہیں کیا، بلکہ خواب دیکھنے کے بعد اس کی تکمیل کے لیے کمربستہ ہوگئے اور اپنے بیٹے سے کہا: ''میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں، لہٰذا تم مجھے اپنی رائے سے آگاہ کرو اور بتاؤ، کیا تم اس خواب کی تکمیل میں تم میرا ساتھ دوگے‘‘، حضرت اسماعیل علیہ السلام بھی چونکہ انوارِ نبوت سے مشرف تھے اور جانتے تھے کہ یہ کسی عام انسان کا خواب نہیں، بلکہ ایک نبی کا خواب ہے اور وحیِ الٰہی ہے، سو اُنہوں نے فوراً ہی جواب دیا: ''ابا جان! آپ کو جو حکم دیا گیا ہے اُسے کر گزریے! عنقریب آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے‘‘ (الصافات:102)۔ اِسی طرح حضرت یوسف علیہ السلام نے جو خواب دیکھا تھا وہ ایک عرصے بعد سچا ثابت ہوا، آپ نے فرمایا: ''اے میرے والد! یہ میرے پہلے دیکھے ہوئے خواب کی تعبیر ہے، بے شک میرے رب نے میرے خواب کو سچ کر دکھایا‘‘ (یوسف:100)۔ حضرت یوسف نے اپنے خواب کے سچا ہونے کو حق قرار دیا، جس سے معلوم ہوا کہ انبیائے کرام کا خواب حق اور سچ ہوتا ہے۔ حضرت عبداللہؓ بن عباس نے حضرت یوسف علیہ السلام کے خواب کی تفسیر میں ارشاد فرمایا: ''انبیائے کرام کے خواب وحیِ خداوندی ہوتے ہیں‘‘ (مستدرک حاکم: 3613)۔ انبیائے کرام کے خوابوں کے برحق اور سچے ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جب وہ نیند میں ہوتے ہیں تو صرف ان کی آنکھیں سوتی ہیں، جبکہ اُن کا دل ہر وقت اور ہر لحظہ بیدار و مستعد رہتا ہے، یہی وجہ ہے کہ انبیائے کرام کے لیے نیند وضو ٹوٹنے کا باعث نہیں ہے، حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں: نبی کریمﷺ تہجد سے فارغ ہونے کے بعد سو جاتے اور پھر رات کے آخری حصے میں بیدار ہوکر وضو کیے بغیر وتر پڑھتے۔ میں نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں (اور پھر وضو کیے بغیرآپ وتر پڑھتے ہیں) آپﷺ نے فرمایا: اے عائشہ !میر ی صرف آنکھیں سوتی ہیں، جبکہ میرا دل بیدار رہتا ہے‘‘ (صحیح بخاری: 2013)۔ (6) بعض خواب وہ ہوتے ہیں جن میں مستقبل میں پیش آنے والے کسی واقعے کی طرف اشارہ ہوتا ہے، حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں: جب نبیﷺ پر وحی کی ابتدا کی گئی تو سب سے پہلے آپ کو سچے خواب دکھائے گئے، آپﷺ جو خواب بھی دیکھتے، اس کی تعبیر سپیدۂ سحر کی طرح آ جاتی‘‘ (صحیح بخاری:3)۔
(7) بعض اچھے خواب وہ کہتے ہیں جو نیک وصالح مؤمن کو دکھائے جاتے ہیں، نبیﷺ نے فرمایا: ''نیک شخص کا اچھا خواب نبوت کے چھیالیس اجزا میں سے ایک جز ہے‘‘ (صحیح بخاری: 6983)۔ ان خوابوں میں مشکل حقائق منکشف ہو جاتے ہیں، مثلاً مشہور صوفی شاعر حضرت شرف الدین بوصیری کو فالج ہو گیا، انہوں نے رسول اللہﷺ کی مدح میں ایک قصیدہ کہنا شروع کیا، اثنائِ قصیدہ میں انہوں نے ایک مصرع کہا: ''وَمَبْلَغُ الْعِلْمِ فِیْہِ اَنَّہٗ بَشَرٌ‘‘ اور ان میں اس کے دوسرے مصرع کو مکمل کرنے کی طاقت نہ رہی، انہوں نے بہت کوشش کی، لیکن دوسرا مصرع اُن کی زبان پر نہیں آیا، جب وہ رات میں سوئے تورسول اللہﷺ نے ان کو زیارت سے مشرف فرمایا، ان کی خیریت دریافت کی، حضرت بوصیری نے عرض کی کہ دوسرا مصرع موزوں نہیں ہو سکا، رسول اللہﷺ نے فرمایا: دوسرا مصرع اس طرح بنا دو: ''وَاَنَّہٗ خَیْرُ خَلْقِ اللّٰہِ کُلِّھِمٖ‘‘ ، پھر رسول اللہﷺ نے انہیں چادر پہنائی اور جس جگہ ان کے جسم پر فالج تھا، اس جگہ پر اپنا دست مبارک پھیرا، حضرت بوصیری جب نیند سے بیدار ہوئے تو وہ اپنے مرض سے مکمل شفایاب ہو چکے تھے؛ چنانچہ انہوں نے اس قصیدہ کا نام ''الْبُرْدَۃ‘‘ رکھا جس کے معنی چادر کے ہیں۔ اس قسم کے خوابوں کا ابن سینا، ابن رشد اور ابن خلدون نے بھی اعتراف کیا ہے اور کہا ہے کہ بہت سے خواب ایسے ہوتے ہیں جن کی وجہ سے لَایَنْحَلْ مسائل حل ہو جاتے ہیں۔ (جاری)