معراج النبیﷺ تاریخ نبوت، تاریخ انسانیت حتیٰ کہ پوری کائنات میں ایک محیّر العقول واقعہ ہے، جس کی کوئی اور نظیر نہیں ملتی۔ یہ ذاتِ پاکِ مصطفیﷺ کا اعجاز اور بے پایاں اعزاز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں سورۂ بنی اسرائیل کی پہلی آیۂ مبارکہ میں صراحت کے ساتھ اور سورۃ النجم کی ابتدائی اٹھارہ آیات میں اشارات وکنایات کے ساتھ اس کا ذکر فرمایا، مگر یہ اشارات ایسے ہیں، جن کے بارے میں علم المعانی میں کہا گیا ہے: اَلْاِشَارَۃُ اَبْلَغُ مِنَ التَّصْرِیْح، یعنی اشارہ صراحت سے زیادہ بلیغ ہوتا ہے اور اس کا پیغام زیادہ واضح اور مؤثر ہوتا ہے۔ سورۂ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں ایک مقصدِ معراج یہ بیان فرمایا گیا: ''تاکہ ہم انہیں اپنی بعض نشانیاں دکھائیں‘‘ اور سورۂ النجم آیت 18میں فرمایا: ''بے شک (اس نبی نے) اپنے رب کی نشانیوں میں سے سب سے بڑی نشانی کو ضرور دیکھا‘‘ اور اسی سورت کی آیت 12میں فرمایا: ''کیا تم اُن سے اس بات پر جھگڑ رہے ہو جو انہوں نے دیکھا‘‘۔
معراج کا بیان احادیثِ مبارکہ میں بھی آیا، تیس سے زائد صحابہ کرامؓ نے واقعہ معراج کو بیان کیا ہے۔ خطبۂ حجۃ الوداع کی طرح، جسے مختلف روایات کے مطابق ایک لاکھ سے زائد صحابہ کرام نے سنا اور متفرق طور پر بیان کیا، اسی طرح واقعۂ معراج بھی از اول تا آخر کسی ایک روایت میں ترتیب کے ساتھ بیان نہیں ہوا۔ رسول اللہﷺ کا شِعار تھا کہ کسی واقعے کے مختلف گوشوں کو مختلف مواقع پر مخاطَبین کی ذہنی استعداد کے مطابق حسبِ ضرورت بیان فرماتے؛ چنانچہ حدیث کی کسی کتاب میں یہ واقعہ ایک ترتیب کے ساتھ مروی نہیں ہے۔ علامہ غلام رسول سعیدی نے مختلف روایات میں منطقی اور واقعاتی ربط پیدا کر کے انہیں ایک ترتیب کے ساتھ شرح صحیح مسلم جلد1 میں صفحات 716 تا 732 پر یکجا کر کے بیان کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے ہر نبی کو کسی نہ کسی امتیازی شان سے نوازا ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: ''اور اسی طرح ہم نے ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی بادشاہت کے اسرار و رموز دکھائے‘‘ (الانعام: 75)۔ شاعر نے کہا تھا:
ہرکس بقدر خویش بجائے رسیدہ است
آنجا کہ جائے نیست تو آنجا رسیدہ ای
ہر صاحبِ کمال اپنے مرتبے اور استعداد کے مطابق کسی بلند مقام پر پہنچا، لیکن یارسول اللہﷺ! آپ وہاں پہنچے جہاں زمان ومکان کی حدود ختم ہو جاتی ہیں۔
امام احمد رضا قادری رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک نعت میں رسول اللہﷺ کی رفعتوں کو اپنے ذوق اور علمی شان کے مطابق بیان کیا، لیکن آخر میں یہ کہنے پر مجبور ہو گئے:
وہی لامکاں کے مکیں ہوئے، سرِ عرش تخت نشیں ہوئے
وہ نبی ہے جس کے ہیں یہ مکاں، وہ خدا ہے جس کا مکاں نہیں
لوگ کہتے ہیں: نبی کو حد سے بڑھا دیتے ہیں اور وہ اسے شرک سے تعبیر کرتے ہیں، حالانکہ زمان و مکان کی حدود مخلوق ہی کے لیے ہوتی ہیں، اللہ تعالیٰ کی ذات زمان و مکان کی حدود سے ماورا ہے، ابدی ہے، ازلی ہے، لا متناہی ہے، صمدی ہے، سرمدی ہے۔ امام احمد رضا قادری نے لکھا: ''کسی علم کی اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ تخصیص، اس کی ذات پاک میں حصر اور اس کے غیر سے مطلقاً نفی چند وجوہ پر ہے: (1) علم کا ذاتی ہونا کہ بذاتِ خود بے عطائے غیر ہو، (2) علم کا غِنا کہ کسی آلۂ جارحہ، تدبر، فکر و نظر اور اِلتفات و اِنفعال کا بالکل محتاج نہ ہو (یعنی علمِ حضوری ہو)، (3) علم کا سرمدی ہونا کہ ازلاً ابداً ہو، (4) علم کا وجوب کہ کسی طرح اس کا سلب ممکن نہ ہو، (5) علم کا اثبات و استمرار کہ کبھی بھی کسی بھی وجہ سے اس میں تغیر و تبدل اور فرق و تفاوت کا امکان نہ ہو، (6) علم کا اَقصیٰ غایتِ کمال پر ہونا کہ معلوم کی ذات و ذاتیات، اَعراض، احوالِ لازمہ، مُفارقہ، ذاتیہ، اِضافیہ، ماضیہ، آتِیہ (مستقبَلہ) موجودہ، ممکنہ سے کوئی بھی ذرّہ کسی وجہ سے مخفی نہ ہو سکے، ان چھ خصوصیات پر مطلق علم اللہ وحدہٗ لاشریک کے ساتھ خاص اور اس کے غیر سے مطلقاً منفی، یعنی کسی کو کسی ذرہ کا ایسا علم جو ان چھ وجوہ سے ایک وجہ بھی رکھتا ہو، حاصل ہونا ممکن ہی نہیں ہے جو غیرِ خدا کے لیے(خواہ وہ عقولِ مفارقہ ہوں یا نفوس ناطقہ) ایک ذرے کابھی ایسا علم ثابت کرے، یقینا اجماعاً کافر مشرک ہے‘‘ (الصمصام، ص:6، موضحاً)۔
معراج النبیﷺ کا واقعہ بے شمار معجزات، رفعتوں اور عظمتوں پر مشتمل ہے، ہمارے ہاں بالعموم معراج النبیﷺ کے موقع پر واعظین اور خطباء اپنی اپنی استعداد اور فنِ خطابت کے مطابق انہی عظمتوں کا بیان کرتے ہیں، کیونکہ اس سے سامعین کو روحانی سرور نصیب ہوتا ہے، اُن کے دلوں میں عظمتِ مصطفیﷺکی جَوت جگائی جاتی ہے اور عشقِ مصطفیﷺ کی شمع فرُوزاں کی جاتی ہے اور یہ بھی اپنی جگہ ایک اعلیٰ و اَولیٰ مقصد ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس روش سے ہٹ کر معراج النبیﷺ کے اُن شعبوں اور جزئیات کو بیان کیا جائے، جو ہماری اصلاح کے لیے ضروری ہیں، سبق آموز ہیں، ان سے خیر کے حصول کی ترغیب ملتی ہے اور شر سے بچنے کے لیے تخویف وترہیب کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ اُن میں سے سب سے اہم عالَمِ برزخ، ثواب وعقاب اور جزا وسزا کے تمثیلی مشاہَدات ہیں اور سطورِ ذیل میں ہم انہی کا بیان کر رہے ہیں۔ اس سے اپنی اور اپنے دینی بھائیوں کی اصلاح مقصود ہے۔ ہم اس کا آغاز اپنے طبقے سے کرتے ہیں: ''حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: معراج کی رات میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے ہونٹوں کو آگ کی قینچیوں سے کاٹا جا رہا تھا، میں نے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں، جبریلِ امین نے کہا: یہ دنیا دار خطیب ہیں، جو لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے تھے اور اپنے آپ کو بھلا دیتے تھے، حالانکہ وہ کتابِ الٰہی کی تلاوت کرتے تھے (اور جانتے تھے کہ احکامِ شرعیہ سے کسی کو استثنا نہیں)، پس کیا وہ عقل نہیں رکھتے‘‘ (مسند احمد: 12856)، اس حدیث میں البقرۃ کی آیت 44 کی طرف اشارہ ہے جو علمائے یہود کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا۔ امام بیہقی نے بیان کیا ہے: (1) ''آپﷺ کا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کی زبانیں اور ہونٹ لوہے کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے تھے، جونہی زبانیں اور ہونٹ کٹ جاتے، وہ پھر پہلی صورت پر بحال ہو جاتے اور اُن میں کوئی کمی نہ ہوتی۔ نبی کریمﷺ نے پوچھا: جبریل! یہ کون لوگ ہیں؟ جبریلِ امین نے کہا: یہ آپ کی امت کے فتنہ پرور خطیب ہیں‘‘۔
(2) ''آپﷺ کا گزر ایک ایسے شخص پر ہوا جس نے لکڑیوں کا ایک گٹھا جمع کر رکھا تھا، وہ اُسے اٹھا نہیں پاتا تھا، لیکن حِرص کے سبب اُس میں اور لکڑیاں ڈالتا جاتا۔ نبی کریمﷺ نے پوچھا: جبریل! یہ کون ہے؟ جبریلِ امین نے عرض کی: یہ آپﷺ کی امت کا وہ شخص ہے جس کے پاس لوگوں کی امانتیں ہیں، اُن کو ادا نہیں کر پاتا اور مزید امانتیں جمع کرتا جاتا ہے‘‘۔ (3) پھر آپﷺ کا گزر ایک پتھر کے پاس سے ہوا جس سے ایک بڑا بیل نکلتا ہے، وہ دوبارہ اس میں داخل ہونا چاہتا ہے، لیکن داخل نہیں ہو پاتا، نبی کریمﷺ نے فرمایا: جبریل! یہ کیا ہے؟ جبریلِ امین نے کہا: یہ شخص شہر میں (فتنہ برپا کرنے والی) کوئی بات کرتا ہے، پھر (اُس کے نتائج دیکھ کر) اس پر نادم ہوتا ہے اور چاہتا ہے کہ اُسے واپس لے لے (تاکہ فتنہ فرو ہو جائے)، لیکن ایسا کر نہیں پاتا‘‘ (دَلَائِلُ النُّبُوَّۃ لِلْبَیْہَقِی، ج:2، ص:397)۔ اس کے مظاہر ہم آئے دن اپنے گِردوپیش میں دیکھتے رہتے ہیں، سیاسی رہنما ترنگ میں آکر کوئی بات کہہ دیتے ہیں، پھر جب اس پر ردِّعمل آتا ہے تو یا تو سِرے سے انکار کر دیتے ہیں یا بہانے تراشتے ہیں کہ میرا مطلب یہ نہیں تھا، وہ نہیں تھا۔ لیکن بعض باتیں کسی تاویل یا توجیہ کی محتاج نہیں ہوتیں، بلکہ اپنی وضاحت آپ ہوتی ہیں اور پھر گریز کے لیے جو بھی حیلہ اختیار کیا جائے، وہ ''عذرِ گناہ بدتر از گناہ‘‘ کا مصداق ہوتا ہے، اسی لیے تو رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا: ''جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، اُسے چاہیے کہ اچھی بات کہے یا (اگر اسے اس کی توفیق نصیب نہیں ہے تو) چپ رہے‘‘ (صحیح بخاری: 6018)۔ (4) ''پھر آپﷺ کا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا، جن کے سروں کو بھاری پتھر سے کچلا جا رہا تھا، جب سر کچل دیا جاتا تو پھر وہ اصل حالت پر آ جاتا اور عذاب کی یہ کیفیت مسلسل جاری رہتی، آپﷺ نے پوچھا: جبریل! یہ کون لوگ ہیں؟ جبریلِ امین نے عرض کی: یہ وہ لوگ ہیں جن کے سر نمازوں سے بوجھل ہو جاتے ہیں‘‘، یعنی وہ نمازوں کو اپنے اوپر بار محسوس کرتے ہیں، جیسا کہ قرآنِ کریم میں ہے: ''بے شک نماز ضرور بھاری ہے مگر اُن پر نہیں جو دل سے میری طرف جھکتے ہیں، جنہیں یقین ہے کہ (مرنے کے بعد) وہ اپنے رب سے ملاقات کرنے والے ہیں اور یقینا وہ اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں‘‘ (البقرہ: 45-46)۔ خود رسول اللہﷺ کی کیفیت حدیث پاک کے مطابق یہ تھی، ''حضرت انس بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: تمہاری دنیا سے (مجھے تین چیزیں پسند ہیں)، (پاکباز) عورتیں، خوشبو اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے‘‘ (سنن نسائی:3939)۔ سو اللہ تعالیٰ کے رسول مکرمﷺ کے لیے نماز قلب کا سرور اور آنکھوں کی ٹھنڈک تھی جبکہ منافق کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''بے شک منافق (اپنی دانست میں) اللہ کو فریب دینا چاہتے ہیں اور وہی ان کو غافل کر کے مارے گا اور جب وہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو لوگوں کے دکھاوے کے لیے کاہلی کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں اور اللہ کا ذکر بہت کم کرتے ہیں، وہ (ایمان اور کفر کے) درمیان ڈگمگا رہے ہیں، (صدقِ دل سے) نہ اس طرف ہیں اور نہ اُس طرف اور جسے اللہ گمراہ کر دے تو آپ اُس کے لیے کوئی راہ نہ پائیں گے‘‘ (النساء: 142 تا 143)۔ (5) ''پھر آپﷺ کا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کی دونوں شرمگاہوں پر چیتھڑے تھے اور وہ جانوروں کی طرح خاردار زہریلے درخت، زقوم (تھوہرکا کڑوا درخت) اور گرم پتھر کھا رہے تھے۔ آپﷺ نے پوچھا: جبریل! یہ کون لوگ ہیں؟ جبریلِ امین نے عرض کی: یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے مالوں کے صدقات ادا نہیں کرتے تھے۔ ''اور اللہ نے اُن پر ظلم نہیں فرمایا، بلکہ وہ خود اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں‘‘ (آل عمران: 117)۔ (جاری)